مرتبہ : کوثر رشید، خالدہ رحمن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکهف، 18 : 28)
تلاوت کی گئی سورۃ الکہف کی اس آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
آج کا خطاب عشق کی بستی سے ہے جن کا بنیادی موضوع شان اولیاء ہے جسے میں قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں بیان کرنا چاہوں گی۔ مذکورہ آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگو! تم بھی میرے ولیوں کی نسبت اور سنگت میں جم کر بیٹھا کرو جو صبح و شام اپنے مولا کے مکھڑے کو تکتے رہتے ہیں۔ مولا کے ذکر میں رہتے ہیں، تم لوگ ان کے دامن سے چمٹ جاؤ۔ ان کی محبت اختیار کرلو، تم ان کے دامن تھام لو جنہوں نے میرا دامن تھام لیا ہے۔ ولی وہ ہیں جنہوں نے حُبِّ دنیا نکال دی اور حُبّ الہٰی میں مولا کے مکھڑے کے طالب ہوگئے۔ وہ صبح و شام خدا کے مکھڑے کے دیدار کی خواہش کرتے ہیں۔ فرمایا : وہ میرے در پر بیٹھ گئے، تم ان کے در پر بیٹھ جاؤ۔ ان کے چہروں سے نگاہیں نہ ہٹانا، ان کے چہروں پر نگاہیں جمائے رکھنا، کیوں جمائے رکھنا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں بتادوں کہ تم میں سے بہتر لوگ کون ہیں؟ اللہ کے ولی کون ہیں؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتا دیں! فرمایا : اللہ کے ولی وہ ہیں کہ ان کے چہروں کو دیکھو تو خدا یاد آجائے، ان کے عمل کو دیکھو تو آخرت یاد آجائے اور ان کا بیان سنو تو علم اور ہدایت نصیب ہوجائے۔ (النسائی فی السنن، 6 / 362، الرقم 11235)
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
اِنَّ الصَّفَاءَ صِفَةُ الصِّدِّيْقِ اِنْ اَرَدْتَ صُوْفِيَا عَلَی التَّحْقِيْقِ.
’’بے شک صفا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صفت ہے۔ اگر تو صحیح اور جامع صوفی بننے کا ارادہ رکھتا ہے تو جس راستے کو انہوں نے اختیار کیا ہے تو بھی اسی راستے کو اختیار کر اور کاملین اور اولیاء اللہ میں سے ہوجا‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ.
(البقره، 2 : 257)
’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور وہ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اطاعت پر قائم رہنے کی بناء پر للہیت عطا کرتا ہے اور اس بندے کی عصمت و عزت کی حفاظت کرتا ہے تاکہ بندہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہے۔ وہ جب اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے پرہیز کرتاہے تو شیطان اس بندہ کے حسن اخلاق سے بھاگ جاتا ہے اور اس بندے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ لہذا اگر نگاہیں اللہ والوں سے ہٹ گئیں تو تم دنیا میں پھنس کر رہ جاؤ گے اور اگر دنیا کی محبت سے نجات چاہتے ہو تو اللہ والوں سے تعلق محبت قائم رکھو۔ اللہ والے وہ ہیں جن کے دل میں اللہ رہتا ہے دنیا نہیں رہتی۔ جن کے دل میں اللہ کی محبت ہے دنیا کی محبت نہیں۔ جنہوں نے اپنے دل کے رخ ہر سمت سے ہٹا کر خدا کی طرف کرلئے ہیں۔ لہذا ذاکروں اور عاشقوں کے پیچھے جاؤ تو وہ تمہیں ذاکر اور عاشق بنا دیں گے۔ اگر غافلوں کے پیچھے جاؤ گے تو وہ تمہیں غافل کردیں گے۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ
مَنْ اذٰ لِیْ وَلِيَّا فَقَدْ اِسْتَحَلَّ مُحَارَبَتِیْ.
(مسند احمد بن حنبل، ج 6، ص 256)
’’جس نے میرے ولی کو میرے لئے تکلیف دی اس نے میرے ساتھ لڑائی کرنی حلال سمجھ لی‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے دوست اولیاء ہیں۔ اس نے انہیں ولایت کی دوستی کے ساتھ مخصوص کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فعل کو ظاہر کرنے کے لئے مقرر فرمایا ہوا ہے اور کئی قسم کی کرامتوں کے ساتھ مخصوص کیا ہوا ہے۔ طبیعت کی آفتوں کو ان سے دور کیا ہوا ہے۔ نفس کی متابعت کرنے سے ان کو رہائی دی ہوئی ہے حتی کہ ان کی تمام توجہ اور انس و محبت اس کے سوا کسی کے ساتھ نہیں ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگو! قیامت کے دن کچھ ایسے لوگ ہونگے اللہ رب العزت انہیں مقام عرش پر اپنے سامنے دائیں جانب بٹھائے گا مگر نہ تو وہ نبی ہوں گے نہ شہید ہوں گے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونگے۔ اللہ کے ذاکر ہونگے اور ان کے چہرے نور علیٰ نور ہونگے۔ ان کے چہروں سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہونگی۔ لوگ خوفزدہ ہونگے مگر انہیں کوئی خوف نہ ہوگا۔ لوگ غمزدہ ہونگے انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگو! آپس میں تم اپنا حق لینے میں کیا جھگڑے کرتے ہو (جھگڑا دیکھنے والا تو وہ ہوگا) جو قیامت کے دن میرے ولی اپنے غلاموں کو چھڑانے میں جھگڑا کریں گے۔ فرمایا : جب میں فیصلہ کردوں گا کہ میرے ولیو! کامل مومنوں! دوستو آج تم بغیر حساب و کتاب کے جنت میں چلے جاؤ، تو جو اللہ کے ولی ہونگے وہ رک جائیں گے۔ عرض کریں گے یا اللہ ہم جنت میں نہیں جاتے۔ صحاح ستہ کی حدیث صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ ان سے پوچھو کیوں نہیں جاتے؟ وہ کہیں گے باری تعالیٰ کچھ لوگ ہمارے مرید ہیں۔ ہم سے محبت کرنے والے اور تعلق رکھنے والے ہیں۔ نمازیں ہمارے ساتھ پڑھتے تھے، حج پر ساتھ جاتے تھے، اعتکاف بیٹھتے تھے، روزے رکھتے تھے، ہماری سنگت والے ہیں مگر وہ دوزخ میں پڑے ہیں ہماری محبت کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ آج ان پیار کرنے والوں کو دوزخ میں چھوڑ کر خود جنت میں چلے جائیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنے دوستوں اور محبت کرنے والوں کی بخشش چاہنے والو! جاؤ جنہیں پہچانتے ہو انہیں اپنے ہاتھ سے دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جاؤ۔
جب اللہ تعالیٰ کے ولی کی اتنی بلند شانیں ہیں تو سوچنا چاہئے اور جاننا چاہئے کہ اللہ کے ولی کون ہوتے ہیں تو اس سلسلے میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اَلْوَلِیُّ هُوَالصَّابِرُ تَحْتَ الْاَمْرِ وَالنَّهِیْ.
