خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟
(کہکشاؤں بھری کائنات میں خدا کی تلاش)
خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: ثناء وحید خصوصی معاونت: حافظہ سحر عنبرین (لیکچر 6)
سورہ فصلت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ؕ اَوَ لَمْ یَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
(فصلت، 41: 53)
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہےo
انفس و آفاق پر تدبر سے خدا تک رسائی
قرآن مجید کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم انسان کو اس کی اپنی ذات کے اندر اپنی نشانیاں دکھا دیں کہ اس سے انکارِ خدا کے سارے راستے بند ہو جائیں گے۔ قرآن مجید کی اس پیشن گوئی سے لگتا ہے کہ جو کوئی بھی شخص ایمانداری سے اپنے اندر ہی کائنات اور سماوی کائنات میں غور کرے گا وہ اللہ پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
گذشتہ نشست میں ہم نے خلیے کی اندرونی کائنات کا ذکر کیا اور آج کی گفتگو میں بیرونی کائنات میں اللہ رب العزت کی بکھری ہوئی نشانیوں کا تذکرہ کریں گے۔
ایمان دہریت اور لامذہبیت کا پسِ منظر
انکارِ خدا، الحاد، دہریت یا لامذہبیت یہ جو لہر ہے یہ تقریباً 2سو سال پہلے مغرب میں چلی تھی۔ مذہب کے خلاف اور خدا کے وجود کے انکار پر مبنی اور مذہب کے انکار پر مبنی ایک فکری لہر 2 سے اڑھائی سو سال پہلے شروع ہوئی۔ اس میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یہ ایک رد عمل تھا مغربی دنیا کا جن کا origin برطانیہ اور یورپ تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب امریکہ اور نارتھ امریکہ دریافت ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہاں پر لوگ یورپ اور برطانیہ سے آکر آباد ہوئے۔ اسی لئے امریکہ اور کینیڈا میں انگلش زبان رائج ہے۔ اور دوسرے نمبر پر فرنچ زبان بولی جاتی ہے۔ صدیوں سے یورپ میں ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ تھا۔ جو وہاں کے بادشاہ تھے انہیں جنگوں اور فتوحات کی ضرورت ہوتی تھی اور اس کیلئے افواج کی وجہ سے انہیں چرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں جب بھی کہیں حملہ کرنا ہوتا تو وہ جوشیلے کارکنوں اور فوجیوں کیلئے چرچ کو استعمال کرتے تھے۔ اور جب چرچ involve ہوتا تھا تو وہ اس کو HOLY WAR مقدس جنگ (جہاد) کا نام دیتے تھے۔ یہ حقیقت یورپین تاریخ میں موجود ہے۔ اس زمانے میں مذہب سے مراد عیسائیت تھی۔ چرچ کے سربراہان دنیا کے سامنے خود کو اس طرح پیش کرتے تھے جیسے وہ خدا کے نمائندے ہوں کہ جو حکم وہ دے دیں تو سب سمجھیں کہ وہ جیسے خدا کا حکم ہے۔ اس طرح کے مذہبی رویے اسلام کی آمد سے پہلے بھی تھے۔ اور وہ اس طرح سے کرتے تھے کہ جو کوئی ان سے اختلاف کرتا تھا وہ اسے کافر قرار دے دیتے تھے۔ ہر سطح پہ جب ایک مذہبی رہنما مذہب کو اپنے مفاد اور دنیا کیلئے استعمال کرتا ہے تو اس کیلئے اسے بہت سے مفروضات اپنے پاس گھڑنے پڑتے ہیں۔ یہ رویے جس زمانے میں بھی رہے اس زمانے میں اہل شعور طبقہ باغی رہا۔ کچھ لوگ تو یہ سب اپنے مفاد کیلئے کرتے ہیں اور کچھ لوگ سوشل میڈیا پر ویوز کیلئے اور پیسہ کمانے کیلئے کرتے ہیں کیونکہ جتنے ویوز بڑھتے ہیں اتنے ہی اشتہارات آتے ہیں۔ اور جو نمائندے مذہب پر سنجیدہ بات کرتے ہیں اُن کو ویوز نہیں ملتے۔ افسوس! اس دور میں سچ کے خریدار بہت کم ہیں، سب یہ دیکھتے ہیں کہ پسند نا پسند کا کیسا ماحول ہے اس کے مطابق سودا بنا لیتے ہیں۔ آج کے دور میں اگر آپ اچھائی، خوش خلقی کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر ویوز نہیں ملتے اسی وجہ سے آج کے نوجوان سچ کی فکر نہیں کرتے اور خبر بنانے کیلئے حق اور سچ پہنچانے کی فکر نہیں کرتے۔ وہ گالیاں دیتے ہیں اور لوگ اس کو تفریح (entertainment ) سمجھ لیتے ہیں جس سے ان کو ویوز ملتے ہیں اور وہ اس سے پیسہ کماتے ہیں۔
یورپ کے قدیم زمانے میں چرچ کے لوگ یہ بات برداشت نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کی بات کو رد یا چیلنج کرے اس وجہ سے انہوں نے ہمیشہ سائنس کو دبا کر رکھا۔ یورپ میں 1000 سال تک سائنس کو دبا کر رکھا گیا۔ اس زمانے میں تحقیقات کو facilitate نہیں کیا تاکہ چرچ کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ اور ان 1000 سال کو یورپ میں dark ages کہتے ہیں کیونکہ اس میں سائنس کو تقویت نہیں دی گئی تھی۔ ریاست کو سائنس کی ضرورت نہیں تھی اس کو پاور کی ضرورت تھی۔ گیلیلو خود منکر خدا اور منکر مذہب نہیں تھا لیکن سائنس دان تھا اس کی جب کتب شامنے آئیں تو اس کو گھر میں نظر بند کیا گیا اور وہیں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے علاوہ کسی اور کی بھی کتب آتیں تو وہ بھی بین ہو جاتیں تھیں۔ بالآخر یہ جنگ چلتی رہی اور سائنس جیت گئی۔ لیکن سائنس اس لئے جیتی کیونکہ ریاست کو اب چرچ کی ضرورت نہیں رہی تھی وہ طاقت ور ہو گئے تھے۔ سیاست کسی کی وفا دار نہیں ہوتی، سیاست صرف اور صرف اپنے مفاد کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس کا مفاد اگر رحمان سے ہو تو وہ رحمان کا نام جپتی ہے اور اگر شیطان سے ہو تو شیطان شیطان کرتی ہے۔ یورپ میں جب ریاست طاقتور ہو گئی تو اس نے چرچ کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور کوشش کی گئی کہ ان چرچ کو بند کر دیا جائے۔ اور اس دوران سائنس کو موقع ملا کہ وہ ترقی کرے۔ چرچ جب کمزور ہوا تو کئی سائنس دان مذہب کے خلاف ہو گئے، وہ صرف خدا کے خلاف نہیں ہوئے بلکہ وہ چرچ کے بھی خلاف ہوگئے اور نفرت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ جب انتقام پر آئے تو صرف چرچ اور مذہب کا انکار ہی نہیں کیا بلکہ جس خدا کے وہ خود کو نمائندے کہتے تھے اس کا بھی انکار کیا۔
2 سو سال پہلے جب سائنس طاقتور ہوئی تو ریاست نے سائنس سے اتحاد کیا اور چرچ کی دشمن بن گئی اور اس کو سنڈے سروسز کیلئے چار دیواری میں بند کر دیا۔ ڈنمارک، ناروے جائیں تو دیکھنے کو ملتا ہے کہ ان ممالک میں ایک ایک گلی میں 2، 2 چرچ بھی ہیں لیکن اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان کی طرف کوئی نہیں جاتا۔ دراصل یہ سائنس کا انتقام تھا کہ اس نے مذہب اور دین کا انکار کیا اور ان چرچ کے راہنماؤں کا بھی جو خود کو خدا کا نمائندہ کہتے تھے اور پھر اس خدا کا بھی۔ ان کے دین (عیسائیت) میں من گھڑت تصورات تھے جو کہ غیر سائنسی تھےا ور ان تصورات کو سائنس کی مدد حاصل نہیں تھی اور ان مذہبی کتب میں ایسی باتیں نہیں تھی جو سائنس کو بھی سپورٹ کر سکیں۔ ذہن نشین کرلیں کہ روئے زمین پر زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ جب تاریخ یورپ میں مذہب کا تذکرہ کر کے پڑھایا جاتا ہے تو جان لیں کہ وہ اسلام نہیں ہے۔ جب جدید علم جیتا اور مذہب کو شکست ہوئی تو سائنس کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوا تو اس میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یورپ میں dark ages کے زمانے میں بھی اسلام نور پھیلا رہا تھا تو یہ عرصہ اسلام کیلئے dark صدیاں نہیں تھیں۔ جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور سائنس کو بین کیا ہوا تھا اس زمانے میں اسلام ساری دنیا کو سائنس عطا کر رہا تھا۔ اسلام کی تاریخ میں مذہب سائنس کو سپورٹ کرتا ہے۔ اسلام میں جو حضورﷺ پر پہلی وحی اتری اس کی آیات بھی علم اور سائنس پر مشتمل تھیں۔ پہلی وحی science of embryology پہ اتری ہے۔ جو کہ سورہ العلق میں ہے۔
سائنسی علوم میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات
جس اسلام کی پہلی وحی علم اور اسلام پر مشتمل ہو تو وہ دین کیسے سائنس کو روک سکتا ہے۔ History of the Arab ایک معروف کتاب ہے جس میں پروفیسر ہٹی بیان کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں چونکہ سائنس ترقی کر رہی تھی تو اس زمانے میں جو سیارے دریافت ہوئے ان کے نام بھی مسلم سائنسدانوں کے نام پہ رکھے گئے۔ پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ عرب کے مسلمان سائنسدانوں نے میڈیسن کا علم یورپ و برطانیہ اور قسطنطنیہ تک پہنچا۔
ابو القاسم الزھراوی کی کتاب التصریف اور باقی سائنسدانوں کی کتب ٹیکسٹ بک کے طور پر یورپ میں پڑھائی جاتی تھیں اور یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھیں جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس زمانے میں مسلمان سائنس دان مشکل سائنس پر کام کر رہے تھے۔
جابر بن حیان کیمسڑی کے بانی تھے۔ اس نے clinical pathology کو اور دیگر علوم کو پروموٹ کیا اور یہ سیدنا جعفر کے شاگرد تھے۔
ابو یوسف الکندی نے سائنس کے بے شمار شعبہ جات کو تخلیق کیا۔
الخوارزمی نے الجبرہ میں اور علم فلکیات میں تحقیقات کیں۔
الرازی نے بھی بے شمار سائنی علوم، ٹائم اور سپیس پہ کام کیا۔
ابو النصر الفارابی، ابو ریحان البیرونی، بوعلی سینا، عمر الخیام جو امام غزالی کے قریبی ساتھی تھے ان سب نے سائنس کے مختلف علوم میں ابتدائی اور شاندار خدمات سر انجام دیں۔
بڑے بڑے علماء سائنس دانوں کے دوست تھے اور مذہب باقاعدہ سائنس کو سپورٹ کرتا تھا۔ اسی طرح ابن رشد، نصیر الدین طوسی اور الغرض دیگر بہت سے مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کو پرومٹ کیا اور پروان چڑھایا۔
The influence of Islam in medieval Europe میں درج ہے کہ عرب و اسلامی میڈیسن کا صدیوں تک یورپ پر راج رہا اور یورپ ان پر انحصار کرتا تھا۔ یہ کتاب statistics بتاتی ہے کہ اتنے یونان کے احسان نہیں ہیں یورپ پر جتنے اسلام و عرب کے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ سولہویں صدی تک یورپین میڈیسن میں صرف تھوڑی سی extension تھی ورنہ سب کا سب عرب کا علم تھا۔
The legacy of Islam میں درج ہے کہ جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اس زمانے میں اسلام دنیا کو سائنس سے آگہی دے رہا تھا۔ کئی مساجد قاہرہ، بغداد، انڈیا، دمشق میں ایسی تھیں جہاں سے سائنس کا نالج دیا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سائنس پابند سلاسل تھی لیکن اسلام ساری دنیا میں سائنس کی آگہی دے رہا تھا۔ الرازی نے بھی بہت سی فیلڈ میں تحقیقات دنیا کو دیں۔ جابر بن حیان نے کیمسٹری میں 70 اجزاء کی تفصیلات پر مشتمل کتاب لکھی۔ پندرہویں صدی تک ابن سینا کی کتاب قانون 16 ایڈیشن تک چھپ چکی تھی۔ اسلام کی اس زمانے میں بھی سائنس کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی اس نے ہمیشہ سائنس کو سپورٹ کیا۔
ابن الہیثم (density, space, time, movement, physics, dynamics )، ابن یوسف، البیرونی، خوارزمی، ابو زکریا رازی، البغدادی (فزکس)، الغرض جتنے سائنسی علوم تھے ان سائنسی علوم کے بانی مسلمان سائنسدان ہی تھے۔ علم نباتات پر چھ جلدوں کا انسائیکلوپیڈیا لکھا گیا۔ قرطبہ میں میڈیکل سائنسز پر کام کیا گیا۔ رازی نے 200 سے زیادہ کتابیں میڈیسن سائنسز میں لکھیں جو 40 دفعہ طبع ہوا، اور مختلف یورپین زمانوں میں اس کے ترجمے ہوئے۔ پھر مسلمان ریاستیں کمزور ہوئیں اور مسلمان پیچھے رہ گئے۔ علی بن عیسیٰ بغدادی نے ophthalmology پر کا م کیا۔ اسی طرح علی بن عیسیٰ اور ابو القاسم الزھراوی نے anesthesia کا نظام دیا۔ فزکس اور کیمسٹری کے متعدد قوانین کا علم مسلمان سائنس دانوں نے دیا۔
پروفیسر ہٹی اس بات کا اعتراف کا دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا علم سسلی سے یورپ میں آیا۔ سسلی ایسا شہر تھا جہاں مسلمانوں کے 600 پرائمری سکول تھے اور ا س کے علاوہ دیگر شہروں میں متعدد کالجز اور یونیورسٹیز تھیں۔ 100 کے قریب دمشق میں لاء کالجز تھے۔ انسانی تاریخ کا سب سے پہلا ہاسپٹل بھی مسلمانوں نے بنایا تھا۔ جس زمانے میں یورپ میں بالکل بھی علم نہیں تھا اس زمانے میں مسلمانوں کی سائنسی کتب لکھی جا رہی تھیں اور بڑی بڑی لائبریریاں تھیں جہاں سے فری کتب پڑھنے کیلئے ملتی تھیں۔
نہ تو اسلام کی سائنس سے کوئی جنگ تھی اور نہ ہی سائنس کی اسلام سے کوئی جنگ تھی۔ Darvin کی تحقیق جس کے مطابق انسان بندروں کی اولاد ہے اس کا کوئی لاء موجود نہیں ہے۔ اس کو سائنس خود بھی تسلیم نہیں کرتی۔ یہ آج کے دن تک صرف تھیوری ہے لاء نہیں ہے۔ مغرب کی دنیا میں اگر کوئی Darvin کی تھیوری کا انکار کرے تو اس کو قبولیت نہیں ملتی۔
سائنس نے ثابت کیا کہ اس کائنات میں جو واقعات ہورہے ہیں وہ قانونِ قدرت کے مطابق (law of nature) ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی نے قدرت کی تعریف نہیں کی۔
قدرت کیا ہے؟ نیچر ایک فیکٹ ہے۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ یہ لاء آف نیچر ہے یہ نہیں بتاتی کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے کا جواب مذہب دیتا ہے۔
The evidence of God in expending Universe ایک کتاب ہے اس میں درج ہے کہ پہلےلوگ یہ کہتے تھے کہ خوراک کھائی تو ہضم ہوئی تو وہ اللہ نے کی، پھر سائنس نے digestion کا نظام تحقیق کے بعد معلوم کیا۔ لیکن یہ دریافت ہونے کے بعد یہ تو سوال ہے نا کہ اس نظام انہظام کو بنایا کس نے ہے؟ کھانے اور اس کے ہضم ہونے کے 6 درجات ہیں۔
