ماں ایک ایسی ہستی ہے جو نہ صرف خاندان کی بنیاد ہے بلکہ ایک مکمل نسل کی تعمیر و ترقی کی معمار بھی ہے۔ اس کا کردار ہر بچے کی زندگی میں ایک ستون کی مانند ہوتا ہے جو نہ صرف اس کے اخلاقی، روحانی، اور نفسیاتی پہلوؤں کو سنوارتا ہے بلکہ اسے ایک مکمل اور کامیاب انسان بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت کے ہونے کا مطلب محض ایک مذہبی قول نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت ہے، جس کی گواہی تاریخ اور تجربات سے ملتی ہے۔ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ یہ وہ شخصیت ہے جو اپنی گود میں محبت، شفقت اور ایثار کا ایسا ماحول فراہم کرتی ہے جو بچے کی ابتدائی تربیت کا سنگِ بنیاد بن جاتی ہے۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے کے خدوخال کا جائزہ لیں تو ہمیں قانون شکنی پر مبنی رویوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ اگر ہم سڑک پر سفر کررہے ہوں تو ہمیں اپنے اطراف میں سوار نوجوانوں سمیت ہر عمر کے افراد ٹریفک سگنل توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم مارکیٹ میں یا کسی پرہجوم مقام پر ہوں تو ہمیں دھکم پیل اور دھینگا مشتی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سرکاری آفسز میں ہمیں اپنے جائز کاموں کے لئے بھی رشوت اور تاخیری حربوں کے ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے نیز ہم اجتماعی زندگی کے کسی گوشے میں جھانکیں تو ہمیں اخلاقی قدریں مسخ حالت میں ملتی ہیں اور دانشور و تجزیہ نگار حضرات اس کی مختلف توجیہات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ نظام تعلیم فرسودہ اور ناقص ہے، کچھ اساتذہ کی تدریسی صلاحیت پر انگلی اٹھاتے ہیں، کچھ کا موقف ہے کہ علمائے کرام ٹھیک طرح سے اپنا اصلاحی کردار نہیں نبھا پارہے، کچھ اس سارے فساد کی جڑ سیاسی نظام اور نااہل حکومتوں کو قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ عوامل سوسائٹی کی بربادی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں لیکن سوسائٹی کے اخلاقی زوال کی سب سے بڑی وجہ وہ ماں ہے جو بچے کی تربیت نہیں کرتی، اُسے اچھا انسان بننا نہیں سکھاتی، ایک اچھی ماں بچے کو بڑوں کا احترام کرنا سکھاتی ہے، اسے جھوٹ سے نفرت کرنا سکھاتی ہے، تعلیم سے محبت کرنا سکھاتی ہے، اچھی ماں بچے کو یہ سکھاتی ہے کہ اُس کا وجود انسانیت کے لئے نفع بخش ہونا چاہیے، اچھی ماں اپنے بچے کی کامیابی کے لئے صرف خواہشات اور دعائوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ہر مرحلہ پر اس کی عملی تربیت کرتی ہے، آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی علم و امن کا گہوارہ بن جائے تو ہمیں ماں کی تعلیم و تربیت پر فوکس کرنا ہو گا۔ ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماں ہی سوسائٹی کی اخلاقی قدروں کو مضبوط و مستحکم بنا سکتی ہے۔ آج پاکستان کی سوسائٹی جس سب سے بڑے کرب سے گزررہی ہے وہ مسئلہ انتہا پسندی، تنگ نظری، عدم برداشت اور دہشت گردی کا ہے۔ معمولی سی بات پر دوسروں کی جان لینے کے در پے ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم باریک بینی سے اس کا تجزیہ کریں تو اس کی جڑیں بھی والدین کی تربیت سے جاکر ملیں گی۔ اگر ماں نے بچے کو امن کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا ہوتا تو بچہ بڑا ہو کر کبھی بھی کسی کی جان لینے کے درپے نہ ہوتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کی وہ قدر آور شخصیت ہیں جو فی زمانہ خواتین کی تعلیم و تربیت پر سب سے زیادہ محنت کررہے ہیں۔ شیخ الاسلام نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے بے مثال تعلیمی و تربیتی ادارے تشکیل دئیے۔ ان تعلیمی اداروں میں ہزارہا خواتین زیور علم سے آراستہ ہورہی ہیں۔ آج ہر تحریک ہر شخصیت کو خواتین کی تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔ پڑھی لکھی ماں ہی ایک تعلیم یافتہ اخلاقی اقدار کی حامل خوشحال سوسائٹی تشکیل دے سکتی ہے۔