ترتیب و تدوین: ثناء وحید معاون: حافظہ سحر عنبرین
ارشادی باری تعالیٰ ہے:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ اَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌo
(فصلت:53)
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
سورہ النساء میں ہے:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً وَ اتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo
(النساء:1)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خصوصی خطاب خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ کی پانچویں نشست کا حصہ اوّل گزشتہ شمارے میں شائع کیا گیا جس میں شیخ الاسلام کے خطاب سے درج ذیل مضامین شامل کیے گئے:
انفس و آفاق میں اللہ کی نشانیاں، ابتدائی خلیے کی تقسیم کا مرحلہ، انسانی جسم کے خلیے کا سائز، انسانی جسم میں خلیات کی تعداد، خلیہ یعنی سیل کی حقیقت، آنکھ کے سیل کا مطالعہ، خلیات کی اقسام اور ان کے فرائض، دل کیسے کام کرتا ہے؟، سیل میں توانائی کی پیداوار، خون کے سرخ خلیوں کی گردش کی رفتار، پانچویں نشست کا حصہ دؤم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
ڈی این اے کا مطالعہ
انسانی جسم پر مزید غورو فکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جسم کے اندر DNA ہوتا ہے جس کے اندر سمندروں جتنی معلومات ہوتی ہیں اور یہ بھی سیلز کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ ڈی این اے میں انسانی زندگی کی سب معلومات ہوتی ہیں۔ ان معلومات کو اگر کتابوں کی شکل دے دی جائے تو کئی بلین کتب بن جائیں گی۔ اس (DNA) میں انسانی جسم کی ساری کی ساری معلومات جمع ہوتی ہیں، اعضاء کے بارے میں ہر طرح کی معلومات اس ڈی این اے میں درج ہوتی ہیں۔ بچے کی شکل وصورت الغرض جنیٹکس کا مکمل علم اور ریکارڈ اس ایک ڈی این اے میں درج ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ انسانی کائنات کو کوئی ڈیزائن کرنے والا نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ ان تمام سیلز کو ہدایات کون جاری کرتا ہے کہ نظام کو کیسے چلانا ہے؟ سیل کے اندر پاور پلانٹ اور DNA کا منظم نظام کیسے بن گیا؟ جسم میں موجود سیلز کو ہدایت کون دیتا ہے کہ اس نے کیا کام کیسے کرنا ہے؟
خلیات کو کام کرنے کی ہدایت کون دیتا ہے
جسم کے اندر تمام سیلز ایک نظم کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور کوئی سیل نافرمانی بھی نہیں کرتا۔ ایک سیل اتنی معلومات پر مبنی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے ایک پورا انسان تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ کوئی تو ہے جو اس سارے سسٹم کو چلا رہا ہے وہ اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔ اسی طرح پلکوں نے آنکھ کی حفاظت کی ہوئی ہے، یہ سیلز بھی خالق کی دی ہوئی ہدایات کی نافرمانی نہیں کرتے اگر نافرمانی کرتے ہوتے تو اپنی جگہ چھوڑ کر آنکھ کے اندر چلے جائیں تو آنکھ کے اندر ہی بال اُگنے لگ جائیں، آخر یہ اتنا بڑا نظم اور کنٹرول ان اعضاء کو کس نے عطا کر رکھا ہے؟ یہی نظام اللہ رب العزت نے زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بھی دیا ہے کہ نافرمانی نہ کرو، تقویٰ اختیار کرو۔ اسی طرح خالق کی جانب سے انسانی جسم کی ترتیب میں نظم نظر آتا ہے۔ انسانی جسم کا کوئی عضو کسی غلط جگہ پر نہیں لگا، اگر کوئی انہیں فرمابرداری کا نظام دینے والا نہ ہوتا تو کئی مضحکہ خیز چیزیں بن جاتیں۔ ایک سیل کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سیل میں اتنی طاقت اور صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن وہ وہی کرتا ہے جس کی اس کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔
خلیات کی موت و حیات
جیسے ہماری زندگی اور موت کا نظام ہے ایسے ہی سیلز کی بھی زندگی اور موت کا ایک نظام ہے۔ ہر ایک منٹ میں 30 کروڑ سیلز کی موت واقع ہوتی ہے۔ جب 30 کروڑ سیلز مرتے ہیں تو ساتھ ہی 30 کروڑ سیلز نئے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ سکن (جلد) کے بھی ہر ایک منٹ میں 30 ہزار سیلز بنتے ہیں اور اسی طرح نئے سیلز بھی بن جاتے ہیں۔ دماغ جسم کا ایک ایسا حصہ ہے کہ جس کے سیلز مرتے ہیں تو نئے سیلز نہیں بنتے ۔ دماغ کے سیلز پیدائش سے لیکر مرنے تک نئے نہیں بنتے۔
جسم کا دفاعی نظام
انسان کو بیماریاں بھی لاحق ہوتی ہیں اور ان سے لڑنے اور دفاع کیلئے اللہ رب العزت نے جسم کے اندر ہی ایک دفاعی فوج بنا دی ہے جسے antibodies کہتے ہیں۔ یہ خود بخود دفاع کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے پاس تو تب جاتے ہیں جب اندر کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ سیل کی ایک حفاظتی دیوار ہوتی ہے جسے ممبرین (membrane) کہتے ہیں۔ یہ دیوار سیل کی حفاظت کرتی ہے اور سیکیورٹی گارڈ کے طور پر خدمات سر انجام دیتی ہے۔ یہ membrane اندرونی ماحول کی حفاظت کرتی ہے اور بیرونی ماحول کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ حفاظتی دیوار سیل کی تمام ضروریات کا حساب رکھتی ہے۔ سب سیلز کی اپنی اپنی ڈیوٹیز ہیں ۔ ان کے پاس آئی ڈی کارڈز ہوتے ہیں ان کو چیک کرکے ہی اندر آنے دیا جاتا ہے۔ اور ایسے سیلز اور خلیات جو کہ نقصان دہ ہوتے ہیں انہیں سیل کے حفاظتی نظام کے ذریعے سیل کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جاتا ہے اور ان سب کے درمیان باقاعدہ ایک مواصلاتی نظام موجود ہوتا ہے۔
یہ تمام سیلز انسانی جسم میں ایک نظم و ضبط کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنا حلیہ نہیں بدلتے۔ یہ نافرمانیاں تو ہم کرتے ہیں، کیونکہ ہم مغرب کو فالو کرتے ہیں اور اپنی اصل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آج living religion صرف اور صرف اسلام ہے اور مغرب کی یہ کوشش ہے کہ اسلام کو ایسے کر دے کہ جیسے عیسائیت صرف چرچ تک رہ گئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں فتنہ الحاد کے ذریعے ان کے ذہنوں میں خدا کے وجود کے متعلق سوالات پیدا کردیں اور ان کے ایمان کو کمزور کردیں۔
خلیوں کا مواصلاتی نظام
اُس مرکز کی طرف میسیج چلا جاتا ہے کہ سیلز مزید مقدار میں پیدا کیے جائیں۔ اور جو سیلز مردہ ہو جاتے ہیں ان سب سیلز کو جسم سے مدافعتی نظام کے ذریعے خارج بھی کیا جاتا ہے۔ یہ سارا نظام اللہ رب العزت نے ترتیب دیا ہے۔ یقیناً یہ پورا شعوری نظام سوائے اللہ کی ذات کے کوئی اور نہیں بنا سکتا۔ جب سیلز مررہے ہوتے ہیں تو جہاں نئے سیلز بنتے ہیں۔
خون کے سرخ خلیوں کے فرائض
خون کے اندر موجود ریڈ بلڈ سیلز آکسیجن ٹرانسپورٹر کا کام کرتے ہیں اور خون کے ایک قطرے میں 50 لاکھ ریڈ بلڈ سیلز ہوتے ہیں۔ یہ پھیپھٹروں سے آکسیجن لے کر ان کو جسم کے سارے حصوں تک پہنچاتے ہیں۔ پھیپڑوں میں خاص قسم کی تھیلیاں (ایلولائی) ہوتی ہیں جن کے ذریعے سے آکسیجن ایکسچینج ہوتی ہے اور دل کی پمپنگ سے یہ جسم کے سارے حصوں میں پہنچائی جاتی ہے۔ اسی طرح جسم کے سارے حصوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر باہر نکالتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں 20 لاکھ ریڈ بلڈ سیلز مر جاتے ہیں اور اسی سیکنڈ میں 20 لاکھ خون کے نئے سرخ سیلز پیدا بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جلد کے سیلز بھی replace ہو رہے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ناک کے اندر سونگھنے کیلئے 50 لاکھ نرو سیلز موجود ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت سونگھنے کا نظام چلتا ہے۔ اور یہ سیلز 10 ہزار قسموں کی مہک سونگھ سکتے ہیں۔ زبان 10 ہزار قسم کے ذائقوں کی شناخت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جسم میں بہت بڑی تعداد میں sensory receptors ہوتے ہیں جو پیغام کو مطلوبہ اعضاء تک پہنچاتے ہیں۔
خون کی نالیوں میں سرخ خلیوں کے ساتھ وائٹ بلڈ سیلز بھی ہوتے ہیں اور ان سیلز کی بھی پانچ اقسام ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی شکل اس کے کام کے مطابق ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ وائیٹ بلڈ سیلز جسم کے اندر دفاعی فورس ہوتی ہے۔ پھر خون کے اندر خاص قسم کے پلیٹ لیٹس ہوتے ہیں اور یہ بھی اربوں کی تعداد میں جسم کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ جہاں کوئی زخم لگتا ہے پلیٹلیٹس وہاں پہنچ کر زخم بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس سارے نظام کا پلانر اور ڈیزائنر اللہ رب العزت ہی ہے۔
انسانی نظامِ انہضام
اسی طرح انسان کا digestive system ہے اس کا ایک ایک عضو ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہ معدے سے شروع ہو کر آخر (اینس ) تک 28 فٹ کی نالی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سارا سسٹم بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اور نظم کے ساتھ فٹ جسم میں کیا گیا ہے اور حلق سے لیکر anus تک یہ 30 فٹ کا پائپ ہے۔ چھوٹی آنت میں ہزاروں بیکٹریا موجود ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنی جگہ کو نہیں بدلتے۔ اب بتایئے کہ یہ سارا سب نظام جسم کو کس نے دیا ہے؟ تو پھر آیئے اس کا جواب قرآن مجید سے لیتے ہیں۔
قرآن اور خود شناسی
وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقۡدِیۡرًاo
(فرقان:2)
اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے ، پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ پروگرام کے مطابق متناسب توازُن کے ساتھ تشکیل دیا ہے۔
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
(النساء:1)
تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ رب العزت نے ہی ہر ایک چیز کو متناسب توازن کے ساتھ پیدا کیا۔
سورہ الانفطار میں ہے کہ
یٰۤاَیُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِo
(الانفطار:4)
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔
الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَo
(الانفطار:7)
جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لئے ابتداءً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا۔
فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَo
(الانفطار:8)
جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔
کَلَّا بَلۡ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیۡنِ ۙ
(الانفطار:9)
حقیقت تو یہ ہے (اور) تم اِس کے برعکس روزِ جزا کو جھٹلاتے ہو۔
اللہ رب العزت نے فرمایا اے انسان تو کیسے اپنے عظمت والے رب سے اور اس کی نشانیوں سے پیچھے ہٹ گیا، یہ ہی رب ہے جس نے تمہیں پید ا کیا، پھر تمہیں proportional equalization دی۔ پھر تیری شکل اور وجود کو نظم دیا اس کے پر تمہاری proportional programming کی۔ پھر فرمایا کہ اس ترتیب کے عمل کے بعد انسان کی ڈیزائنگ کی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میں ہی تمہیں پیدا کرنے ولا ہوں اور تمہاری ڈیزائنگ کرنے والا ہوں اور پھر میں نے تمہیں ترتیب و ترکیب دی۔ اور یہ کہ ہر چیز اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق چل رہی ہے اور کوئی ایک سیل بھی اس بنائے گئے نظام سے الگ ہو کر نہیں چل سکتا ہے اس سارے نظام کو بنانے والا، ڈیزائن کرنے والا منظم کرنے والا اللہ ہے۔
سائنس صرف یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ یہ کام ہورہا ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ کیوں ہو رہا ہے؟ چونکہ سائنس سے اس کا جواب نہیں مل رہا اور نہ ہی ملے گا کیونکہ اس سوال کا دائرہ مذہب کا دائرہ ہے۔ اور جب مذہب پر بات آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے کامل مذہب اسلام ہے۔ کہ اس سب کو اللہ نے خلق کیا، اس کی ڈیزائنگ بھی اللہ نے کی اور اسی نے اسی کو نظم و ضبط بھی دیا۔
اللہ کو پانے والوں کا تذکرہ
عزیزانِ محترم! یہ سارا علم اللہ کی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے۔ آیئے اب ان لوگوں کی بات کر لیں جو اللہ تک پہنچ گئے ہیں۔ جو لوگ جسمانی کائنات کی طرح اللہ رب العزت کی تابعداری میں آ جاتے ہیں ان کی کیفیت اور ہو جاتی ہے۔ اللہ سے ایسے تعلق کو پیدا کرو کہ اس کا اثر اپنے اندر محسوس کرو۔ اس سے محبت کی ایسی پیاس پیدا کرو کہ اس کے ذکر کا پانی آپ کو ٹھنڈک دے۔ حضرت مالک بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے مکہ معظمہ میں ایک عاشقہ خاتون دیکھی۔ شہر مکہ کی عورتیں چل چل کر صرف اس کی آنکھیں دیکھنے کیلئے آتی تھیں اس کی آنکھیں اتنی خوبصورت تھیں وہ ہر وقت اللہ کیلئے روتی رہتی تھیں۔ اس کی سہیلیوں نے کہا کہ تم رو رو کر اپنی آنکھوں کو ضائع کر لو گی اس جواب میں کہا کہ اگر اللہ نے مجھے بخش دیا اور میں جنت میں چلی گئی تو وہاں اس کا دیدار ہوگا وہاں تو آنکھیں چاہیے ہونگی لیکن وہاں تو اچھی آنکھیں مل جائیں گی جو دیدار کے قابل ہوں گی۔ اور اگر فیصلہ دوسری طرف کا ہوگیا تو میں نے ایسی آنکھوں کا کیا کرنا ہے جو اللہ کے دیدار کے قابل نہ ہوں یہ کہہ کر وہ روتی رہیں اور ان کی بینائی چلی گئی۔
امام ابن خزیمہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبلؒ کو اپنے خواب میں دیکھا اور پوچھا اور ان سے سوال کیا کہ اللہ رب العزت نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا تو انھوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نےمجھے معاف فرما دیا اور سونے کے جوتے پہنائے۔ پھر امام خزیمہؒ نے پوچھا کہ اللہ رب العزت نے آپ پر اتنا کرم کیوں کیا؟ تو فرمایا کہ میں نے اللہ رب العزت کی کتاب کے خلاف جو فتنہ اٹھا اس کے مقابلے میں قرآن مجید کے دفاع میں کھڑا ہو گیا تھا۔ امام خزیمہؒ نے پھر حضرت بشر حافی کا حال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں بس جب میرا حساب ہوگیا اور میں نے دیکھا کہ بشر حافی اللہ رب العزت کے دیدار کیلئے کھڑے تھے اور ان کیلئے طرح طرح کے کھانوں کا دسترخوان بچھایا گیا تھا اور اللہ رب العزت ان کی طرف خود توجہ فرما رہا تھا اور فرما رہا تھا اے نہ کھانے والے کچھ تو کھا لے۔ اے نوجوانو! حضرت بشر حافی کی کوئی جھلک اپنے اندر پیدا کرلو۔
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان بیٹی کعبے کے ساتھ لپٹ کر زارو قطار رو رہی تھی حضرت ذوالنون مصری بھی رو پڑے وہ کہہ رہی تھی اے میرے مالک اے میرے رب میں تجھے اس محبت کا واسطہ دیتی ہوں جو محبت تجھے مجھ سے ہے اس کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ مجھے معاف فرمادے ۔ حضرت ذوالنون مصری کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ کیا تم جملہ بدل نہیں لیتی اگر یہ کہہ لو کہ وہ محبت جو مجھے تجھ سے ہے تو اس نے کہا اے ذوالنون! کیا تمہیں نہیں معلوم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ اللہ ان سے پہلے محبت کرتا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ذوالنون مصری حیران رہ گئے اور پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں ذوالنون ہوں تو کہتی ہے کہ عاشقوں کے دل اللہ کے عشق کے میدانوں میں سفر کررہے ہوتے ہیں وہاں وہ ایک دوسرے کو بھی پہچانتے ہیں۔
خلاصہ
نوجوان اپنے مَن کے اندر اللہ کی محبت کی ایسی پیاس پیدا کریں کہ جب اُس ذاتِ حق کے ذکر اور یاد کا پانی پیو تو مَن کے اندر ٹھنڈک چلی جائے۔ نوجوانو! رب ذو الجلال کے تابع فرمان بن جاؤ۔ جو اُس کی اطاعت میں آجاتے ہیں، اُنہیں باری تعالیٰ اپنا عشق و محبت اور قُرب عطا فرماتا ہے۔ آج کے نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میرے بیٹو اور بیٹیو! پڑھنے اور سمجھنے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ سب اپنے مذہب کی تعلیمات اور قرآن کا مطالعہ کیا کریں، اور اس میں غور و فکر اور تدبر کیا کریں۔ اللہ کے عاشقوں کے دل اللہ کے راز اور اَسرار و رُموز کے میدانوں کی سیر کرتے ہیں۔
انسان کا جسم 100 کھرب خلیوں (cells) کے ساتھ تشکیل پاتا ہے اور ہر سیل اپنے اندر ایک کائنات ہے۔ ایک سیل کے اندر 100 ارب atoms اور 4 کروڑ 20 لاکھ مالیکیولز ہوتے ہیں۔ ان سیلز پر تحقیق سے معلوم ہوگا کہ کوئی ذات ہے جس نے انہیں ڈیزائن کیا، بنایا اور پھر ترتیب سے ان کی جگہوں پر لگایا ہے۔ ... وہی خدا ہے۔ کائنات میں تمام اشیاء خلیات (cells) سے مل کر بنی ہیں۔ ایک خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ 10 لاکھ خلیات (cells) جمع کیے جائیں تو ان کا سائز ایسے بنتا ہے جیسے بال پوائنٹ کی نوک ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے ہر خلیہ (cell) کے اندر ایک کائنات آباد ہے۔ خدا نے اس سیل کی ضرورت کی تمام اشیاء اس کے اندر پیدا کی ہیں۔ جیسا کہ آنکھ کے retina کے خلیات میں ایک ہزار سے اڑھائی ہزار تک پاور پلانٹس ہوتے ہیں اور وہ پاور پلانٹس جسم میں موجود شوگر سے چلتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنکھ کے ایک سیل سے پورا انسان تشکیل پاسکتا ہے۔ ہمیں علم، تحقیق اور سائنس کی آنکھ کھول کر ان آفاقی حقیقتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں خدا کے وجود کا پتہ ملے گا۔
انسانی دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے اور جسم میں موجود تمام سیلز کو خون مہیا کرتا ہے۔ انسان کے اندر موجود تمام خودکار نظام خود سے نہیں بنے، بلکہ انہیں کسی نے بنایا ہے اور انہیں ان کے معاملات کا شعور دیا ہے۔ ۔ ۔ وہی خدا ہے!۔ خون کے سرخ خلیات (red blood cells) ہر 90 سیکنڈز میں 75 ہزار میل کا سفر کرتے ہیں۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کون گائیڈ کرتا کہ انہوں نے کب، کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ کوئی تو ان کا تخلیق کار اور ان کا صورت گر ہوگا؟۔ ۔ ۔ وہی خدا ہے!۔ انسانی جسم میں موجود ہر خلیے کے گرد cell membrane ہوتا ہے۔ یہ membrane نہ صرف خلیے کی حفاظت کرتا ہے بلکہ cell کے اُمور میں مکمل راہ نُمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح پودوں میں خلیہ کے گرد cell wall ہوتی ہے، اس کا کام بھی خلیہ کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ ناک کے اندر 50 لاکھ nerve cells ہوتے ہیں، جن کی مدد سے انسان سونگھتا ہے۔ انسانی 10 ہزار قسموں کی مہک سونگھ سکتی ہے۔ اسی طرح زبان کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی دی ہے کہ زبان 10 ہزار قسموں کے ذائقوں کی شناخت کرتی ہے۔ خون کے ایک قطرے میں 50 لاکھ cells ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر پورے جسم کے ہر ٹشو تک پہنچاتے ہیں اور پھر پورے جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر پھیپھڑوں کے ذریعے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ ہر ایک سیکنڈ میں خون کے 20 لاکھ خلیے مر جاتے ہیں اور اُسی لمحے 20 لاکھ خلیے نئے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔؟ تو کون ہے جو اس نظام کو چلاتا ہے۔۔۔؟ وہ خدا ہے۔