معلمِ انسانیت، ہادی و رہبرِ کائنات حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ بناکر بھیجا۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ رہتی دنیا تک کامل نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات وہ شمعِ فروزاں ہے جس کے نور سے آج بھی بھٹکے ہوئے انسان ہدایت و روشنی پا رہے ہیں۔ آپ ﷺ ہی کی تعلیمات کی بدولت وہ معاشرہ جو نسلی، لسانی، طبقاتی اور جغرافیائی زنجیروں میں جکڑا ہوا اور جمود کا شکار تھا، انسانیت کی بلند ترین اقدار کا حامل ٹھہرا۔ ضلالت و گمراہی میں ڈوبے ہوئے لوگ جو احساس و شعور اور مقصدِ زندگی سے نا آشنا تھے، فیضانِ محمدی ﷺ سے سیراب ہوکر پوری دنیا کے لیے مثال بن گئے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے اہم گوشوں میں سے ایک گوشہ یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو شانِ امیت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ’’اُمی‘‘ لفظ کے بے شمار معانی ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، یہی معنی حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ کو ’’اُمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے نہ کبھی کسی سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کسی فردِ بشر کی شاگردی سے مبرا ہے اس لیے حضور ﷺ کا ’’اُمی‘‘ ہونا آپ کی نبوت کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ آپ ﷺ نے صرف حق تعالیٰ سے علم حاصل کیا اور صرف اسی سے کسبِ فیض کیا۔ اللہ رب العزت نے ہی حضور ﷺ کو دنیا و آخرت کی ہر چیز کا علم براهِ راست اپنی بارگاہ سے عطا فرمایا۔
اُمّی کا لغوی و اصطلاحی معنی و مفہوم
’’اُمی‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک لقب ہے جو قرآن مجید میں دو بار وارد ہوا ہے اس لقب کی اصل کے سلسلے میں علما نے کئی توجیہات پیش کی ہیں۔ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں کہ:
’’اُمی اسے کہتے ہیں جو لکھنا نہ جانتا ہو، زجاج کہتے ہیں اُمی اسے کہتے ہیں کہ جو اپنی خلقت کے اعتبار سے ہی اصل/ جڑ ہو اور جو لکھنا نہ جانتا ہو۔ التنزیل العزیز میں ہے کہ اُمی انہیں کہتے ہیں کہ جو لکھنا نہیں جانتے۔‘‘(لسان العرب، ج: 1، ص: 34 )
علامہ طوسی لفظ ’’اُمی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اُمی کو اس امت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو اصل پر قائم ہو، جس نے لکھنا اور پڑھنا نہ سیکھا ہو۔ اس کے علاوہ اسے ماں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی ماں کی تربیت میں رہتا ہے اور وہ آدمی صرف وہی کچھ جانتا ہے جو اس کی ماں اسے سکھاتی ہے۔‘‘
(ابوجعفر محمد الطوسی، تہذیب الاحکام، ج: 1، ص: 95)
گویا اُمی کا لفظ اُمّ سے نکلا ہے اور امّ عربی زبان و ادب میں دو معنوں میں مستعمل ہے: 1۔ اصل اور جڑ 2۔ ماں
ذیل میں اس کی وضاحت درج کی جاتی ہے:
(1)اُم بمعنی اصل
اگر لفظ اُم اصل کے معنوں میں مستعمل ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ذات جو اپنی اصل پر قائم ہو۔ اصل اور جڑ وہ فطرت ہے جس پر رب کائنات انسان کو تخلیق کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فِطْرَتَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا.
(الروم، 30: 30)
’’اللہ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ.
