ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لئے خوشیوں، نعمتوں اور برکتوں کا عظیم تحفہ لے کر آیا ہے، پوری دنیا میں مسلمان رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشیاں منارہے ہیں۔ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سال کے بقیہ مہینوں پر ہر لحاظ سے فضیلت ہے کیونکہ یہ وہ ماہ ہے جس میں پوری انسانیت کو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلانے کے لئے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے کئی سال قبل یہودیوں نے مدینہ کی بستی میں صرف اس لئے ڈیرے ڈال لئے تھے کہ انہیں معلوم تھا کہ آخری نبی مکہ سے ھجرت کرکے مدینہ کو اپنا مسکن بنائے گا۔ انہیں قوی امید تھی کہ آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضرت اسحاق کی نسل سے آئے گا مگر نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت بنو ہاشم کے اس خاندان میں ہوئی جس کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جاملتا ہے۔ جبکہ یہود و نصاریٰ کی خوشی اور انتظار صرف اس لئے تھا کہ انسانی تاریخ کا آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں آئے گا۔ انہیں کیا علم تھا کہ اللہ نے یہ شرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نصیب میں لکھ رکھا تھا۔ اس لئے یہود ونصاریٰ کی خوشی فوراًحسد میں بدل گئی اور انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات کے دوران بھی سازشوں، مزاحمتوں اور رکاوٹوں کے سلسلہ کو آخر دم تک جاری رکھا مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر پھیلتی ہی چلی گئی اور آج اسلام دنیا کے پانچ براعظموں میں ہر جگہ موجود ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں کی تعداد میں سرعت سے اضافہ ہورہا ہے اور عالمی سطح پر تیزی سے پھیلنے والا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔ جہاں یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے وہاں یہ بھی ایک تلخ سچ ہے کہ مسلمانوں نے گذشتہ چند صدیوں سے بتدریج اپنے اسلاف کی روایات کو چھوڑ کر علم و ہنر سے ناطہ توڑ لیا اور تساہل پسندی اور عیش کوشی کا شکار ہوکر روبہ تنزل ہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آج تعداد کے لحاظ سے گو مسلمان زیادہ ہیں۔ 56 سے زائد مسلم ممالک ہیں مگر ان میں اسلام پردیسی ہے۔ امت کی اکثریت نے غیروں کے کلچر کو قبول کرکے فکری غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی اور معاشی طور پر امت کمزور ہوتے ہوتے اس مقام پر پہنچ گئی کہ وسائل اور افرادی قوت کی فراوانی کے باوجود غیر مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ جماتے جارہے ہیں، عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور دیگر مقبوضہ مسلم علاقوں پر مسلمانوں کے خون کی حیثیت پانی سے کمتر ہوچکی۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں کو مغربی میڈیا دہشت گرد ڈکلیئر کررہا ہے اسلام کے حوالے سے پوری دنیا میں جو منفی تاثر پھیلایا جارہا ہے اس نے مسلمان نسلوں کے مستقبل کو انتہائی غیر محفوظ کردیا ہے۔ امت مسلمہ کی بے بسی اس حد تک پہنچ چکی کہ اسلام دشمن طاقتوں نے بانی اسلام آقائے دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر غیر اخلاقی حملے شروع کردیئے۔ مذموم خاکوں اور بے ہودہ فلم کے ذریعے باطنی خباثت کا اظہار کیا اور دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا شروع کردیا۔ نازیبا خاکوں کی اشاعت کے پیچھے حاسد صیہونی لابی کی یہ سوچ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کی غیرت کو کچل کر انہیں اپنے رنگ میں رنگ لیا جائے، نام کے مسلمان ہمارے دست نگر بن کر زندہ رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو سیاسی و معاشی نظام کے طور پر وہ دنیا میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لئے ان کی جسارت اس حد تک چلی گئی ہے کہ وہ ناموس رسالت پر حملے کرنے سے بھی نہیں چوک رہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کے تناظر میں خاکوں کی اشاعت کو دیکھا جائے تو اسلام دشمن طاقتوں کی یہ مکروہ اور خوفناک سازش سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے ایمان کا محور و مرکز رہنے والی، انسانیت کی عظیم ترین ہستی کے خلاف توہین آمیز خاکے چھاپ کر مسلمانوں کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں اور احتجاج میں ہونے والے اقدامات کو اپنے اس زہریلے پراپیگنڈے کہ ’’مسلمان انتہا پسند اور دہشت گرد ہیں‘‘ کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں، دوسرا وہ ایسے اقدامات سے مسلمانوں کے اندر غیرت و حمیت اور ایمان کے پیمانے کو بھی ناپتے ہیں کہ یہ کس حد تک ہمارے کلچر اور اقدار کے قریب ہوچکے ہیں اور ابھی ان میں کتنی مزاحمت اور سکت باقی ہے۔ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے۔ کئی مسلم ممالک میں مغربی ملکوں کے پرچم نذر آتش ہورہے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کو احتجاج کا ایسا طریقہ اختیار کرنا ہوگا جس سے دشمن فائدہ اٹھا کر ان کے خلاف مزید انتقامی حربے نہ آزما سکے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تر ہے مگر آج مغربی میڈیا کے گھناؤنے پراپیگنڈے کا جواب مشتعل ہوکر دیا گیا تو اس کا نقصان الٹا مسلمانوں کو ہی بھگتنا ہوگا اس لئے ان حالات میں بہترین جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پوری دنیا میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا ایسا تاریخی نظارہ دکھایا جائے کہ دشمنان اسلام پر یہ واضح ہوجائے کہ فاقہ کشوں کے جسم و روح سے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی رائی نکالنا بھی ناممکن ہے۔ عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا چراغ ہے جس سے مسلمانوں کے سینے روشن ہیں اور یہ روشنی امت مسلمہ کی نسلوں میں بھانبھڑ بن کر تاقیامت زندہ رہے گی۔ اسلام دشمنوں کو یہ بتادیا جائے کہ ان کی طرف سے کئے جانے والے مذموم اقدامات نے مسلمانوں کے ایمان کی شمع کو پہلے سے زیادہ روشن کردیا ہے۔ 11 ربیع الاول، 20 مارچ کی رات مینار پاکستان لاہور کے سائے تلے ہونے والی تحریک منہاج القرآن کی 24 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس میں دس لاکھ سے زائد عشاقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جن میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی تھی) تحریک منہاج القرآن کی طرف سے پوری دنیا میں لانچ ہونے والے اس پوسٹر جس میں دل کے اندر اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا ہے، کو فضا میں بلند کرکے اسلام دشمنوں کو بتا دیا ہے کہ خاکے شائع کرکے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر حملہ کرنے والو! تم قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ 1447 سال قبل مکہ کی سرزمین پر جس آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنم لیا تھا اس کی فکر کی تابانیاں انسانیت کے اربوں انسانوں تک پہنچ چکیں اور تقریباً ڈیڑھ ارب سے زائد امتی ان کی ذات سے محبت اور عشق کو ہی اپنی سب سے بڑی متاع سمجھتے ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہونے والی اس عالمی میلاد کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب نے پوری امت کو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم پیغام دیا ہے جس کو سینوں میں سجا کر کروڑوں مسلمان ایمان کی انتہائی بہتر حالت میں لوٹ کر امن، محبت اور عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفیر بن کر پوری دنیا میں محبت کی خوشبو پھیلا رہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام سلامتی، محبت، امن، بھائی چارے اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ تنگ نظری، انتہا پسندی، دہشت گردی اور دیگر منفی رویوں کو اس کے ساتھ زبردستی نتھی کرنے والے حاسد وہ ہیں جنہوں نے مکہ کی سرزمین پر بنو ہاشم کے گھر پیدا ہونے والے کائنات انسانی کے عظیم راہبر کی پیدائش پر اس لئے خوشی نہیں منائی تھی کہ یہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں کیوں نہیں آیا؟۔