صدیوں پر محیط تاریخ کے طویل سفر نے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ روئے زمین پر نوع انسانی کی بقا اور ترقی مرد و زن کی مشترکہ اور باہمی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ رب العزت نے انھیں کچھ اس طرح لازم و ملزوم بنایا ہے کہ دونوں ہی معاشرہ کا کامل جزو اور مساوی طور پر ایک دوسرے کے شریک کار ہیں۔ عورت کو صنف نازک، حیا اور نسوانیت کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔ اس سراپا لطف و کرم میں خلوص، ہمدردی، عشق و محبت، ایثار اور مستقل مزاجی کے صادق جذبے کچھ اس طرح نمو پاتے ہیں کہ کہیں تو وہ حسن و جمال کا استعارہ کہلاتی ہے، کہیں مرد کا لباس، دکھ سکھ کا ساتھی اور کہیں نسل انسانی کی پیدائش، پرورش اور رہنمائی کے کارخیر کی عظمت کے پیش نظر قدموں تلے جنت کی بشارت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ قدرت نے اسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مرد کی عزت، احترام، محبت اور شفقت کی حقدار ٹھہرایا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تصویرِ کائنات میں قوس قزاح کے رنگ وجودِ زن کے سنہری اور پہلے عکس سے عبارت رہے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں دنیا کے متمدن معاشروں اور تہذیبوں میں بھی قدرت کے ودیعت کردہ اعلیٰ اوصاف کے باوجود عورت کو کمتر سمجھا جاتا رہا۔ عورت کو جسمانی طور پر کمزور اور حقیر جانتے ہوئے دوسرے درجے کی مخلوق قرار دیا جاتا۔ ہندوستان میں ’’منوسمرتی‘‘ میں عورت کو پاؤں کی جوتی قرار دیا گیا۔ عہد جاہلیت کے عرب معاشرے میں بنتِ حوا کو کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔ وہ جنسِ بے مایہ کی طرح بکتی یا زندہ دفن کردی جاتی وراثت میں اسے کوئی حق حاصل نہ تھا۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے تمام تر احکامات میں انسانی نفسیات کو مدنظر رکھا گیا ہے اور مردو زن دونوں کے حقوق متعین کردیئے گئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بحیثیت انسان ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً.
(النساء،4: 1)
’’ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
اس آیت کریمہ کے مطابق مرد اور عورت کو انسانیت میں مساوی درجہ حاصل ہے۔ جدوجہد حیات میں روحانی و اخلاقی سطح پر دونوں میں کامل مساوات ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
انما النسا شقائق الرجال.
(السنن ابوداؤد)
عورتیں مردوں کی ہم مثل ہیں۔
یعنی دونوں ہم پلہ اور ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔
عہد نبویﷺ پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین سیاسی، سماجی اورمعاشی سرگرمیوں میں برابر حصہ لیتی رہیں اور معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اپنے فطری تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھاتی رہیں۔ چنانچہ معاشرے کی ابتدائی اکائی خاندان کے استحکام میں عورت کا بنیادی عائلی کردار ہو یا حصول علم کی ذمہ داری، محاذ جنگ میں خدمات کی انجام دہی ہو یا زراعت، تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں معاشی ترقی، جائیداد کے مالکانہ حقوق کا مسئلہ ہو یا اظہار رائے کی آزادی، اسلام نے عورت کے حق کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ معاشرے میں باعزت اور بلند مقام سے بھی نوازا ہے۔
عہد نبویﷺ میں مسلمان مردوں کے دوش بدوش مسلم خواتین بھی علوم و فنون کی تحصیل میں نظر آتی ہیں۔ اس دور مبارکہ میں عورتوں کو قرآن پاک حفظ کرنے کا خاصہ ذوق پیدا ہوگیا تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، ام سلمہؓ اور حضرت ام ورقہؓ پورے قرآن مجید کی حافظہ تھیں۔ان کے علاوہ بے شمار صحابیات قرآنی علوم و فنون میں مہارت رکھتی تھیں۔ حضرت ام سعدؓ تو قرآن کا درس دیا کرتی تھیں جس سے عورتیں اور مرد برابر مستفید ہوا کرتے۔ حضرت عائشہؓ سے دو ہزار دو سو دس احادیث منقول ہیں یہ عدد حضرت ابوہریرہؓ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ حضرت عائشہؓ کے فتاوی کا ذخیرہ بھی بہت ضخیم ہے۔ علم فقہ میں حضرت عائشہؓ کے علاوہ حضرت ام سلمہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ، حضرت فاطمۃ الزہراءؓ، حضرت ام عطیہؓ، حضرت اسماء لیلیٰؓ، حضرت ام الدرداؓ اور بہت سی بزرگ ہستیاں ہیں جن کے علمی کمالات اور فقہی اجتہادات سے اسلامی علوم کا دفتر مالا مال ہے۔