(بخاری الصحیح، 5: 143، رقم: 127)
گویا ہر بچہ خواہ وہ کسی یہودی کے ہاں پیدا ہو یا نصرانی کے ہاں، کسی مسلمان گھرانے میں اس کی ولادت ہو یا کسی ہندو کے گھرانے میں آنکھ کھولے، ابتداء سے اللہ کی توحید اور معرفت اس کے من میں موجود ہوگی۔ جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کے ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اگر اس کےو الدین ہندو ہوں گے تو وہ بھی ہندو بنے گا، اگر یہودی ہوں گے تو بچہ بھی یہودی بنے گا اور اگر مسلمان ہوں گے تو بچہ بھی مسلمان ہوگا۔
بچے کی مذہب سے وابستگی عموماً اسے والدین کی طرف سے منتقل ہوتی ہے یا وہ ماحول کے اثر کو قبول کرتا ہے۔ آپ ﷺ کے والد گرامی آپ ﷺ کی ولادت سے قبل جبکہ آپ ﷺ کی والدہ محترمہ نے اس وقت انتقال فرمایا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک صرف چھ سال تھی۔ علاوہ ازیں آپ ﷺ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہاں ہر طرف کفرو شرک اور ظلم و بربریت کے ڈیرے تھے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کے بچپن سے لے کر لڑکپن تک کا مطالعہ کریں تو اس خوشگوار حیرت کا انکشاف ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے قریش کے مذہبی افکار ونظریات سے کوئی اثر قبول نہ کیا۔ اپنے زمانے کی سماجی قدریں اور خارجی ماحول جو صنم تراشی اور صنم پرستی سے عبارت تھا، اس سے آپ ﷺ قطعاً متاثر نہ ہوئے اور ایک بچے کی جو اصل فطرت ہوتی ہے وہ حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں کسی شکست و ریخت کا شکار ہوئے بغیر محفوظ رہی۔
آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مقدسہ کے ابتدائی چالیس سال ایک ایسے ماحول میں گزارے جہاں سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش ہوتی تھی، حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے جنہیں لوگ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے۔ اخلاقی اقدارکا جنازہ نکل چکا تھا، زمین پر آباد انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ کوئی قانون اور ضابطہ نہ تھا۔ بات بات پر تلواریں نیام سے باہر آجاتیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا۔ قبائلی عصبیت انتقام در انتقام میں ڈھل کر اوراقِ زندگی پر انسانی لہو کی ارزانی کی علامت بن جاتی۔ جھوٹ، دغا، منافقت، دجل اور فریب نے زمین پر محیط طویل شبِ زندگی کے اندھیروں کو کچھ اور بھی گہرا کردیا تھا۔ شرک اور کفر کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حضور ﷺ کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ کردار کی مضبوطی کا یہ عالم تھا کہ یقین کی شمع آپ ﷺ کے قول و عمل میں ہمیشہ فروزاں رہی اور آپ ﷺ کا دامنِ عصمت بداخلاقی کے چھینٹوں سے کبھی داغدار نہ ہوسکا۔
گویا حضور ﷺ اپنی فطرت پر اسی طرح پاک اور صاف رہے جس فطرت پر رب کائنات نے آپ ﷺ کی تخلیق مکمل کی تھی۔ استحصال اور ظلم پر مبنی اس بے روح معاشرے میں زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ چکنے کے بعد بھی حضور ﷺ کی امیت اور اصلیت اپنی فطرت پر قائم رہی۔ آپ ﷺ نے اعلان بعثت کے وقت کردار کی اسی خوشبو اور شخصیت کی اسی روشنی کو نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا۔
(2) اُم بمعنی ماں
لفظ اُم اگر بمعنی ماں مستعمل ہو تو اس لحاظ سے اُمی کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ہستی جو اپنی ساری زندگی گزار کر بھی اسی حالت میں ہو جس حالت میں ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ کیونکہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو یہ دو بنیادی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ برائی، گناہ اور آلائش سے پاک ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ تمام اکتسابی علوم سے بھی منزہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اکتساب کا تعلق پیدائشِ انسانی کے بعد شروع ہوتا ہے اور جب انسان سیکھنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے تو اچھائی اور برائی دونوں کا اس کی سیرت کا جزو بننے کا امکان ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں رب کائنات نے اپنے محبوب ﷺ کو اس لیے اُمی قرار دیا ہے کہ آپ ﷺ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار کر بھی اسی طرح معصوم تھے جیسے اپنی پیدائش کے وقت۔ ماحول کی گندگی کا ہلکا سا دھبہ بھی آپ ﷺ کے دامنِ روز و شب کو داغدار نہ کرسکا۔ آپ ﷺ کی اسی ظاہری و باطنی طہارت اور پاکیزگی کی بنا پر قرآن مجید نے آپ ﷺ کو ’’النبی الامی‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ.
(الاعراف، 7: 157)
’’ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں)۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے:
فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ.
