قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ۔ قربانی کا بحیثیت مجموعی عبادت کے مشروع ہونا اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ثابت ہے لیکن اس کی ایک خاص شان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور اسی یادگار کی حیثیت سے شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قربانی کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رات خواب میں اپنے فرزند کو اللہ کی راہ میں ذبح ہوتے دیکھا۔ انبیاء کے خواب چونکہ سچے ہوتے ہیں اس لئے آپ علیہ السلام نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ میری عزیز شے کی قربانی چاہتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو تمام واقعہ سنایا۔ بیٹے نے جواب دیا ابو جان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے بجا لایئے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پیارے بیٹے کو جنگل میں لے گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو زمین پر لٹاکر چھری چلائی لیکن چھری نے اللہ کے حکم کے مطابق حضرت اسماعیل کا ایک بال بیکا نہ کیا۔ بقول شاعر
مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا
کہ اسماعیل (ع) کا اک رونگٹا کٹنے نہ پایا
اس پورے واقعہ کو پڑھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ساری صورتحال میں اللہ عزوجل اپنے نبی اور اولاد نبی علیہما السلام کو آزمائش کی کسوٹی پر پرکھا ہے اور نبی بھی اس آزمائش پر پوار اترے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس خلیل اور مقبول رسول کے ان اعمال و افعال کو پسند فرمایا اور قیامت تک ان کی عظیم قربانی کو یادگار بنانے کے لئے اپنی محبوب عبادت قرار دے کر اپنے بندوں پر لازم کردیا اور فرمایا :
لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا.
(الحج، 22 : 67)
’’ہم نے ہر ایک امت کے لئے (احکام شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کردی ہے‘‘۔
(ترجمہ عرفان القرآن)
زندگی کا راز قربانی میں ہے
اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِي الْأَلْبَابِ.
(البقرہ 2 : 179)
’’اے اہل عقل قصاص میں ہی تمہارے لئے زندگی ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
یعنی اے عقل والو! اپنی جان کی بازی لگا دینے اور اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کردینے میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اللہ کی راہ میں مرنا سیکھو۔ جو قوم اللہ کی راہ میں مرنا نہیں سیکھتی اس کو دنیا میں باعزت طور پر چلنے کا کوئی حق نہیں۔
قربانی کے فضائل
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’یوم النحر (دسویں ذوالحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا، قربانی کا خون، زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرتا ہے لہذا اسے خوش دلی سے کرے‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ترمذی 3 : 159، رقم : 1493)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی 3، 170، رقم، 1507)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اگر مینڈھا ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تب بھی ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی‘‘۔ (ابن ماجہ، 3 : 533، رقم : 3127)
لیکن اسلامی تعلیمات پر رائے زنی کرتے ہوئے شیطانیت علم بردار تنظیمیں اس قربانی کو ’’دقیانوسیت‘‘ پیسے کا ضیاع قرار دیکر مسلمانوں سے اس روحانی محبت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ روشن خیال اور نام نہاد ترقی پسند یہ فیصلے کررہے ہیں کہ آیا اس عظیم قربانی کا ملکی اقتصادیات پر تو اثر نہیں پڑ رہا۔ قربانی کی یہی رقم قرض اتارو مہم میں دے دی جائے وغیرہ یوں اسلام کے فلسفہ قربانی پر اجتہادات باطلہ کی ضربیں لگاکراور قربانی کی خطیر رقم کو غیر ضروری قرار دیکر فلاحی کاموں اور فلاحی فنڈز میں جمع کرانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قوم کی فلاح و بہبود اس بات میں نہیں کہ قربانی کا پیسہ جمع کرکے ان کی نفسانی خواہشات کو پورا کیا جائے بلکہ قوم کی فلاح بہبود کا راز تو قربانی میں پوشیدہ ہے۔ قربانی کا مقصد آج کی اصطلاح میں گوشت کھانا یا کھلانا نہیں بلکہ قربانی اسلامی اصطلاح میں اللہ کے حکم کی لطافت و فرمانبرداری ہے۔ رب کریم کے حکم کی تعمیل ہے۔ یہ بات ماورائے عقل تو ہوسکتی ہے خلاف عقل ہر گز نہیں۔ اب عقل، عقل میں بھی فرق ہے۔ جس عقل کی یہاں بات ہورہی ہے وہ عقل سلیم ہے۔ عقل مکار، عیار نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ عقل سلیم کی سوچ وحی ربّانی ہوگی۔ عبادات شرعیہ کے لئے عقل کو کسوٹی نہ بنایا جائے بلکہ عقل سلیم کے لئے وحی ربّانی کو معیار یا کسوٹی بنایا جائے۔ وہ سوچ جو وحی ربّانی سے متصادم ہو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عقل عیار قرار دیا ہے اور جو سوچ غیر مشروط طور پر وحی ربانی کے آگے سراپا تسلیم و رضا بن جائے اسے وہ عشق سے تعبیر کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرود میں ڈالا جارہا تھا اس پر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے کہ محو تماشائے لب بام ابھی
قربانی کا مقصود
ذوالحجہ شریف کا مہینہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے قربانی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ یہ قربانی بلاشبہ سنت ابراہیمی ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسلام کی سر بلندی و احیائے دین و ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ بحال کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں، مال و دولت، اہل و عیال یہاں تک کہ اپنی جان بھی راہ حق میں لٹانے سے گریز نہ کریں۔
لیکن بدقسمتی سے ہم نے قربانی کی رسم کو تو اپنایا مگر اس کی اصل روح کو نہ سمجھ سکے۔ دراصل قربانی 10 ذی الحجہ کو جانور کی گردن پر چھری چلا کر خون بہادینے کا نام ہے۔ گوشت تقسیم کرنا بعد کا حکم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ.
(الحج 22 : 37)
’’ہر گز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)
گویا انسان 10 ذی الحجہ کو جانور کی قربانی دے کر ذبح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد تازہ کرتا ہے اور اس دن اللہ سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اے اللہ! جس طرح آج حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا فدیہ ادا کررہا ہوں اسی طرح اس خون کو گواہ بناکر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تیرے لئے، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تیرے دین کی سربلندی کے لئے مجھے جان بھی قربان کرنی پڑی تو کبھی بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اگر قربانی کے اندر یہ روح کارفرما نہ ہو تو قربانی رسم کے سوا کچھ نہیں۔
قربانی کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے وہ اخلاص، للہیت، ایثار، تقویٰ اور مجاہدانہ کردار کی تیاری کو یقینی بنانا ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ تقویٰ کے جذبات ہیں اور مقصد رضائے الہٰی ہے۔ قربانی اللہ کے دو پیارے پیغمبروں کے مقبول عمل کی یاد کو تازہ رکھنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے اگر ہمیں اپنی اولاد، والدین، وطن، غرض ہر عزیز اور قیمتی شے بھی قربان کرنی پڑے تو دریغ نہ کیا جائے۔
آج کے دور میں قربانی محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ ہر صاحب نصاب اور صاحب حیثیت پر قربانی واجب ہے مگر ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ عیدالاضحی پر ہزاروں روپے کے کپڑے، جوتے، بہترین طعام و انصرام تو کرتے ہیں مگر قربانی نہیں کرتے۔ گھر میں لاکھوں کا سامان، زیور، ہر چیز موجود ہونے کے باوجود بھی قربانی نہیں کی جاتی کہ حالات ٹھیک نہیں۔ اسی طرح نیا شادی شدہ جوڑا عموماً چار، پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی قربانی کے لئے چند ہزار نکالتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔
قربانی کس پر واجب ہے؟
جس مرد یا عورت میں درج ذیل شرائط شرط پائی جائیں اس پر قربانی واجب ہے۔
1۔ مسلمان ہونا
2۔ عاقل ہونا
3۔ بالغ ہونا
4۔ مقیم ہونا، 57 میل مسافت کے سفر میں نہ ہونا
5۔ حاجت اصلیہ (یعنی ضرورت کی چیزیں مثلاً مکان، لباس، استعمال کے برتن، سواری اوزار وغیرہ) کے علاوہ 52 تولے چاندی کی قیمت کی نقدی یا سامان تجارت یا کسی اور نصاب کا مالک ہونا۔ (بہار شریعت)
قربانی کے جانور کے اوصاف
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’موٹے تازہ اور عمدہ جانور قربانی کیا کرو کیونکہ یہ پل صراط پر تمہاری سواری کا کام دیں گے‘‘۔
(دیلمی، فردوس الاخبار، 1 : 119، رقم : 267)
قربانی کا جانور ہر عیب سے پاک ہو، عیب سے مراد وہ حصہ ہے جس کے کم ہونے یا نہ ہونے کے سبب جانور کی قیمت کم ہوجائے۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ جانور کے اندر کوئی نقص ہو تو قربانی نہیں ہوتی حالانکہ بیچنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ اس جانور قربانی نہیں ہوسکتی۔ مگر دین کو الگ کرکے دھوکہ و چالاکی سے جانور بیچ دیا جاتا ہے۔ عید سے چند ماہ قبل ہی قربانی کے جانوروں کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچ جاتی ہیں اور ایک متوسط گھرانے کے لئے اس جانور کو خریدنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم جانور بیچنے اور خریدنے والے دونوں مسلمان ہیں۔ سمجھ سے بالا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی قیمت بہت زیادہ کیوں کردی جاتی ہے؟ ہماری سوچ مادہ کے گرد ہی کیوں گھومتی ہے۔ عید کے اگلے دن جانور کی قیمت نارمل ہوجاتی ہے مگر ایک دن پہلے زیادہ کیوں؟ کیا ہم قربانی دینے والے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یا قیمت زیادہ کرکے قربانی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے؟ کیا ہم انجانے میں گناہ تو نہیں کررہے؟ کاش لاغر، کمزور اور نقص شدہ جانوروں کو فروخت کرتے وقت ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرے اور ہم دین کی بنیادوں کو قائم رکھیں۔
