معلوم تاریخی ریکارڈ کے مطابق انسانی معاشرے کا آغاز توحید سے ہوا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت فراموش کر دی گئی اور توحید کی بجائے انسانی معاشرے میں شرک اور الحاد کی مختلف صورتیں ا بھرنے لگیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی مختلف صورتیں رہی ہیں حتی کہ الحاد کی ایسی صورتیں بھی انسانی معاشروں میں رائج رہی ہیں جن کا مقصود وہی تھا جو مبنی برحق مذاہب کا مقصود تھا۔ تاہم مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آج الحاد اس شکل میں دنیا میں عام ہو چکا ہے جو آج کے انسان کو وجود باری تعالی پر ایمان سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔
مغرب کے ممتاز ماہر الہیات Wilhelm Schmidtنے 1912 سے 1954ء کے طویل عرصے کے دوران مسلسل تحقیق کرکے 12 جلدوں میں اپنے تحقیقی نتائج کو The Origin of the Idea of God کے نام سے شائع کیا۔ اپنی تحقیق سے اس نے ثابت کیا کہ ابتدائی انسانی معاشرے کا مذہب توحید تھا۔ ابتدائی انسان ایک قادر مطلق ہستی پر یقین رکھتا تھا جو رحمت اور احسان کی صفات سے متصف خالق تھا۔ اس اولین انسانی معاشرے کا انسان ایک خدا کو کائنات کا خالق اور زمینوں اور آسمانوں کا حاکم مطلق سمجھتا تھا اس کے بعد لوگوں نے ایک سے زیادہ خداؤں کی پوجا شروع کی۔
الحاد (atheism) اور لا ادریت (agnosticism) دو مختلف تصورات ہیں۔ الحاد کا مطلب دیوتاؤں پر یقین نہ رکھنا ہے جبکہ لا ادریت کسی مخصوص موضوع کے بارے میں علم کی کمی ہے۔ یعنی ملحد دیوتاؤں کے وجود کا صریح انکار کرتا ہے جبکہ لا ادری خدا کا وجود نامعلوم ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ یا رائے قائم نہیں کرتا۔ سادہ الفاظ میں مغربی تناظر میں الحاد کا مطلب یہ ہے کہ دیوی اور دیوتاؤں کا کوئی وجود نہیں اور ان سے متعلق جملہ بیانات جھوٹ ہیں۔ (Rowe, William L. Atheism, pp.62-63)
دور حاضر کے ملحدین کے چار بڑے نمائندوں میں سے ایک رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins- born) ہے جو ارتقائی ماہر حیاتیات ہے۔ اس نے 2006ء میں The God Delusion لکھی جس کے مطابق ایک مافوق الفطرت خالق خدا کا تصور کرنا یا خدا کو موجود جاننا ممکن نہیں۔ اگرچہ ڈاکنز الہیات کا ماہر نہیں اس کے باوجود اس نے صرف ارتقائی حیاتیات کے تصورات پر انحصار کرتے ہوئے اس کتاب میں اس تصور کو فروغ دیا۔ اس کتاب میں ڈاکنز نے مذہب اور اخلاقیات کے درمیان تعلق کو بھی موضوع بحث بنایا اور کہا کہ اخلاقیات مذہب کے بغیر بھی ممکن ہے اور مذہب اور اخلاقیات کی ابتدا اور اصل کے حوالے سے اس نے بہت سے بے دلیل خیالات پیش کیے۔
ڈاکنز نے اپنے تئیں آئن سٹائنی مذہب اور سپر نیچرل مذہب میں امتیاز کرتے ہوئے آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کی طرف سے دیئے گئے وجود ِباری تعالیٰ کے حوالوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس کی تنقید کا زیادہ ہدف عیسائیت، اسلام اور ہندومت جیسے مذاہب ہیں۔
ڈاکنز کو سب سے زیادہ اعتراض خدا کے اس تصور پر ہے جس کے تحت کائنات کے نظام میں خدائی مداخلت کو ماننا پڑے۔اگرچہ وہ خدا کے اقرار یا انکار کو سائنسی بنیادوں پر قبول یا مسترد کرنا ممکن سمجھتا ہے لیکن اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ کسی تصور کے اقرار یا انکار کے لئے اس سے متعلق جملہ ڈیٹا کا احاطہ کیا جانا ضروری ہے مگر وجود خداوند کے حوالے سے ایسا کیا جانا ممکن نہیں۔ڈاکنز نے وجودِ باری تعالیٰ کے لیے تھامس ایکوینس کے دیے گئے پانچ دلائل پر بھی تنقید کی اور ان میں سے بھی ڈیزائن سے متعلق دلیل پر بہت مفصل گفتگو کی۔ ان سب دلائل کو مسترد کرکے وہ فطری انتخاب کے ذریعے ارتقاء کو کائنات میں موجود نظم کی وضاحت کرنے کے لئے زیادہ شافی و کافی بنیاد قرار دیتا ہے۔