(الاعراف، 7: 158)
’’سو تم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لاؤ جو شانِ اُمیّت کا حامل نبی ہے۔‘‘
آیات مذکورہ سے واضح ہے کہ حضور ﷺ اُمی نبی ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے سوائے اپنے رب کے کسی سے کچھ پڑھا اور نہ کچھ سیکھا۔ حضور ﷺ کا علم عطائی ہے، اکتسابی نہیں اور یہ علم حضور ﷺ کو عطا کرنے والا ان کا پروردگار ہے جو کل جہانوں کا پالنے والا اور ہر مخلوق کا خالق ہے اور جس کی قدرتِ مطلقہ کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔
اُمیّین میں بعثت
حضورنبی اکرم ﷺ کو اُمی کہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی جہاں لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ عرب میں یہود و نصاریٰ اہل کتاب کہلاتے تھے اور وہ لوگ جوکسی آسمانی کتاب رکھنے کے مدعی نہ تھے، اُمیین کہلاتے تھے۔ یہ اصطلاح اس لیے تھی کہ اہلِ کتاب ان لوگوں کو اپنے سے الگ کرکے مخاطب کرتے تھے جیسا کہ سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوا:
وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ أَ اَسْلَمْتُمْ.
(آل عمران، 3: 20)
’’اور آپ اہلِ کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے فرما دیں: کیا تم بھی اللہ کے حضور جھکتے ہو (یعنی اسلام قبول کرتے ہو)۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے قوانینِ الہٰی کا جو نظام قائم کیا، وہ انبیائے کرامf کی وساطت سے ان کو ملتا رہا اور اس سلسلہ کی آخری کڑی نبی اکرم ﷺ کی ذات بابرکات تھی۔ آپ ﷺ کو ان لوگوں کے درمیان مبعوث فرمایا گیا جو اُمیین کہلاتے تھے یعنی جاہل یا ان پڑھ نہیں بلکہ جن کے پاس اس سے پہلے کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایک ایسا نظام متشکل فرمایا جس کے ذریعہ ان لوگوں کی صلاحیتوں کی برومندی اور ان کی ذات کی نشوونما ہوسکے۔ اس حقیقت کو سورۃ الجمعہ کی دوسری آیت میں اس طرح واضح فرمایا گیا کہ:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ.
(الجمعۃ، 62: 2)
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ﷺ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُمیین سے مراد ناخواندہ یا ان پڑھوں کی جماعت نہیں بلکہ عرب باشندوں کی وہ جماعت ہے جو اہلِ کتاب کے مقابلے میں اس وقت حاملِ کتاب نہیں تھی اور نبی کریم ﷺ کا تعلق انہی اُمیین سے تھا۔
آپ ﷺ کو اُمی کہنے کی حکمتیں
حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اُمّیت بھی آپ ﷺ کا معجزہ قرار پاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے جب آپ ﷺ کو اُمی کہا تو یقیناً اس میں ہزارہا حکمتیں پوشید ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہر حکمت اور ہر دانش کا سرچشمہ ہے، اس لیے حضور ﷺ کو اُمی کہنا بھی خالی از حکمت نہیں ہوسکتا۔ ذیل میں چند حکمتیں ذکر کی جاتی ہیں:
(1) پہلی حکمت
تاجدار کائنات ﷺ کسی کتاب کو پڑھنا جانتے تھے اور نہ آپ ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے لکھنا سیکھا تھا۔ اس وصف سے باری تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ذات اقدس کو کیوں مزین کیا اس کا جواب قرآن یوں دیتا ہے:
وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّا رْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ.