’’ولی وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان امر اور نہی کے تحت صبر کرے‘‘۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
لَا تَرْغَبُ فِیْ شَيْئٍ مِّنَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَفَرِّغْ نَفْسَکَ لِلّٰهِ وَاَقْبِلْ بِوَجْهِکَ عَلَيْهِ.
’’دنیا اور آخرت کی چیزوں میں سے کسی چیز کی طرف رغبت نہ کرو اور اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے لئے فارغ کرکے اپنی تمام قوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجا‘‘۔
یعنی جب بندہ اپنے دل کے چہرے کو خدا کی طرف موڑ لے گا اور اس کے اندر تمام صفات پیدا ہوجائیں گی تو وہ ولی ہوجائے گا۔
ایک مرتبہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص میری امت کا ایسا ہے جو یمن میں رہتا ہے۔ اس کے ہاتھ کے ایک جانب سفید داغ ہے اور اشارہ کرکے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ! تم دونوں کو خوشخبری دیتا ہوں کہ تم اس سے ملو گے۔ یمن جانا، اس سے ملنا، اس کو میرا سلام کہنا کہ میری امت کی بخشش کے لئے دعا کردے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا نام کیا ہے؟ فرمایا : اس کا نام اویس رضی اللہ عنہ ہے اور وہ قرن کا رہنے والا ہے۔ اب سنئے! صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے اور فرمایا :
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا وَلَنَا فِیْ يَمْنِنَا.
’’اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت دے‘‘۔
شام کے لئے دعا کیوں کی؟ اس لئے کہ وہ انبیاء کی زمین ہے اور یمن کے لئے دعا کیوں کی صرف اس لئے کہ وہ اولیاء کی زمین ہے۔ ملک شام میں 70 ہزار انبیاء علیہم السلام آئے اور یمن میں تو نہ کعبہ ہے نہ قبلہ اول ہے نہ نبی آئے، نہ رسول آئے تو پھر یمن کو برکت کیوں دی؟ کیونکہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زمین ہے۔ یمن اولیاء کی سرزمین ہے۔ یمن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقوں کا گھر ہے۔ لہذا دنیا کا یہ کاروبار، ملازمت، رشتے اور ساری دنیا چھوٹتی ہے تو چھوٹ جائے حتی کہ مر بھی جائیں مگر اولیاء کے ادب اور اولیاء سے محبت کا عقیدہ کبھی نہ چھوڑیں۔ سورہ یونس میں ہے۔
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
(يونس، 10 : 62)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہونگے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
پھر جو مومن متقی جو اللہ کی محبت اور تقویٰ کا سودا کرکے حبّ دنیا کو دل سے نکال دیں اور حبّ الہٰی کو دل میں بسا لیں جو زہد فی الدنیا میں آجائیں، اللہ سے تعلق جوڑ لیں، اللہ کی اطاعت و بندگی اور عبدیت میں فنا ہوجائیں جو اپنے رخ دنیا سے ہٹاکر مولا کی طرف موڑ لیں خدا کی قسم! خدا بھی اپنا رخ ایسے مومن کی طرف کرلیتا ہے۔
ارے اس وقت قیامت کا منظر کیسا ہوگا جب ہر کوئی حساب و کتاب میں ہوگا، کوئی پُل صراط سے پھسل کر گر رہا ہوگا، کوئی میزان پر کھڑا کپکپارہا ہوگا، کوئی نفسا نفسی کے عالم میں ہوگا تو کوئی اعمال کی کمی کی وجہ سے بیزار ہوگا۔ کوئی سورج کی قربت کی وجہ سے تڑپ رہا ہوگا، قیامت کا سماں کئی لوگوں کے لئے عجیب عذاب ہوگا، یہ پریشان کن اور اذیت ناک منظر ہوگا مگر دوسری طرف جو اللہ کے ولی ہونگے ان کے بارے میں حکم ہوگا کہ یہ 70ہزار ولی اپنے ساتھ 70، 70 ہزار مریدوں، غلاموں اور محبت کرنے والوں کو جنت میں لیکر جائیں گے۔ فرشتوں کو حکم ہوگا کہ آج ان کا حساب و کتاب نہیں۔ لہذا انہیں سیدھا جنت میں جانے دو۔
محترم سامعین و سامعات! آیئے اب ایک نظر ان چند اولیاء اللہ کے ناموں پر ڈالیں جو اپنے ساتھ 70، 70ہزار چاہنے اور محبت کرنے والوں کو جنت میں لے جائیں گے۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ، شہنشاہ بغداد حضور غوث الاعظم حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ او رکئی اولیاء کرام شامل ہیں۔
تیرے عشق نے میرے مہرباں
مجھے غفلتوں سے جگادیا
تری جستجو و تلاش نے
نئی منزلوں کا پتہ دیا
نہ وہ دوریوں کی شکایتیں
نہ وہ قربتوں کی حکایتیں
ذرا سوچ تو میرے مہرباں
مجھے تو نے کیسا مٹا دیا
مجھے اب کسی سے گلہ نہیں
میں ہوں اپنے حال سے مطمئن
مجھے آرزوئے حبیب نے