انسانی عقل کو درپیش اس مشکل سوال کہ کائنات میں موجود انتہائی پیچیدہ لیکن باہم مربوط نظم کی اساس کیا ہو سکتی ہے؟ اس حوالے سے کتاب کے چوتھے باب Why there almost certainly is no God میں ڈاکنز لکھتا ہے کہ کائنات میں موجود نظم کی بنیاد پر کائنات کے کسی سپریم ڈیزائنر یا نظام فراہم کرنے والے کا تصور کرنا سعی لاحاصل ہے۔ کیونکہ اس صورت میں یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ ڈیزائنر کو کس نے ڈیزائن کیا یعنی کسی مشکل مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اس سے بڑے مشکل مسئلے تک پہنچنا مشکل کا حل نہیں ہو سکتابلکہ کائنات کے خالق ڈیزائنرکے تصور کے بجائے فطری انتخاب کا نظریہ کائنات کی بہترین توضیح کرتا ہے۔
یہاں ڈاکنز پورے یقین کے ساتھ وجودِ باری تعالیٰ کا انکار نہیں کر سکابلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں کائنات کے خدا کے بجائے کائنات کی توضیح کے سادہ اصولوں پر انحصار کرنا چاہیے کیوں کہ بیک وقت عالم کل اور قادرِ مطلق خدا کا تصور ایک پیچیدہ تصور ہے۔ ڈاکنز کے مطابق کسی ہستی کے لیے بیک وقت ان دو اوصاف کا حامل ہونا منطقی طور پر ممکن نہیں لہذا وہ لا خدا کائنات کا نظریہ با خدا کائنات کے نظریے سے بہتر قرار دیتا ہے۔
مذہب اور اخلاقیات کو زیربحث لاتے ہوئے ڈاکنز لکھتا ہےکہ اخلاقی طور پر اچھا ہونے کے لیے مذہب کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے ہمیں بہتر اخلاقیات کے لیے ڈارون فکر کی ان توجیہات کی ضرورت ہے جن کے مطابق فطری انتخاب کے عمل کے ذریعے انسانوں میں پرہیزگاری کے جینز جنم لے لیں اور ان میں فطری ہمدردی کا جذبہ بیدار ہو جائے۔ اگر ہم اخلاقیات کو بائبل سے اخذ کرنا چاہیں تو ہم بآسانی اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اخلاقیات بائبل سے نہیں ملتی بلکہ ہماری اخلاقی ترقی بتاتی ہے کہ آج عیسائی لوگ بائبل کے کن حصوں کو قبول کرتے ہیں اور کن حصوں کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے اس قبول و رد کے عمل کی بنیاد اخلاقی شعور اور اخلاقی اصول ہیں۔
رچرڈ ڈاکنز کی یہ کتاب محض الحاد کا دفاع نہیں بلکہ مذہب کے خلاف ادھوری معلومات، تعصب پر مبنی زاویہ نگاہ اور ناقص استدلال پر مبنی ایسی جارحانہ کاروائی ہے جسے عقلِ سلیم تسلیم نہیں کر سکتی۔ ڈاکنز نے مذہب کا انکار اس بنیاد پر کیا کہ مذہب سائنس کا مخالف، جنونیت کا حامی، ہم جنس پرستی کے لیے حوصلہ شکن اور معاشرے کو تقسیم کرنے والی قوت ہے۔
ڈاکنز نے وجود باری تعالیٰ کے اقرار یا انکار کا بوجھ فلسفہ اور سائنس کے کندھوں پر ڈال کر ایک ایسا اقدام کیا ہے جو نہ صرف غیر سائنسی اور غیر عقلی ہے بلکہ اس سے کوئی مفید علمی نتائج ملنے کے بجائے نفسانی خواہشات اور شہوات کی پیروی کرنے والوں کو مذہب سے فرار کی بنیاد اور دلیل فراہم ہوتی ہے۔
الحاد اور اسلام کی تعلیمات
قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق انسان کی فطرت کا تقاضا اللہ تعالیٰ کا انکارنہیں بلکہ توحید کا اقرار ہے۔ اولین انسانی معاشرے توحیدی معاشرے تھے۔ ارشاد ربانی ہے:
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ م بَعْدِ مَا جَآءَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَھُمْ فَھَدَی اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ.
