محترمہ صابرہ شاہ مرحومہ و مغفورہ
یہ 1990ء کے اوائل کی بات ہے۔ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام منعقدہ تین روزہ تربیتی کیمپ میں شرکت کے لئے اوکاڑہ سے اپنی تنظیم کے ساتھ شریک تھی۔ ہمارا قیام غزالی ہاسٹل میں تھا جو کمرہ ہمیں الاٹ کیا گیا تھا اس سے ملحقہ کمرے میں کچھ بہنیں کوہاٹ سے میری طرح کیمپ میں شرکت کے لئے آئی تھیں۔ ان بہنوں سے میری پہلی ملاقات دوپہر کے کھانے پر ہاسٹل کے میس میں ہوئی۔ دوران ملاقات ان میں سے جس شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ایک نہایت بارعب اور طرح دار خاتون تھیں جن کی رعب دار شخصیت کے پیش نظر اُن سے طویل گفتگو کرنا بھی مناسب نہ لگا۔ انہوں نے بتایا کہ میرا نام صابرہ شاہ ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کوہاٹ کی صدر ہوں اور کوہاٹ ڈگری کالج میں باٹنی کی لیکچرر کی حیثیت سے پڑھانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوں۔ یہ ایک چھوٹا سا تعارف تھا جو ان سے ہوا۔ بعد ازاں کیمپ کے اختتام پر ہم اپنے اپنے شہروں کو واپس ہوئیں۔
1992ء میں ماہنامہ دختران اسلام کے کسی ماہ کے شمارے میں خبر پڑھی کہ منہاج القرآن ویمن لیگ کوہاٹ کی صدر محترمہ صابرہ شاہ برین ہیمبرج کی وجہ سے اسلام آباد کمپلیکس میں زندگی اور موت کی حالت میں ہیں ان کے لئے دعائے صحت کی اپیل ہے۔ یہ خبر پڑھ کر از حد دکھ اور افسوس ہوا اور مجھے ان سے کی گئی وہ سہ روزہ کیمپ کی چھوٹی سی ملاقات یاد آگئی۔ دل سے دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ صابرہ باجی کو مصطفوی انقلاب کا سویرا دیکھنے تک ہمارے ساتھ شریک سفر رکھے۔ بہر حال بعد ازاں معلوم ہوا کہ آپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے صحت کاملہ کی نعمت سے نواز دیا اور اتنی بڑی بیماری ہے کہ جس سے بچ کر نکل آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ آپ صحت یاب ہوگئیں پھر جب میں 1994ء میں مرکز پر مستقل طور پر آگئی تو صابرہ باجی سے ملاقاتوں کا باقاعدہ سلسلہ چل نکلا۔ وہ صابرہ شاہ جو میں نے 1990ء میں دیکھی تھی اب کی صابرہ شاہ اس سے بالکل مختلف تھی۔ موجودہ صابرہ شاہ مست ملنگ مجذوبہ عشق الہٰی اور عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سرشار تھیں۔ وہ صابرہ شاہ جن کے رعب اور دبدبہ کی وجہ سے ان کے قریب جانا مشکل لگتا تھا۔ صابرہ باجی جب اللہ تعالیٰ کی محبت پر گفتگو کرتیں تو بخوبی محسوس ہوتا کہ ان کا اپنے رب کے ساتھ کوئی خاص تعلق یا رشتہ ہے۔ کئی مرتبہ وہ اللہ رب العزت سے لاڈ اور پیار میں لڑائیاں کرتیں۔ پہلی مرتبہ ملنے والے پر یہ چیز بڑی حیرت کن ہوتی مگر جو لوگ ان کے قریب تھے ان کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ ان کا اپنے رب حقیقی سے مان کا ایک انداز تھا اور اللہ تعالیٰ ان کا مان رکھتا بھی تھا۔
صابرہ باجی کے پاس بیٹھ کر کچھ لمحات گذارنے والے کو اللہ ضرور یاد آتا تھا۔ آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ پیار کا ایک والہانہ انداز تھا۔ کئی مرتبہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر آپ اللہ تعالیٰ سے باتیں شروع کردیتیں۔ آپ کی شخصیت کے بہت سے رنگ تھے۔ بچوں کے ساتھ آپ بہت محبت کرتی تھیں۔ جب بھی آپ ویمن لیگ کے مرکزی دفتر تشریف لاتیں تو وہاں موجود بہت سی بہنوں مثلاً راقمہ الحروف، محترمہ شاہدہ مغل ، محترمہ فریدہ سجاد، محترمہ شمیم خان کے بچے ہوتے۔ بچے اگر رو رہے ہوتے تو آپ کی گود میں آکر سوجاتے اور بہت سکون پاتے۔ آپ ہم بہنوں سے اکثر کہتیں کہ تم مشن کے کام میں اپنے ان معصوم بچوں کو بہت نظر انداز کرتی ہو۔ ان کو ٹائم دیا کرو۔ ان کی صحیح انداز میں تربیت ہی تمہارا حقیقی انقلاب ہے۔ آپ یہ بھی کہتیں کہ یہ سارے بچے پیدا ادھر اُدھر تمہارے پاس ہوگئے ہیں اصل میں یہ میرے ہی بچے ہیں۔