(العنکبوت، 29: 48)
’’اور (اے حبیب ﷺ !) اس سے پہلے آپ ﷺ کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ ﷺ اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتے۔‘‘
علامہ شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں:
’’اس میں ایک حکمتِ الہٰیہ یہ بھی تھی کہ استاد کی فضیلت آپ ﷺ پر ثابت نہ ہو، نیز یہ کہ کلام اللہ کو مخالف لوگ آپ ﷺ کے اکتسابی علوم و فنون کا نتیجہ نہ سمجھ لیں۔ چنانچہ اُمی ہونا آپ ﷺ کے حق میں صفتِ مدح ہے جو دوسروں کے حق میں نہیں۔‘‘
(روح المعانی، ج: 9، ص: 70)
گویا معلم اعظم حضور رحمت عالم ﷺ کو اُمی قرار دینے کی پہلی حکمت یہ تھی کہ اگر آپ ﷺ نے کسی استاد سے کچھ پڑھا ہوتا، کسی مکتب میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہوتی، لکھنا سیکھا ہوتا اور اس کے بعد آپ ﷺ منصبِ رسالت پر جلوہ افروز ہونے کا اعلان فرماتے اور احکامِ الہٰی بیان کرتے تو شک کرنے والے حاسدین اور معاندین یہ تہمت عائد کرتے کہ یہ احکام منجانب اللہ نہیں، یہ وحی الہٰی نہیں بلکہ حضور ﷺ یہ بات فلاں کتاب سے پڑھ کر یا فلاں استاد سے سیکھ کر بیان کررہے ہیں۔ یوں انہیں شانِ نبوت میں تنقیص کا موقع مل جاتا اور وہ تحریک اسلامی اور اس کے عظیم قائد کے خلاف اپنا پروپیگنڈہ تیز کردیتے۔ یہ نکتہ تحریکِ اسلامی کی قیادت کی کردار کشی کی مہم میں خوب اچھالا جاتا اور نبوت کی صداقت اور حقانیت پر مسلمانوں کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے منصبِ نبوت کو اس اتہام سے بچانے کے لیے اور تمام کسبی علوم سے اکتساب کے امکان کو رد کرتے ہوئے حضور ﷺ کی چالیس سالہ حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ ان کے سامنے رکھا۔
(2) دوسری حکمت
اکتسابی اور وہبی علم میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اکتسابی علم کو دہرانے سے الفاظ ادھر ادھر ہوجاتے ہیں حتی کہ بعض اوقات مفہوم میں بھی تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے لیکن وہبی علم میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ بار بار دہرانے سے بھی ایک لفظ اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آیاتِ قرآنی میں کسی لفظی تبدیلی کا امکان ہی نہیں۔ پوری دنیا کے حفاظ جن کی زبانیں مختلف، ثقافتیں الگ، رہن سہن کے طریقے جدا جدا، لیکن جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو اس میں زیر زبر کا بھی فرق نہیں ہوتا۔ آقائے دو جہاں ﷺ پر قرآن بذریعہ وحی نازل ہوا۔ حضور ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں سالہا سال سیکڑوں بار ان آیات کو دہرایا لیکن ایک لفظ تو کجا ایک حرف بھی کبھی تبدیل نہ ہوا۔ حضور ﷺ نے کبھی ان آیاتِ مقدسہ کو حفاظ کی طرح از بر نہیں کیا بلکہ ہر آیت اپنی صحتِ لفظی کے ساتھ خود بخود زبانِ اقدس پر جاری ہوجاتی۔
حضور ﷺ کے اس دائمی معجزے کا فیض قیامت تک جاری رہے گا، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو النبی الامی کی شان کے ساتھ مبعوث کرکے آپ ﷺ کے سینہ اقدس کو اکتسابی علم کی ہر آلائش سے پاک کردیا تھا۔
(3) تیسری حکمت
حضور نبی اکرم ﷺ کو اُمی قرار دینے کی تیسری حکمت اور اس میں کارفرما فلسفہ یہ تھا کہ وہبی علم کے مقابلے میں دنیوی علم ظنی ہوتا ہے۔ اس میں گمان اور غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو دنیوی علوم اور کتابوں سے اس لیے بے نیاز کردیا کہ غلطی، گمان اور نقص کا احتمال تک باقی نہ رہے۔ حضور ﷺ کے سینہ اقدس کو ظنی نہیں بلکہ یقینی علم کا گنجینہ بنادیا گیا۔ یقینِ کامل ایمان کی بنیاد ہے اور یقین کامل عموماً اکتسابی عمل کی نہیں بلکہ وہبی علم کی عطا ہے اور اس میں نقص یا غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ چونکہ حضور ﷺ کا علم وہبی تھا، اس لیے آپ ﷺ نے خلقِ خدا میں ایمان کے ساتھ یقینِ کامل کی دولت بھی تقسیم کی۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے:
مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ.