(البقرة، 2: 213)
’’(ابتداء میں) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے، (پھر جب ان میں اختلافات رونما ہوگئے) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے۔‘‘
قرآن مجید کے اس دعوے کی تصدیق جدید تحقیقات بھی کرتی ہیں۔ جیسے جیسے انسانی معاشرے آگے بڑھے، بتدریج انسان شرک میں مبتلا ہوا۔ توحید کی دعوتِ انبیاء کرام علیہ السلام کی دعوت تھی جبکہ شرک کے اسباب انسان کے ساختہ تھے جو کئی انفرادی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور اقتداری مفادات یا ناقص انسانی عقل کے ادھورے استدلال کی بنیاد پر شرک کا باعث بنے۔ انبیائے کرام علیہ السلام کی ثقاہت اور کردار کی عظمت نے انسان کو سماجی اور معاشرتی سطح پر وہ مثالی معیار دیا جس سے بہتر معاصر حالات میں انسانی معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا تھا لیکن شرک نے انسانیت کو طبقاتی تقسیم در تقسیم کے عمل سے دو چار کیا۔
الحادی رجحانات اور استدلال کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دور جدید کے ملحدین جن اسباب کی وجہ سے دین اور ذاتِ الہٰی کا انکار کرتے ہیں، وہ اسباب خود دینِ اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ وہ اسباب یہ ہیں:
1۔ تصور الٰہ ( دیویوں اور دیوتاؤں کا غیر عقلی نظام)
2۔مذہب کا تصور
3۔مذہبی کتابوں کے داخلی تضادات
4۔تصور تقدیر
5۔ مسئلہ خیر و شر
6۔ مذہب کا تصورِ عقل اور علم
7۔ مذہب اور اعلی انسانی اخلاقی اقدار
اس تحریر میں ہم ان اسباب اور اعتراضات میں سے صرف دو اسباب کی تفصیل بیان کریں گے:
(1) مذہب کا تصور
مذہب کا انکار کرنے سے پہلے مسخ شدہ مذاہب اور حقیقی دین میں امتیاز کرنا ضروری ہے۔ اگر یہودیت اور عیسائیت کی مسخ شدہ تعلیمات اور غیر الہامی ادیان مثلا ہندو مت اور بدھ مت کو پیش نظر رکھ کر مذہب کا انکار اور اس انکار کی بنیاد پر ذات خداوند کا انکار کیا جائے گا تو یہ ذاتِ باری تعالیٰ کے انکار کی وہ غلط بنیاد ہو گی جس سے کبھی بھی درست نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے۔ ذات باری تعالیٰ کے اقرار یا انکار کے مباحث کو آگے بڑھانے سے پہلے اسلام اور دیگر مذاہب کے امتیاز کو سمجھنا ہو گا۔
اگر مذاہب کی نمائندہ الہامی اور غیر الہامی کتابوں میں عدمِ موافقت، اندرونی تضاد یا بے ربطی نظر آتی ہے تو اس کا اطلاق قرآن مجید پر اس لئے نہیں کیا جاسکتا ہے کے قرآن مجید نے خود اس امر کی دعوت دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر قرآن مجید الله کی طرف سے نازل کی گئی کتاب نہ ہوتی تو اس میں کئی اختلافات اور تضادات ہوتے۔ قرآن مجید کا ہر طرح کے تضادات سے پاک ہونا اور نزول سے آج تک بیان کئے گئے حقائق و تعلیمات کا بے مثل رہنا کہ جسے آج تک چیلنج نہیں کیا جاسکا، اس امر کی دلیل ہے کہ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے جو خالقِ عالم کل اور قادر مطلق ہے۔
(2) مذہب اور اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار
قائلینِ الحاد نے دین کی جن تعلیمات اور احکامات کا انکار کیا اس کے نتیجے میں انسانیت کسی فلاح کی طرف نہیں بڑھی بلکہ اخلاقی بحران، تباہی ، طبقاتی تقسیم اور نقصانات کا شکار ہوئی۔ اسلام میں اخلاقیات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اخلاقی ثقاہت و صلابت کو دو جہت سے اقرار وجود باری تعالی کی دلیل قرار دیا گیا۔ یعنی وجود باری تعالی کے قائلین اخلاقی اقدار کا عملی نمونہ ہوں گے اور پھر ان کی اخلاقی ثقاہت منکرین کے لیے اقرار کی دلیل ہو گی۔
اخلاقِ مصطفی وجودِ باری تعالیٰ کی دلیل ہیں
ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ اگر عالمِ طبعی سے متعلق کوئی نظریہ یا تصور پیش کیا جائے گا تو اسے متعلقہ ڈیٹا، تجرباتی توثیق اور نتائج کی روشنی میں پرکھا جائے گا اور اگر کوئی ایسا نظریہ یا تصور پیش کیا جائے جو ہماری ذہنی، فکری اور شخصی و اخلاقی زندگی سے متعلق ہو تو اسے تصور یا نظریہ پیش کرنے والے کے اخلاق کی ثقاہت اور صلابت کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔
کیا انکار وجودِ باری تعالیٰ کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کے ہونے اور اس کے ایک ہونے کی دعوت دینے والے رسول الله ﷺ کی صداقت اور امانت کی کوئی نظیر پیش کرسکے۔ کسی دعوے کی صداقت کو جانچنے کے لیے سیرت نبوی سے اس معیار اور اصول کی وضاحت بایں طور ہوتی ہے کہ:
1۔ اعلان نبوت کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اپنے مخاطبین کے سامنے دعوتِ توحید رکھی تو اس پر سب سے بڑی اور پہلی دلیل اپنے اخلاق اور کردار کی پیش کی جس کا اقرار قوم اعلانِ نبوت سے پہلے صادق اور امین کے طور پر کر چکی تھی۔
2۔ الله رب العزت کی دلیل میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔ حضور اکرم ﷺ الله کی دلیل ہیں، اس میں غلطی نہ ہونے کا مشاہدہ آپ ﷺ کے کردار کے مسلسل بے مثل ہونے سے ہوگا۔
3۔ مخالفین نے آپ ﷺ کی اس دلیل کو عملاً تسلیم کیا کہ دشمنی کی انتہا پر پہنچ کر یعنی آپ کے قتل کے درپے ہونے کے باوجود بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس ہی رہنے دیں۔
4۔ حضور اکرم ﷺ نے ختم نبوت کے علاوہ کسی اور کام کو درجۂ کمال تک پہنچانے کا اعلان نہیں کیا حتی کہ قرآن مجید کے علم کا معجزہ ہونے کے باوجود بھی علم کی زیادتی اور علم کے بڑھنے کا دروازہ کھلا رکھا ہے لیکن اخلاقیات کے بارے میں فرمایا کہ مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔
5۔ ہر دلیل ایک واقعہ ہے۔ مثلاً: چاند کے دو ٹکڑے ہونا لیکن صادق اورامین ہونا واقعہ نہیں بلکہ زندگی ہے۔
6۔ کوئی دلیل بھی پیش کرنے کے بعد اس کے انکار پر منکرین کے لیے اس وقت سزا کا اعلان نہیں کیا گیا اور نہ وہ سزا فوری نافذ ہوئی مگر آپ ﷺ کی اس پہلی دلیل کے ابو لہب کے انکار کرنے پر اس کی سزا کا خود الله رب العزت نے اعلان کیا اور وہ سزا نافذ ہوئی۔