جنگ کی حالت میں اسلام خواتین کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگی خدمت میں حصہ لیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کریں، پیاسوں کو پانی پلائیں، سپاہیوں کے لیے کھانا پکائیں، مجاہدین کے جانے کے بعد کیمپ کی حفاظت کریں۔غزوہ احد میں بھی صحابیات نے یہ خدمات سرانجام دیں۔ اسی غزوہ میں آنحضورﷺ زخمی ہوگئے تو حضرت فاطمہؓ نے چٹائی جلاکر راکھ آپ کے زخم میں بھری جس سے خون فوراً بند ہوگیا۔ اسی غزوہ میں حضرت ام عمارہؓ نے نہایت بہادری و دلیری سے آنحضورﷺ کی حفاظت کی۔ آپ کے گرد چند مسلمان باقی رہ گئے تھے جب ام عمارہؓ نے تلوار اور نیزہ سے کفار کا مقابلہ کیا۔ جنگ کے بعد محمد رسول اللہﷺ نے آپ کے کارنامے کی بہت ستائش فرمائی۔
اسلام نے عورت کی جدوجہد اور پروازِ عمل کے لیے وسیع تر فضا مہیا کی ہے۔ وہ تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت میں رقی کا حق رکھتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ تجارت کے پیشہ سے وابستہ متمول خاتون تھیں۔ انھوں نے اپنی مرضی سے اپنی آمدنی اپنے اہل و عیال اور اسلام کی ترقی و ترویج پر خرچ کی۔مختلف روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض صحابیات بھی تجارت کرتی تھیں جن میں قیلہؓ نامی ایک صحابیہ اور اسما بنت مخزمہؓ کے نام قابل ذکر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ میں صنعت و حرفت سے واقف ہوں اور اس سے جو کماتی ہوں کیا شوہر اور بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں تم کو اسکا اجرملے گا۔‘‘ روایات سے ثابت ہے کہ عہد نبویﷺ میں خواتین کاشتکاری کرتی تھیں اور اسی سلسلے میں کھیتوں اور باغات میں جاتی تھیں۔ خواتین کو اظہار رائے کی آزادی تھی۔ بطور خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ کے انتخاب کے وقت باپردہ خواتین سے بھی ان کی رائے معلوم کی گئی۔
الغرض اسلام نے ایک صالح معاشرہ کے قیام کے لیے عورت کو انقلابی نوعیت کے حقوق عطا کیے ہیں اور خواتین و حضرات کی ذمہ داریوں میں ایک توازن قائم کیا ہے مثلاً علم حاصل کرنا دونوں کا فرض ہے، وراثت میں دونوں کا حصہ ہے۔ گناہ و ثواب کے احکامات دونوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ دونوں کے لیے حلال و حرام کی حدود ایک جیسی ہیں۔ دونوں تجارت، زراعت، صنعت و حرفت اور کسب معیشت میں حصہ لے سکتے ہیں، دونوں کو اظہار رائے عمل اور ارادہ کی آزادی ہے۔ دونوں کے معاشرتی اور عائلی درجات میں توازن قائم کیا گیا ہے۔ معاشرتی اکائی خاندان میں مرد کو قوی اور مضبوط جسمانیت کی بدولت عورت پر ایک درجہ برتری حاصل ہے تو بطور ماں عورت کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین درجے بلند ہے۔ گویا معاشرتی تعمیر و ترقی میں عورت کے پاکیزہ وجود کی عظمت کو ہر اعتبار سے تسلیم کیا گیا ہے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر ملک کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ آپ نے قومی ترقی میں خواتین کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’دنیا میں کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس قوم کے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی آگے نہ بڑھیں۔‘‘
(مسلم کنونشن دہلی، 1946ء)
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی کے افکار و نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم خواتین میں وہ جذبہ و جنون اجاگر کیا کہ وہ تحریک و قیام پاکستان کی جدوجہد میں مردوں کے دوش بدوش میدان عمل میں نکل آئیں۔تحریک کے انہی دنوں کو یاد کرتے ہوئے آپ فرماتی ہیں: ’’جب میں حصول پاکستان کے ضمن میں ہندوستان کی مسلم خواتین کی جدوجہد کو یاد کرتی ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ وہ آپ ہی تھیں جنھوں نے مردوں کے ذہن میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا اور اپنے حلقہ اثر میں اس نظریہ کی اشاعت کی یہاں تک کہ اپنے نوعمر بچوں کے دلوں میں بھی اس کے حصول کا ایک زبردست ولولہ پیدا کردیا۔‘‘
آپ کی بے لوث کوششوں سے مسلم خواتین کا ایک ایسا ونگ قائم ہوا جو قیام پاکستان کے بعد بھی سرگرم عمل رہا۔ ان نمایاں خواتین رہنماؤں میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں آرا شاہنواز، محترمہ نصرت ہارون، بیگم وقار النساء نون، بیگم شائستہ اکرام اللہ، محترمہ فاطمہ صغریٰ اور بیگم رعنا لیاقت علی خان قابل ذکر جنھوں نے عوامی سطح پر خواتین کی فلاح و بہبود اور سیاسی، معاشی و معاشرتی بیداری میں اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 1965ء میں ایوب خان کے مقابل صدارتی انتخاب لڑا اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ساتھ مل کر 1969ء میں (APWA) آل پاکستان ویمنز ایسویسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ یہ فلاحی تنظیم خواتین کی فلاح و بہبود کے مختلف شعبہ جات مثلاً صحت، تعلیم قانونی و مالی امداد کے لیے آج بھی سرگرم عمل ہے۔
