فقہی مسائل: خواتین اساتذہ کے لئے پردہ کا حکم؟

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: خواتین اساتذہ کے لیے طلباء سے پردہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

میں ایک سکول میں ٹیچر ہوں، جو کلاس 1 سے میٹرک تک ہے اور اس میں مخلوط نظامِ تعلیم ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اپنے طلبہ سے بھی پردہ کرنا چاہیے اور نقاب کرکے کلاس پڑھانی چاہیے؟ کیونکہ میٹرک کے بچے عموماً بالغ ہوتے ہیں۔ کیا ان سے پردہ لازم ہے؟ براہِ مہربانی تفصیلی راہنمائی کر دیں کیونکہ ہر دوسری لڑکی ٹیچنگ میں ہے، ایسے میں انہیں کن امور کا خیال رکھنا ضروری ہے؟

جواب:دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور اسلامی نظامِ حیات کا تقاضا ایک پاک و صاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب ہے۔ اسلام نے جاہلی رسوم و رواج اور اخلاق وعادات کو مسترد کر کے ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کی گئی وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچانا‘ اور مرد و عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز میں ہی محفوظ کرنا ہے۔ اس کے لیے شر و حیاء کو بنیادی درجہ دیا گیا ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ، قَالَ: رَسُولُ اللہِ الْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 442، رقم: 9708)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شرم وحیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

عاقل و بالغ خواتین پر غیرمحرم مردوں سے پردہ کرنا شرعاً واجب ہے۔ اس لیے چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے علاوہ سارے جسم کو چھپانا واجب ہے۔ اگر کوئی عورت شرعی پردہ نہیں کرتی تو وہ گنہگار ہوگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.

(الْأَحْزَاب، 33: 59)

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔

اور سورہ نور میں ارشاد ہے:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

(النُّوْر، 24: 31)

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔

درج بالا ارشاداتِ ربانی میں پردے کے واضح احکام بیان ہورہے ہیں۔ اس لیے کم از کم شرعی پردہ کرنا ہر عورت پر لازم ہے، اگر کوئی نقاب کرتی ہے یا برقعہ اوڑھتی ہے تو یہ بلاشبہ پسندیدہ عمل ہے جس کا وہ خدا کی بارگاہ سے اجر پائے گی۔ اس کے برعکس اگر کوئی عورت شرعی پردہ بھی نہیں کرتی تو وہ خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اس لیے طلباء سمیت ہر غیرمرد سے پردہ کرنا فرض ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

سوال: عورت کے لیے کن اعضاء چھپانا واجب ہے؟ عورت کی ملازمت کی جائز صورتیں کون سی ہیں؟ کیا غیرمحرم سے دوستی جائز ہے؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی جائز ہے؟ وہ والدین کو دھوکہ دیتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ڈیٹ پر جانے کی سزا کیا ہے؟ اس سے بچنے اور بچوں کو بچانے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب:اسلام میں بغیر نکاح کئے لڑکے اور لڑکیوں میں دوستی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر عورتوں کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو انتہائی محتاط انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا

(الاحزاب، 33: 32)

اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِیبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ اللہَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 309، رقم: 14364، مؤسسة قرطبة مصر)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ إِيَاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ.

(بخاري، الصحيح، 5: 2005، رقم: 4934، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔

یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے:

حضرت ابن عباسٍ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2005، رقم: 4935)

لہٰذا بغیر نکاح کے لڑکوں اور لڑکیوں کا والدین سے چھپ کر ملاقاتیں کرنا حرام عمل ہے۔ کیونکہ یہی ملاقاتیں زنا کا سبب بنتی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے زنا کے سدّباب کے لیے اس طرح کے تمام راستوں کو روکا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلاً.

(بَنِيْ إِسْرَآءِيْل، 17: 32)

اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔

اپنے سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے ملاقات کی سزا کے بارے میں دریافت کیا ہے، ہماری نظر میں اس کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ ملاقات پر کوئی حد تو لاگو نہیں ہوتی، تاہم عدالت یا ریاست تعزیراً کوئی سزا دے سکتی ہے۔ یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ جتنی مناسب سمجھے سزا تجویز کر سکتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی زنا کے مرتکب ہو جائیں اور وہ اس کا اعتراف کر لیں یا چار گواہ ان کے جرم کی شہادت دیں تو ان کو حداً زنا کی سزا دی جائے گی۔ زنا کی حد غیرشادی شدہ کے لیے سو (100) کوڑے اور شادی شدہ کے لیے سنگساری کی سزا ہے۔ یہ سزا ریاست اور ریاستی ادارے جاری کریں گے، کوئی فرد واحد اپنے طور پر حد لاگو نہیں کرسکتا۔

بےراہ روی اور ایسے مسائل سے بچوں اور بچیوں کو بچانے کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی شادی وقت پر کردیں تاکہ وہ جائز رشتوں میں منسلک ہوکر ایسی برائیوں سے بچ سکیں۔

سوال: کیا غیرمحرم رشتہ داروں کو تحائف دینا جائز ہے؟

میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ کیا کوئی شخص اپنی کسی نامحرم رشتہ دار مثلاً چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد کو کوئی تحفہ یا عیدی دے سکتا ہے؟ اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے روکنا چاہیے یا نہیں؟ نیز ان نامحرم رشتوں کے ساتھ غیرضروری باتیں کرنا، گپ شپ لگانا اور ہنسنا ہنسانا کیسا ہے؟

جواب:تحائف لینے اور دینے کے حوالے سے حدیث مبارکہ ہے:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے کو تحائف (gifts) دیا کرو۔ اور ایک دوسرے سے محبت کیا کرو۔‘‘

(ابو يعلی، المسند، 11: 9، رقم: 6148، دار المامون للتراث، دمشق)

لہٰذا تمام اعزاء واقارب اور دوستوں کو تحفہ دے سکتے ہیں خواہ عیدی ہو یا کسی اور صورت میں، لیکن نیت وارادہ درست ہونا چاہیے۔ اس کے پیچھے کوئی غلط مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اس بہانے سے غلط حرکات کرے تو اُسے ضرور روکنا چاہیے۔

غیر محرم رشتوں سے بات چیت کرنے کے بارے میں قرآن وحدیث کی تعلیمات درج ذیل ہیں:

يٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا

(الاحزاب، 33: 32)

’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا۔‘‘

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے:

’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔‘‘

(احمد بن حنبل، المسند، 3: 309، رقم: 14364، موسسة قرطبة مصر)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ اَنَّ رَسُولَ اللہِ قَالَ إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللہِ اَفَرَاَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ

(مسلم، الصحيح، 4: 1711، رقم: 2172، دار احياء التراث العربي بيروت)

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا (نامحرم) عورت کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔‘‘

یہاں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذمی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘

(بخاري، الصحیح، 5: 2005، رقم: 4935)

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے غیرمحرم رشتوں کے ساتھ فضول گپ شپ کرنا ممنوع ہے، لیکن ضروری بات چیت کرنا، حال احوال پوچھنا، اور والدین یا محرم رشتہ داروں کی موجودگی میں تحائف لینا دینا جائز ہے۔ تاہم تنہائی میں غیرمحرم خواتین و افراد کو اکٹھا ہونا خطرے سے خالی نہیں۔ اس کی وضاحت قرآن و حدیث کی روشنی میں کر دی گئی ہے۔