جو بنا دیا سو بنا دیا
فطرت نے ازل سے لے کر اب تک اپنے ابدی حسن کو منوانے، اپنی محبت کے اسرار دکھانے اور بالآخر اپنی ذات تک رسائی کے لئے عجب انداز اختیار کئے ہیں کہ انسان عالم تحیر میں گم ہوجاتا ہے پھر وہ قدرت کی رہنمائی میں مجاہدے کی بھٹی میں جل کر، مشاہدے کی گھاٹی سے گزر کر، فنا کی وادی میں کھو جاتا ہے پھر یہاں سے آگے سفر طے کرکے وادی بقا میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں دور دور تک محبوب ہی کا جلوہ بے نقاب نظر آتا ہے۔ بُعد ختم ہوجاتا ہے اور منزل سامنے آجاتی ہے۔
اب باغ و بہار، گل و گلزار، گلشن و چمن، چاند اور چکور، سوزو ساز، عین و نین، اصل و نقل، شجر و نخل، جسم و جاں، دکھ اور سکھ، قال و حال، آگ اور پانی، ہوا اور مٹی، فرش و عرش، صحرا و دریا، شمع و پروانہ، رزم و بزم، غرضیکہ ہر چیز ایک ہی بات سمجھارہی ہے کہ اپنی ہستی کو مٹاکر کسی اور ذات میں گم کردو۔ اپنی کثرت کو کسی وحدت میں گم کردو تاکہ شان منزل مل سکے اور یہ گم ہونا اور فنا ہونا بھی کسی اور ذات کے لئے ہو تاکہ جز میں جذب ہوکر کل سے مل سکے۔ غرض کائنات میں ہر مخلوق اپنے سے اعلیٰ مخلوق پر نثار ہوکر فلسفہ تضاد اور حکمت و اہمیت وسیلہ سمجھاتی نظر آتی ہے۔ گویا مظہر پر جانثاری دراصل منبع پر ہی جانثاری ہے۔ دیکھا جائے تو چکور چاند کے تعاقب میں ہے، چاند سورج کے تعاقب میں ہے۔ بلبل بہار پر فدا ہے رات کا اندھیرا صبح کے اجالے پر قربان ہے۔ نقل اصل کے پیچھے پڑی ہے۔ قال حال کا پیچھا کر رہا ہے۔ پروانہ شمع پر مر گیا ہے۔ شبنم سورج پر فدا ہے۔ یہ سب چیزیں انسانوں اور مسلمانوں کو ایک ہی سبق سکھارہی ہیں کہ حسن مطلق کے کسی مظہر کے پیچھے لگ جاؤ۔ چلتے رہو، حتی کہ اس پر جان دے دو اور یہ جان لوٹانا دراصل محبوب حقیقی پر جان لٹانے کے ہی مترادف ہوگا۔
انسان نے یہ سارا مشاہدہ کرلیا تو اس پر منکشف ہوا کہ اللہ رب العزت نے یہی اصول انسانوں میں بھی روا رکھا ہے۔ اس نے کھوجنے کی حس ہر شخص میں رکھی، تحقیق کا مادہ ہر انسان میں رکھا۔ متجسس رہنے کی تمنا ہر ذی روح میں رکھی۔ یوں انسان بھی فلسفہ تضاد اور فلسفہ وسیلہ کی حکمتوں سے آگہی حاصل کرتا کرتا حقیقت حال تک پہنچے گا۔ اب رہتی دنیا تک جب بھی کوئی سالک حقیقت حال تک پہنچنے کا شوقین، کوئی راہ معرفت کا راہی، عرفان کا طالب، مہم جو، صحرائے وحشت میں بھٹکنے والا مسافر، ظاہر سے باطن تک کا سفر کرنے کا ولی منزل کی کھوج میں نکلتا ہے تو اسے ہر سو صفحہ دہر پر ہزاروں، لاکھوں داستانیں، فلسفہ وحدت میں پروئی نظر آتی ہیں۔
اسی لئے تو ایک امام برحق دکھائی دیتا ہے اور دوسرا مقتدی برحق، ایک پیر برحق نظر آتا ہے تو دوسرا مرید برحق، ایک مرشد کامل دکھائی دیتا ہے تو دوسرا مرید صادق۔ ایک طالب نظر آتا ہے تو دوسرا مطلوب، ایک عاشق نظر آتا ہے تو دوسرا معشوق، ایک محب لگتا ہے تو دوسرا محبوب۔ یوں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس ازلی منبع حسن نے کوئی ایک رند بنادیا ہے اور کوئی ساقی ہے کوئی مرید ہے اور کوئی مراد، کوئی قریب ہے تو کوئی مقرب، کوئی طالب ہے کوئی مطلوب، کوئی قاصد ہے تو کوئی خود مقصود، کوئی جاذب ہے کوئی مجذوب، کوئی راہ میں ہے اور کوئی خود منزل ہے۔ ایک کارکن ہے اور دوسرا قائد، ایک آشنائے راز ہے تو دوسرا فنائے راز ہے، کوئی مے کش ہے اور کوئی مے خوار ہے، ایک مے خوار ہے تو دوسرا مے فروش۔ یوں زمانہ گزرتا گیا لمحے بیتتے گئے، ادوار بدلتے گئے اور بالآخر ساری دنیا کے اماموں کے امام کا زمانہ آگیا، امام الانبیاء والمرسلین، امام الامۃ، امام القبلتین، سید الصالحین، سید الشاہدین، صاحب النبوۃ، صاحب الشریعۃ، حبیب کبریا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ جس کے گرد ہر وقت ہجوم عاشقاں سر تسلیم خم کئے موجود ہوتا ہے اور رہتی دنیا تک بلکہ بعد از قیامت بھی موجود ہوگا۔