قربانی کے احکام ومسائل
شریعت اسلامی کے مطابق قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور دوست احباب کے لئے۔ تیسرا حصہ غرباء و مساکین کے لئے ہے۔ جن آبادیوں میں جمعہ و عیدین کی نماز جائز ہے وہاں عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کردی تو پھر اس کو دوبارہ کرنا ہوگی اور جہاں نماز جمعہ و عید نہیں پڑھی جاتی وہاں دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی ہوسکتی ہے اگر اس طرح پہلے روز کسی عذر شرعی کی وجہ سے نماز عید نہ پڑھی جاسکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔ (درمختار)
قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا اس طرح جائز ہے کہ مصلیٰ یا ڈول وغیرہ بنالیا جائے مگر فروخت کرکے پیسے اپنے لئے استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ صدقہ کردینا واجب ہے اور قربانی کی کھال کو صدقہ کی نیت کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔ قربانی کی کھال چونکہ قربانی کے جانور کا حصہ ہے۔ اس لئے اسے بھی قربان کرنا یعنی جس سے بلاعذر اپنا ذاتی مفاد وابستہ نہ ہو دے دینا چاہئے۔ مگر ہمارے ہاں شریعت اسلامیہ پر عمل نہیں کیا جاتا۔ فریزر میں مہینوں کا گوشت جمع کرلیا جاتا ہے اور ہم قربانی کے نام پر اپنے آپ سے دھوکہ کررہے ہوتے ہیں۔ جہاں تک جانور کی کھال کے متعلق موجودہ صورتحال ہے تو ہمارے ہاں عموماً کھال کو یا تو بیچ دیا جاتا ہے یا اس کھال کے عوض جانور کو ذبح کروایا جاتا ہے جو کہ غیر شرعی ہے۔ شرعی طریقہ یہ ہے کہ قربانی کی کھال کسی ٹرسٹ اور بہبود کے ادارے کو فری دے دی جائے تاکہ عوام کی فلاح پر وہ پیسہ لگایا جاسکے جیسے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا قیام عوام الناس کی فلاح کے لئے کیا گیا ہے جہاں مخیر افراد کی زکوۃ، عطیات اور قربانی کے جانوروں کی کھال کے ذریعے مدد کی جاتی۔
قربانی کا مسنون طریقہ
بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے خود ذبح کیا جائے۔ اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی صحیح العقیدہ مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے اور بوقت ذبح خود موجود ہو۔ ذبح کرنے والے کے لئے تکبیر ذبح (بسم اللہ، اللہ اکبر) کہنا لازمی ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم فرمایا جس کے ہاتھ پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں۔ سو قربانی کے لئے ایسا مینڈھا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ (رضی اللہ عنہا) چھری لاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اسے قبول فرما پھر اس کی قربانی کی۔ (صحیح مسلم، 3 : 1557، رقم : 1967)
آخر میں دختران اسلام کے لئے یہ پیغام ہے کہ عیدالاضحی مذہبی تہوار ہے جہاں ہمارے ہاں تہواروں پر خوشیاں منائی جاتی ہیں وہاں پر قرآن و سنت کی رو سے ہر خوشی خصوصاً عیدین کی خوشیوں میں تمام مسلمانوں کو شامل کرنا چاہئے کیونکہ یہ خوشی تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔ آیئے سوچیں کہ ہمیں عیدالاضحی کی خوشیوں میں دوسروں کو کیسے شامل کرنا ہے۔ اس کی بہترین و عمدہ مثال ذات کبریا ہے۔ ہماری خوشی مالی تعاون کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے کے گھر میں جاکر عید کی مبارکباد دینا بھی ہوسکتی ہے۔