اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی ذات وصفات کے اظہار کے لئے اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو تخلیق کیا اور پھر اس نور اول سے بے حد وشمار ایسی اربوں کھربوں سماوی اور ارضی مخلوق کو پیداکیا جس کا سلسلہ ازل سے شروع ہو کر ابد تک جاری رہے گا، یہ سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات حق کی معرفت کا سامان ہے، براہ راست مشاہدہ کرنے والی ذات فقط مخلوق اول کا نور واحدہے، جو کافی عرصہ حالت رتق میں رہا، پھرسلوک فتق کے بعد بفحوائے قرآن وحدیث جابر رضی اللہ عنہ اس انتہائی طاقتور وحدیت (Singularity) کو تقسیم کیاگیا تاکہ اس کے ذریعے کل کی معرفت ہو سکے۔ نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جیسے ہی اجرام فلکی جدا ہوتے ہیں، وہ خالق کل کی قوت تخلیق اور حاکمیت اعلیٰ کا ادراک کرتے ہی بلاپس وپیش فوراً اس حقیقت الحقائق کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لامتناہی (Infinite) کائنات میں سالک حق بن کر مقامات فنا اور اور بقا کی تلاش میں منازل سلوک طے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
حضرت انسان کو آفاق کی لامتناہی وسعتوں میں غیر معینہ عرصہ تک تلاش حق کے سفر میں سرگرداں رہنے کی بجائے انفس کی وادیوں میں اپنی عمر کا مختصر عرصہ صرف کرکے حقیقت کی معرفت کا حکم دیا گیا، اس کی بودوباش اور معاش کے لئے کائنات (COSMOS) سے بالکل الگ نوعیت کی ایک عجیب وغریب دنیا یعنی ’’ارض‘‘ تخلیق کی گئی، یہ امر قابل غور اور لائق صدشکر وامتنان ہے کہ کائنات کی تمام مخلوقات کے علی الرغم انسان کو ’’اصل انسان‘‘ اور حقیقت الحقائق کی جستجو ومعرفت کے لئے ایک قلیل عرصہ حیات میں علم سلوک وتصوف سے بہرہ ور فرمایا گیا۔ یہ انسان کے ساتھ اللہ تعالی جل شانہ کا ایک منفرد اور انتہائی کریمانہ ’’سلوک‘‘ ہے۔ جو فقط اس ’’وجہ‘‘ سے کہ نور اول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بھی لباس بشری میں ملبوس ہو کر کرہ ارضی کو نوازنا تھا، حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ اصل کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے تریسٹھ برس کرہ ارض کی پشت پر گزارنے تھے اور قیامت تک کے لئے بطن زمین کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب کرنا تھا، اس قدر بسیط، مقدس اور عجیب وغریب کرہ ارضی کہ ذہن انسانی، جس طرح اپنی تخلیق کے اسرار ورموز کی گتھیاں سلجھانے میں الجھا ہے اور گتھیاں سلجھنے کا نام نہیں لے رہیں، اسی طرح دنیا ومافیہا کے عجائب واسرار کے پردہ ہائے جحاب کو بھی سمجھنے میں واماندگی اور لاچاری کا شکار ہے، ارضین وسموات اور انفس کو سمجھنے میں کامیاب صرف وہ ہوتا ہے کہ جس کا تعلق اللہ سبحانہ وتعالی اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حزب سے ہے۔
اللہ تعالی جل شانہ نے ’’ارض‘‘ کو دو دنوں (یومین) میںبنا دیا، اور اس پر اوپر سے پہاڑ جما دیئے، تاکہ وہ متوازن کیفیت کی حامل رہے، اس کے اندر بڑی برکت رکھی اور اسے نشوونما کی ایسی عجیب وغریب قوت دی کہ اس جیسی کائنات کے کسی کہکشاں، ستارے، سیارے اور نیبولے کو نہ دی اور اس پر بسائی جانے والی مخلوق کے لئے سامان معیشت وافر مقرر کیا، یہ سب کچھ اس ذات کریمانہ نے چار دن کے اندر یعنی چار ارتقائی منازل میں پیدا کیا،