(الشوریٰ، 42: 52)
’’اور آپ ﷺ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں)۔‘‘
رسول اُمی ﷺ کے علم کا منبع و سرچشمہ وحی الہٰی تھا، دنیوی یا اکتسابی علم نہ تھا۔ وحی الہٰی میں جہاں غلطی، گمان یا نقص کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہوتا، وہاں اس کے ذریعہ حاصل ہونے والا علم یقینی، حتمی اور قطعی بھی ہوتا ہے۔ غبارِ تشکیک اس علم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور نہ ذہنِ انسانی اس میں اختراع کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اکتسابی علوم و فنون کو حرفِ آخر ہونے کی سند عطا کی جاسکتی ہے کیونکہ ان میں اصلاح و ترمیم اور اضافہ کی گنجائش ہر لمحہ موجود رہتی ہے جبکہ اس کے برعکس وہبی علم ان اسقام سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے انبیاء و مرسلینf کے علاوہ کوئی فلاسفر یا دانشور یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی نگارشات میں کسی غلطی کا امکان موجود نہیں۔ صرف انبیاء و رسلf ایسی ہستیاں ہیں جن کی زبانِ ترجمانِ حقیقت سے جو صادر ہوتا ہے، اس میں قیامت تک اصلاح و ترمیم اور اضافہ ممکن نہیں۔ وہ حرفِ آخر ہوتا ہے اور قیامت تک اس میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ حضور ﷺ کو اُمی کہا گیا تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ کو پڑھانے والا خود اس کائنات کا رب ہے جو ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے مبرا ہے، اس لیے حضور ﷺ کے ارشادات بھی ظنی علوم کے نقائص سے پاک اور مبرا ہیں۔
(4) چوتھی حکمت
عربی گرائمر کی رو سے لفظ نبی؛ نباء سے مشتق ہے۔ نباء کا معنی غیب کی خبریں جاننا یا غیب کی خبریں دینا ہے۔ اس اعتبار سے نبی اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب کی خبریں نہ صرف جانتا ہو بلکہ لوگوں کو ان سے آگاہ بھی کرتا ہو۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْکَ.
(آل عمران، 3: 44)
’’(اے محبوب ﷺ !) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ ﷺ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔‘‘
جب نبی کی تعریف ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف خود غیب کی خبریں رکھتا ہے بلکہ ان خبروں سے دوسروں کو بھی مطلع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی کا سارا علم غیبی ہوتا ہے۔ اگر حضور ﷺ اُمی نہ ہوتے تو کوئی شخص آپ ﷺ کا استاد بھی ہوتا لیکن یہ صورت حال اللہ رب العزت کو گوارہ نہ ہوئی کہ ہو تو ہمارا محبوب لیکن اس کا معلم کوئی عام شخص ہو۔ یہ چیز شانِ نبوت کے بھی منافی ہوتی۔چنانچہ باری تعالیٰ نے اکتسابی علم کےسارے دروازے بند کردیئے کہ محبوب ہم اپنی وحی کے ذریعے آپ کو پڑھاتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں اور پھر آپ سارے انسانوں اور سارے زمانوں کے معلم قرار پائیں گے۔ آپ شہر علم ہوں گے اور ساری دنیا آپ کے در سے حصولِ علم کی خیرات کی تمنائی ہوگی۔ پس اس لیے حضور ﷺ کو اُمی بنایا گیا تاکہ کوئی شخص حضور ﷺ کا معلم ہونے کا دعویٰ نہ کرسکے۔
اُمی ہونا حضور نبی اکرم ﷺ کا ایک عظیم معجزہ
حضور نبی اکرم ﷺ نے بھرپور مجلسی، ثقافتی، عائلی اور سماجی زندگی بسر کی۔ بکریوں کو چرانے سے لے کر تجارت کے لیے شام تک کا سفر اختیار کیا۔ کفار و مشرکین کے ساتھ معاہدات کیے، غزوات میں شرکت کی، ثالث بن کر لوگوں کے جھگڑے ختم کرائے، تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دیا لیکن دنیاوی علم کے حصول کی کبھی دل میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔ کسی کے در پر حصولِ علم کے لیے دستک دینا بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس کے منافی ہوتا۔ اکتسابی علوم کے حصول کی آپ ﷺ نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اس کا سبب فقط یہ تھا کہ انہیں بتادیا گیا تھا کہ اے محبوب ﷺ علم کے سارے خزانے آپ کے قدموں کی خیرات ہیں۔ چنانچہ وقت آنے پر یہ سارے خزانے آپ ﷺ پر کھلتے گئے اور سارے علومِ غیب آپ ﷺ پر منکشف ہوتے چلے گئے۔علامہ خازن اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’حضور ﷺ کا اُمی ہونا کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اُمی ہونا آپ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ دنیا میں آپ ﷺ نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا پھر ایسی کتاب بھی لائے جس میں اولین و آخرین کے علوم و غیوب ہیں۔‘‘
(تفسیر خازن، 2: 138)
النبی الاُمی کے وسعتِ علم کا معجزہ
ہر چیز پر قادر رب نے اپنے محبوب ﷺ کو تمام علوم کی کنجیاں عطا فرمائیں۔ اس کائنات کی کوئی چیز بھی حضور ﷺ کے دائرہ علم سے باہر نہیں۔ معراج کی شب تمام حجابات اٹھادیئے گئے حتی کہ آپ ﷺ دیدارِ الہٰی کے شرفِ عظیم سے بھی مشرف ہوئے اور کوئی چیز آپ ﷺ کی نظروں سے اوجھل نہ رہی۔ دکھانے اور سکھانے والے نے علمِ حضور ﷺ کی کوئی حد مقرر نہ کی۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا.
