شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کا خصوصی (ٹیلیفونک) خطاب
ترتیب وتدوین : محمد حسین آزاد الازہری
مورخہ 2 مارچ 2008ء کو منہاج القرآن پارک مرکزی سیکرٹریٹ میں تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام ڈنمارک میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مزمت کے حوالے سے عظیم الشان ناموس رسالت کنونشن منعقد ہوا جس سے قائد تحریک شیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹر محمدطاہر القادری نے خصوصی ٹیلفونک خطاب فرمایا۔ اس کی نہایت اہمیت کے پیش نظر خلاصۃً نذر قارئین کیا جارہا ہے۔ (منجانب : ادارہ دختران اسلام )
دنیا بھر کی پوری تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیشہ اسلام پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں۔ اس وقت بدقسمتی یہ ہے کہ امت مسلمہ پرتفرقہ وانتشار، بزدلی اور کمزوری پیدا کرنے کے لئے بہت سے حملے ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک تو نظریاتی وثقافتی سطح پر شدید حملہ ہوا ہے۔ دوسرا اسلام کی تہذیب کو جڑوں سے کاٹنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تیسرا حملہ مختلف صورتوں میں شدومد کے ساتھ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تسلسل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ دشمن کا اس سے مقصد اسلام کو کمزور کرنا اور نقصان پہنچانا ہے، تاکہ آنے والے وقتوں میں اسلام ایک زندہ مذہب نہ رہے۔ مغربی دنیا کی معاشرتی وسیاسی زندگی یا عائلی وخاندانی زندگی پر قطعی طور پر مذہب کی چھاپ نہیں رہی ہے۔ ان کی ساری زندگی سیکولر ہو چکی ہے اور انہوں نے یہ کام بڑا وقت لگا کر کیا ہے۔ انہوں نے اپنیState اور Church الگ الگ کر دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں مذہب ایک رسمی اکائی کے طور پر رہ گیا ہے اور اس کا کوئی ردعمل زندگی کے کسی امر حتی کہ حلال وحرام تک بھی نہیں رہا۔
ان تمام حملوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اس مقام تک لایاجائے کہ اس کی کوئی وقعت نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ جب اس طرز پر حملے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں اس بات کا سو فیصد علم ہے کہ یہ لوگ کمزور ہیں اور دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ہم اس طرح مختلف محاذوں پر حملے کر کے ان کو کمزور کر دیں گے۔ اس کی مثال یوں آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر جسم میں کمزوری نہ ہو تو بخار اور جراثیم جسم میں داخل ہو کر اثرانداز نہیں ہو سکتے لیکن اگر جسم پہلے ہی سے بخار میں مبتلا ہو تو جراثیم آسانی سے جسم پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب سے ایٹمی ایمپائرکے ٹکڑے کئے گئے، تب سے انہوں نے ان حملوں کو زیادہ سخت اور جارحانہ کر دیاہے۔
جب آپ کمزور ہو تے ہیں تو اس وقت طریقہ اور ہوتا ہے اور اگر آپ طاقتور ہوں تو کوئی اور طریقہ ہوتاہے، کھیل میں بھی اگر آپ کمزور ہیں (جیسے فٹ بال میچ میں) تو آپ گول نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے دفاع کے لئے Back Side کو مضبوط کرتے ہیں، کرکٹ میں بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ اگر اپنے آپ کو کمزور فیل کرتے ہیں تو پھر بالنگ نہیں بلکہ بیٹنگ کرواتے ہیں، اسی طرح باکسنگ میں ہے یہ ایک Global Rule ہے۔ یہ آفاقی شعور اور آفاقی ضابطے ہیں جو زندگی گے ہر محاذ پر کارفرما ہوتے ہیں جب حالات بدقسمتی سے موافق نہ ہوں جیسے اب دشمن کو پتہ ہے کہ ہم کمزور ہیں اور کمزور آدمی شور شرابہ ہی کرتاہے، وہ ردعمل میں جو کچھ بھی کرے گا دشمن اس کو دہشت گرد ہی کہیں گے، ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں بھی ہوئے مگر اس کا جواب خود اللہ تعالی نے دیا اور فرمایا۔
وَاللّٰهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.