بطن زمین کروڑہا برسوں سے اپنے اوپر بسنے والی مخلوقات کے لئے ایسا بے حساب سامان معاش ومعیشت پیدا کر رہی ہے کہ وہ خورد بینی کیڑوں (Microscopic Bacteria) کے لئے بھی کافی ہے اور یہی عظیم الجثہ زمینی اور سمندری حیوانات اور معمولی تمدنی زندگی گزارنے والے انسان سے لے کر بلند ترین تمدن والے افراد کے لئے بھی ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری کر رہی ہے، کرہ ارضی کی تخلیق اللہ سبحانہ وتعالی کا ایک ایسا عجیب وغریب شاہکار ہے کہ جیسے عقل انسانی اپنی تخلیق کے عجائب بارے حیران وششدر ہے اسی طرح جدید علوم وفنون سے آراستہ سائنسدان بھی اس امر کا تعین نہیں کر پارہے کہ اگر زمین بھی اجرام فلکی سے الگ ہونے والا ایک کائناتی ٹکڑا ہے تو پھر اس کے اجزائے ترکیبی اور خصائص اور دیگر کائناتی ستاروں اور سیاروں کے اجزائے ترکیبی اور خصائص میں اتنا عظیم تفاوت کیوں ہے؟ اگر زمین (Planet Earth) بھی کائنات کا ایک حصہ ہے تو پھر کرہ ارض جیسی ہوا، پانی، پہاڑ، سمندر، دریا، نہریں، چشمے، معدنیات، زمین، حیوانات، چرند، پرند، جانور، اور سب سے بڑھ کر خود حضرت انسان جیسی صاحب عقل وشعور مخلوق دیگر اجرام فلکی، ستاروں، سیاروں اور نیبولوں پر موجود کیوں نہیں ہے؟ انفس وآفاق کے مالک اور ’’رَبِّ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ جل شانہ وجل مجدہ کی عجیب وغریب تخلیق کرہ ارض اور اس کا ماحول، ہر بات کرنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا ہونے والی کائناتی مخلوق پر آفاق کی بے پناہ پہنائیوں اور تنہایوں میں کیسے گزر رہی ہے؟
جب اللہ سبحانہ وتعالی نے کائنات کے بالائی یعنی سماوی اور زیریں یعنی ارضی طبقات کو جو کہ ایک وحدت (Singularity) کی شکل میںباہم پیوست تھے، جدا جدا کر دیا، توانتہائی طاقتور واحد نور (رتق) کے فتق(حدیث جابر رضی اللہ عنہ ) کے بعد اس کے مختلف اجزاء عرصہ دراز تک انتہائی طاقتور نیوکلیائی توانائی کی صورت میں زبردست انتشار وانفجار کی حالت میں رہے، اپنی اصل اور کل سے جدا ہونے والے یہ اجزاء کائنات کے انتہائی دور دراز علاقوں میں سالک ہجر وفراق ہوئے، ان کا یہ سیرسلوک انتہائی عریض وبسیط منطقوں میں جاری رہا، آتش ہجر وفراق میں جلنے والی یہ اربوں کھربوں مخلوق اس وقت اپنی انتہائی غیر معمولی حرارت اور توانائی کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ اور عقلی نظام حیات کے لئے موزوں نہ تھے لہذا تمام حقائق سے باخبر اللہ سبحانہ وتعالی نے اس وقت بہت اعلیٰ اور پیچیدہ ذمہ داریوں سے انہیں الگ رکھا، پھر جیسے جیسے ان میں شعور کا تدریجی ظہور ہوتا رہا، ان کو ایک عقلی نظام کے تحت عمل کی ذمہ داری دی گئی، کائنات میں موجود ہر قسم کی مخلوقات کے عمل تخلیق پراگر پورے تفکّر، تدبّراور تعقّل سے غور کیا جائے، جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن عظیم میں انسان کو بار بار اس کی جانب متوجہ کرتا ہے، تویہ بات صاف نظر آتی ہے کہ خلقت کا ارتقاء ہمیشہ سادہ اور ادنیٰ نظام سے