سامعین کرام! اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کے چند انقلابی پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبردست انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ ایسا انقلاب جس نے صدیوں پرانے نظام جبر کو نیست و نابود کردیا۔ نسل در نسل غلام پیدا کرنے والے سماجی نظام کو ٹھوکروں سے اڑا دیا۔ لبوں پر تالا لگانے والوں کو زبان عطا کردی، مجبوروں کو لائن آف ایکشن فراہم کیا۔ فاقہ کشوں میں حقوق کے تحفظ کا شعور پیدا کیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی حکومت انتہائی کم عرصے میں پوری دنیا میں پھیل گئی۔ آیئے آج اس محفل میں بھی سب مل کر عہد کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ویسی ہی انقلابی سوچ عطا کردے۔ آج پھر دنیا کو ہمارے ملک کو اسی انقلابی سوچ کی ضرورت ہے وہ سوچ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔ اسے اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اکٹھا کرنے کے لئے ہمیں احادیث مبارکہ کو پڑھنا پڑے گا۔ Line of action کے لئے ہمیں قرآن مجید پر غور کرنا پڑے گا۔ ان شاء اللہ پھر کوئی بھی رکاوٹ مصطفوی انقلاب کا راستہ روک نہیں سکے گا۔
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
ہر صدی ہر لمحہ، ہر سال، ہر ساعت، ہر پل اسی امام برحق کے لئے ہے۔ اسی کے قدموں پر نثار ہونا اور اپنے نفوس کو مجاہدہ کی دشوار گزار گھاٹیوں میں پھرانا اور ریاضت مقصود ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس جہاں میں تو فریفتگی ہی فریفتگی ہے جنوں ہی جنوں ہے۔ دیوانگی ہی دیوانگی ہے ماسوا اللہ ہر چیز سے بیزاری اور سب غفلتیں چھوڑ کر بس بیداری ہی بیداری ہے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
ہماری تاریخ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولائے روم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ، حضرات پیر رومی و مرید ہندی، حضرات جیلانی و اجمیری، حضرات نظام و خسرو کی صورت میں اطاعت و تقلید اور عشق و محبت کی گواہ ہے۔ وقت کی ڈھلتی چھاؤں میں اب زمانہ بیسویں صدی کے نصف آخر تک آن پہنچا تو منشائے ایزدی کے مطابق اب پھر امت مسلمہ میں کسی امام برحق کی آمد کا ڈنکا بجنے لگا۔ مست ہوائیں، کھلتی فضائیں، ہنستی کلیاں، بہتے دریا، سسکتی سانسیں، ترستی آہیں، تڑپتے دل، پرنم آنکھیں کسی امام برحق کی آمد پر خوش اعتقادی ظاہر کرنے لگیں، پھر ایک مرد درویش نے حرم پاک کی سیاہ چادر تھام کر آنسوؤں کی بارش میں، سسکیوں کے ساز کے ساتھ بارگاہ الوہیت میں سرگوشی کی کہ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَلَم کو شرق تا غرب ہو سو لہرانے والا امام برحق بشکل فرزند عطا کردے۔ (مرد درویش ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا غلام، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا سچا خادم اور سرکار غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا سچا شیدائی تھا)۔ جب عرضی پیش ہوئی تو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہ کے قلزم طہارت میں تموج آگیا۔ گزارش کرنے والا چونکہ منظور نظر تھا لہذا جلد ہی عرضی قبول ہوگئی
عمل سے بھی مانگا وفا سے بھی مانگا
تجھے میں نے تیری رضا سے بھی مانگا
نہ کچھ ہوسکا تو دعا سے بھی مانگا
قسم ہے خدا کی خدا سے بھی مانگا
نوید سنادی گئی کہ ہم اپنے قلزم طہارت کی موجوں میں سے ایک خاص موج بحر نفاست کی ایک لہر اور ہمارے دریائے پاکیزگی و طہارت میں غوطہ زن رہنے والی ایک خاص روح بصورت محمد طاہر تمہیں عنایت کرتے ہیں۔ چنانچہ 19 فروری 1951ء کا حسین دن تھا کہ ڈاکٹر فریدالدین قادری کے گھر ایک نیا باب طہارت کھلا۔ ایک تازہ معطر پھول کھلا اس پھول کا نام محمد طاہرالقادری تھا۔ نظارے جھوم جھوم کر ایک دوسرے کو یوں پیام مسرت دے رہے تھے۔
سکھ من میں ساز بجاوت ہے
اب شاد رہو پی آوت ہے
محمد طاہر کے اسم مبارک کا ایک ایک حرف اپنے اندر ہزار داستانیں لئے ہوئے ہے۔ م کا دھارا مصطفوی جمال کے فیض کا پتہ دے رہا ہے۔ ح کا چشمہ حیدری جلال کا آئینہ دار ہے۔ م کا منبع مجتبائی خصائل کا نور پھیلارہا ہے۔ د کا چشمہ دیانت حسین رضی اللہ عنہ کا علمبردار ہے۔ ط کا مصدر طہارت زہراء کا امین ہے۔ الف کا مظہر انابت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ظاہر کررہا ہے۔ ھ کا کلمہ ہدایت عمر رضی اللہ عنہ پر دال ہے۔ ر کا مادہ ریاضت عثمان رضی اللہ عنہ پر گواہ ہے۔
سمجھ لیتے ہیں تم کو میری صورت دیکھنے والے
مرا چہرہ تمہاری داستاں معلوم ہوتا ہے
