شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء کے اپنے خطابات میں نئی نسل کے ایمان پر اِلحاد اور لادینیت کے فتنے کا سدباب نہایت احسن انداز میں سائنسی حقائق سے کیا ہے۔ سائنس خدا کی ذات کا انکار نہیں کرتی۔ جن اشیاء کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ضروری نہیں کہ اس کا وجود ہی نہ ہو۔ کیا پھولوں کی خوشبو کبھی نظر آتی ہے؟ کیا کسی سائنسدان نے ایٹم کو دیکھا ہے؟ کیا روشنی کی لہروں (Waves of Light) کو کسی نے دیکھا ہے؟ یہ سوالات اُن نظریات پر مبنی ہیں جنہیں سائنس مانتی ہے۔ شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف 2024ء کے خطابات میں اس طرح کے بہت سے سوالات کے جوابات سائنسی افکار و نظریات کے تناظر میں دے کر مذہب بیزاری کی ترغیب دینے والے ملحدین کو بالکل لاجواب کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ غیر مرئی اشیاء کے بارے سائنسی افکار و نظریات سے فتنہ الحاد کا ردّ
دین حق کا بڑا حصہ ایمان بالغیب پر مشتمل ہے۔ اسی ایمان بالغیب پر پختہ یقین اور اس کا دلوں میں رسوخ ہماری دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی کا ضامن ہے۔ لادینیت، طاغوت اور شیطانی طاقتیں ہر وقت اسی بنیادی عقیدے کو کمزور کرنے کے درپے رہتی ہیں۔ سائنسی ایجادات کے نتائج 4=2+2 کی طرح لوگوں کے مشاہدے میں آ رہے ہوتے ہیں، چنانچہ مذہب کے متعلق امورِ غیب پر وہ اسی طرح یقین کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے اپنے پہلے خطاب میں ایمان بالغیب کو سائنسی دلائل کی روشنی میں ثابت کرتے ہوئے فرمایا:
’’سائنسدان اور سائنس ہر چیز کو صرف directly دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ اب جو چیزیں ان سے ماورا ہیں دکھائی نہیں دیتیں سائنس ان کے اثرات کو دیکھ کر بھی ایک نتیجہ اخذ کرتی چلی جاتی ہے اور بہت سے نتائج جب ملتے ہیں تو ان سے استنباط کر کے ان مشاہدات سے حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعے وہ جان جائے گی کہ در حقیقت کوئی اور حقیقت ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر موجود ہے۔ اب یہ دونوں طریقے عقل کے اور سائنس کے متفقہ ہیں اس پر دنیا کا کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کر سکتا۔ افعال، فعل actions, functions جو چیزیں آپ کو نظر آرہی ہیں جو کائنات میں، دکھائی دیتی ہیں ان سے نتائج اخذ کرتی ہے اور کچھ چیزیں اور ان میں سے جو دکھائی نہیں دیتیں لیکن عقل اِن کو سمجھتی ہے drive کرتی ہے یہ طریقہ invisible ہوتا ہے اور جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ غیب ہوتا ہے۔‘‘
(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-12، یکم اپریل 2024ء)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء کے اپنے خطابات میں نئی نسل کے ایمان پر اِلحاد اور لادینیت کے فتنے کا سدباب نہایت احسن انداز میں سائنسی حقائق سے کیا ہے
جب سائنسدان بذاتِ خود بہت سی اَن دیکھی چیزوں جیسے کائنات کی تخلیق سے متعلقہ راز، مادّے کی بنیائی اِکائی ’ایٹم‘ کی ساخت وغیرہ پر یقین رکھتے ہیں تو مذہب کے درجے میں اَن دیکھی چیزوں پر ایمان لانے اور حقائق کو بغیر دیکھے ماننے میں کون سا اَمر مانع ہے؟
آپ نے بیان کیا:
’’آج تک روئے زمین پر کسی سائنس دان نے نیوٹران، الیکٹران پروٹان نہیں دیکھےیا یوں کہہ لیں!سائنس نے آج کے دن تک نہ ایٹم دیکھا ہے، نہ خلیے کا نیوکلیس، نہ الیکٹران، نہ نیوٹران، نہ پروٹون مگر سائنس دان پھر بھی بلا چون و چراں ان کو مانتے ہیں جبکہ ایمانی حقیقتوں کے بارے یہ کہنا کہ دیکھے بغیر نہیں مانتے تو یہ ایک تضاد ہے۔‘‘
(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-12، یکم اپریل 2024ء)
2۔ تخلیق و توسیع کائنات کے بارے بیسویں صدی کی سائنسی تحقیقات
آج سائنس اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ اس کائنات کی تخلیق و توسیع اور اس کی بقا کے قوانین کے پیچھے کوئی بڑی حکمت (Intelligence) پوشیدہ ہے۔ اینڈرو چہارم (Andreo iv ) دنیا کے نامور ماہرِ عالم الحیات(Physiologist) میں سے ایک ہے وہ کہتا ہے :
Belief in the existence of God provides the only complete ultimate and rational meaning to existence.
