گوشہ درود کے افتتاح کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب
ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 56)
’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘
اﷲ تبارک وتعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم اور اس کی توفیق و عنایتِ خاص سے آج کا یہ روحانی اجتماع ہم سب کے لئے باعثِ سعادت و برکت ہے۔ آج گوشۂ درود کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر اس اجتماع کا انعقاد کیا گیا ہے، اس یادگار، باوقار اور تاریخی موقع پر میری آج کی گفتگو کا موضوع ’’درود و سلام‘‘ ہے۔
درود وسلام اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اس کے بعد مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر درود و سلام بھیجو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ جو بطورِ خاص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان، علو مرتبت اور مقام رفیع کے اظہار کے لئے نازل کی گئی ہے اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے خبر دی ہے کہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.
’’بیشک اﷲتعالیٰ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘
اِس خبر میں اﷲ رب العزت نے پہلے اپنا اور ملائکہ کا عمل بیان فرما کر ہمیں حکم دیا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
’’اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک اس مقام کے سوا کسی جگہ پر بھی ایسا حکم نہیں دیا کہ حکم دینے سے پہلے وہ خبر دے کہ میں خود یہ کام کرتا ہوں اے مومنو! تم بھی یہ عمل کیا کرو، اس سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ
1۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عظمت و خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نصیب ہے جس کی کوئی اور مثال نہ پورے قرآن پاک میں ہے اور نہ ہی تمام انبیاء علیھم السلام میں سے کسی نبی اور رسول کے بارے میں اس طرح کی کوئی آیت نازل ہوئی۔
2۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی عظمت کے اظہار کے لئے جو عمل منتخب کیا اس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ خود شریک نہ ہوا بلکہ یہ عمل فرشتوں سے کروایا مگر جب اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرنے کا وقت آیا تو دنیا والوں کو واضح طور پر مطلع کر دیا کہ سنو! میرے محبوب کی شان ملاء اعلیٰ میں کیا ہے۔ وہاں پر ایک ہی ذکر ہوتا ہے جو اﷲ بھی کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ خود تو اپنا ذکر نہیں کرتا اور نہ اپنی تسبیح بیان کرتا ہے بلکہ وہ صرف ایک ہی ذکر کرتا ہے جس کے متعلق قرآن حکیم میں کئی مقامات پر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر لحظہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرتا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا :
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
(الم نشرح، 94 : 4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملاکر دنیا و آخرت ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.
(الاحزاب، 33 : 56)
’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں‘‘
امام بخاری نے حضرت ابو العالیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ صَلٰوةُ اﷲ ثَنَآءُ ه عَلَيهِ عِندَ المَلٰئِکَةِ ’’اﷲ تعالیٰ ملائکہ کے اجتماع میں اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وہی جانے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی شان کے مطابق علم تھا کہ میں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا ہے لہٰذا پہلے ہی یہ نام رکھ دیا ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)‘‘ یعنی وہ ذات جس کی بار بار او بے حدو حساب تعریف کی جائے۔
مذکورہ حدیث میں ثَنَاءُ ه عِنْدَ الْمَلٰئِکَةِ (ملائکہ کے سامنے شان بیان کرنا) سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے بے حد و حساب اجتماع میں اﷲ پاک ان کے سامنے اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرتا ہے گویا سارا عرش، مالائے اعلیٰ اور پوری کائنات گوشۂ درود ہے جس میں اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو بلا کر ارشاد فرماتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ شریک ہو جاؤ۔
درود میں غلامانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ
ایک اور مقام پرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے غلاموں پر درود بھیجنے کا ذکر آیا ہے۔ جب یہ آیت کریمہ اتری :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ. (حوالہ مذکورہ) تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اﷲ تعالیٰ جو بھی نعمت آقا علیہ السلام کو عطا کرتا ہے اس میں سے ہمارے پیکر جود و سخا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازراہِ لطف و کرم امت کے لئے حصہ ضرور عطا کرتے ہیں، یہ آیت مبارکہ جس میں اﷲ اور اس کے فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اتنی بڑی عظیم نعمت و فضیلت ہے جس میں سے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور عطا ہوگا چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اس کرم اور خاص نعمت سے ہمیں بھی حصہ عطا ہو گا؟ اِس پر اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حاضر خدمت ہو کر آقا علیہ السلام کو خوشخبری دیتے ہوئے محبت بھرا پیغام پہنچایا :