یوں جسمانی تھکاوٹ سے بے نیاز، ایک ہی جلوے میں مست راحت و سکوں سے بے پرواہ محمد طاہر سلوک و تصوف کی بے شمار دنیائیں لمحوں میں عبور کرگیا کیونکہ لگن سچی تھی، جذبہ صادق تھا، جہد مسلسل تھا۔ لہذا پیرو مرشد نے روحانی فرزند کا درجہ عنایت فرمادیا۔ بالآخر شہزادہ غوث الوریٰ نے جذبہ مصمم کے مالک محمد طاہر کو عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تقرب صدیقی رضی اللہ عنہ، شکوہ فاروقی رضی اللہ عنہ، عجز عثمانی رضی اللہ عنہ، جرات علوی رضی اللہ عنہ، انکسار مجتبائی رضی اللہ عنہ، شجاعت شبیری رضی اللہ عنہ، عشق بلالی رضی اللہ عنہ، جذب قرنی رضی اللہ عنہ، زہد بصری رحمۃ اللہ علیہ، ذوق عابدی رحمۃ اللہ علیہ، فقر جنیدی رحمۃ اللہ علیہ، جنون رازی رحمۃ اللہ علیہ، شوق رومی رحمۃ اللہ علیہ، جہد غزالی رحمۃ اللہ علیہ، استغنائے ادہم رحمۃ اللہ علیہ، کرامت ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، بیان جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، تحقیق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور اجتہاد مجددی رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا فیض لیکر دیا کہ محمد طاہر اُن تمام خصائص سے چمک دمک کر حسن نگر کا شہزادہ محمد طاہرالقادری بن گیا۔
وہ طاہرالقادری جو آج ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کا محبوب بن گیا ہے جو عالم بے خودی میں چلا جارہا ہے۔ ایسی بے خودی جس میں زمان و مکاں کی قیود ختم ہوجاتی ہیں۔ عقل و فہم کی ناقص پرواز کے پر جلنے لگے ہیں جو خودی کے کے تصور سے نکل کر اجتماعیت کے سفر پر گامزن ہے۔ آپ کے خیالات کو لامحدود وسعت مل گئی ہے۔ رگوں میں دوڑتا خون پارہ بن گیا ہے۔ لطف و کرم کی بارش آپ کے وجود کو بھگونے لگی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ سونے سے کندن، پتھر سے پارس، پودے سے درخت، قطرے سے سمندر، پیاسے سے کنواں بن گئے ہیں۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے، محبوب کی عطا ہے، شہ رگ کے پاس رہنے والے کی عنائت اور عرش پر مسکرانے والے کی وفا اور کرشمہ سازی ہے۔
من موہن نے روپ نکالا، اس پہ فدا گھر بار
لاگ لگی ہے، آگ لگی ہے، جینا ہے دشوار
رنگ شہابی، نین گلابی، مستانہ رفتار
سارا جگت ہے اس پر قربان اس پر جان نثار
تجھ پر اپنا تن من واروں پھونک دوں تجھ پر رین
بے کج ہوں دیوانی توری پیت گلے کا ہار
کس کا روپ بھرا ہے تم نے جوبن کس کا دھارا ہے
میں کیا تجھ سے عشق کروں بھگوان کو تجھ سے پیار
سایہ بن کر ساتھ رہوں گی تمرے سگن دن رات کروں گی
تورے پھبن پر ہونگی تڑپت اور چرن پر وار
تڑپت تڑپت عمر گجاری ہونے لگی اب شام
ایک نجریا تک لے مجھ کو سن لے حال زار
جیسے جلے ہے بن کی لکڑی، ایسے جلتی جاؤں
جان چلی ہے بن کر آنسو، تھام لے اے غمخوار
علامہ اقبال ایک موقع پر فرماتے ہیں :
سالہا در کعبہ و بتخانہ می نالہ حیات
تابہ بزم نازیک صاحب نظر پیدا شود
زندگی کعبہ و بت خانے میں صدیوں نالہ کناں رہتی اور دعائیں مانگتی ہے تب کہیں بزم ناز میں کوئی صاحب نظر پیدا ہوتا ہے)۔
اللہ کے اس ولی کی آنکھیں چہروں کے پیچھے چھپی منافقت کو پہچان جاتی ہیں۔ یہ ولی صرف سچی، پاک صاف اور پھولوں سے دھلی سوچ کے قائل ہیں۔ ان کی انقلابیت، محنت، مشقت اور ریاضت ایسے مرحلے میں پہنچ چکی ہے جہاں دکھ سکھ خوشی، غمی اور پچھتاوے جیسی کیفیات کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کی بہت سی منزلیں طے کرچکے ہیں۔ اللہ ان کو عمر خضر عطا کرے۔ ابھی کئی منزلیں طے کرنا باقی ہیں۔ ان شاء اللہ، لیکن آپ کا Glorious Goal مصطفوی انقلاب ہے۔ آپ کے سامنے Great Pakistan کا خوبصورت تصور مسکرا رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے صرف عمل کی ضرورت ہے۔
حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک انسان نہیں بلکہ انسان ساز کی روداد ہیں۔ وہ تنہا دریا ہے جس میں حرکت ہے، روانی ہے، کشمکش ہے، موج و حباب ہیں سپیاں، موتی ہیں۔ جس کے پانی سے مردہ کھیتوں کو مسلسل زندگیاں مل رہی ہیں۔ اس دریا سے رمز آشنا ہونے کے لئے اس کے ساتھ مسلسل وہاں رہنا پڑتا ہے۔
میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتی ہوں
یہ موج رنگ زمیں پر کہاں سے اتری ہے