(النساء، 4: 113)
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ ﷺ نہیں جانتے تھے، اور آپ (ﷺ) پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔‘‘
آپ ﷺ کا علم عطائی ہے، ذاتی نہیں اور یہ علم عطا کرنے والا اس کائنات کا خالق ہے۔ اس کائناتِ رنگ و بو میں سوائے حضور ﷺ کے کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ لوگو! جو کچھ تم نہیں جانتے، مجھے وہ بھی عطا کردیا گیا ہے۔ کوئی شخص بیک وقت سارے علوم پر دسترس نہیں رکھ سکتا لیکن تمام علوم حضور ﷺ کے نقش کف پا کا تصدق ہیں۔ اللہ رب العزت مذکورہ آیاتِ مقدسہ میں حضور رحمت عالم ﷺ کو اپنی بارگاہ سے تمام علوم عطا کیے جانے کو اپنا بہت بڑا فضل قرار دے رہا ہے۔ اس آیت کریمہ کی رو سے تمام عوالم اور کائنات کی ہر چیز آپ ﷺ کے احاطہ علم میں ہے۔
حضور ﷺ کے علم کا انکار اللہ رب العزت کے علم کے انکار کے مترادف ہے۔ کفار و مشرکین نے آپ ﷺ کے علم پر طعن کیا کہ آپ ﷺ ہمارے دل کی کیفیت کو نہیں جانتے تو حضور ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا:
سلونی عما شئتم.
(صحیح البخاری، کتاب العلم، 1: 162، رقم:90)
’’جس چیز کے متعلق مجھ سے پوچھنا چاہو، پوچھ لو۔‘‘
اپنے اس ارشادِ گرامی سے قیامت تک حضور ﷺ کے علم غیب پر اعتراض کرنے والوں کو حضور نبی اکرم ﷺ نے خود ہی جواب دے دیا۔ ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہوگا جو میرے علم کی وسعت پر طعن زنی کرتے ہیں (آؤ) تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو، مجھ سے پوچھ لو۔‘‘
(تفسیر بغوی، 2: 381-382)
اس اعتماد کے ساتھ وہی ذات دعویٰ کرسکتی ہے جسے اس کے رب نے قیامت تک کے حالات سے آگاہ کردیا ہو۔
حاصلِ کلام
بچہ جب رحمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے تو وہ اَن پڑھ اور ناخواندہ ہوتا ہے، اسی نسبت سے عرب میں اُمی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ اگرچہ یہ لفظ کسی شخص کے لیے صفتِ مدح نہیں ہے بلکہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے، مگر رسول اللہ ﷺ کے علوم و معارف اور خصوصیات و حالات و کمالات کے ساتھ اُمی ہونا آپ ﷺ کے لیے بڑی صفت کمال بن گئی ہے۔ ایک ایسے شخص کا جس نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا ہو، اس کا علوم و معارف کا دریا بہادینا اور اس سے ایسے بیش بہا علوم اور بے نظیر حقائق و معارف کا صدور ایک ایسا کھلا معجزہ ہے جس سے کوئی معاند و مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا۔ خصوصاً جبکہ آپ ﷺ کی عمر مبارک کے چالیس سال مکہ میں سب کے سامنے اس طرح گزرے ہوں کہ کسی سے ایک حرف پڑھا اور نہ سیکھا اور پھر ٹھیک چالیس سال پورے ہونے پر آپ ﷺ کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوا جس کی ایک چھوٹی سی آیت کی مثال لانے سے پوری دنیا عاجز ہوگئی تو ان حالات میں آپ ﷺ کا اُمی ہونا آپ ﷺ کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلامِ الہٰی ہونے پر ایک بڑی شہادت ہے۔ پس اس لیے اُمی ہونا اگرچہ دوسروں کے لیے کوئی صفتِ مدح نہیں مگر رسول اللہ ﷺ کے لیے عظیم صفتِ مدح و کمال ہے۔