نامساعد حالات میں بھی پاکستانی خواتین نے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور اپنی بے مثل کوشش و کاوش سے پاکستان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئیں۔ ان میں وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، قائد حزب اختلاف، وفاقی وزرا، حج اور مسلم افواج میں اعلیٰ کمیشن کے عہدوں پر فائز ہوئیں۔ شائستہ اکرام اللہ پاکستانی آئین ساز اسمبلی کی پہلی خاتون منتخب رکن تھیں۔ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم بنیں وہ کسی بھی مسلم ملک کی سربراہی کے لیے منتخب ہونےو الی پہلی خاتون تھیں۔ اسی طرح مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہوئیں۔ جسٹس ناصرہ اقبال علامہ اقبال کی بہو اور اولین خواتین ججوں میں سے ایک ہیں۔ میجر جنرل شاہدہ ملک اور میجر جنرل زہرا نگار عسکری ادارے میں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ پاک فضائیہ کی پائیلٹ 24 سالہ مریم مختار پہلی خاتون شہید پائلٹ ہیں۔ شمیم اختر کو پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اسی طرح ایک طویل فہرست ہے جو خواتین کی اعلیٰ صلاحیتوں کے اعتراف میں پیش کی جاسکتی ہے۔
قائد کے ویژن کو لے کر پاکستان میں خواتین نے انفرادی کوششوں سے مختلف شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور خود کو مردوں کے ہم پلہ ثابت کیا۔ شبانہ روز محنت کی بدولت خواتین طب، تعلیم، انجینئرنگ، آئی ٹی، عدلیہ، انتظامیہ، وکالت، پولیس، بزنس، فیشن ڈیزائننگ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ہوابازی، کھیل غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ تعلیمی درسگاہ سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک پرعزم اور مقدور بھر محنت و کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
شہروں میں خواتین انفرادی اور اجتماعی سطح پر مقاصد کی تکمیل میں خلوص نیت سے سرگرم عمل ہیں اور کسی حد تک کامیاب بھی ہیں مگر گاؤں اور دیہات میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کی دیہی خواتین ناخواندگی، جہالت اور مردوں کی بالادستی کی وجہ سے ابتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ گھروں میں مشقت طلب کاموں کے ساتھ کھیتوں، کھلیانوں میں مردوں کا ہاتھ بٹانے کے باوجود عمومی زندگی میں بہتری کے آثار سے محروم ہیں۔ بھٹوں پر کام کرنے والی محنت کش خواتین سخت محنت کے باوجود غربت اور عسرت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ گھروں میں دست کاری کرنے والی خواتین بھی قلیل معاوضۃ حاصل کرپاتی ہیں۔ اسی طرح گھروں میں کام کرنے والی خواتین انتہائی قلیل اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور حکومتی عدم توجہی کے باعث گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔
صحت، تعلیم، معاشی ابتری اور غربت و افلاس کے ساتھ ساتھ خواتین کو بے شمار معاشرتی و عائلی مسائل کا بھی سامنا ہے مثلاً جہیز کی بنیاد پر گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی، جبری شادی، نومولد بیٹیوں کا قتل اور غیرت کے نام پر قتل۔ اگرچہ پاکستان میں نافذ العمل 1973ء کے آئین میں منفی مساوات کی ضمانت دی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صرف جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت نے تشدد کی روک تھام، ہراسگی اور کم عمری کی شادی سے متعلق تحفظ نسواں کے متعدد قوانین بنائے ہیں مگر خواتین کی کثیر تعداد گھر اور ملازمت کی جگہ مردانہ برتری کے ناروا سلوک کا شکار تو ہوتی ہے مگر مخصوص سماجی اور معاشرتی حالات کے پس منظر میں ان قوانین سے مکمل طور پر مستفید نہیں ہوپاتیں۔
وہ بنیادی حقوق جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے خواتین کو تفویض کیے تھے، مقامی رسم و رواج اور حدود و قیود کو دین سمجھ کر عورت سے چھین لیے جاتے ہیں۔ اگر ہم نے ملکی سطح پر سماجی فلاح و بہبود، معاشرتی نظم و ضوبط، معاشی استحکام اور سیاست و معاشرت کے شعبہ حیات میں ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو روایت و جدت میں توازن قائم کرتے ہوئے عورت کے مثبت کردار کو تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن و سنت میں موجود قوانین اور آئین پاکستان پر عمل درآمد کرتے ہوئے عورت کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ حکومت اور فلاحی اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر عوام میں آگاہی و شعور بیدار کرنا ہوگا۔ اسی صورت میں خواتین جو ہماری آبادی کا 48.76% ہیں ملکی تعمیر و ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کی متحمل ہوپائیں گی۔