حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر11 آیت نمبر 18، 19 (سورۃ البقرہ)

تجوید

سوال: حلق میں کتنے مخارج ہیں؟ اور ان کے نام کیا ہیں؟

جواب: حلق میں کل تین مخرج ہیں اور حلق کا وہ حصہ جو چہرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اسے ادنیٰ حلق، درمیانے حصہ کو وسطِ حلق اور انتہائے حلق والے حصے کو اقصٰی حلق کہتے ہیں۔

سوال: حروفِ حلقی میں سے کون سا حرف کون سے مخرج سے ادا ہوتا ہے۔ حلق کی شکل بنا کر واضح کریں؟

جواب: حروفِ حلقی میں سے ’’ء، ھ‘‘ اقصیٰ حلق، ’’ع، ح‘‘ وسط حلق اور ’’غ، خ‘‘ ادنیٰ حلق سے ادا ہوتے ہیں

سوال: حروفِ حلقی (اظہار) کا حکم کیا ہے؟

جواب: حروفِ حلقی کا حکم یہ ہے کہ اگر ان کے ماقبل پر ’’غُنّہ‘‘ ہونا ہو تو یہ ’’غُنّہ‘‘ نہیں ہونے دیتے بلکہ وہاں پر اظہار ہوتا ہے اور بغیر ناک میں آواز لیجائے پڑھیں گے۔ اس لئے حروفِ حلقی (اظہار) کا حکم یہ ہے کہ یہ ’’مانِع غُنّہ‘‘ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ’’مِنْھُمْ‘‘ میں نون ساکن پر اخفاء (غُنَّہ) ہونا تھا مگر اس کے بعد آنے والے حرف ’’ھ‘‘ حرفِ حلقی نے اسے ’’غُنّہ‘‘ سے منع کردیا۔ اب یہاں پر صرف ’’اِظہار‘‘ ہوگا۔

لفظی و بامحاورہ ترجمہ

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَO

متن

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ

لفظی ترجمہ

بہرے گونگے اندھے پس وہ سب نہیں لوٹیں گے

عرفان القرآن

یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گےo

أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ

متن

أَوْ كَ صَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعْدٌ

لفظی ترجمہ

یا جیسے زوردار بارش سے آسمان اس میں تاریکیاں اور کڑک

عرفان القرآن

یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور کڑک

وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ

متن

وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَ هُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ

لفظی ترجمہ

اور چمک ٹھونس لیتے ہیں انگلیاں اپنی میں اپنے کانوں سے گرج

عرفان القرآن

اور چمک ہے تو وہ گرج کے باعث اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔

حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَO

متن

حَذَرَ الْمَوْتِ وَ اللّهُ مُحِيطٌ بِ الْكَافِرِينَ

لفظی ترجمہ

ڈر سے موت کے اور اللہ گھیرنے والا ہے ساتھ کافروں کو

عرفان القرآن

موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

تفسیر

صُمٌّ بُكْمٌ۔ ۔ ۔ الخ

یہ تمثیل قسم اول کے ان منافقین کی ہے جو خوب دل کھول کر منافقانہ اور کافرانہ کاروائیاں کرتے تھے، نہ ان کی زبان حق کے لئے طاقت گویائی رکھتی تھی، نہ کان قوت شنوائی اور نہ آنکھیں قوت بینائی یعنی نہ حق کی بات کہتے سنتے اور نہ ہی دل کی آنکھ سے حق دیکھتے تھے۔ (تفسیر جلالین)

أَوْ كَصَيِّبٍ۔ ۔ ۔ الخ

اس آیت میں کئی چیزوں کا ذکر آیا ہے، بار، ش اندھیرے، بادل کی کڑک، بجلی کی روشنی اور ایسے حالات میں سفر کر نے والاشخص جب تک ان تشبیہات کا تعین نہ کرے مثال کا حسن نکھر کر سامنے نہیں آتا۔ بارش سے مراد اسلام، اندھیروں اور بارش کی کڑک سے مراد وہ مصائب وتکالیف جنہوں نے چاروں طرف سے اسلام کو گھیر لیا تھا اور بجلی کی روشنی سے مراد وہ فتوحات ہیں جو نامساعد حالات میں مسلمانوں کو ہوتی رہیںجس طرح بارش مردہ زمین کو نئی زندگی بخش دیتی ہے‘ اسی طرح اسلام مردہ دلوں کو نئی زندگی مرحمت فرماتا ہے جیسے بارش برستے وقت گھنگھور گھٹائیں چھاجاتی ہیں اور تاریکی پھیل جاتی ہے۔ بادل کی خوفناک گرج سے دل دہلنے لگتے ہیںاسی طرح اسلام کا مینہ برستے وقت کھلی عداوتوں او ر پوشیدہ سازشوںکا ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مصیبتوں کے بادل گرجنے لگے، جو سچے دل سے ایمان لا چکے تھے وہ ڈانواں ڈول تھے، وہ اسلام کے حیات بخش چھینٹوں سے سیراب بھی ہونا چاہتے تھے لیکن مصائب کی تاریک گھٹائیں دیکھ کر، مشکلات کی کڑک سن کر ان کے دل ڈوب جایا کرتے تھے اور اسلام کا دامن چھوڑنے میں ہی انہیں اپنی سلامتی نظر آتی تھی۔ یہ منافق دوسری قسم کی منافقت سے تعلق رکھتے تھے۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

منافقت کی ماحولیاتی مثال: اسلام کے ان پہلوؤں کو قبول کرنا جن میںقربانیاں اور پریشانیاں نہ ہوں مگر راہ حق کے مصائب ومشکلات سے کترانا جان بچانا اور گھبرا کر پیچھے ہٹ جانا، منافقت کی علامات میں سے ہے۔ ہمیں اسی پیمانے پر اپنے قلب وباطن کو پرکھنا چاہیے۔ (تفسیر منہاج القرآن)

گرائمر : کلمات استفہام

استفہام کا معنی پوچھنا اور سمجھنا ہے اور اصطلاح میں اس سے مراد وہ کلمات ہیں جن کے ذریعہ کسی چیز کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ ایسے کلمات کچھ حروف میں سے ہیں اور کچھ اسماء میں سے ہیں۔

(الف) حروف استفہام :

یہ دو ہیں۔

  1. ہمزہ
  2. ھَل

جیسے أَ أَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ (کیا تو نے یہ کیا ہے) هَلْ عِنْدَکَ کِتَابٌ؟ (کیا تیرے پاس کتاب ہے)

(ب) اسماء استفہام:

یہ بہت سے ہیں جیسے مَنْ، مَا، مَاذَا، أَيْ، اَيَّة، کَمْ، کَيْفَ، اَيْنَ، مَتٰی، اَيَّانَ، أَنّٰی، لِمَ اورکَاَينْ وغیرہ

  1. مَن (کون) یہ ذوی العقول کیلئے آتا ہے۔ جیسے مَنْ رَبُّکُمْ؟ ( تمہارا رب کون ہے)
  2. مَا (کیا)یہ غیر ذوی العقول کے لیے آتاہے جیسے مَا فِی يَدِکَ؟ (تیرے ہاتھ میں کیا ہے )
  3. مَاذَا (کیا) جیسے مَاذَا اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلاً ؟(ا للہ کا ارادہ کیا ہے اس مثال سے)
  4. أی (کس، کون) فَبِاَیِّ حَدِيْثٍ بَعْدَه يُؤْمِنُوْنَ (پس اس کے بعد کس چیز پر ایمان لائیں گے)
  5. اَيَّةٍ مونث کے لیے آتا ہے جیسے اَيَّةِ الإِمْرَأَةِ اَنْتِ؟ (تو کون عورت ہے)
  6. کَمْ (کتنے) قَالَ کَمْ لَبِثْتَ (اس نے پوچھا تو کتنی مدت ٹھہرارہا )
  7. کَيْفَ (کیسے) کیونکر، کس طرح ثُمَّ انْظُرُوْا کَيْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِيْنَ (پھر تم دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسے ہوا)
  8. اَيْنَ (کہاں، کدھر) جیسے يَقُوْلُ الِْانْسَانُ يَوْمَئِذٍ اَيْنَ الْمَفَر (اس دن انسان کہے گا کہاں ہے بھاگنے کی جگہ)
  9. مَتٰی (کب ) جیسے مَتیٰ نَصْرُ اللّٰهِ (اللہ کی مدد کب آئے گی)
  10. اَيَّانَ (کب) جیسے يَسْئَلُ اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيٰمَةِ (وہ پوچھتاہے قیامت کب آئے گی)
  11. اَنّٰی (کہاں۔ کیسے۔ کیونکر) قَالَ يَا مَرْيَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذَا (آپ نے کہااے مریم یہ (پھل) تیسرے پاس کہاں سے آئے)
  12. لِمَ (کیوں) جیسے لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ (تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم(خود) نہیں کرتے)
  13. کَاَيِّنْ (کتنے بہت) جیسے وَكَأَيِّن مِن دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ (العنکبوت۔ 60)

نوٹ: اَي اور اَيَّةٍ کے علاوہ تمام کلمات استفہام مبنی ہیں۔ ۔

دعا : نیند نہ آرہی ہو تو یہ دعا پڑھیں

َاللّٰهُمَ غَارَتِ النُّجُوْمَ وَهَدَئَتِ الْعُيُوْنَ وَأًنْتَ حَیٌّ قَيُومٌ لَاتَاخُذُکَ سِنَةٌ وَلَانَوْمٌ يَاحَيُ يَا قَيُوْمُ اِهْدِ لَيْلِيْ وَاَنِمْ عَيْنِی.

’’اے پر وردگار! تارے ڈوب گئے، چشموں پر سکون طاری ہوگیا اور تو تو زندہ ہے، سب کو زندگی دینے والا ہے، نہ تجھے اونگھ آتی ہے او ر نہ نیند، اے زندہ اور زندہ رکھنے والے! میری رات کو بھی پر سکون کردے اور میری آنکھوں کو نیند دے دے۔‘‘