7۔ زندگی میں وجودِ باری تعالی کی موجودگی کے عملی تجربے کی اساس بھی اخلاق اور کردار کی یہی ثقاہت ہے جو شخصیت کو اتنی مضبوطی عطا کر دیتی ہے کہ وہ ’من یعصمک منی؟‘ جیسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی استقامت کا پیکر رہتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اخلاقیات کے میدان میں کمزور ہیں۔ ہمارے معاشرے کی روحانی اور دینی شخصیات نے اخلاقیات کو سرفہرست اپنا ہدف نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اقوام میں بھی ذلت کا سامنا ہے اور بارگاہ رب العزت سے بھی تائید نصیب نہیں ہو رہی۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ بطور قوم ہماری تباہی کے اسباب کہیں باہر نہیں بلکہ ہماری بغل میں ہیں۔ ہمارا اخلاق اور رویہ ہمارے لیے اسم اعظم اور مسائل کے حل کے لیے شاہ کلید ہیں۔
مذہبی اعتقادات کے اثبات کے دو منہج
آج علمی اور عملی منظرنامہ بالکل بدل چکا ہے۔ اگر آج ہم دین اور ذاتِ حق کے اثبات کے لئے قرآن مجید سے رجوع کریں تو سابقہ ادوار کی نسبت بہت بدلے ہوئے علمی اور عملی تقاضے سامنے آتے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر الحاد کے فتنے سے عہدہ برا نہیں ہوا جا سکتا۔ چونکہ مغربی الحاد کی بنیاد مذہب کے اس تصور پر ہے جس کی اسلام بطورِ دین خود تردید کرتا ہے، لہذا جدید مسلم علم الکلام کی بنیاد اصولِ تطبیق یا اصولِ تفریق کی بجائے اصولِ تثبیت کو بنانا ہو گا۔
اثباتِ وجودِ باری تعالی اور الحاد کے رد کے حوالے سے ہونے والی مباحث ہمارے لئے غور و فکر کے کئی نئے زاویے سامنے لاتی ہیں۔ مذہبی معتقدات کو حق ثابت کرنے کے لئے عام طور پر دو منہج اختیار کیے جاتے رہے ہیں:
1۔ ایک یہ کہ مذہب اور انسانی عقلی علوم بشمول سائنس دو الگ الگ میدان ہیں جن میں کوئی قدرِ مشترک نہیں کیونکہ دونوں کے بنیادی اصول اور طریقہ ہائے استنباط و دلائل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ انسانی علوم اور سائنس تحقیق و جستجو، شک اور مشاہدے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں جبکہ دین کا معاملہ کلیتاً ایمان پر مبنی ہے جو عقلی وسائل سے ماوراء سرچشمے سے میسر آتا ہے۔
2۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسانی عقل اور سائنس کے علوم سے ہونے والی دریافتیں بتدریج دینی حقائق کو ثابت کر رہی ہے جو مذہب کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ دوسرے نقطہ نظر پر اعتراضات کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ کیونکہ ہر دلیل کے لئے ایک رد ہے اور جب بھی جدید سائنسی علوم سے کوئی دلیل لیتے ہوئے دینی حقائق کو ثابت کیا جاتا ہے تو اس سائنسی دلیل کے ٹوٹنے پر دینی حقائق کے اثبات کا معاملہ بھی تزلزل کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس لیے دینی حقائق کو ثابت کرنے کے لئے سائنسی علوم سے استشہاد سے پہلے سائنسی علوم کی کماحقہٗ تفہیم اور ان کے نتائج کے اطلاق کی مہارت لازمی تقاضا ہے۔ جب بھی سائنسی علوم کی تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کو بغیر درست تفہیم کے دینی حقائق کے اثبات کے لئے استعمال کیا گیا تو اس سے مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوئی۔ اس کی بڑی مثال آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے دینی حقائق کے اثبات کی کوششیں ہیں۔ علامہ اقبال جیسی عظیم فکری اور فلسفی شخصیت نے بھی آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی کماحقہٗ تفہیم کے حوالے سے نارسائی کا اعتراف کیا ہے۔
تدارکِ الحاد کے لیے عملی رہنمائی
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے توحید و رسالت پیش کرتے ہوئے سب سے پہلی دلیل اخلاقیات سے متعلق دی۔ اخلاقیات ایک قوت ہے۔ آج کا الحاد اپنی اخلاقیات کا پابند ہے جبکہ قائلین مذہب اخلاقی محاذ پر بہت پستی کا شکار ہیں۔
2۔ قرآن مجید علمی معجزہ اور ذاتِ حق کی دوسری دلیل ہے۔ قائلینِ مذہب کو علمی بنیادوں پر مستحکم اور ثقاہت حاصل کر کے ملحدین کو بتانا ہوگا کہ ان کے پاس نہ کوئی برہان ہے اور نہ کوئی دلیل اور علم۔ علمی لحاظ سے فتنہ الحاد آج طاقتور ہے، اس لیے اس کا رد کرنے کے لئے ہمیں بھی علمی لحاظ سے مضبوط ہونا ہوگا۔
3۔ الحاد کا موثر جواب دینے کے لیے محض عقلی استدلال کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے دینی عقائد کو قابلِ مشاہدہ بنانے کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی جس کا راستہ تصوف کا راستہ ہے۔ متکلمین اور اہلِ فلسفہ کی سوچ محض تصورات تک ہے جبکہ صوفیاء کی تعلیمات تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہیں۔ فلسفہ کے دیے ہوئے تصورات نہ صرف یہ کہ قابلِ مشاہدہ نہیں بلکہ ان کی ثقاہت کے بارے میں بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں صوفیا مثلا داتا گنج بخش علی ہجویری نے کشف المحجوب، غوث ثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی نے فتح الربانی، فتوح الغیب اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فتوحاتِ مکیہ میں انسان کے شعوری اور اخلاقی ارتقاء کے نتیجے میں ذاتِ انسانی کی تکمیل کے درجات کا ذکر کیا ہے، وہ سب قابلِ تجربہ اور قابلِ مشاہدہ ہیں۔ آج کی خانقاہ کو صوفیہ کی ان تعلیمات کو ایک قابلِ عمل اور نتیجہ خیز منہج کے طور پر متعارف کروانا ہوگا۔
4۔ وجود باری تعالی کے اثبات کی حتمی اور ناقابلِ تردید دلیل ذات نبوی ﷺ ہے۔ اس باب میں محض عقل کو رہنما نہیں بنایا جا سکتا۔ علامہ اقبال سے جب پوچھا گیا کہ اثباتِ وجود باری تعالی کی کوئی قطعی علمی دلیل ہے تو انہوں نے کہا: نہیں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ پھر آپ خدا کو کیوں مانتے ہیں؟ حضرت علامہ نے فرمایا کہ اس لئے کہ رسول الله ﷺ نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا۔ ان کے مخالفین بھی انہیں صادق اور امین کہتے تھے۔ میں اس معاملے میں بھی انہی کی زبان اور فرمان پر یقین کرتے ہوئے خدا کے وجود کا اقرار کرتا ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
مسلماں را ہمیں عرفان و ادراک
کہ در خود فاش بیند رمز لولاک
خدا اندر قیاس ما نہ گنجد
شناس آں را کہ گوید ما عرفناک
مسلمان کا عرفان و ادراک (معرفت اور فہم دین) یہی ہے، کہ وہ اپنے اندر لولاک کا راز عیاں دیکھتا ہے۔ (حضور ﷺ کو مقصودِ حیات سمجھتا ہے)۔ اللہ تعالیٰ تو ہماری سوچ میں نہیں سماتے، تو انہیں پہچان جنھوں نے فرمایا تھا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حق ادا نہیں کیا۔