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 43)
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔‘‘
اس آیہ مبارکہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں درود پڑھا جائے وہاں نور پیدا ہوتا ہے، پس جہاں نور پیدا ہوتا ہے، وہاں اندھیرا ختم ہو جاتا ہے لہٰذا درود وسلام پڑھنے والے اہلِ نور ہوتے ہیں اور درود نہ پڑھنے والے اہل ظلمت ہوتے ہیں چنانچہ مذکورہ آیت میں امتیوں کے لئے بھی خوشخبری ہے۔ اوّل الذکر آیتِ مبارکہ اور اس آیتِ مبارکہ کے اسلوب بیان میں ایک واضح فرق ہے۔ اس آیت میں جو فعل ہے اس میں صیغہ واحد استعمال ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یُصَلِّیْ کے فعل کو اپنے ساتھ خاص کرلیا ہے۔ واؤ عطف لگا کر فرشتوں کا الگ ذکر کیا ہے یعنی جب مومنوں پر درود بھیجنے کا ذکر کیا تو فرمایا : (يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ) میں الگ بھیجتا ہوں اور فرشتے الگ بھیجتے ہیں جبکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجے جانے والے درود میں فرشتوں کو فرمایا آؤ مل کر ان پر درود بھیجتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام پر انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی درود و سلام پڑھنا اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کی سنت ہے۔
فرشتوں کو درود میں ساتھ ملانے کا سبب
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اﷲتعالیٰ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ فرشتوں کو بھی ساتھ ملائے کیا اس کا اپنا درود بھیجنا کافی نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب امام رازی رحمۃ اللہ علیہ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ جن پر باری تعالیٰ ہر وقت درود بھیجتا رہتا ہے انہیں کسی اور کی کیا محتاجی ہے وہ فرشتوں کو اس لئے ساتھ ملاتا ہے تاکہ فرشتوں کو بھی ایسا کرنے سے شرف و عزت ملے جب اﷲ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو آقا علیہ السلام کو عزت ملتی ہے مگر جب فرشتے اور مخلوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اس سے درود بھیجنے والوں کو عزت ملتی ہے۔ ان کی اپنی شان بلند ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے فرمایا ’’جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے اپنے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔‘‘ یعنی اس کی اپنی بخشش ہوتی ہے، اس کے لئے جنت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
دوسری حدیث میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ’’جو مجھ پر جتنی کثرت سے درود پڑھتا ہے قیامت کے دن اس کو اتنی ہی میری قربت نصیب ہو گی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایسا فرمان نہیں ملتا کہ تمہارے درود و سلام سے میری عزت و تکریم بلند ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائدہ صرف اﷲ تعالیٰ کے درود کا ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا درود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ایک سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ اسی طرح مومنوں کو حکم دیا گیا کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 56)
’’اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے آقا علیہ السلام پر درود بھیجنے میں شامل کیا تاکہ مومن بھی شفقت و رحمت کے مستحق ٹھہریں۔
درود شریف قطعی القبول عمل
یاد رکھیں! کوئی عمل اور عبادت ایسی نہیں جس کا قبول ہونا حتمی اور قطعی ہو جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقہ، خیرات، جہاد و دیگر اعمال صالحہ اور ہر عبادت ظنی القبول ہے چاہے مولا قبول کرے چاہے نہ کرے مگر درود و سلام ایسا عمل ہے جو قطعی القبول ہے ادھر درود پڑھنے والے نے درود پڑھا اور ادھر اسی لمحے اسے شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ بڑے سے بڑ ے فاسق وفاجر اور بڑے سے بڑے گناہ گار کا نیک عمل رد کر دیا جاتا ہے مگر درود و سلام ہرگز رد نہیں ہوتا کیونکہ اس کا عامل اس کی اپنی ذات نہیں بلکہ خدا کی ذات ہوتی ہے اسی لئے یہ قطعی القبول ہے جیسے نماز پڑھنا اس کا حکم ہے اس کا قائم کرنا ہم پر فرض ہے اس لئے ہم کہتے ہیں :
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO
(الفاتحه، 1 : 4)
’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘
مگر درود شریف پڑھنے کے متعلق ارشاد فرمایا گیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
(الاحزاب، 33 : 56)
’’ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
ایک ایمان افروز نکتہ
مذکورہ ارشادِ ربانی کے تحت ہمارے لئے درود پڑھنا فرض قراردیا گیا۔ اب چاہیے تھا کہ ہم جواب میں یوں کہتے : اِنَّا نُصَلِّی عَلَيکَ يَا رَسُوْلَ اﷲ (یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہم آپ پر درود بھیجتے ہیں) یا یوں کہتے نَحْنُ نُصْلِّی عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲ (یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر درود بھیجتے ہیں) مگر اس کی بجائے ہمیں درود پڑھنے کا طریقہ یوں سکھایا گیا کہ
اللَّهُمَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ’’اے اﷲ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیج۔‘‘ حالانکہ اس نے ہمیں حکم دیا تھا کہ اے ایمان والو! صَلُّوا عَلَیْہِ تم بھیجو۔ بجائے اس کے کہ ہم کہتے کہ ہم درود بھیجتے ہیں، ہم نے پلٹ کر اﷲ تعالیٰ ہی سے عرض کیا مولا تو ہی بھیج۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندے تو جتنا بھی نیک اور صالح ہو جائے پھر بھی عیب، نقص اور کمزوری سے پاک نہیں ہو سکتا جبکہ میرا محبوب طاہر و مطہر ہے لہٰذا میری بارگاہ میں درخواست کرو کہ اے اﷲ! ہم اس قابل نہیں ہیں لہٰذا تو ہی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی شان کے لائق ہماری طرف سے درود بھیج دے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے درود کو تو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی شان کے مطابق بھیجتا ہی ہوں تمہارے حصے کا بھی میں ہی بھیجوں گا کیونکہ میرے سوا میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ کوئی بھیج سکتا ہے اور نہ ہی بھیجنے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ میں اپنا بھی بھیجوں گا اور تمہارا بھی اور جو مجھے یہ درخواست کرے گا اس کے نامہ اعمال میں بھی درود لکھا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ ہمیں مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ ادراک ہے اور نہ ہی معرفت، بقول شاعر
اگر خاموش رہوں میں تو تو ہی ہے سب کچھ جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہوگیا محدود
شان محبوبیت
اس میں ایک اور نکتہ یہ بھی کارفرما ہے کہ مذکورہ پوری آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ دیگر انبیاء کی جب بھی بات کی ہے ان کا نام لے کر بلایا ہے۔ فرمایا :
يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.
(البقرة، 2 : 35)
’’اے آدم تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو‘‘
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا :
يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلاَمٍ مِّنَّا.
(هود، 11 : 48)
’’اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا تو فرمایا :
وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُO قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا.
(الصٰفٰت، 37 : 104 - 105)
’’اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام کو پکارا تو فرمایا :
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ.
(ص، 38 : 26)
’’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خطاب کیا تو فرمایا :
يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ.
(ال عمران، 3 : 55)
’’اے عیسیٰ! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں‘‘
حضرت زکریا علیہ السلام کو بلایا تو فرمایا :
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ.
(مريم، 19 : 7)
’’اے زکریا! بے شک ہم تمہیں خوشخبری سناتے ہیں‘‘
اسی طرح جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پکارا تو فرمایا :
يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ.
(مريم، 19 : 12)
’’اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘
مذکورہ بالا چند مثالوں سے معلوم ہوا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے دیگر پیغمبروں کو جب بھی بلایا تو براہِ راست نام لے کر بلایا مگر پورا قرآن الحمد سے والناس تک گواہ ہے کہ جب اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری آئی تو اﷲ تعالیٰ نے کہیں بھی آپ کو نام لے کر نہیں بلایا۔
1. إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَO
(آل عمران، 3 : 68)
’’بیشک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اﷲ ایمان والوں کا مددگار ہے۔‘‘
یہاں ایک ہی آیت میں ایک نبی نے جو جد الانبیاء ہیں کا نام لے کر پکارا ہے مگر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں پکارا بلکہ کہیں فرمایا :
2. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا.
(احزاب، 33 : 45)
’’اے نبِیّ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
3. يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ.
(المائده، 5 : 67)
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجئے‘‘
4. يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُO
(المزمل، 73 : 1)
’’اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)‘‘
5. يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُO
(المدثر، 74 : 1)
’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)‘‘
پھر کہیں یٰسین اور کہیں طٰہ کہہ کر پکارا۔ ہر جگہ اور ہر دفعہ نئے القاب استعمال کئے اور پیار بھرے ناموں سے پکارا۔ مگر ذاتی نام سے نہیں بلایا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کی تعلیم دی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیں تو بڑی محبت و عقیدت اور ادب و احترام سے لیا کریں۔ نام سے پہلے سیدنا ومولانا ملا کر پڑھیں اس طرح نام کی برکت بھی ملے گی اور نام الاپنے کی برکت بھی نصیب ہو گی۔
ایک نہایت ہی اہم بات جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے گئے مگر کسی بھی نبی کی امت کو اپنے نبی کے لئے درود بھیجنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ پہلا حکم ہے جو امت محمدیہ کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و بلندی درجات کے لئے خود بھی ہمہ وقت درود بھیجتا رہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔ (جاری ہے)