بتدریج اعلیٰ اور پیچیدہ نظام کی طرف ہوتا ہے، مثلاً آپ کسی پھل یا پھول کا بیج زمین میں بوتے ہیں، تو وہ مٹی نمی، حرارت اور روشنی کے کیمیاوی عمل سے ایک ننھے منے ڈنٹھل کی صورت میں بطن زمین سے باہر نکلتا ہے، پھر آہستہ آہستہ اس پرپتیاں لگتی ہیں، پھر پودا بنتا ہے، اس پر رنگ رنگ کے پھول آتے ہیں، پھولوں کے اندر بیج پیدا ہوتا ہے، بیج بونے سے لے کر دوبارہ وہی بیج پیدا ہونے کا چکر (Cycle) پورا ہو تا ہے، یہ سب کچھ ایک مکمل شعوری اور عقلی سائنسی نظام کے تحت ہوتا ہے، یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص سلوک کے تحت کسی عظیم اور اعلیٰ کمالات کا مالک ایک مکمل ریاضیاتی عمل اور توازن سے یہ سب کچھ کرتا ہے وہ اربوں کھربوں اور بے حد وشمار بیجوں سے دوبارہ اسی طرح کے بیج بناتا ہے، اس انتہائی پیچیدہ عقلی اور شعوری سلوک کے بعد تصوف کا مرحلہ آتا ہے جس کے جب وہ ذات یکتا بیج کو مزید پیچیدہ، پراسرار، عقلی اورمنطقی عمل (Rational order) سے گزار کر یکسر ایک نئے وجود، ہیئت، رنگ اور ذائقہ رکھنے والے پھل کی شکل میں پیدا فرماتا ہے، اس اعلیٰ ترین کمال کا حامل اللہ سبحانہ وتعالی انسان کے لئے بیج سے مختلف ایک ایسا نیا اور انوکھا پھل عطا فرماتا ہے، کہ انسانوں میں سوائے ’’اولوالالباب‘‘ اور ’’اولو الابصار‘‘ افراد کے علاوہ دوسرا کوئی ان پھلوں کو اور نہ ہی اس کے پیدا کرنے والے کو سمجھ پاتا ہے، ایک عام شخص درخت سے آم توڑتا ہے، کھاتا اور گٹھلی چھلکا زمین پر پھینک دیتا ہے، اسے اس انتہائی اعلیٰ ترین اور پیچیدہ نظام تخلیق بارے علم ہی نہیں ہوتاکہ یہ اعلیٰ ترین انتہائی پیچیدہ عمل سلوک وتصوف کیسے ہوا اور اس کا کرنے والا کون تھا۔ فااعتبروا یا اولوالابصار
ایک انسان لاکھ چاہے، خلاق ازل جیسا کوئی بیج، پتا، پودا، پھل پیدا نہیں کرسکتا۔ اللہ سبحانہ وتعالی جل شانہ خالق وفالق حبّ ونوی ہے، وہی بیج اور گٹھلیوں کا پیدا کرنے والا اور ان کو پھاڑنے والا ہے وہ ان کو چیر کر ان کے اندر سے پھل اور اناج نکالتا ہے، تخلیق کائنات کاعمل بھی خود بخود یا اتفاقاً نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ سب کچھ ایک مکمل شعوری اور عقلی سائنسی نظام کے تحت ہو رہا ہے۔ کائنات میں موجود اللہ سبحانہ وتعالی کی ہر مخلوق ہر نئے دن، نئی ساعت اور لمحہ اللہ کی معرفت کے لئے ادنیٰ مراحل سے اعلیٰ ترین مراحل کی طرف اعلیٰ ذہنی اور عقلی شعور سے محوسفر ہے، جیسے جیسے انسان کی ذہنی سطح بلند ہوتی چلی جارہی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کی وحدانیت، حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ پر اس کا یقین پختہ ہورہا ہے، جس طرح کائنات کے دور دراز گوشوں میں پنہاں اربوں کھربوں سیارے اورستارے انسان کے دائرہ بصارت وادراک میں سمٹتے چلے آ رہے ہیں اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی بارے انسانی بصیرت کے بند دریچے بھی کھلتے چلے جا رہے ہیں، آفاق وانفس دونوں کا تخلیقی عمل ایک ہی طرح بہت تیزی سے ارتقاء کی منازل طے کر رہا ہے اور مخلوقات الہیہ کے بارے میں خود ساختہ خیالی انسانی تصورات معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے)