عورت معاشرے کی اساس ہوتی ہے۔ معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔علم و ادب سے مزین عورت پورے معاشرے کے لیے باعث خیرو ثمرات ہوتی ہے۔
لیڈر کے اوصاف
عظیم رہنما، قائد اور لیڈر عظیم ماؤں کی گود سے تربیت پاتے ہیں۔ لیڈو وہ ہوتا ہے جو معاشرے کو متحرک کرتا ہے جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو پورے معاشرے کے لیے نفع بخش ہوتے ہیں۔ وہ زمانہ شناس ہوتا ہے علم و عمل کا مرقع ہوتا ہے۔ حق و باطل کا فرق کرنے والا اور بروقت فیصلہ کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کو درست سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ مشکل ترین حالات میں اپنے اعصاب، احساسات و جذبات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ زمانے کے مسائل اور حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ دوسروں کی زندگی میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو دوسروں کو متاثر کرتا ہے اور معاشرے کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ مشکلات سے نکلنے کے لیے نئے راستے تلاش کرتا ہے وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر دوسروں کو یکجا کرتا ہے اور فتح و کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں ولولہ اور امنگ پیدا کرتا ہے تاکہ لوگ مقاصد کے حصول کے لیے متحرک ہوں۔ وہ لوگوں کا حوصلہ بنتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے لوگوں میں اتحاد و یگانگت کو فروغ دیتا ہے تاکہ وہ متحد ہوکر مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔
ایک لیڈر بے مثال بصیرت اور دور اندیشی کا حامل ہے جس کی بدولت وہ انھیں معاشرے کے افراد کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہ دیانت داری اور باہمی ہمدردی کا نمونہ ہوتا ہے۔ ہر زمانے اور ہر معاشرے کو ایک ایسے ہی باکردار اور باہمت لیڈر، رہنما اور رہبر اور قائد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو معاشرے کی اجتماعی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بہت سے لوگ اپنے اوصاف و کردار کی بدولت معاشرے میں اہم مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ ان اوصاف میں علم و مثبت سوچ، مثبت عمل، بصیرت، خود اعتمادی، انصاف پسندی، راست بازی، وفاداری، بے غرضی، اخلاص و تقویٰ، ہمت و حوصلہ، قوت فیصلہ سازی، تحمل و بردباری، جوش و ولولہ شامل ہیں۔ اچھا قائد اور لیڈر معاشرے کی ترقی اور کارکردگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیڈر کیسے بنتے ہیں؟
اچھے لیڈر پیدا نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں اور لیڈر یا قائد کی زندگی میں اس کی والدہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ماں کی گود ہی انسان کی پہلی تعلیم گاہ اور تربیت گاہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام میں عورت کی عزت و اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور عورت کو مساوی معاشرتی حقوق کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے کیونکہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو ہی معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا اور معاشرے کے افراد بہترین، رہنما، قائد، لیڈر اور رہبر بن سکیں گے۔ اصلاح معاشرہ اور لیڈر کی تربیت میں عورت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
قرون اولیٰ سے لے کر آج تک ہر کامیاب مرد اور قائد و رہنما کی زندگی میں عورت کا کردار نظر آتا ہے۔ عورت کے مقام و مرتبے کو ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے۔ عورت کی تربیت سازی کی صلاحیت کے پیش نظر ہی نپولین نے کہا تھا کہ:
’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘
اسی طرح ہر کامیاب مرد کی زندگی میں اس کی ماں، بہن یا بیوی کی محنت اور کوشش سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ بڑےبڑے مفسرین،محدثین، صوفیاء آئمہ اور فقہا کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگیوں کی کامیابیوں کے پیچھے ان کی ماؤں کا کلیدی کردار ہے۔ ان کی ماؤں نے ان کی ایسی تعلیم و تربیت کی اور ان کو ایسے اعلیٰ اوصاف سے مزین کیا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام روشن رہے گا اور لوگ ان سے اکتساب فیض کرتے رہیں گے۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ عظیم ماؤں کی گود سے ہی عظیم لیڈر پروان چرھتے ہیں اور یہی عظیم لیڈرمعاشرے کی مثبت تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ماں خود باکردار باحیا، تعلیم و تربیت یافتہ اور اعلیٰ اوصاف کی حامل نہ ہو تو وہ اپنے بچوں کی اعلیٰ تربیت بھی نہیں کرسکتی۔ ان کے اوصاف و کردار میں خوبیاں پیدا نہیں کرسکتی۔ والدین کی شبانہ روز اورانتھک کوششوں سے ہی ان کے بچوں میں قائدانہ صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ درست، مثبت اور بروقت فیصلہ کرنے کا شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
اگر ہم عظیم رہنماؤں اور لیڈروں کی زندگیوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بڑے بڑے فقہا و محدثین اور قائدین کی زندگی کی کامیابیوں میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عورت اپنے ہر رشتے میں بے مثال نظر آتی ہے چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی مرد کی زندگی میں اس کا کردار واضح طو ر پر نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں قرون اولیٰ کی خواتین کی مثالیں ہمیشہ قابلِ ذکر رہتی ہیں۔ جنھوں نے لیڈر اور قائد بنانے میں اپنی زندگیاں صرف کردیں۔ اس حوالے سے چند خواتین کا ذکر درج ذیل ہے:
نبی کریمﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اپنے بیٹے حضرت زبیر بن عوامؓ کی وہ بے مثال تربیت کی جس کا ذکر ہمیشہ جاری رہے گا اور لیڈر کی کردار سازی میں ان کی مثال دی جاتی رہے گی۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے بیٹے کی ایسی تربیت کی کہ بہادری، شجاعت، تحمل و بردباری اور دیگر اعلیٰ صفات حضرت زبیرؓ کی شخصیت کا خاصا تھے۔ اس تربیت کے دوران انھیں سختی کا رویہ بھی اختیار کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ حضرت زبیرؓ کے چچا نے شکایت کی اور زیادہ سختی کی وجہ دریافت کی۔ مگر وہ اس کے جواب میں تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشعار کہتیں جن کا ترجمہ ہے کہ:
’’جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں اس نے جھوٹ کہا، میں تو اس کو صرف اس وجہ سے مارتی ہوں کہ وہ عقلمند ہوجائے۔‘‘
پھر دنیا نے اس تربیت کا نتیجہ دیکھا کہ کس طرح حضرت زبیرؓ اسلام کے مجاہد بنے اور پوری زندگی دین حق کی سربلندی میں بسرکردی اور ماں کی تربیت کا حق ادا کردیا۔
اسی طرح حضرت سفیان ثوریؒ جنھیں معروف محدث اور امیرالمومنین فی الحدیث ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی شخصیت سازی میں بھی ان کی و الدہ نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مالی حالات خراب تھے اور وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے تھے لیکن ان کی والدہ نے کسب معاش کی ذمہ داری خود لے لی اور انھیں علم حاصل کرنے کے لیے آزاد کردیا۔ ان کی والدہ سوت کات کر ان کی پرورش اور تعلیم کے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ اس بارے میں امام وکیعؒ لکھتے ہیں کہ
’’حضرت سفیان ثوریؒ کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا اے میرے بیٹے علم طلب کرو میں اپنے تکلہ (سوت کاتنے کا آلہ) کےذریعے تمھاری کفالت کروں گی۔‘‘
وہ اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتی تھیں کہ:
’’اے میرے بیٹے! جب تم دس حروف سیکھ لو تو دیکھو کہ تم پر اس علم کا کیا اثر ہوا ہے۔ اگر تمھاری چال ڈھال، علم و بردباری اور وقار میں اضافہ نہ ہوا تو سمجھ لو کہ تمھارا علم نافع نہیں ہے۔ یہ نہ تمھیں نفع دے گا اور نہ تمھیں نقصان پہنچائے گا۔‘‘
ماں کی بے مثال تربیت نے ہی حضرت سفیان ثوریؒ کو علم کے آسمان کا چمکتا ستارہ بنادیا۔
امام مالکؒ کے نام سے کون واقف نہیں۔ ان کی کامیاب زندگی اور کردار سازی میں ان کی والدہ نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ انہیں علم کے حصول کے لیے نکلتے وقت باقاعدگی سے تیار کرتی تھیں۔ ادب و اخلاق سکھاتی تھیں حضرت امام مالکؒ فرماتے تھے کہ:
’’میری والدہ مجھے عمامہ باندھتی اور مجھ سے کہتی تھیں کہ ربیعہؒ کے پاس جاکر اس کے علم سے پہلے اس کا ادب سیکھو۔‘‘
یعنی والدہ انہیں حصول علم سے پہلے ادب سکھاتی تھیں کیونکہ علم بغیر ادب کے نافع نہیں ہوتا۔
علامہ ابن الحجر کی زندگی میں ان کی بہن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ بہن نے پہلے خود تعلیم حاصل کی پھر اپنے بھائی کی تعلیم و تربیت کا معرکہ سر کیا۔ ان کے بارے میں علامہ ابن الحجر لکھتے ہیں کہ:
میری بہن میرے ساتھ نیکی اور احسان کرنے والی تھیں اس کی کم عمری کے باوجود میں نے اس سے اور اس کے آداب و اخلاق سے بہت استفادہ کیا۔
آپ اپنی بہن کو ماں کا درجہ دیتے تھے۔ ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے وہ فرماتے تھے کہ:
’’میری بہن قاریہ، کاتبہ اور ذہین و فطین تھی اور میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں تھی۔‘‘
ان کی بہن کی شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہی تھا کہ اما م ابن الحجر نے علم و آداب میں اعلیٰ مقام حاصل کیا اور لوگوں کی فلاح و خیر کا باعث بنے۔
حضرت ربیعہؒ ایک بلند پایہ فقیہ اور مشہور محدث گزرے ہیں ان کی پیدائش سے پہلے اُن کے والد جہاد پر روانہ ہوگئے۔ جانے سے پہلے بیوی کو نان و نفقہ کی غرض سے تیس ہزار دینار دیئے۔ جہاد کے بعد حالات ایسے ہوئے کہ وہ لمبے عرصے تک وطن واپس نہ آسکے۔ آخر کار 27 سال بعد جب گھر واپس لوٹے تو بیٹا جوان ہوچکا تھا اور والدہ کی عمدہ تربیت اور شبانہ روز کاوشوں سے اپنے زمانے کا بہت بڑا محدث، فقیہ اور عالم کا مرتبہ حاصل کرچکا تھا۔
بیٹے کو دیکھ کر پہچان نہ سکے بیٹا مسجد چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بیوی سے حال احوال دریافت کیے اور تیس ہزار دینار کے بارے میں پوچھا تو بیوی نے جواب دیا کہ وہ پیسے خرچ ہوچکے ہیں۔ عنقریب آپ کو لٹادوں گی اور اپنے شوہر سے کہا کہ وہ مسجد جاکر نماز پڑھیں۔ وہ مسجد چلے گئے اور نماز پڑھنے کے بعد وہاں کے حلقہ درس میں شامل ہوئے جہان پر بہت سے لوگوں کے درمیان ایک نوجوان عالم بیٹھا درس دے رہا تھا۔ انھوں نے لوگوں سے عالم کے بارے میں پوچھا توانہیں بتایا گیا کہ یہ ابو عبدالرحمن فروع کا بیٹا ربیعہ ہے وہ اپنے بیٹے کا مقام و مرتبہ سن کر بہت خوش ہوئے اور گھر آکر بیوی سے کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کو اتنی عمدہ حالت اور مقام پر دیکھا ہے کہ کسی دوسرے فقیہ کو نہیں دیکھا۔ اس پر بیوی نے جواب دیا کہ کیا آپ وہ تیس ہزار دینار زیادہ پسند کرتے ہیں یا بیٹے کی یہ عزت جو اس کو حاصل ہے؟ فروع نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اپنے بیٹے کی یہ حالت زیادہ پسند ہے تو بیوی نے بتایا کہ میں نے وہ تیس ہزار دینار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کردیئے ہیں۔
حاصل کلام
ان تمام واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قائد اور لیڈر کی زندگی میں ایک خاتون نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ امت مسلمہ کے اکابرین اور علماء کرام کے بلند مقام و مرتبے اور ان کی کامیابی کے پیچھے پاکیزہ خواتین کا اہم کردار ہے۔ یہ لوگ امت کے رہنما و امام بنے اور زمانے کو علم و ادب سے آراستہ کرنے میں اپنی زندگیاں صرف کردیں۔