مشن کے ساتھ آپ کے تعلق کی کئی جہتیں تھیں۔ جن میں سے ایک مشن کے پیسے کا ضیاع آپ کی طبیعت کو دکھی اور بے چین کردیتا تھا۔ جب بھی آپ مرکز آتیں اور ویمن لیگ کے آفس میں کوئی فالتو لائٹ جلتے ہوئے دیکھتیں تو فوراً اس کو آف کرتیں اور ساتھ ہی ہم سب کو تنبیہ کرتیں کہ تم لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہے۔ یہ مشن کا پیسہ ہے۔ مشن کے پیسے کا درد آپ کے اندر بہت زیادہ تھا۔ آپ بطور تنظیمی مہمان ہمارے پاس آفس میں آتیں۔ آپ کو کھانا کھلانا ہماری آفیشل ڈیوٹی تھی لیکن آپ نے بہت کم دفتر سے کھانا کھایا ہوگا۔ اکثر آپ خود جاکر اپنے لئے اپنی رقم سے کھانا خرید کر لاتیں اورہمارے لئے بھی لے آتیں۔ آفس میں آکر وہ کھانا خود بھی کھاتیں اور ہمیں بھی کھلاتیں۔ ساتھ ساتھ ہمیں نصیحت بھی کرتی جاتیں کہ صاحبہ بن کر ان سیٹوں پر نہ بیٹھا کرو جو کام کرنا ہو نائب قاصد پر انحصار نہ کیا کرو خود کرلیا کرو۔ پھر اپنی مثال دیتی کہ دیکھو جیسے میں خود جاکر جلدی سے کھانا لے آئی ہوں ٹائم بھی بچ گیا ہے اور نائب قاصد کسی اور ضروری تنظیمی امور کے لیے فارغ ہوگیا۔ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ آپ کو حد درجہ محبت تھی۔ آپ حضور قائد محترم کو اپنا بھائی کہتیں۔ اگر کوئی آپ سے سوال کرتا کہ آپ ان کو اپنا بھائی کیوں کہتی ہیں تو اس پر آپ 1990ء کے اوائل کے ایک واقعہ کا ذکر کرتیں کہ قائد محترم کوہاٹ تشریف لائے تھے جہاں کوہاٹ ڈگری کالج فار ویمن میں ان کا خطاب تھا۔ وہ ایک نہایت کامیاب پروگرام تھا پروگرام کے اختتام پر حضور قائد محترم نے صابرہ باجی کو فرمایا تھا کہ صابرہ شاہ میری ایسی سگی بہن ہے جیسے ہم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ صابرہ باجی جب بھی یہ بات کرتیں ان کی آنکھوں میں حضور قائد محترم کے لئے والہانہ محبت اور عقیدت کے ہزاروں دیئے روشن ہوجاتے۔ ایک مرتبہ راقمہ اور صابرہ باجی حضور قائد محترم کے پاس ملاقات کے لئے گئیں۔ حضور قائد محترم نے صابرہ باجی کو اجرک کا تحفہ دیا اور اپنے ہاتھوں سے اجرک صابرہ باجی کے سر پر ڈال دی۔ صابرہ باجی پر ایک عجیب سی خوشی اور مستی طاری ہوگئی۔ وہاں سے رخصت ہونے کے بعد آپ ہمارے گھر آئیں تو کئی گھنٹے تک آپ اجرک اسی حالت میں پہن کر بیٹھی رہیں اور خوش ہوتی رہیں۔ صابرہ باجی کو تحریک منہاج القرآن کے لائف ممبرز بنانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ابتدا میں ایک عرصہ تک سب سے زیادہ لائف ممبر بنانے کا اعزاز آپ کو ہی حاصل رہا۔ آپ سے محبت رکھنے والے اگر اپنی کسی پریشانی، بیماری یا تکلیف کا تذکرہ آپ سے کرتے تو آپ ان کو اس پریشانی سے نکلنے کا حل یہ بتاتیں کہ تم تحریک منہاج القرآن کی لائف ممبر شپ اختیار کرلو یا لائف ممبر شپ اختیار کرنے کی منت مان لو تو تمہیں اللہ اس پریشانی سے نجات دے گا پھر ایسا ہی ہوتا کئی لوگوں کی پریشانیاں لائف ممبر شپ اختیار کرنے سے ختم ہوئیں۔ روحانیت کے سفر میں سالک کو جو تین مدارج پیش آتے ہیں اور ان مدارج کو طے کرنے میں ہی سالک کامیابی پاتا ہے وہ مدارج 1۔فنافی اللہ، 2۔فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ ہیں۔ میں نے صابرہ باجی کو ان تینوں مدارج میں کامیاب دیکھا۔ آپ قدوۃ الاولیاء سیدی و مرشدی حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ کی مریدہ تھیں۔ اس لحاظ سے آپ میری پیر بہن بھی تھیں۔ حضور پیر السید طاہرالگیلانی البغدادی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ محبت کا آپ کا ایک خاص انداز تھا آپ اکثر حضور پیر صاحب کے حوالے سے مجھے ایک بات بتاتی تھیں کہ حضور پیر صاحب نے فلاں موقع پر مجھے فرمایا تھا کہ جب کوئی پریشانی ہو تو آنکھیں بند کرکے تین بار میرے چہرے کا تصور کیا کرو اللہ تعالیٰ پریشانی ختم فرما دے گا۔ مجھے صابرہ باجی اکثر یہ بات سناتی اور کہتیں کہ تم بھی ایسا کیا کرو۔
حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے گھر آپ کراچی تشریف لے جاتیں تو کبھی وہاں برتن دھونا شروع کردیتی اور کبھی کوئی اور خدمت۔ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ بی بی جان آپ سے خصوصی شفقت فرماتیں۔ حضور پیر صاحب کے وصال کے بعد آپ کراچی گئیں اور محترمہ بی بی جان صاحبہ سے حضور پیر صاحب کے جوتے عنایت کرنے کی درخواست کی۔ آپ کی درخواست قبول کی گئی اور آپ کو حضور پیر صاحب کے جوتے بی بی جان صاحبہ نے عنائت کئے۔ اس نعمت کو پاکر آپ بڑی خوش تھیں۔ اکثر ان جوتوں کا تذکرہ کرتیں پھر آپ سے ہی مجھے پتہ چلا کہ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا تھا کہ جب بھی میرے مزار پر آئیں تو میری قبر کے سرہانے دائیں طرف بیٹھ کر سورۃ یٰسین شریف پڑھا کریں۔ صابرہ باجی کو ایک ملاقات میں حضور پیر صاحب کی اہلیہ نے یہ بات بتائی اور سورۃ یٰسین شریف پڑھنے کی تاکید فرمائی۔ صابرہ باجی نے یہ بات مجھے بتائی اور اس عمل کو برقرار رکھنے کی تاکید فرمائی۔ میں نے صابرہ باجی کو فنا فی الشیخ، فنافی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فنا فی اللہ کے مدارج میں سے حصہ پاتے ہوئے محسوس کیا۔ آپ کے ظاہر میں جیسی سادگی تھی ویسی ہی فقیری اور درویشی آپ کے باطن میں تھی۔ آپ ایم ایس سی لیکچرر اور تحریک منہاج القرآن ویمن لیگ صوبہ سرحد کی صوبائی صدر تھیں مگر آپ کا انداز انتہائی سادہ اور درویشانہ تھا۔ آپ کی طبیعت میں تصنّع، بناوٹ، نمودونمائش اور منافقت کا دور دور شائبہ نہ تھا۔ آپ کے ظاہر و باطن سے فقر جھلکتا تھا۔ منہاج القرآن کے ساتھ آپ کی محبت و وابستگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ اپنے آخری ایام میں کینسر کا شکار ہوئیں تو علاج کے لئے آپ شوکت خانم میموریل ہسپتال لاہور اکثر آیا کرتی تھیں اور وہاں بھی آپ نے اپنی Treatment کے دوران کینسر کی کئی مریضوں کو لائف ممبر بنایا۔
آپ کو اپنی زندگی میں دو خطرناک بیماریوں یعنی برین ہیمبرج اور کینسر نے گھیرا لیکن آپ نے ان کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا۔ آپ حقیقت میں اپنے نام کی مانند صابرہ تھیں۔ آخر میں آپ کے لئے بس اتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ آپ جیسے افراد تحریکوں کی زندگی میں ایک سرمایہ ہوتے ہیں۔ ایسا بے مایہ سرمایہ کہ جن کے صرف ظاہرو باطن کو دیکھ کر ہی اللہ سے محبت کرنے کو دل چاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بھینی بھینی خوشبو آئے۔ اپنے مرشد اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کے انمول موتی ان کی آنکھوں میں جھلملاتے دکھائی دیں۔