1. Ingestion
2. Propagation
3. Physical digestion
4. Chemical digestion
5. Absorption
6. Waste elimination
ان سب کو جان لینے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سارے نظام کے پیچھے کوئی نہ کوئی تو ہے۔ جیسے ہم کہتے تھے کہ اللہ بارش برساتا ہے اب تو سائنس نے بارش پرتحقیق کر لی ہے کہ کیسے بارش بنتی ہے اور کیسے نیچے آتی ہے۔
سائنس صرف واقع کی تصویر بتاتی ہے توجیح نہیں کرتی وہ یہ نہیں بتا سکتی ہے کہ یہ قوانین کیسے بن گئے۔ سائنس سے جب ان سب کا پوچھیں تو کہتی ہے کہ یہ قانون قدرت ہے جب یہ کہا جائے کہ یہ کیا ہے تو سائنس کہتی ہے کہ یہ blind act ہے جسے اسلام ایمان بالغیب کا نام دیتا تھا۔ چڑیا کو اڑنا کون سکھاتا ہے، مچھلی کو تیرنا کون سکھاتا ہے؟ سائنس قانون سکھاتی ہے یہ نہیں بتاتی کہ یہ قانون فطرت کس نے اور کیسے بنایا ہے۔ سائنس صرف دریافت ہونے والے واقعات بتاتی ہے لیکن اس کی تشریح کرتے ہوئے اس کی وجہ نہیں بتا سکتی۔
The evidence of God ایک امریکن سائنس دان کی کتاب ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ کائنات کے evidence نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز رکھتی ہے۔ جب سائنس نے یہ مان لیا کہ کائنات کی ابتداء ایک نقطے سے ہوئی تو اس بات نے خدا کے وجود کی یہی دلیل دی ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ جب کائنات کی ابتداً ایک نقطے سے ہوئی تو اس کا مطلب ہے جب وہ آغاز رکھتی ہے تو یقیناً آغاز کرنے والا بھی کوئی ہے۔
اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے: ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے) (یٰسین، 36: 82)
سر جیمز The mysterious universe میں بیان کرتے ہیں کہ کائنات میں ناکاروی کا عمل جاری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی مختلف چیزوں میں جو توانائی ہے جو اسے چلا رہی ہے وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے یہ عمل جا ری رہے گا اور بالآخر یہ ختم ہو جائے گی۔ یہ entropy کا قانون ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات لا متناہی نہیں ہے اس نے ایک دن ختم ہونا ہے اور جس چیز نے ختم ہونا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی آغاز بھی تو ہے۔ آج سائنس مان رہی ہے کہ کائنات نے ایک دن ختم ہونا ہے تو جب یہ ایک نقطے سے شروع ہوئی ہے، تو یقیناً یہ دائمی نہیں ہے اگر دائمی نہیں ہے تو یہ خلق کی گئی ہے اور اگر یہ خلق کی گئی ہے تو یقیناً اس کا کوئی نہ کوئی خالق بھی ہے۔ اگر کائنات کی ابتداء ہے تو کوئی نہ کوئی اسے ابتداء دینے والا ہے۔
ہمارا سولر سٹم کا نظام ہے جس میں زمین سمیت 9 سیارے ہیں جو مسلسل سفر میں ہیں اور ان میں سورج سے سب سے زیادہ دور پلوٹو ہے جو ساڑھے سات ارب میل کے فاصلے پر چکر لگاتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں صرف ایک چاند نظر آتا ہے لیکن ناسا کے مطابق 293 چاند ہیں۔ اور وہ سارے چاند گردش میں ہیں، چھوٹرے سیارے بھی ہیں، دُم دار سیارے بھی ہیں، شہاب ثاقب بھی ہیں اوریہ سب سفر میں ہیں۔ اور سورج اتنا بڑا ہے کہ 10 سے 12 لاکھ زمینیں اس میں رکھی جاسکتی ہیں۔ اور سورج جو سب سے بڑا سیارہ ہے وہ خود حرکت میں ہے۔ 21 لاکھ کلو میٹر فی گھنٹہ ہماری کہکشاں (ملکی وے) گلیکسی کی سپیڈ ہے۔ زمین 26 سال (نوری سال) کے فاصلے پر ہے اپنے گلیکسی سے۔ اور نوری سال سے مراد 94.6 کھرب کلومیٹر ہے۔ سب کہکشائیں اپنے سیاروں کو لے کر بھاگ رہی ہیں اور یہ آپس میں ٹکراتے بھی نہیں ہیں۔ یہ سیاروں کی ٹریفک ہے جس میں ایکسیڈینٹ نہیں ہوتا جب کہ ہماری ٹریفک میں ایکسیڈینٹ ہوتا ہے اور ان سیاروں کی رفتار میں بھی کوئی فرق نہیں آتا۔ آخر کوئی تو ہے نہ جو اس کو کنٹرول کرتا ہے۔ کہکشائیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور اس سے نئی کہکشائیں وجود میں آتیں ہیں لیکن ان کے ٹکرانے سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔ جتنے بھی لاء ہیں یہ سب سائنس نے دریافت کیے ہیں لیکن یہ پیدا کس نے کیے ہیں ؟ اس بات کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے۔ اب سائنس کے پاس 100 سال اور آئندہ 1000 سال تک کی معلومات موجود ہیں کہ سورج کب طلوع ہوگا اور کب غروب ہوگا اس کا نالج موجود ہے۔ جس طرح ایک بڑی کائنات ہے اسی طرح چھوٹی کائناتیں بھی ہیں جو کہ ایٹم ہے اور ایٹم ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔ جس طرح بڑی کائنات میں سیارے گردش کررہے ہیں اسی طرح ایٹم میں بھی الیکٹروں گردش میں ہیں۔ الیکٹرون بھی ایک دوسرے کے آگے پیچھے سے گزرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے نہیں ہیں۔ الیکٹرون ایک منٹ میں بلینز مرتبہ حرکت کرتے ہیں۔ وہی نظام جو کائنات شمسی میں ہے وہی ایٹم میں ہے تو یہ اتفاق کیسے آگیا۔ سائنس اس سارے عمل کو بیان کر سکتی ہے تصویر دکھا سکتی ہے لیکن توجیح نہیں بیان کر سکتی ؟ یہ نہیں بیان کر سکتی۔ یہ کس نے دیا ہے؟ سائنس انکار تو نہیں کرتی خدا کا۔ بس یہ کہتی ہے کہ وہ نہیں جانتی۔ سائنس جھوٹ نہیں بولتی۔
سائنس ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی ہے اور یہ کہتی نظر آتی ہے کہ یہ کائنات zero defect ہے یعنی اس میں کوئی کمی نہیں جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ یہ بے نقص کس نے بنائی ہے تو سائنس کے پاس اس کا جواب نہیں اس کا جواب قرآن مجید کے پا س ہے۔ قرآن مجید اس پر جواب دیتا ہے سورہ ملک میں۔
الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ
(الملک، 67: 3)
جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو۔
ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ
(الملک، 67: 4)
تم پھر نگاہِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہوگی۔
اس بات کا اعلان قرآن مجید نے 14 سو سال پہلے کر دیا کہ اس کے نظام تخلیق میں کہیں بے ضابطگی نہیں دیکھو گے۔ پھر قرآن یہ کہتا ہے کہ اگر تم بار بار تحقیق کر کے دیکھو بار بار غور کرو تو دیکھ کر بتاؤ کہیں ساری کائنات میں کوئی نقص نظر آتا ہے؟ قرآن مجید نے یہ چیلنج دیا ہے۔ اور کہا کہ تمہاری نگاہ تھک کر واپس آ جائے گی لیکن تمہیں اس کائنات کی بناوٹ میں کوئی نقص نظر نہیں آئے گا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں:) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ (آل عمران3: 191)
نیوٹن کے زمانے میں کائنات کو مکینیکل (mechanical) کائنات کہا جاتا تھا، پھر اس کو intelligent universe کہا جانے لگا۔
جب دوسری عالمی جنگ ہوئی تو اس زمانے میں یہ تصور پیدا ہوا کہ ایسے طریقے اور مینیجمنٹ تیار کی جائے جو zero defect ہو۔ لیکن اس سب پر تحقیقات ناکام ہوئیں، اور انسان zero defect management نہیں پیدا کر سکے۔ مگر جہاں کئی سائنس دان مل کر زیرو ڈیفیکٹ میجیجمنٹ نہیں بنا سکے وہاں divine management زیرو ڈیفیکٹ ہے۔
سورہ ق میں ہے کہ
اَفَلَمْ یَنْظُرُوْۤا اِلَی السَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَیْفَ بَنَیْنٰهَا وَ زَیَّنّٰهَا وَ مَا لَهَا مِنْ فُرُوْجٍ
(ق، 50: 6)
سو کیا انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور (کیسے) سجایا ہے اور اس میں کوئی شگاف (تک) نہیں ہےo
کہ ساری کائنات کی طرف نگاہ کرو اور دیکھو کہ ہم نے اسے کیسے مزین کیا اس کے نظام میں تمہیں کہیں خرابی نظر نہیں آئے گی۔ جہاں کوئی خرابی نہیں ہے سب بےخطا ہے تو یقیناً اس کے بنانے کے پیچھے کوئی نہ کوئی بے خطا ہے۔ جس کے بنائے گئے نظام میں کوئی خلل نہیں آتا۔
وجودِ خدا کی سائنسی بنیاد
سائنس کہتی تھی کہ کائنات میں چار طاقتیں ہیں جن پر اس کا نظام ہے۔
1. Gravitational force
2. Electromagnetic force
3. Strong nuclear force
4. Weak nuclear force
1979 میں سائنس نے کہا کہ کائنات کو 4 نہیں 3 فورسز کنٹرول کر رہی ہیں۔ تین سائنسدانوں نے یہ کام کیا اور تینوں کو نوبل پرائز ملا۔ تین فورسز کے بعد بھی سائنس نے نہیں مانا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ٹکراؤ نہ ہو پھر ایک سائنس دان سٹیفن ہاکنگ نے mathematical calculations کیں اور کہا کہ اس حساب سے یہ ثابت ہو جاتا کہ کائنات کو 3 فورسز نہیں ایک فورس کنٹرول کر رہی ہے۔ لیکن اس سائنس دان کو یہ نہیں معلوم کہ یہ فورس کون سی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ پتہ چلتا ہے کہ کائنات کس طرح ایک ٹائم پر پیدا کی گئی۔ اس کی ہر چیز میں قابلیت تھی۔ لیکن سائنس یہ کہتی ہے کہ اس بات کا جواب نہیں کسی کے پاس کہ یہ کس نے کیا۔ سوائے ایک بات کے کہ یہ اللہ کا امر ہے۔ پھر single sting theory پیش ہوئی جو کہ دراصل عقیدہ توحید ہی ہے۔ سائنس نے اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ اس ساری کائنات کے پیچھے کوئی ایک وجود ہے اور تاجدارِ کائنات ﷺ نے بتا دیا کہ وہ ذات اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ کائنات کا نظام جو چل رہا ہے وہ ٹائم مینیجمنٹ کے ساتھ چل رہا ہے اور جو بات اس کائنات کی مینیجمنٹ سے سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس منظم نظام کو ایک ہی ذات چلا رہی ہے۔ سائنس کائنات کے زیرو ڈیفیکٹ ہونے کو مانتی ہے اور اس سے انکار نہیں کرتی۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ کائنات بڑے ذہین ذہن کی پیداوار ہے۔ سائنس نے اللہ کے وجود کو ماننے کیلئے ڈیٹا فراہم کر دیا ہے اور یہ کہہ دیا ہے کہ میں بتاتی ہوں یہ فعل ہے اور یہ فاعل ہے۔ آئن سٹائن نے یہ کوشش کی کہ ایسی تھیوری بنائی جائے جو تھیوری آف ایوری تھنگ ہو theory that explain everything. اس کیلئے ایک ادارہ قائم ہوا۔ دنیا کے 10 ہزار سائنسدان اور انجینئرز اس میں شامل ہوئے۔ لیکن سائنس آج اس نتیجے پر پہنچی جسے سٹیفن اور جیمز نے بیان کیا ہے کہ کائنات کا جو نقشہ ہے یہ خالص کسی ریاضی دان نے بنایا ہے۔ مطلب یہ کہ یہ کائنات کسی mathematician کی تخلیق ہے۔ کوئ بہت بڑی ریاضیاتی علوم رکھنے والی ہستی ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے۔ اس سے آگے سائنس کے پاس کوئی جواب نہیں، اس سے آگے کا جواب قرآن مجید نے دے دیا، سورہ الرحمان کی آیت نمبر 7 میں۔
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
(الرحمن، 55: 7)
اور اُسی نے آسمانی کائنات کو بلند کر رکھا ہے اور (اُسی نے اس میں توازن کے لیے) ترازو قائم کر رکھی ہےo
زمین کی چاروں اطراف کو اللہ رب العزت نے پھیلا پھیلا کر بلند کیا اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ گرتا کیوں نہیں کیونکہ اس رب نے توازن کے ساتھ ہر ایک چیز کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ سورہ الانعام میں ہے۔
فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ
(الانعام، 6: 96)
(وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہےo
وہی اللہ ہے جس نے صبح کی روشنی کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالا ہے اور سورج و چاند کو حساب و شمار کے ساتھ پیدا کیا۔
پھر سورہ یونس میں فرمایا:
وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ (یونس، 10: 5)
پھر سورہ الرعد میں فرمایا:
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے (خلا میں) بلند فرمایا (جیسا کہ) تم دیکھ رہے ہو پھر (پوری کائنات پر محیط اپنے) تخت اقتدار پر (اپنی شان کے لائق) متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو نظام کا پابند بنا دیا، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے اپنے مدار میں) چلتا ہے۔ وہی (ساری کائنات کے) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے، (سب) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لو۔ (الرعد، 13: 2
اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے اور سورج، سیاروں کو اپنے قانون کا مطیع بنایا ہے۔
سورہ النحل میں فرمایا:
اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بیشک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (النحل، 16: 12)
سورہ الرحمان میں فرمایا:
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ۪
(الرحمن، 55: 5)
سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں۔
پھر سورہ یسین میں فرمایا:
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
(یٰسین، 36: 38)
اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لئے (بغیر رکے) چلتا رہتا، ہے یہ بڑے غالب بہت علم والے (رب) کی تقدیر ہےo
اور ہم نے چاند کی (حرکت و گردش کی) بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا گھٹتے گھٹتے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ (یٰسین، 36: 39)
نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہوسکتی ہے، اور سب (ستارے اور سیارے) اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔
(یٰسین، 36: 40)
پھر سورہ فصلت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ (فصلت، 41: 53)