(John Clover Monsma, The Evidence of God in an Expanding Universe, p: 225)
خدا کے وجود پر ایمان لانا ہی دراصل ایک مکمل، حتمی اور معقول ترین کائناتی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں ایسی سائنسی دریافتوں کو پیش کیا ہے جو سائنسدانوں کو تو بیسویں صدی میں معلوم ہوئی مگر قرآن مجید ان حقیقتوں کو آج سے 1445 سال پہلے متعدد مقامات پر بیان کر چکا ہے جو قرآن مجید کے کلامِ الہٰی ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ اگر خدا نہ ہوتا تو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جیسے اِرشاد فرمایاگیا ہے:
يَزِيدُ فِي ٱلخَلقِ مَا يَشَآءُ
[فاطر، 35/1]
اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ (اور توسیع) فرماتا رہتا ہے۔
پھر فرمایا:
وَٱلسَّمَآءَ بَنَينَٰهَا بِأَييْدٖ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَo
[الذّاریات، 51/47]
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقینا ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔
چنانچہ کائنات، جسے اﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ 'لَمُوسِعُون' کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَيَخلُقُ مَا لَا تَعلَمُونَ
[النّحل، 16/8]
اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم (آج) نہیں جانتے۔
دین حق کا بڑا حصہ ایمان بالغیب پر مشتمل ہے۔ اسی ایمان بالغیب پر پختہ یقین اور اس کا دلوں میں رسوخ ہماری دنیوی و اُخروی زندگی کی کامیابی کا ضامن ہے۔ لادینیت، طاغوت اور شیطانی طاقتیں ہر وقت اسی بنیادی عقیدے کو کمزور کرنے کے درپے رہتی ہیں
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان 'الیگزینڈر فرائیڈ مین' (Alexander Friedman) نے 1922ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں 1929ء میں امریکی سانئسدان ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘(Arno Penzias) اور ’رابرٹ وِلسن‘ (Robert Wilson) نے اُسے ثابت کیا۔
(ملاحظہ ہو خطاب نمبر: Ca-14،3اپریل 2024ء)
نظامِ شمسی، تخلیق و توسیع کائنات، زمین، پہاڑ، کائنات کی اِبتداء، اُس کا پھیلنا، سکڑنا اور اُس کے بعد ہمہ گیر ٹکراؤ پر اختتام کے بارے جدید سائنسی افکار و نظریات اور اسلام کے بیان کردہ حقائق کی ہم آہنگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وجود باری تعالیٰ اور ضرورت مذہب پر ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
3۔ رحمِ مادر کے اندر اِنسانی وُجود کی تشکیل و اِرتقاء کے مراحل کے بارے سائنسی افکار و نظریات سے فتنہ الحاد کا رد
قرآنِ مجید میں رحمِ مادر کے اندر اِنسانی وُجود کی تشکیل و اِرتقاء کے سات مراحل کا ذِکر ہے،جن سے پتہ چلتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنے خطاب میں جدید ایمبریالوجی (Embryology) سے متعلقہ قرآنی آیات پیش کرکے ایسے حقائق بیان کئے جنہیں انسان کو سائنسی تحقیقات کے ذریعے پچھلی اور موجودہ صدی میں پتہ چلا ہے جبکہ قرآنِ مجید میں اِس تخلیقی عمل کی تصریح و تائید آج سے 1445 سال قبل آئی ہے ۔ اس جدید تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہے۔ اس بارے انہوں نے کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی (University of Toronto) میں شعبۂ اناٹومی کے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایل مُور (Dr Keith L. Moore) کے بہت سے حوالے دیئے کہ انہوں قرآنی حقائق کو جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں تسلیم اور ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہا:
“The only reasonable conclusion is that these descriptions were revealed to Muhammad from God.”
ڈاکٹر کیتھ ایل مُور کے نظریات سے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ وحی ربانی تھی جو اللہ نے اپنے پیغمبر محمد مصطفی ﷺ پہ نازل کی تھی۔ اگر وہ اللہ کی وحی نہ ہوتی اور سیدنا محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالی کے سچے پیغمبر نہ ہوتے تو وہ یہ تفصیلات کبھی بتا نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کی کوئی scientific training تو نہیں ہوئی تھی، اور نہ اس وقت ساتویں ہجری میں یہ سائنس کے آلات اور ایجادات موجود تھے۔
انسان کی تخلیق کے یہ سارے مظاہر اور عجائبات جس کی تائید و تصدیق آج بیسویں صدی میں سائنس نے کر دی ہے، اسے اللہ کے رسول ﷺ نے وحی کے ذریعے ساتویں صدی میں صحت کے ساتھ بتایا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی ذات ہے، جس کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے مبعوث کیے ہوئے نبی اور رسول اور آخری پیغمبر تاجدار کائنات ﷺ حق ہیں۔ گویا سائنس نے evidence سے اللہ اور اس کے رسول، قرآن اور دین و مذہب اسلام کا حق اور سچ ہونا ثابت کیا ہے۔
(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-15، 4اپریل 2024ء)
قرآن مجید نے تخلیقی مرحلے سے متعلق لطیف ایک بات کی ہے۔اِرشاد فرمایا گیا ہے:
ثُمَّ سَوَّىٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦۖ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمعَ وَٱلأَبصَٰرَ وَٱلأَفئِدَةَ قَلِيلٗا مَّا تَشكُرُونَo
[السجدة، 32/9]
پھر اس (میں اعضاء) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ(حیات) پھونکی اور تمہارے لِئے (رحمِ مادر ہی میں پہلے) کان اور (پھر) آنکھیں اور (پھر) دل و دماغ بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔
جدید سائنسی افکار و نظریات کے مطابق بھی نظامِ سماعت کو نظامِ بصارت اور نظامِ عقل و فہم پر تقدم حاصل ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایل مُور (Dr. Keith L. Moore) نے بھی اس کا ذکر کیا ہے:
This part of Sura 32:9 indicates that special senses of hearing, seeing and feeling develop in this order, which is true.
سورۃالسجدہ کی آیت نمبر9 کا یہ حصہ اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مخصوص حسِ سامعہ، حسِ باصرہ اور حسِ لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں اور یہی حقیقت ہے۔
لمحہ بہ لمحہ سائنس جوں جوں ترقی کرتی جا رہی ہے وہ حضور S کی بتائی ہوئی حقیقتوں کی تصدیق پر سرتسلیم خم کرتی جا رہی ہے
تخلیقِ انسانی کے بارے میں یہ وہ سائنسی حقائق ہیں جنہیں قرآنِ مجید آج سے پندرہ سو سال پہلے منظرِ عام پر لایا اور آج جدید سائنس نے اُن کی تصدیق وتائید کر دِی ہے۔ اِس سے باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کی عظمتوں اور رِفعتوں کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی حقانیت اور نبوتِ محمدی ﷺ کی صداقت و قطعیت کی ایسی عقلی دلیل بھی میسر آتی ہے جس کا کوئی صاحبِ طبعِ سلیم اِنکار نہیں کر سکتا۔
4۔ جسم انسانی میں ہڈیوں کے جوڑ کے بارے سائنسی افکار ونظریات
شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے اپنے خطاب میں انسانی جسم میں ہڈیوں کے جوڑ کی تعداد کے بارے latest سائنسی تحقیق پر مبنی ایک کتاب
Biomaterials for implants and scaffold’s (Springer series in biomaterials science and engineering; 8)
شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنے خطابات میں اِنسانی خلیوں کی اَقسام اور DNA پر بھی تفصیل سے روشنی ڈال کر فتنہ الحاد کا رد کیا ہے
جس کے رائٹرز Japanese اور chines سائنٹسٹ ہیں اس کے صفحہ 5 اور دیگر بہت سی کتب کا حوالہ دیا کہ جسم انسانی میں کل جوائنٹس 360 ہیں ۔ یہ تازہ ترین سائنسی انکشاف ہے جبکہ آقا ﷺ نے آج سے 1445 سال پہلے بتادیا تھا کہ انسانی جسم میں 360 ہڈیوں کے جوڑ ہیں۔ ام المؤمنین سیدہ عاشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں آپ نے فرمایا:
خُلِقَ ابْنُ آدَمَ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ وَسِتِّينَ مَفْصِلًا.
(أبو يعلى، المسند، 8: 64، الرقم: 4589)
ہر انسان کا جسم 360 ہڈیوں کے جوڑوں پر بنایا گیا ہے۔
گویا آج جدید سائنس نے فرمانِ رسول ﷺکی تصدیق کر دی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے کہ خدا کا وجود ہے اگر خدانہ ہوتا تو مصطفی ﷺ کو یہ علم کس نے سکھا دیا تھا؟ اس ایک تحقیق سے ہی الحاد و لا دینیت کا پورا قلعہ مسمار ہو جاتا ہے۔
لمحہ بہ لمحہ سائنس جوں جوں ترقی کرتی جا رہی ہے وہ حضور S کی بتائی ہوئی حقیقتوں کی تصدیق پر سرتسلیم خم کرتی جا رہی ہے۔
5۔ انسانی جسم کے خلیات کے بارے سائنسی افکارو نظریات سے رد الحاد
جدید سائنسی افکارو نظریات، قرآن مجید اور ارشادات نبوی اس بات پر متفق ہیں کہ انسان کی زندگی کی ابتدا نفس واحدہ یعنی ایک خلیہ (cell) سے ہوئی ہے۔ آپ نے خلیات پر بہت ہی تفصیلی بات کی اور ثابت کیا کہ خلیات (cells) کا نظام اعلان کر رہا ہے کہ اسے چلانے والا ایک خدا ہے۔ خود سائنس دان اقرار کرتے ہیں کہ ان باریک باریک خلیات کے اندر پوری کائنات کو وجود دینے والا، سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ جیسے انسانی خلیات کا ماہر سائنس دان اسٹیفن سی مئیر [Stephen C. Meyer 1958ce] نے لکھا ہے:
That nature bears witness to that reality.
)Stephen C. Meyer: The Explanatory Power of Design DNA and the Origin of Information, p. 1)
’’ہر چیز کی فطرت اور ماہیت اللہ کے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔‘‘
شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنے خطابات میں اِنسانی خلیوں کی اَقسام اور DNA پر بھی تفصیل سے روشنی ڈال کر فتنہ الحاد کا رد کیا ہے۔
(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-16، 5اپریل 2024ء)
سائنسی افکار و نظریات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دان یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کا محرک آخر کوئی تو ہے؟ گویا سائنس نے اپنے طریقے سے اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کا راستہ دکھایا ہے کہ خدا کے وجود کے بغیر کائنات خود بخود چل ہی نہیں سکتی۔