ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیٓ اٰدَمَ.
(الاسراء، 17: 70)
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔‘‘
اور اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.
(التین،95: 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
باری تعالیٰ نے انسان کو ایک عمدہ اور بہترین صورت میں بنایا ہے۔ اگر انسان اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی نہ کرے تو یہ اپنی فضیلت عقل کی بناپر فرشتوں سے بھی افضل و اعلیٰ ہے۔ اگر اس انسان میں کثافت طبعی نہ ہو تو یہ انسان بڑا ہی لطیف ہو۔ انسان میں عجیب ترین حسّیات اور اس میں اسرار غیبی پائے جاتےہیں اور اس کا وجود ایک ایسے مکان کی مانند ہے جس میں بیک وقت نور و ظلمت پائے جاتے ہیں۔ باری تعالیٰ نے انسان کو فرشتوں سے افضل اور اعلیٰ ٹھہرایا ہے۔ انسان میں عالم علوی بھی ہے اور انسان میں عالم سفلی بھی ہے۔ انسان کے جسم میں روح کے موتی بھی ہیں اور اس کا دریائے وجود علم کی کشتیوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ریاضت و مجاہدہ بھی کرتا ہے اور غفلت و جہالت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ انسان کی خواہشات کے لشکر کا سلطان انسانی نفس ہے اور انسانی عقل کے لشکر کا سلطان اور سردار روح ہے۔ انسان تین چیزوں سے مرکب ہے ایک روح ہے، دوسرا نفس ہے اور تیسرا جسم ہے۔ روح کی صفت عقل ہے، نفس کی صفت ہوا و ہوس ہے اور جسم کی صفت حواس خمسہ ظاہری میں اس انسان پر ایک وقت ایسا بھی گذر چکا ہے جب یہ عدم کے پردوں میں تھا۔ اس کا ذکر تک نہ تھا۔ قرآن اس حقیقت کو بیان کرتا ہے:
ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا.
(الدھر،76: 1)
’’بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا۔‘‘
انسان کے اعمال و اخلاق کا ظہور دو صورتوں میں ہوا ہے۔ ایک نیکی کی صورت میں اور دوسرا بدی کی شکل میں جب انسان کے اخلاق و اعمال بدی کی صورت میں ظاہر ہوئے تو ان اخلاق و اعمال میں سے کوئی اس کا عمل تکبر بنا اور کوئی اس کا فعل حسد بنا اور کوئی اس کا رویہ بخل میں ڈھلا اور کوئی اس کا عمل غیض و غضب بنا اور اسی طرح کبھی انسان میں برا خلق اور عمل سوء بغض وعداوت میں نظر آیا کوئی کذب کی صورت میں متشکل ہوا کوئی افتراء بنا کوئی عیب جوئی میں ظاہر ہوا کوئی بددیانتی میں ڈھلا، کوئی چوری کی معیت میں نمایاں ہوا، کسی نے ریا کاری کو اپنایا، کوئی خلق و عمل حرص و ہوا میں ظاہر ہوا، کوئی چغل خوری اور غیبت بنا اور کوئی عصبیت اور ظلم کا نشان بنا اور کوئی منافقت اور عداوت میں عیاں ہوا جب انسان کے اخلاق و افعال نیکی کی صورت میں ظاہر ہوئے تو یہ انسان پیکر صدق بنا، سخاوت اس کا شعار ہوئی۔ عدل و انصاف اس کی عادت ثانیہ ہوئی۔ تقویٰ اس کے کردار کا زیور بنا، دیانتدار اور امانت اس کی شناخت بنی۔ بہادری وشجاعت اس کی علامت بنے،حلم و بردباری اس کے کردار کی لازمی نشانی بنی عفت و پاکبازی اس کے کردار کی عظمت کے نشان بنے۔
خود داری اور عزت نفس اس کے ہتھیار بنے، توکل علی اللہ ہر حال میں اس کا عظیم سہارا بنا،حیاداری اور ایثار اس کا تشخص بنے، اس کی عفو کی عادت ہر دوسرے انسان کے لیے جائے امن بنی، احسان، خیر خواہی اس کی عادت انسانیت کی لازمی شناخت میں ڈھلا، عہد کی پابندی اس کی سربلندی کا راز بنی۔
تواضع و خاکساری اس کی کمال بندگی کی نشانی بنی۔ شکر کی عادت اللہ کے انعامات کا مزید مستحق بننے کا معیار بنی، استقامت اللہ کی نفرت کی آواز بنی، مساوات انسانی رفعت اعلیٰ ترین مثال بنی۔
انسان کی خواہشات میں دو منبع اور سرچشمے جاری وساری ہیں۔ ایک سرچشمہ نیکی ہے اور دوسرا بدی ہے۔ ان دونوں سے اکتساب انسان کی مرضی وچاہت اور انتخاب پر ہے اس لیے قرآن نے بیان کیا ہے:
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَا.
(الشمس، 91: 8)
’’پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔‘‘ انسان کے باطن اور اس کے وجود ظاہر میں دو طرح کے چشمے رواں دواں ہیں۔ ایک فجور کا دریا ہے اور ایک تقویٰ کا دریا ہے۔ فجور انسان کے برے اعمال کی نمائندگی کرتا ہے اور تقویٰ انسان کے اچھے اعمال کی راہنمائی کرتا ہے۔فجور عمل سوء ہے اور تقویٰ عمل صالح ہے۔ فجور بدی ہے اور تقوی نیکی ہے۔ فجور کا پیکر برا انسان ہے اور تقویٰ کا عامل اچھا انسان ہے۔ یہ دنیا دو طرح کے انسانوں سے معمور ہے۔ کچھ اچھے انسان ہیں اور کچھ برے انسان ہیں۔جنہوں نے فجور کو اختیار کیا۔ وہ برے انسان بن گئے اور جنہوں نے تقویٰ کو اختیار کیا وہ اچھے انسان بن گئے۔ انسان کا امتحان فجور اور تقویٰ کے انتخاب میں ہے۔ باری تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ کے انتخاب میں ہدایت خاصہ سے انسان کو نوازا ہے۔
وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ.
(البلد،90: 10)
’’اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔‘‘
انسان اچھائی اور برائی کا کامل فہم رکھتا ہے۔ وہ بڑی آسانی سے اپنی جبلی صفات کی بنا پر نیکی اور بدی میں امتیاز کرسکتا ہے اور ان کے چناؤ اور انتخاب میں وہ مکمل آزادی رکھتا ہے نیکی کے اختیار کرنے پر اس پر کوئی جبر نہیں ہے اور بدی کے انتخاب میں اس پر کوئی زور اور اکراہ نہیں ہے۔
اس لیے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ.
(القیامۃ،75: 14)
’’بلکہ اِنسان اپنے (اَحوالِ) نفس پر (خود ہی) آگاہ ہوگا۔‘‘
خیر و شر پر انسان خود اپنی ذات میں محتسب ہے وہ اپنے اعمال کے نفع و نقصان کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ اعمال خیر کو پہچانتا ہے اور اعمال شرکا بھی ادراک رکھتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے اعمال کا مکمل ذمہ دار ہے۔
اسی بنا پر اب تمیز خیر و شر دینے کے بعد باری تعالیٰ نے اعلان کردیا ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال پر جزا اور سزا کا حقدار اور ذمہ دار ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.
(التحریم،66: 7)
’’بے شک تمہارے کیے کی جزا اور سزا ضرور ملے گی۔‘‘
دوسرے مقام پر اس حقیقت کو مزید یوں اجاگر کیا:
وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ.
(آل عمران،3: 25)
’’اور ہر نفس کو اس کے اپنے کسب کا بدلہ مل کر رہے گا۔‘‘
ان آیات نے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے کسب اور ارتکاب میں صاحب ارادہ ہے اور صاحب اختیار ہے اور اپنے نفسی اعمال پر صاحب بصیرت بھی ہے اور اس بنا پر اپنے جملہ اعمال پر جوابدہ بھی ہے۔
اب اس دنیا میں اچھا انسان بننا اور براا نسان بننا انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس دنیا کو باری تعالیٰ نے انسان کے لیے عمل احسن کی امتحان گاہ بنادیا ہے۔انسانوں کو اس دنیا کی حقیقت سمجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.
(ھود،11: 7)
’’ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے بہتر ہے۔‘‘
اس دنیا میں آنے کے بعد ایک شخص ہے جس نے خود کو برے عمل کے لیے مختص کرلیا ہے۔ ایسا شخص اپنی بری چاہت کی بنا پر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے:
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.
(الشمس91: 10)
’’اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘
اگر کسی انسان پر اس دنیا میں نفس کے تقاضائے نیکی کا غلبہ ہوجائے اور اس کا بدی کا داعیہ کمزور ہوجائے تو یہ شخص نیکی کا خوگر ہوجائے گا اور اچھے لوگوں میں شمار ہوگا۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا.
(الشمس،91: 9)
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔‘‘
ہر انسان اپنے نفس میں بھلائی اور فضائل اخلاق کے پودے لگانا چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ نفس انسانی کی زمین پر برائی اور رذائل اخلاق کے پودے از خود اُگ آتے ہیں۔ انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی کی دونوں قوتیں موجود ہیں۔ جیسا ماحول انسان کو میسر آتا ہے ویسا ہی یہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے شیخ سعدی نے فرمایا:
صحبت صالح ترا صالح کنند
جیسا ماحول انسان کے دائیں بائیں ہوتا ہے اور جیسے دوست ہوتے ہیں اور جیسے احباب کار ہوتے ہیں ویسا ہی انسان ہوجاتا ہے۔ قرآن اس حقیقت کو یوں واضح کرتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ.
(الاعلیٰ،87: 14)
’’ بے شک وہ شخص فلاح پاگیا جس نے نفس کو گناہ سے پاک کرلیا۔‘‘
تزکیہ نفس میں انسان اپنی جان کو رذائل اور ذمائم سے پاک و صاف کرتا ہے اور انسانی نفس کو میل کچیل سے منزہ اور مبراء کیا جاتا ہے۔ اگر انسان میں نیکی کے داعیات زیادہ موثر ہوجائیں اور انسان میں خیرات و برکات فروغ پانے لگیں تو یہ عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔ تزکیہ نفس فی الحقیقت خود کو نیکو کار اور صالح اور متقی بنانا ہے۔ تزکیہ نفس کا سب سے بڑا فائدہ سب سے پہلے انسان کی اپنی ذات کو ہی پہنچتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِهٖ.
(فاطر،35: 18)
’’اور جو کوئی پاک ہوا پس وہ اپنی ہی جان کے لیے پاک ہوتا ہے۔‘‘
اچھا انسان بننے کے لیے اور برا انسان ہونے سے بچنے کے لیے ہمیں صحبت صالح کے ساتھ وابستہ ہونا ہے۔ نیک لوگوں کے ساتھ تعلق قائم کرنا ہے اور ان کی مجلس میں آتے جاتے رہنا بھی انسان کو صالح بنادیتا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوَةِ وَالْعَشِیِّ.
(الکہف،18: 28)
’’ (اے میرے نبی!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں)۔‘‘
نیک لوگوں کی صحبت، مجلس اور ان کے ساتھ نشست و برخاست انسان کو نیک بنادیتی ہے۔ اس دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے اندر نیکی اور بدی کو فروغ دیتی ہیں۔ اگر ان چیزوں کو اعتدال و توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے تو انسان صالحیت کا پیکر بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ.
(آل عمران،3: 14)
’’ لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)۔‘‘
انسان کے اندر برائی اس وقت انگڑائی لیتی ہے جب انسان حب دنیا میں حدود سےتجاوز کرجاتا ہے۔ دنیا کی ساری شہوات کی حب، حب النساء، حب الاولاد والبنین، حب الذھب، حب الفضتہ اور حب الخیل، حب الانعام اور حب الحرث، ان حبات کو جب انسان اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے اور حدود الہٰی سے تجاوز کرجاتا ہے۔ ان حبات کی وجہ سے احکام شریعت کو بھول جاتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشات اور شہوات ہی کی پرستش شروع کردیتا ہے تو اس کا یہی عمل اس کو برا بنادیتا ہے۔
قرآن ایسے شخص کی حالت کو یوں بیان کرتا ہے:
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.
(الشمس،91: 10)
’’اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘
اور اگر انسان ان ساری حبات کو اعتدال و توازن کے ساتھ اختیار کرتا ہے تو یہ شخص نیک و صالح بن جاتا ہے اور قرآن اس شخص کے لیے بیان کرتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا.
(الشمس،91: 9)
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اوراس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔‘‘
انسانی نفس کی دو حالتیں ہیں ایک حالت بلا و مصیبت کی ہے اور دوسری حالت سلامتی و عافیت کی ہے۔ اگر یہ نفس حالت بلا میں ہے تو اس کی شناخت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ جزع فزع میں رہے گا یہ شکوہ کناں ہوگا۔ یہ اللہ کی قضا سے ناراض رہے گا۔ حتی کہ یہ رب پر اعتراض کرے گا۔ اپنے رب پر تہمت لگائے گا، صبر و رضا کی بجائے بے ادبی کرے گا۔ اللہ کے ساتھ شرک کا مرتکب ہوگا۔ نفس کی یہ حالت بری ہے اور ایسا شخص برا ہوگا اور اگر نفس حالت عافیت میں ہے تو یہ دنیوی اعتبار سے خوش و خرم ہوگا۔ شہوت و لذت پرست ہوگا۔ اس کی خواہشات کا لامتناہی سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ یہ دوسروں کے حصے بھی طمع و حرص کی وجہ سے ہڑپ کرنا چاہے گا۔
یہ دوسروں کو حقیر محسوس کرتا ہے ان میں عیب و نقص نکالتا ہے اپنے مقسوم کے مل جانے کے بعد بھی اعلیٰ کا طلبگار ہوتا ہے جو کچھ اس کے ہاتھ اور قسمت میں ہے اس سے راضی نہیں ہوتا۔ جب یہ مبتلا بلا ہوتا ہے تو سب آرزوئیں اور خواہشیں بھول جاتا ہے۔ اب اس حالت میں یہی چاہتا ہے مصیبتیں رفع و دفع ہوجائیں مگر جب یہ حالت عافیت میں آجاتا ہے تو پھر تکبر اور غفلت کے دریا میں غرق ہوجاتا ہے۔ اپنی پہلی مصیبتوں کو بھول جاتا ہے اور پھر رب کی نافرمانی شروع کردیتا ہے۔ نفس کی اسی حقیقت کو قرآن بیان کرتا ہے:
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللہِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ.
(النساء،4: 79)
’’ (اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر)۔‘‘
انسانی نفس کی سات قسمیں ہیںِ سب سے پہلی قسم نفس امارہ کی ہے۔ اگر انسان نفس امارہ کی حالت میں رہے تو وہ برے لوگوں میں شمار ہوتا ہے، نفس امارہ کیا ہے قرآن نے اس نفس کا تعارف انسان کو خود کرادیا ہے۔
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌم بِالسُّوْٓءِ.
(یوسف،12: 53)
’’بے شک نفس تو برائیوں کی طرف کھینچ کر لے جانے والا ہے۔‘‘
اس نفس کے حملے انسان کو شیطان بنادیتے ہیں اور اس نفس کی پیروی میں انسان برائی کی آماجگاہ اور بدی و شر کا منبع بن جاتا ہے۔ اس نفس کی خواہشات کی تکمیل میں سر راہ بننا اور اس نفس کی باطل آرزوؤں کا انسداد کرنا ہی اس سے نجات پانا ہے۔ اس لیے قرآن بیان کرتا ہے:
وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی.
(النازعات،79: 40)
’’جس شخص نے اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکا۔‘‘
نفس امارہ کا کام انسان کو زیادہ سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنا ہے اور یہ بڑی شدت کے ساتھ انسان کو دنیوی لذتوں کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ انسان سےفواحش و منکرات اور لذات و شہوات کا ارتکاب کراتا ہے۔ جملہ گناہوں اور بدکاریوں کی طرف رغبت اور شوق دلاتا ہے۔ نفس کی اس حالت میں انسان سے بڑے اختلاف اور بڑے اعمال ظاہر ہوتے ہیں۔ نفس امارہ کی حالت میں انسان میں بخل وکنجوسی دکھائی دیتی ہے، حرص و طمع کا دلدادہ نظر آتا ہے، بدی اور شہوت پرستی میں محو دکھائی دیتا ہے۔ حماقت و بیوقوفی اس کی خصلت بنتی ہے۔ کینہ و بغض اور حسد و عناد اس میں فروغ پاتے ہیں۔ جہالت اور غفلت اس کا شعار حیات ہوتاہے۔ سستی اور کاہلی اس کی نفسی خصوصیات بن جاتی ہیں۔ غیض و غضب، غیبت و چغلی اور عیب جوئی اس کے وجود کی پہچان بننے لگتے ہیں۔ اس نفس میں انسان، انسانیت کے مقام سے گر کر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ ولقد کرمنا بنی آدم کا اعزاز رکھنے والا نفس امارہ کی سطح پر
اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ.
(الاعراف،7: 179)
’’وہ لوگ چوپایوں و جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گرے ہوئے ہیں۔‘‘
نفس اعلیٰ یہاں نفس ادنیٰ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ جانوروں اور ان سے بھی اسفل مخلوق کی صفات میں نظر آتا ہے۔ نفس امارہ کی حالت میں انسان حیوانی صفات میں متشکل ہوجاتا ہے، کبھی انسان نفس امارہ میں صفت خنزیر پر دکھائی دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے وہ حرام افعال کو اختیار کرتا ہے، کبھی یہ سگ کتے کی صفت میں اپنے اعمال میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی غضبناک کیفیات اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ کبھی یہ ہاتھی کی مثل صفت غرور و تکبر میں نظر آتا ہے، کبھی سانپ کی صفت مصیبت و منافقت میں عیاں ہوتا ہے، کبھی یہ بچھو کی صفت اذیت عذاب میں آشکار ہوتا ہے۔
غرضیکہ احسن تقویم کا حامل انسان اپنے کردار میں مخلوقات عالم میں سب سے اسفل، ادنیٰ اور کمتر مخلوق بن جاتا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں انسان اعلیٰ ہے مگر اپنے عمل میں کبھی ادنیٰ ہوجاتا ہے۔ اگر انسان افعال و اخلاق میں علوت اور رفعت کی طرف مائل ہوجائے تو وہ اچھا اور اعلیٰ انسان ہے اور اگر اخلاق و افعال میں سفلیت اور اسفلیت کی جانب متوجہ ہو تو وہ برا اور گھٹیا انسان ہے۔ نفس امارہ برے انسان کا تعارف کراتا ہے اور نفس کی بقیہ اقسام اچھے انسانوں کا درجہ بدرجہ تعارف کراتی ہیں۔نفس لوامہ یہ نفس انسان کوگناہ پر ملامت کرتا ہے۔
لَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
(القیامۃ،75: 2)
’’اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔‘‘
نفس ملہمہ میں انسان کے دل میں نیکی اور خیر کے خیالات آتے ہیں اور یہ نفس انسان کو نیکی کی طرف راغب کرنے لگتا ہے جب انسان کے اندر نیکی اور تقویٰ کو دوام ملتا ہے تو یہ نفس ملہمہ نفس مطمئنہ میں بدل جاتا ہے۔ یہ بری خصلتوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ نیک خصلتوں سے متصف ہوجاتا ہے خیرو نیکی کے ساتھ مستقل اتصال کی بنا پر یہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً.
(الفجر،89: 27، 28)
’’اے اطمینان پا جانے والے نفس تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔‘‘
نفس مطمئنہ پر پہنچ کر یہ نفس ہر حال میں اپنے مولا سے راضی ہوجاتا ہے تو پھر یہ نفس، نفس راضیہ میں بدل جاتا ہےا ور جب ذات حق اپنے بندہ سے راضی ہوتی ہے تو یہ نفس مرضیۃ میں ڈھل جاتا ہے۔ اس مقام مرتضیٰ کو پاکر انسانی نفس اپنے اعلیٰ ترین درجے میں نفس کاملہ بن جاتا ہے اس نفس کاملہ کے لیے ھاتف غیبی سے صدا آتی ہے۔
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.
(الفجر،89: 29، 30)
’’پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔‘‘
خلاصہ کلام
انسان اس کائنات میں مخلوق عالم کے تناظر میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کائنات کی ہر ہر چیز اس کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ یہ انسان زریں کائنات کو مسخر کرکے اب بالائی کائنات کی تسخیر پر گامزن ہے۔ کائنات خارج کی تسخیر کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی کائنات داخل کو بھی مسخر کرنا ہے۔ باری تعالیٰ نے اس انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ ولقد کرمنا بنی آدم کا اعزاز اسے بخشا ہے اور اس کی صورت و سیرت کو تمام مخلوقات عالم میں اعلیٰ اور ارفع بنایا ہے اور لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کے پیکر افتخار کا مرتبہ و مقام عطا کیا ہے۔ یہ انسان کے مقام و مرتبے کی اصلیت ہے اور اگر انسان اس مقام کا تحفظ اپنے کردار کے ساتھ نہ کرے تو پھر یہی انسان درجہ افضلیت سے درجہ اسفلیت کی طرف آتا ہے۔ اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف آتا ہے۔ قابل رشک سے قابل ندامت کی طرف آتا ہے۔ حتی کہ پستی کی طرف بڑھتا بڑھتا انتہائی پست مخلوق کے مشابے ہوجاتا ہے اور یہ اشرافیت کا تاج اپنے سر پر سجانے والا اولئک کالانعام بل ہم اضل کا طوق اسفلیت اپنے گلے میں ڈالے نظر آتا ہے۔
حیرت یہ ہے انسان خون بہانے والا درندہ کیسے بن جاتا ہے۔ یہ اپنے وجود پر قاتل کا تعارف کیسے پالیتا ہے یہ دوسروں کا مال سرقہ کرنے والا کیسے بن جاتا ہے۔ یہ شراب کا رسیا اور حرام خور کیسے بن جاتا ہے، یہ بددیانت اور کرپٹ کیسے بن جاتاہے، یہ معاشرے میں کمزور پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے والا کیسے بن جاتا ہے اور یہ انسان مھین ذلیل و کمینہ کیسے بن جاتا ہے۔ یہ کبھی ھماز بہت زیادہ طعن و تشنیع کرنے والا اور عیب جوئی کرنے والا کیسے بن جاتا ہے اور کبھی یہ مشاء بنمیم بہت زیادہ چغلخور کس طرح بن جاتا ہے اورکبھی یہ مناع للخیر خیر اور نیکی سے بہت زیادہ منع کرنے والا کیونکر بن جاتا ہے اور کبھی یہ معتد بہت بڑا ظالم اور حد اعتدال سےتجاوز کرنے والے کا روپ کیسے دھارلیتا ہے اور کبھی یہ انسان پیکر معصیت اثیم، ہر چھوٹے بڑے گناہ میں لت پت ہونے والا کیسے بن جاتا ہے اور کبھی یہ انسان عتل سخت جھگڑالو اور فتنہ پرور اور فسادی کیسے بن جاتا ہے اور کبھی اللہ کے حکم کو ترک کرنے والا نکاح کو چھوڑ کر زنا کرنے والا کیسے بن جاتا ہے،کبھی یہ انسان دعوت انبیاء کو ترک کرتا ہے تو کافر بنتا ہے اور کبھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو یہ مشرک بنتا ہے اور کبھی یہ انسان کفرو شرک سے بھی بلند ہوکر خود ہی کو خدا بنالیتا ہے۔
کون سا گناہ ہے جو انسان سے سرزد نہیں ہوتا ہے،کونسی بری عادت ہے جو اس کی ذات میں نہیں ہے اور کون سا برا خلق ہے جو اس میں نہیں دکھائی دیتا۔ یہ زندگی تو سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے،نقصان ہی نقصان ہے۔ اس لیے قرآن نے بیان کردیا:
وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ
(العصر، 103: 1۔ 2)
’’ زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)۔‘‘
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
(العصر،103: 3)
’’ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہے۔‘‘
انسان کی آزمائش اس کائنات میں سب سے بڑی یہی ہے کہ وہ صاحب ایمان ہوجائے اور عمل صالح کا بجا لانے والا ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو یہ لفی نفع کی صورت میں ہے وگرنہ لفی خسر کی حالت میں ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے لیے پیروی رسالت لازمی اور ضروری ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ الِاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ
(البقرہ،2: 130)
’’ اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو۔‘‘
منصب نبوت و رسالت کی پیروی اور اطاعت انسان کو خسارے سے بچاتی ہے، پیروی رسالت سے اعراض سراسر حماقت ہے اور سراسر جہالت ہے۔
آیئے اپنے نفوس میں وہ انسانی صفات پیدا کریں جو ہمیں اللہ کے انعامات کا مستحق بنائیں اور اس کے انعام یافتہ بندوں میں شامل کرائیں۔
فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآ ءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا.
)النساء، 4: 69)
’’تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔‘‘
ایک مسلمان ایک بہترین انسان بن سکتا ہے اگر وہ اسوہ رسول کو ہر لمحہ اور ہر لحظہ اور زندگی کے ایک ایک پل اپنے سامنے رکھے۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔
اس اسوہ میں انسانیت کی معراج ہے اور انسانیت کی عظمت ہے ار انسانیت کی قابل رشک رفعت ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں ایک اچھا انسان بنائے برائی اور شر سے ہمیں بچائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلینﷺ۔