(المائده، 5 : 67)
’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)
دشمنان اسلام نے پورے دین پر حملے کی انتہا کر دی مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پورے تیرہ برس میں صبر کی تلقین فرمائی۔ جہاد کے احکام مکی زندگی میں نازل نہیں ہوئے اس لئے کہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اور ابھی اس اقدام کا وقت نہیں آیا تھا۔ تین برس تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا معاشرتی مقاطعہ ہوا اور قید کیا گیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہر اپنی کو ششیں کر رہے تھے۔ جبکہ خاندان بنی ہاشم نے اندر صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا۔
علی ہذا القیاس طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لہولہان کر دیا۔ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو آپ ہجرت فرما گئے۔ لہذا آج بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہمارے پاس احتجاج اور جنگی محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے وہ طاقت دستیاب نہیں ہوتی تو ظاہری طور پر آپ کا میاب نہیں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کسی کی دانش نہیں ہے۔ اللہ کی غیرت، محبوب کے تحفظ میں ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو حکم دے دیتا اور معجزات کی صورت میں یا اپنے طور پر تدبیر فرما دیتا مگر یہ طریق امت مسلمہ کے لئے قابل عمل نہ رہ سکتا تھا۔ معجزات کا ظہور انبیاء علیہم السلام کی سنت رہی ہے۔ اب امت تو پتھروں کی بارش نہیں کروا سکتی، لہذا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو امت کے لئے قیامت تک اسوہ بنانا ہے تو اس صورتحال میں اللہ تعالی نے اپنے ضابطہ قدرت کو بدل دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیات طیبہ کے لئے وہ اسلوب دیا جو پہلے انبیاء علیہم السلام کے اسلوب سے ہٹ کر تھا۔ اللہ تعالی نے یہ Struggle معجزاتی طریقے سے نہیں بلکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انسانی اسوہ کے ذریعے کروائی۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کو خطرہ لاحق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھا لیا مگر ان حالات میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اوپر نہیں اٹھایا گیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کروا دی گئی۔ پوری حیات طیبہ میں Defend حکمت کے ساتھ ایک Natural Process کے تحت ہوا۔ پورا عرصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کی بجائے معاہدہ امن کو ترجیح دی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے تو مدنی زندگی میں پورے دس سال تک ان کی توانائی کو محفوظ رکھا۔ دفاعی جنگیں بھی ناگزیر ہوئیں تو لڑی گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام غالب آ گیا۔ صلح حدیبیہ 6ھ میں ہوئی۔ اس وقت تک ابھی احکام جہاد نازل نہیں ہوئے تھے۔ مکی دور کے تیرہ سال اور مدنی زندگی کے چھ سال یعنی 19 سال تک احکام جہاد کے بغیر مسلمان اپنا Defend کرتے رہے صرف آخری تین، چار سال کا عرصہ ہے جس میں احکام جہاد پر عمل رہا۔
آج ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنونشن کے موقع پر پیغام دینا چاہتا ہوں، زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ نشیب وفراز آتے رہتے ہیں۔ سورج کبھی مشرق کی طرف جاتا نظر آتا ہے کبھی مغرب کی طرف، یہ انسانی زندگی کے بالکل مطابق ہے۔ آپ نے ہزار سال کامیابی اور عروج سے گزارے ہیں۔ اب امت مسلمہ کی آزمائش ہے۔ ان حملوںکے صرف دو مقصد ہیں۔
- ان حملوں کے نتیجے میں مسلمان خوفزدہ ہو جائیں، بزدل ہو جائیں اور ہمارا کہنا مان لیں، گویا ان کی وقعت ختم کر دی جائے۔
- اگر وہ کہنا نہیں مانتے تو جواب میں احتجاج کریں جب یہ احتجاج کریں گے، جلاؤ گھراؤ کریں گے تو ہم انہیں دہشت گرد بنائیں گے۔
اس گھناؤنی سازش کے مقابلے میں اگر امت میں Integrity اور Solidarity آ جائے تو امت مضبوط ہو جائے گی۔ ان تمام معاملات میں ہمیں دانش محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کام لینا ہو گا۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے سے کہیں زیادہ دھوم دھام سے منائیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستگی، تمسک، غیرت وحمیت اور اپنی افرادی قوت کو بڑھائیں۔ یہ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنیادی طریق ہے۔ ہمارا اسلوب وہ ہے جو آقاعلیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عطا فرمایا ہے۔ وہ نہیں ہے جس سے پوری امت مشکل میں گرفتار ہو جائے۔ ربیع الاول کے مبارک مہینے میں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھرپور طریقے سے منائیں تاکہ جتنا یہ لوگ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے دلوں سے کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اتنی ہی الفت و محبت اور جوش وجذبہ مزید بڑھے۔ اس دفعہ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حمیت وغیرت کے جذبے سے سرشار ہو کر منائیں۔
آج بارہ سال بعد یہ موقع دوبارہ آیا ہے کہ میں مینار پاکستان میں محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل نہ ہوسکوں گا۔ غالباً پہلی دفعہ ایسا 1996 ء میں ہوا تھا۔ مگر یہ موقع آپ کے لئے ایک غنیمت ہے، میری موجودگی میں تو لوگوں نے جان لیا ہے کہ یہ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور غیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک ہے۔ مگر آپ میری موجودگی کے بغیر تحریک کو اس مقام تک لے جائیں کہ دنیا دنگ رہ جائے، آپ کی مرکزی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے تحریک اور مشن کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ آپ بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن منا کے ثابت کریں کہ ہمارا یہ عظیم مصطفوی قافلہ مزید آگے بڑھے گا اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ کر رہے گا۔ ان لوگوں کے پاس گولی اور بندوق کا ہتھیار ہے جبکہ آپ کے پاس عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور غیرت وحمیت کا ہتھیار ہے۔ آگے بڑھیں اور میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہم میں محنت کریں تاکہ حسد وبغض سے دشمنوں کی صفوں میں صف ماتم بچھ جائے اور آپ کے قائد کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ میلاد مہم کو کامیاب بنائیں تاکہ اس رات خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی سے اس محفل پر نظریں جمائے رکھیں (ان شاء اللہ) اور ہو سکتا ہے کہ ایسے میں کوئی ایسا موقع آ جائے کہ میں بھی تمام طرح کی پابندیوں اور مصروفیات کو چھوڑ کر اس مبارک محفل میں شامل ہو جاؤں۔
بس آپ مرکز کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو مکمل کریں اور ہدایات پر عمل کر یں۔ اللہ تعالی آپ کو کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین