منازل سلوک وتصوف یعنی ’’رضائے الٰہی‘‘ کی تلاش میں سفر پر روانگی کے لئے ’’طہارت‘‘ شرط اول ہے، آفاق وانفس کے خالق ومالک کے انتہائی مصفّٰی ومزکیّٰ دربار میں حاضری کے لئے اعلیٰ درجہ کی ’’صفائے قلب، پاکئی نفس اور تصفیہ باطن لازم ہے، تلاش کا یہ سفر بہت کٹھن اور طویل ہوتا ہے، جیساکہ ازل سے ابد تک تمام کائنات، اسی تلاش میں مصروف نظرآتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اصطفاء کو نمونہ کمال (Model of perfection) بنا کر سفرزیست مومنین کے لئے آسان تر بنا دیا، اور اس عظیم سفر سلوک کو اتباع اور اطاعت نبی سے یوں مشروط کردیا کہ پہلے عزت وتعظیم اور محبت ونصرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکمیل ہو اور اس کے بعد رضائے الٰہی کی جستجو کے لئے سفر محبت واطاعت کا آغاز ہو۔
انس وجاں کے دعوی محبت الٰہی کو دیکھ کر قرآن حکیم کے سورہ آل عمران کی آیہ کریمہ نمبر 31 میں اللہ سبحانہ وتعالی نے محبت الٰہی کے باب میں فرمایا کہ ’’اے حبیب محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ فرما دیجئے! اگر تم اللہ جل شانہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو (تمام کیفیات وحالات میں میری اتباع کرو، اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کی جملہ مخلوق کے ساتھ اپنا سلوک اور کردار ایسا بناؤ، جیسا میرا ہے ) تو اللہ سبحانہ تم کو محبوب رکھے گا (اللہ تم سے محبت کرے گا) اور (اس محبت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ) اللہ سبحانہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ سبحانہ، تو بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘
اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں رسائی کا واحد ذریعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوش پا کی تلاش کو قرار دیا گیا، انبیاء کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے عالم ارواح میں ان کی ارواح مقدسہ کو روح اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت وعظمت کا درس دینے کے لئے ایک بہت عظیم الشان نورانی مجلس کے انعقاد کا فرمان جاری ہوا۔ یاد رہے کہ نور اول کی تخلیق کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ عالیہ میں ارواح انبیاء کی حاضری کا یہ پہلا اعزاز تھا، اس وقت نہ تو دنیا تھی اور نہ ہی موجودات عالم کا وجود تھا، اس ماورائے خیال نورانی مجلس کی کرسی پر اللہ جل شانہ وعم نوالہ خود میر مجلس ہوئے، کسی نوری وناری مخلوق کو مجلس میں شمولیت کی اجازت نہیں تھی، یہ ایک ایسی منفرد اور یکتا میٹنگ تھی، جس میں اللہ سبحانہ وتعالی کے ان برگزیدہ پیغمبروں، رسولوں اور نبیوں کی ارواح مقدسہ شامل تھیں جنہوں نے کرہ ارضی کی تخلیق کے بعد اپنے اپنے ملکوں اور زمانوں میں انسان کو راہ حق پر رہنے کی ہدایت دینی تھی، وہ انسان؛ جسے اپنی فرمانبرداری، سلوک اور تصوف کی وجہ سے نوری مخلوقات سے بھی افضل اور اشرف ہونا تھا، اور انہی میں سے بعض نافرمانوں کو اپنی سرکشی، غرور اور تکبر کی وجہ سے ناری مخلوق سے بھی زیادہ اسفل، شریر اور مفسد ہوجانا تھا، یہ ارواح انبیاء کی میثاق ازلی اور حلف برداری کی مجلس تھی، انبیاء نے دنیا میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کا کمیشن لینا تھا، یہ اعلیٰ ترین سند جس کے حامل کو اشرف المخلوقات کا سب سے بلند طبقہ عباد میں رکھنا مقصود تھا، طبقات العباد میں سب سے اعلیٰ اس طبقہ اشرافیہ کے فرائض منصبی کیا تھے۔ قرآن حکیم فرقان مجید کی سورہ آل عمران کی اکیاسی اور بیاسی آیات کریمہ میں اس کو ’’میثاق النبیین‘‘ کے اعلیٰ و ارفع نام سے پکارا گیا ہے۔ ان شاء اللہ دروس سلوک وتصوف میں اس عظیم الشان مجلس اور انبیاء کرام کی حلف برداری بارے مناسب مقام پر تفصیلی گفتگو کریں گے کہ یہی وہ محفل تھی کہ جس میں اللہ تعالی جل شانہ اور روح اول کی معرفت کے اسرار ورموز کا پہلا درس سلوک وتصوف دیا گیا تھا اور یہی درس انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں اور جنات میں اعلیٰ ترین طبقہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ان کے بعد تابعین، تبع تابعین اور اولیاء و صالحین رحمہم اللہ تعالی اجمعین کو سینہ بہ سینہ منتقل ہونا تھا، اور جو آج بھی ہر وفادار اور ہر صاحب ایمان و ایقان مسلمان کے لئے معرفت الٰہی اور معرفت رسالت کی پہلی منزل ہے، بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ منشاء ربانی یہ ہے :
کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
سلسلہ دروس سلوک وتصوف میں ہمارا آج کا موضوع ’’ارض‘‘ ہے، جہاں روح اول نور مجسم حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے مسلمانوں کے لئے آفاق (COSMOS) کی طرح تلاش حق کے سفر میں ازل سے ابد تک ایک لامتناہی منزل کی طرف رواں دواں ہونے کی بجائے اپنی مختصر زندگی میں اس کی پشت پر معرفت الٰہی اور معرفت رسالت کے منازل سلوک وتصوف طے کرنے تھے، سلوک وتصوف کے درس نمبر 10 میں ہم نے ’’ارض‘‘ کے حوالے سے مختصر گفتگو کی تھی، اللہ تعالی جل شانہ نے اس کی تخلیق دو دنوں میں فرمائی اور چار دنوں میں اس کو نشوونما کی ان ارتقائی منازل سے گزارا جو محبت الہٰی اور وصال وجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محو سفر اربوں کھربوں کہکشاؤں میں سے کسی کہکشاں، ستارے، سیارے اور نیبولے کو عطا نہیں ہوئے۔
زمین (Planet Earth) کی تخلیق اور اس کی خاص اہمیت بارے انبیاء کرام علیہ التحیۃ والثناء عرفاء اور صلحاء نے اپنے اپنے ادوار میں اپنی امتوں کو آگاہ کیا، اور انسان کے فائدے اور منفعت کیلئے بطن زمین میں محفوظ خزانوں اور اللہ جل مجدہ کے اس خاص سلوک کا ذکر کیا جو اس ذات حق نے کائنات میں صرف زمین کے ساتھ رو ا رکھا، کیونکہ اسی زمین پر قیام کرنے والے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک انسانوں کے اندر رہنا تھا، مصلحین وقت نے ہمیشہ زمین پر رہنے والے لوگوں کو اسے مادرگیتی سمجھ کر اس کی حفاظت کی تلقین کی، آخر ی الہامی کتاب قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر زمین کے ساتھ روا رکھے گئے خاص سلوک کی طرف انسانوں کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاگیاہے۔ ’’ ارض وسما ء کی تخلیق اور اختلاف لیل ونہار میں عقل والوں کیلئے نشانیاں موجود ہیں۔‘‘ (آل عمران، 3 : 190)
ارض وسما ء کی تخلیق، اختلاف لیل ونہار، انسان کے فائدے کے لئے سمندروں میں تیرنے والی کشتیوں اور اس پانی میں جو اللہ سبحانہ وتعالی آسمان سے برساتاہے اور پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے (یعنی خشک ہوجانے کے بعد سرسبز و شاداب کرتا ہے) اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے اور ہواؤں کے بدلنے میں (کہ کبھی تیز اور کبھی آہستہ چلتی ہیں) اور بادلوں میں جو زمین اور آسمان کے درمیان اس کے تابع فرمان ہیں (ان سب چیزوں میں) بے شک عقلمندوں کے لئے (اللہ سبحانہ کی وحدانیت، رحمانیت اور قدرت وحکمت کی) بڑی نشانیاں ہیں۔
قرآن مجید کی سورہ روم کی آیہ نمبر 22 سے 27 میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’زمین وآسمان کی پیدائش اور تمہاری (بولنے والی) زبانوں اور تمہارے رنگوں کااختلاف اللہ کی نشانیاں ہیں۔ بے شک اس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند نشانیاں ہیں، اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات کے وقت اور دن کے وقت (قیلولہ کے لئے) سونا اور (اسی طرح) اس کا فضل (اپنی روزی) تلاش کرنا ہے، بیشک اس میں (بھی) سننے والوں کے لئے (نصیحت کو ماننے والوں کے لئے بڑی) نشانیاں ہیں۔‘‘
سورہ العنکبوت کی آیہ نمبر 200 میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ ’’اے نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! دنیائے انسانی کو حکم دے کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھے کہ خدا نے کس طرح آفرینش کی ابتدا کی۔‘‘
کائنات سے بالکل الگ یہ ’’ارض‘‘ عجیب و غریب دنیا، اللہ سبحانہ وتعالی کی ایک منفرد اور یکتائے روزگار تخلیق ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر انسان کو دفائن ارضیہ، معادن جبال اور سمندروں کی تہوں میں پنہاں خزانوں کی طرف متوجہ کر کے ان سے استفادہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سورہ فاطر کی آیہ نمبر 27۔ 28 میں اللہ جل شانہ زمین میں موجود خزینوں کا ذکر فرما کر ان کا علم (سائنس) حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے۔ ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ سبحانہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے ہم نے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کئے اور اسی طرح پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں والی گھاٹیاں ہیں، کوئی سفید، کوئی سرخ اور بہت سیاہ رنگ والی (گھاٹیاں) ہیں اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور چوپاؤں میں بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں، (لیکن ان سب کو دیکھ کر بھی جہالت کی وجہ سے ہر شخص اللہ سبحانہ کی عظمت و جلال اور قدرت صناعی سے متاثر نہیں ہوتا) اللہ سبحانہ وتعالی سے تو اس کے بندوں میں سے (صاحب بصیرت) علم والے ہی ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالی غالب اور بخشنے والا ہے (یقیناً اس ذات یکتا کو غلبہ بھی حاصل ہے، لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے)‘‘۔
اللہ تعالی جل مجدہ نے قرآن حکیم کی سورہ یوسف کی آیت نمبر 105 میں ان معرضین کا ذکر فرمایا ہے کہ جو ارض وسماء میں اللہ سبحانہ کی بے حدوشمار نشانیوں کو دیکھ کر بھی ان سے منہ پھیر کر گزر جاتے ہیں، اور سورہ اعراف کی آیہ نمبر 185 میں ان اعراض کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’کیا یہ لوگ آسمان و زمین کی تخلیق پر غور نہیں کرتے؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی موت (اجل) قریب آ گئی ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں سات سو چھپن (756) بارتخلیق ارض وسما میں غور و فکر اور اس کے مطالعہ کا ذکر آیا ہے، جبکہ عائلی اور دینی مسائل کے بارے میں ڈیڑھ سو (150) آیات کریمہ کا نزول ہوا ہے۔ مسلمانوں پر جس طرح ارکان اسلام اور اوامر ونواہی کی پابندی واجب ہے، اسی طرح معرفت الہٰی اور عظمت وجلال خداوندی کی حقیقت جاننے کے لئے مطالعہ کائنات کو بھی واجب قرار دیا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ دنیوی اور دنیاوی علوم وفنون کے بامقصد حصول کے لئے متعلقہ ماہرین علم وفن کی تخلیقات کا بغور مطالعہ ومشاہدہ لازمی و ابدی ہوتا ہے، اسی طرح زمین اور آسمانوں کے خالق کی اپنی تمام مخلوق بشمول ارضین وسموات کے ساتھ سلوک کو بخوبی سمجھنے اور اس سے مناسب استفادہ کرنے کے لئے کلام الٰہی کا بغور مطالعہ بھی ناگزیر ہے، آفاق والنفس کا مطالعہ درحقیقت اللہ سبحانہ کی بے حد وشمار نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ جب البقرہ کی آیہ نمبر 124 نازل ہوئی، جس کا ہم سلسلہ دروس وتصوف میں بار بار ذکر کر چکے ہیں، تو نبی محتشم سرکار ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر فرمایا کہ ’’آج رات مجھ پر ایک آیت اتاری ہے، جو اسے پڑھے اور اس پر خوب غور نہ کرے تو اس پر ہلاکت ہو، دوبارہ اور سہ بار ہلاکت ہو۔‘‘
مطالعہ آفاق والنفس کی بار بار تلقین کا مقصد اولیٰ یہ ہے، کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے کائنات، انسان اور اس کی بودو باش کے لئے زمین کے بنانے میں جو اعلیٰ ترین فضل وکرم اور حسن سلوک فرمایا ہے، انسان اسے دیکھ کر اپنا سرتسلیم پورے صفائے قلب سے خم کر کے اس ذات باری کے سامنے جھک جائے، اور ایمان وایقان کی پوری صداقت اور اخلاص کے ساتھ اللہ جل شانہ کو اپنا خالق ومالک ومعبود تسلیم کرے اور شرک سے مکمل گریز کے ساتھ فقط اسی کی اطاعت اور اس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی کرے، قرون اولیٰ کے مسلمان جب تک صدق نیت سے ایسا عمل کرتے رہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کو حکمرانی سے نوازا اور وہ ساری دنیا میں باعزت اور سربلند رہے، لیکن جیسے ہی انہوں نے بفحوائے حدیث بالا مطالعہ آفاق والنفس کو تج کر دنیا کی آلائشوں میں اپنے آپ کو ملوث کیا، اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض منصبی سے اعراض کیا، تو گویا اپنی موت کو دعو ت دی۔ بے عملی اور بدسلوکی کے باعث راندہ درگاہ ہوئے، نکبت وادبار اور افلاس ان کا مقدر بنا اور وہ مقہور اور مغلوب ہو کر جانوروں کی طرح پنجہ اغیار میں قید ہو کر رہ گئے، اور بجائے خیر الامم ہونے کے غلامی کی زنجیر میں جکڑ ے گئے، یہ سب قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ جو افراد، قبیلے اور قومیں اللہ تعالی کے حسن سلوک کی طرح مخلوق خدا کے ساتھ ویسا ہی سلوک نہیں کریں گی، اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے منہ پھیر کر اس کے بندوں کے حقوق کو پورا کرنے میں سستی، غفلت اور بے پرواہی اختیار کریں گی اور اپنے عمل وسلوک میں متصوف ہونے کی بجائے فقط مستصوف بن کر بے عملی اور بدسلوکی کا مظاہرہ کریں گی، ان کی ہستی معدوم ہو جائے گی۔