شبہات سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح طور پر معلوم نہ ہو۔ حدیث مبارکہ میں شبہ والی چیزوں سے بچنے کا حکم ہے ایسے کھانے اور اسی قسم کے دوسرے کام جو مشتبہات کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان سے بچنا اپنے دین کو بچانے کے مترادف ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بلاشبہ حلال (بھی) ظاہر ہے اور بلاشبہ حرام (بھی) ظاہر ہے اور دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا اور جو شخص شبہات میں پڑ گیا (یعنی شبہ کی چیزوں کو چھوڑنے کی بجائے اپنے عمل میں لے آیا) وہ حرام میں پڑ جائے گا جیسا کہ چرواہا (اپنا ریوڑ کسی کھیت کی) باڑ کے قریب چرائے تو عنقریب ایسا ہوگا کہ کھیت میں (بھی) اس کا ریوڑ چرنے لگے گا‘‘۔(بخاری و مسلم)
پھر فرمایا کہ خبردار! بلاشبہ ہر بادشاہ نے (اپنے قانون وضع کرکے) باڑ لگادی ہے (اور اپنی رعایا کے لئے حد بندی کردی ہے) اور بلاشبہ اللہ کی حد بندی وہ چیزیں ہیں جو اس نے حرام بتائی ہیں پھر فرمایا کہ خبردار! انسان کے بدن میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور وہ ٹکڑا بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار! وہ ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری ومسلم)
قرآن و حدیث میں ان گنت چیزوں کو حلال اور اسی طرح بے شمار چیزوں کو حرام فرمایا گیا ہے لیکن چونکہ ہر شخص کو پورے قرآن و حدیث کا علم نہیں ہے اور علم ہوتے ہوئے بھی کسی خاص معاملہ کے متعلق قرآن و حدیث سے حل نکالنا ہر انسان کا کام نہیں ہے اس لئے زندگی میں بہت سے واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ انسان بعض چیزوں کے متعلق حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے اور شبہ میں پڑ جاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حلال ملتا ہی نہیں پھر حرام سے کیسے بچیں؟ یہ بات بالکل غلط اور شیطانی دھوکہ ہے اور نفس کا فریب ہے۔ جو بندہ حلال ہی کمانا چاہتا ہو تو اللہ رب العزت اسے حلال ہی دیتا ہے مگر اتنی بات ضرور ہے کہ حلال عموماً تھوڑا ملتا ہے حرام اور مشکوک اشیاء کو ترک کردے تو اسے دنیا میں بھی بھلائی ملے گی اور آخرت میں بھی۔ عموماً ہم ماحول میں دیکھتے ہیں کہ جو شخص مشتبہ چیزوں سے نہیں بچتا رفتہ رفتہ اس کا قلب تباہ ہوجاتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ان کاموں کو کرنے پر اتر آتا ہے جو کھلے طور پر حرام اورناجائز ہیں اور جن کے منع ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں ہوتا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنا ریوڑ کسی جنگل میں چراتا ہو اور چرانے کی جگہ مخصوص اور مقرر ہو۔ اس جگہ کے علاوہ دوسری جگہ (جہاں دوسروں نے باڑ لگاکر اس کے ریوڑ کے آنے کی روک تھام کر رکھی ہو۔ اگر چرائے گا تو کچھ عجب نہیں کہ اس کی بکریاں دوسرے کی باڑ کو پھاند کر اندر چلی جائیں اور اس کا کھیت وغیرہ چر لیں۔ جس طرح ریوڑ والا شخص ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ میری بکریاں دوسرے کی باڑ کے قریب نہ چریں اسی طرح ایماندار بندوں کو چاہئے کہ اپنے دین اور آبرو کی حفاظت کے لئے شک و شبہ کی چیزوں سے بچیں۔ جو کھلی ہوئی حرام چیزیں ہیں وہ اللہ کی باڑ یعنی اس کی حد بندیاں ہیں اور شبہ کی چیزیں گویا اس باڑ کے قریب کی چیزیں ہیں جو شخص باڑ کے قریب پہنچے گا کچھ عجب نہیں کہ باڑ کو پھاند جائے اور کھلے ہوئے حرام میں پڑ جائے۔ بزرگوں نے فرمایا کہ چھوٹا گناہ بڑے گناہوں تک پہنچادیتا ہے اور بڑے گناہ کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔
ہمیں اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہونا چاہئے کہ کس طرح ہم ازلی دشمنوں کی مہیا کردہ اشیاء کو زیراستعمال رکھتے ہوئے مشتبہ چیزوں کے استعمال میں پڑے ہوئے ہیں اور ان چیزوں کے استعمال سے ہماری صحت اور معیشت کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے، دشمن اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اپنی دولت اور معیشت کو مضبوط سے مضبوط تر بنارہا ہے۔
عالمی یہودی تنظیمیں نت نئی سازشوں کے ذریعے عالم اسلام اور تیسری دنیا کو معاشی لحاظ سے غلام بنائے ہوئے ہیں۔ عظیم تر اسرائیل کے قیام کی خاطر یہودی اپنے گماشتوں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے ذریعے افغانستان اور عراق میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹینک روزانہ معصوم فلسطینی عوام کو کچل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہودی کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی دولت اور اس کی معیشت ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی یہی ہے۔ تجربہ گواہ ہے کہ جہاں بھی عوام نے اس سمت میں قدم بڑھایا تو یہودی ملٹی نیشنل کمپنیاں جلد ہی گھٹنے ٹیک دیتی ہیں کیونکہ اس کی ساری معیشت سود اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
آئیں! ہم بھی اس جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں اور یہودی کی دکھتی رگ پر کاری ضرب لگائیں۔ اپنی صحت اور معیشت کو اس کے مضر اثرات سے بچائیں۔ خوبصورت پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ایمان کے دشمن یہودیوں کے چہرے کو پہچانیں۔