قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے اجتماعیت کے ساتھ آزادی کی جو جنگ لڑی تھی اس کی کامیابی کو 60 برس ہوگئے۔ تحریک پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر قربانیاں دیں اور جدوجہد کے گراف کو اتنا بلند کردیا کہ انگریز اور ہندو کی چومکھی سازشوں کے باوجود قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ارض وطن کو دنیا کے نقشے پر ابھارنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کی بھی رتی برابر پرواہ نہ کی اور آزادی کے بعد وطن عزیز کی ڈگمگاتی کشتی کو سہارا دینے اور اسے غیروں کی سازشوں سے محفوظ بنانے میں مصروف رہے اسی جدوجہد میں انہوں نے اپنی جان دے دی۔ ان کا نام آج بھی 16 کروڑ پاکستانیوں کے دل میں انتہائی احترام اور اہمیت کا حامل ہے اور قیامت تک ان کا نام دنیا کے ایسے راہنماؤں کی فہرست میں اونچے مقام پر جگمگاتا رہے گا جنہوں نے قوم کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آزادی کی جنگ کو منزل تک پہنچایا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا پاکستان ان کی رحلت کے بعد سے آج تک سیاسی اور معاشی بحران کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ان کے بعد اسے سیاستدان بھی بہت ملے، فوجی جرنیل بھی بہت آئے، جج، بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس کی بھی کمی نہیں رہی مگر قیادت نہ مل سکی۔ اقتدار کی کھینچا تانی میں اداروں اور آئین کو متعدد مرتبہ پامال کیا گیا۔ نام نہاد سیاسی لیڈروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار میوزیکل چیئر کی طرح گھومتا رہا ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق اسے جی بھر کر لوٹا ہے مگر یہ آج بھی کرہ ارضی پر موجود ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور اس خطے میں موجود اولیاء کرام کا صدقہ ہے کہ اس کے ساتھ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی یہ دنیا کے نقشے پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 2008ء کا سورج طلوع ہونے سے قبل آج پاکستان کے سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اقتدار کی خاطر آئین اور اداروں کی حرمت کو پامال کرنے والے اور بارہا اقتدار کے مزے لوٹ کر اس ملک کے وسائل سے اپنی تجوریاں بھرنے والے ایک ہورہے ہیں۔ اقتدار کی خاطر ہر شے کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ عوام غربت کی چکی میں پس کر ہلکان ہوچکے مگر مفاہمت کے ذریعے سیاستدانوں کو بلاکر عزت کے اعلیٰ مقام دیئے جارہے ہیں۔ نام نہاد الیکشن کا اعلان ہوچکا منافقانہ اور استحصالی طرز انتخاب کے ذریعے پھر انہیں ہی منتخب کرلیا جائے گا جو عرصے سے لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو کچوکے لگانے والا ہر عمل روزانہ اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آزادی کی جدوجہد کے لئے جو قوم ملی تھی افسوس اب وہ قوم زبان، مسلک اور صوبوں کی شناخت کو اولیت دے کر اپنی اجتماعیت کو اپنے ہاتھوں دفن کرچکی۔ 16 کروڑ پاکستانیوں کا ہجوم ہے جسے مفاد پرست مقتدر طبقہ جدھر چاہتا ہے ہانکتے ہوئے لے جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان قیادت کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ عوام کسی مسیحا کے منتظر ہیں جو انہیں مسائل کی دلدل سے نجات دلاسکے اور یہ بات ایک عالمی حقیقت ہے کہ مسیحا آسمانوں سے نہیں اترا کرتے وہ اس قوم کے اندر موجود ہوتے ہیں اور ان کی جدوجہد بھی جاری ہوتی ہے ان کے کثیر پیروکار بھی موجود ہوتے ہیں اور حق کی راہ پر چلنے والا قافلہ دن بدن بڑھتا بھی رہتا ہے مگر مفاد پرست عناصر کے مکروفریب اور لوٹ مار کے کلچر میں عوام کی توجہ ان کی طرف مبذول نہیں ہوپاتی اور وہ اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ زندگی کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی ہمدردیاں بھی ہوتی ہیں اور معاشرے میں موجود باشعور، زیرک اور محب وطن لوگ ان کی جماعت اور تحریک کے ساتھ جوق در جوق وابستہ ہورہے ہوتے ہیں۔ ان کی تحریک کی جڑیں وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مختلف طبقوں کے اندر اتنی گہری ہوچکی ہوتی ہیں کہ جب مناسب وقت آجاتا ہے تو وہ ملک کو مسائل کی دلدل سے نجات دلانے کے لئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں وطن عزیز میں بھی ایسی قیادت موجود ہے جو تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اس قیادت نے اپنے کردار کے اجلے پن اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کم وقت میں پاکستان کی دھرتی پر ایسے مثبت اور تاریخی نقش کندہ کر دیئے ہیں جن کو مٹانا اب کسی طالع آزما کے بس کی بات نہیں اور وہ قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے جن کی منزل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ کٹھن ہے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو تو اپنی سیاسی جدوجہد کے لئے ایک قوم ملی تھی مگر اس نابغہ روزگار ہستی کو قوم کی بجائے منتشر گروہ ملا ہے جو مفاد پرست ٹولوں کے ہاتھوں ہمیشہ بے وقوف بن کر ایک سوراخ سے کئی بار خود کو ڈسوا چکا ہے۔ مسلکوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے عوام میں شیخ الاسلام کے ذمے سینکڑوں چیلنجز ہیں جنہیں وہ اکیلے ہی نمٹائے جارہے ہیں۔ تجدید و احیائے دین کے کام کے ساتھ ساتھ وہ عوام کے سیاسی شعور کی بیداری کا کام بھی انجام دے رہے ہیں۔ مادیت کی تباہ کاریوں کا شکار اس امت کو روحانیت کی منزل کی طرف بھی بلارہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا عزم و حوصلہ پہاڑوں سے زیادہ بلند اور اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کے سامنے سمندروں کی وسعتیں بھی کم ہیں اس لئے وہ اپنی منزل مراد تک ضرور پہنچیں گے اور وطن عزیز کو عالم اسلام کے ممالک میں وہ مقام حاصل ہوگا جو ہر پاکستانی کا خواب ہے۔