قدرت نے بنجر دلوں کی کھیتیوں کو سر سبز و شاداب اور سیراب کرنے کے لئے حضور شیخ الاسلام کو منصب خلق پر جلوہ گر فرمایا۔ قائد انقلاب اپنی شخصیت کے لحاظ سے ہمہ جہت ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن ہے اور ہر گوشہ نمونہ کمال بھی ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی، آخرت ہے تو دنیا بھی، عبادت خداوندی ہے تو اس کے بندوں سے محبت و شفقت بھی۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے تو ازدواجی زندگی کا حال بھی نہایت خوبصورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالم کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی۔
امت مسلمہ کا فرزند جلیل
ارض پاکستان کا رجل عظیم
مرد مومن حضرت اقبال کا
جس کو اللہ نے دیا قلب سلیم
کربلائے عصر حاضر کا حسین
سنگ باطل کے لئے ضرب کلیم
آسمان علم کا ماہ منیر
کاروان فکر کا مرد زعیم
پیکر علم و عمل فکر ونظر
صاحب عین یقین عزم صمیم
مستنیر فیض غوثیت مآب
نور عشق مصطفیٰ کا ہے قسیم
آشنائے دانش عصر جدید
وارث فیض نیاگان قدیم
ظلمت تشکیک میں نور یقین
وہ سراپا نعمت رب کریم
پیکر امت کے زخموں کا طبیب
وہ فساد قلب مسلم کا حکیم
ظلمتوں میں وہ کرن امید کی
اور خزاں میں موج باد نسیم
دلنواز و مہربان و درد مند
سب پہ اس کا سایہ لطف عمیم
حق شناس و حق بیان و حق نگر
رہبر منہاج قرآن حکیم
حضور شیخ الاسلام کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جو کربلاؤں کا مسافر، دل و جان کا تاجر، عالم و قائد و شاعر، شرع و سنت کا مظہر، نبض حالات کا ماہر، شہر ستم گراں میں اک سہارا، کرب و ہجوم میں اک دلاسا، خوشبو بھری بہارکا اک جھونکا، بلبل عشق کے لہجے میں چمکنے والے قلب کی زندگی، علم کی روشنی، نعمت ایزدی، مرد کامل ولی، اک مہکتی تازہ کلی، شباب جس کا ہے بے داغ، خوشی کے سراغ جیسا، حجاب شب میں چراغ جیسا۔
ہر پھول میں اس کو دیکھا ہے ہر چیز میں اس کو پایا ہے
سورج بھی وہی، چاند بھی وہی، ہم کو ستارا لگتا ہے
نابغہ عصر، عصر رواں میں نقیب عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شب ظلمت میں روشنی کا راستہ، سچ کی خوشبو میں بسا ہوا، جذب دل بن کر روح میں سمایا ہوا، وجدان کے سمندر میں ہلچل مچاتا ہوا، بن کے حق کی اذاں دنیا پہ چھایا ہوا، آسمان دین پہ ستارا جگمگاتا ہوا، نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز، گفتار میں، کردار میں ہے اللہ کی برہان، پیکر فراست و استقامت، خوابوں کی تعبیر، روشنی کا سفیر، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر، محبتوں کی تفسیر، طاغوتی طاقتوں پر چلنے والی وہ شمشیر، نوید سحر کی روشن تقدیر، آرزوؤں کا مان، دعاؤں کی تاثیر، داعی اتحاد، سالار کاروان مصطفوی، فیضان خلق عظیم، مفکر اسلام، مفسر قرآن، عظیم قانون دان، دانش عہد حاضر، پیکر شفقت و محبت، خزاں رسیدہ چمن میں نوید بہار، روح عصر رواں، اہل دل کی زباں، قوم کا ترجمان، بتکدے میں ازاں، قدیم و جدید کا مجمع البحرین، تصنیف و تحقیق کا عہد زر نگار، فن خطابت کا در شہسوار، تعلیمی انقلاب کا روح رواں، داعی امن، تقویٰ و طہارت سے مزین، اخلاق حسنہ کا بہترین نمونہ، پیکر ایثار و قربانی، معرفت الہٰی کا سمندر، دور اندیش، حب اہل بیت میں غوطہ زن، شخصی وجاہت کا مالک، مدبر، روحانی پیشوا، کمال فصاحت و بلاغت، استقامت کا پہاڑ، اللہ کے یہی ولی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ کسی عاشق نے کیا خوب کہا ہے کہ
کیا خوب ہوا مجھ سے دھوکہ یہ پیار میں
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا خدا مجھ کو مل گیا
اور کہنے دیجئے
تو پلاتا رہے روح جلاتا رہے
مصطفیٰ کو اَحَد سے ملاتا رہے
کتنا تو مہرباں ہوسکے نہ بیاں
نام تیرے کے قابل نہ میری زباں
اے ہمارے قائد! تو ہر دور کی، ہر عہد کی، ہر انسان کی، ہر رشتے کی اور ہر جذبے کی ضرورت ہے۔ اے ہمارے قائد! ہم تجھے چاہتے ہیں اور دعا ہے کہ یہ چاہتوں کا سفر جاری رہے کہ چاہتیں کبھی نہیں تھکیں۔ یہ تو ہم جیسے چاہنے والے ہیں جو تھک جاتے ہیں۔ جس روز چاہت اور چاہنے والے ایک ہوں گے وہ دن چاہتوں کی بقا کا دن ہوگا۔ خالق کا بھی یہی مقصود ہے جو اپنی تخلیق کی منطقی تکمیل کا تمنائی ہے۔ اپنی مخلوق کو بے پناہ چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ چاہتیں سفر طے کرتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ جہاں انسان اپنے خالق کو، خود اور اک دوسرے کو پہچان جائے اور پس یہی کہے ہمیں اب کوئی اور تمنا نہیں ہم تو بس (اے قائد) تجھے چاہتے ہیں۔
دیکھا جو تجھے اے جان ادا
پلکوں کو جھپکنا بھول گیا
تعریف تیری کیا ہو میں تو
الفاظ کو چننا بھول گیا
گالوں کی یہ سرخی تو دیکھو
شعلوں کو بھڑکنا بھول گیا
آنکھوں کے سہانے جادو سے
گرتوں کو سنبھلنا بھول گیا
سانچے میں ڈھلا یہ جسم حسیں
کندن کو دمکنا بھول گیا
خوشبوئے بدن کچھ ایسی ہے
پھولوں کو مہکنا بھول گیا
انداز نرالے شوخی بھرے
پارے کو مچلنا بھول گیا
ہونٹوں کے سریلے سرسن کر
کوئل کو چہکنا بھول گیا
یہ مخمور جوانی توبہ شکن
رندوں کو بہکنا بھول گیا
روشن جو ہوئی یہ شمع حسیں
سورج کو چمکنا بھول گیا
اللہ رے تیرا اعجاز نظر
زخمی کو تڑپنا بھول گیا
ساتھی جو ملا ہے ایسا حسیں
ہم کو تو بھٹکنا بھول گیا
تحریکی ماؤں بہنو اور بھائیو! حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ
آج نوجوانوں کی جوانیوں کی اصلاح و تربیت قرآنی انوار سے ہی کی جاسکتی ہے جبکہ زمانہ تیزی سے فحاشی، عریانیت اور مادیت کی طرف جارہا ہے اور طبیعتیں دن بدن اسلام کی حلاوتوں سے دورہورہی ہیں۔ یہ راہ تباہی اور بربادی کی راہ ہے۔ اس کا مزہ چند لمحوں کا ہے، چند سالوں کی لذت کی خاطر قیامت تک کی زندگی تباہ کرنے کا سودا گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ آخرت کا آرام تو دنیا کے آرام کو لٹانے پر منحصر ہے۔ ہمیں اپنے جسم، دل، روح اور باطن کو توحید آشنا بنانا ہوگا۔ یہی توحید ہمارے قول کو صداقت و ثقاہت عطا کرے گی۔ جب رب کو یاد کرنے بیٹھو تو ہر ایک شے سے کٹ کر اسی سے جڑ جاؤ کہ جسم یہاں ہو روح وہاں ہو۔ تعلق باللہ میں یہ رسوخ اور فنائیت سوائے جذبہ محبت کے میسر نہیں آتی۔
حضور قائد انقلاب وہ ولی اللہ ہیں جو محبت کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ مولویوں کی طرح گناہگاروں کو دھتکارتے نہیں ہیں۔ خواجہ اجمیر کے پاس ہندو بھی آئے تو کچھ نہیں کہتے تھے، وہ گناہ سے نفرت کرتے تھے گناہگاروں سے نہیں۔ قبلہ حضور شیخ الاسلام وہ مثل طبیب ہیں جو مریض سے نفرت نہیں کرتے بلکہ مرض کو دور کرتے ہیں۔ آپ کی دعوت کا عمل خیر خواہی اور جذبہ محبت سے پُر ہے۔ دلوں کی زمین کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو آپ اس پر اپنی تاثیر ضرور چھوڑتے ہیں۔ آپ وہ عاشق ہیں جو خود بھی اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی راہ میں دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں کہ کہیں دل کسی غیر سے نہ لگالیں جب دوستی کا دعویٰ اللہ سے ہو تو دل کا غیر سے لگانا کہاں جائز ہوسکتا ہے اور آپ کی زندگی اس امر کی گواہ ہے۔ غریبوں پر احسان و ایثار آپ کا شیوہ ہے۔ ہر لمحہ اللہ کی اطاعت میں رہتے ہیں۔ اپنے رب کے لئے صبر کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اصل توحید یہ ہے کہ من و روح اور قلب کی گہرائیوں اور انگ انگ سے یہ آواز نکلے کہ میرا رب اللہ ہے۔ من کے تار بولیں ہمارا رب اللہ ہے، سازو سوز زندگی چھڑ جائے اور توحید بندے کے قلب و باطن کی کیفیت بن جائے۔ نور توحید اندر روح میں جائے تو توحید ایک نور بن جاتی ہے اور اندر جھانکنے سے وہ نظر آتا ہے جو توحید بندے کو ماسوا اللہ سے مستغنی کردیتی ہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
آپ کے اخلاق، معاملات اور زندگی کا ہر جزو ربنا اللّٰہ پکارتا ہے۔ آپ اس عظیم تحریک منہاج القرآن کے عظیم بانی ہیں جو تجدید و احیاء اسلام کے لئے کام کررہی ہے۔ علمی، فکری، معاشی، سیاسی، ثقافتی، سماجی سطح پر ایک جاندار تحریک ہے۔ جس میں اسلامی تہذیب کا مستقبل ہے اور جس سے ایمان و عمل کو تقویت و تجدید مل رہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے قیام کا اولین مقصد و فریضہ دعوت الی الخیر ہے۔ دوسرا مقصد و فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دینا ہے۔ تیسرا مقصد اور فریضہ وحدت امت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ کئی تربیت گاہیں ملک بھر میں قائم کرنے کا پروگرام قائد انقلاب کے پیش نظر ہے تاکہ مسلمانوں کے روحانی احوال کی بازیابی اور قلبی و باطنی کیفیات کی بحالی کے ذریعے پھر انہیں پیکران صدق و صفا بنایا جاسکے۔
ہم کیسے کہیں کیا کیا انعامات کرے ہے
من موہ کے بہارن کا کرامات کرے ہے
ہنس ہنس کے نبھاوت ہے وہ تو اپنے پرائے
سنسار بھلے اس سے رکھاوات کرے ہے
ہر من میں جگاوت وہ بس پیار ہے بلما کا
بیلے میں بہارن کے پیامات کرے ہے
ہو اہل نجر تو ہی سمجھے نا نجر اس کی
اس شہر خرابت میں کیا بات کرے ہے
ہوگیاں نہ کیوں ہم کو ساجن کے مقامن کا
رب جس کی ولایت کے اعلانات کرے ہے
Pr. Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri is a luminous star, known all over the world. He
is accepted as one of the highest authorities in the world of Islam. In a growing
international atmosphere of an anti Islamism, political conflicts between western
and muslim countries, he is the one who can bridge this gap. He is supposed to refill
the hollow, pale gloomy disappointed hearts with hope, justice, brotherhood, love,
tolerance and fairness. He is able of vast characteristics of personality. His life
is a reflection of peace and harmony and his un-compromising struggle makes him
valueable personality. When we say this personality is like a cool breeze the gardens,
It is not a poetic reference but a fact which is validated by practical expample
from his character. He gave the permission to the Christions to enter mosque for
their religious services at centeral secretariat of Minhaj-ul-Quran International
and opened doors of acceptance for everyone, who comes with fair intentions to join
him in great mission of revival.
"2000 Millennium Medal of Honour, Key of Success Leader of Religion".
International Man of the year 1997-98 and so many other awards are given to him
for his contribution to the society and mankind. He is a man of global repute.
A
man of great wisdom.
He has authored about four hundred books in Urdu, English and
Arabic. Where as he
has delivered lectures on more than 6000 topics, related to Quran, Sunnah, seerah,
Islamic history, morality, spiritualism, phylosophy, law, politics, economics, banking,
leadership and management etc.
ہر اک نماز میں ہم مانگتے ہیں خیر تری
خمار صدق سے لبریز مدعا کی طرح
تری قسم تجھے شامل خیال کرتے ہیں
ہر ابتداء میں مگر حرف انتہا کی طرح
دل و زباں پہ دمکتا ہے تیرے نام کا نقش
ہوائے صبح میں بھیگی ہوئی دعا کی طرح
ترے وجود کے قائل بھی ہم ہیں سائل بھی
شب سیاہ میں ستاروں کے ہم نوا کی طرح
نہ پوچھ کتنے زمانوں سے تجھ کو ڈھونڈتے ہیں
کبھی چراغ کی صورت کبھی ہوا کی طرح
خطا معاف نقابیں رخ حسیں سے اٹھا
خدا کے واسطے ہم سے نہ چھپ خدا کی طرح
اور کیا کہوں اس ذات کے لئے کہ
پی ہے میرا میں پیا کی سن ری سجنی
باتیں کروں میں اپنے جیا کی بن کے ملنگنی
اس کے در پہ جاکے بجھاؤں اپنے من کی آگنی
بن دیکھے موہے چین نہ آئے موراجی گھبرائے
پی کے در کے پیڑوں کے ہیں کتنے ٹھنڈے سائے
چلو ری اولیا پی کے دربار
آخر میں اتنا کہوں گی کہ قائد انقلاب اپنی زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ
آؤ اک نیا نظام قائم کریں
چلن محبتوں کے جہاں دائم کریں
تمام پتھر دلوں کو ہم مل کر
مخمل سے بڑھ کر ملائم کریں
گر وفا جرم ہے تو آؤ لوگو
مسلسل ایسے ہی پیارے جرائم کریں
آؤ پتھروں کی اس دنیا میں
ریشم کی ایک بستی قائم کریں
نکل کے دیکھو باہر اپنی کنڈلیوں سے
پیچ رہے گا زندگی میں نہ کوئی الجھاؤ
نا پھیلو کہیں تم اس قدر بھی
سمٹ کے پھر خود میں ہی نہ رہ جاؤ
کھوج میں اک دوسرے کی رہنے والو
اپنی اپنی ذات کے غاروں میں اتر جاؤ
مانا کہ ہیں قوتیں ان گنت شیطانی
مگر لب پہ اپنے تو بس ایک ہی اللہ ہو آئے
چراغ محبت یہاں پھر سے جلانے کے لئے
کوئی بلھا، کوئی وارث کوئی سلطان باہو آئے
یہ سر نہ جھکے گا کسی جورو جفا کے آگے
چاہے فرعون بھی ہمارے جو رو برو آئے
ہر گام پر ملیں گے یوں تو گرانے والے
عظمت اسی میں ہے کہ تم گرتے کو تھام لو
عہدے، رتبے، جاہ و حشم سب وہم و گیان دنیا ہیں
پیار، محبت اور خدمت ہی یہاں ہمارا سرمایہ ہے