اعتکاف 2024ء ... عصری ضرورت پر اچھوتے موضوعات

ڈاکٹر فرح ناز

کسی بھی شخصیت کی عظمت اس کے علمی توسّع اور فکری معراج سے عبارت ہوتی ہے۔بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حیثیت دور حاضر میں ایک ایسی دانش گاہ کی سی ہے جس کا ہر گوشہ روشن و تابناک مستقبل کی نوید کا حامل ہے۔ آپ کے کارہائے نمایاں، علمی محاسن اور تحقیقی مقالات امت مسلمہ کے لئے ذریعہ رہنمائی، قابلِ تقلید و قابل فخر ہیں۔ آپ کا شمار ان نابغہ روزگار تاریخی شخصیات میں سے ہے جن کی سوچ و فکر سے علم و دانش کی نئی راہیں دریافت ہوتی ہیں۔ جن کے جولانی قلم کی روانی سے فکری مغالطوں کی گرد چھٹتی اور صحیح سمت میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام اپنے زمانے کے ایسے عظیم مدبر و رہنما، معلم ومصنف اور ایسی صاحب بصیرت شخصیت ہیں جنہوں نے دین کو زمانے کے در پیش چیلنجز، شکوک و شبہات اور باطل عقائد کی دھول کو عقلی و نقلی دلائل کی طاقت سے نہ صرف رد کر دیا ہے بلکہ دین پر اٹھنے والے اعتراضات اور فتنوں کا بر وقت سدباب کرکے درپیش مسائل کا حل بھی دیا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف 2024ء میں خطابات کیلئے عصری ضرورت کے تحت بالکل اچھوتے موضوع کا انتخاب کیا۔ سائنسی علوم کو نئی نسل کےسامنے دین اِسلام کی ضد کے طور پر پیش کرنے والے ملحدین (خدا کا اِنکار کرنے والے) مختلف محاذوں پر دین کے خلاف نفرت پیدا کرکے انہیں خدا اور دین سے بیزار و برگشتہ کر رہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف 2024ء میں ان کا علمی و فکری محاکمہ کیا ہے۔ ’’خُدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘، جیسے گمراہ کُن فتنۂ اِلحاد (atheism)، لامذہبیت (agnosticism) اور دہریّت پر مبنی دین گریز رجحان و نظریات کا تسلی بخش جواب اور عقلی تردید اور فلسفۂ توحید کے شرح و بسط کے ساتھ ایمان اَفروز دلائل کے ذریعہ عقلی بنیادوں پر قلع قمع کیا۔

ایمان کی بنیادوں پر حملہ آور بے دین دانشوروں کے ابھارے گئے شکوک و شبہات کو ردکرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ایسے نادر و علمی موضوعات پر کوئی ایسی شخصیت ہی بات کرسکتی ہے جس کی فکری واضحیت ہر قسم کے مغالطوں اور ہر طرح کے مسلکی تعصب و عناد سے پاک ہو۔ شیخ الاسلام نے خطاب میں فرمایا:

’’میرے بیٹو اور بیٹیو! آپ ملک و ملت اور اس قوم کا تابناک مستقبل ہیں۔آپ اپنی صحبت اور تعلق درست رکھیں۔ یہ دیکھیں کہ آپ کہاں سے دین کو،حق کو، سچ کو، حقیقت کو، سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ان لوگوں کو پہچانیں کہ جو آپ کو نصیحت کررہے ہیں کہیں وہ خود تو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں؟‘‘

پہلی صدیوں میں سلف صالحین کا قاعدہ تھا وہ کہا کرتے تھے:

الإسنادُ مِنَ الدِّينِ.

اسناد دین میں سے ہے۔

إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَاخُذُونَ دِينَكُمْ.

(مقدمه صحىح مسلم)

’’یہ علم، دین ہے ، پس تم دیکھ کہ کس شخص سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔‘‘

جب تم دین کی بات سنتے ہو تو کس سے سنی، اس نے کس سے سنی یہ جو سند ہے اس سند کے اندر دین کی صداقت پوشیدہ ہے، اس کے اندر دین کا اعتماد اور اعتقاد پوشیدہ ہے، دیکھو وہ شخص کون ہے، وہ لوگ کیسے ہیں جن سے تم دین کی خبر لینے جا رہے ہو، جن سے حق کی نسبت پوچھنے جا رہے ہو، جن سے معلومات لے رہے ہو،اخذ علم کر رہے ہو وہ اگر خود ثقہ اور سند ہیں تو تمہیں بھی پختہ درست بات بتائیں گے اور اگر وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں تو تمہیں تلاش حق کی بجائے گمراہ کر بیٹھیں گے۔ ( شہر اعتکاف 2024ء دوسرا خطاب)

ملت اسلامیہ کو پیش آنے والے چیلنجز کے خلاف محض تنقید، مذمت یا غلطی کی نشاندہی کافی نہیں ہوتی بلکہ دین پر استقامت کے ساتھ دلائل و براہین سے ان فتنوں کا قلع قمع ضروری ہوتا ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو بھی اس فتنے سے محفوظ رکھا جائے۔

صحیح مسلم کی روایت کردہ ایک حدیث صحیحہ کے مطابق ’’فتنے کے دور میں دین پر ڈٹ جانے کا بڑا اجر ہے‘‘۔چنانچہ اس اجر کے حصول پر ڈٹ جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی دین کو اعتقادی و ایمانی، علمی و فکری، تہذیبی و اخلاقی اور سیاسی نوعیت کے فتنوں کا سامنا ہوا تو ان کے سدباب کے لیے علماء حق پورے دلائل کے ساتھ صف آرا ہوگئے۔ انہوں نے نفس مسئلہ کا دلیل اور حکمت سے خوب تعقب کیا۔

عصر حاضر میں فتنوں کی بھرمار میں سب سے خطرناک اور ایمان سوز فتنہ الحاد کا ہے۔ جس کا نتیجہ بے زاری مذہب و دینی تشکیک اور تذبذب اور بالآخر لا دینیت پر منتج ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عصری تقاضوں کے مطابق عام فہم انداز میں پورے دلائل کے ساتھ اس فتنے کا بروقت رد کیا اور نسل نو کو الحاد و لادینیت سے بچانے کی بھر پور سعی کی ہے۔ ہمارے گرد و نواح کا ماحول، میڈیا، معاشرہ، زمانہ، سکول، بچے، معاشرت، تہذیب و ثقافت جیسے تمام عوامل الحاد کا بنیادی محرک ہیں۔یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ بچوں کو نہ تو گھر سے اور نہ سکول سے؛ نہ معاشرے سے اور نہ دوستوں کی سنگت و صحبت سے؛ نہ ہی پرنٹ، الیکٹرونک یا سوشل میڈیا وغیرہ سے ایسا ماحول مل رہاہے جو ایمان، روحانیت اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کا حامل ہو۔ جس کے باعث نوجوان نسل شیطانی ماحول سے متاثر ہو کر تیزی کے ساتھ لادینیت یا لامذہبیت کی طرف راغب ہو رہی ہے۔

فتنوں کے دور میں اس شخص سے اپنے مرض کا علاج کرنا چاہئے جو مرض کی جڑ کو سمجھتا ہو۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ ہی عصر حاضر میں وہ شخصیت ہیں جو ملت کےفکری امراض کی بر وقت تشخیص کرکے علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ آپ نے دوسرے خطاب کے دوران فرمایا:

’’ کچھ بندوں کے پاس علم نہیں ہوتا، تحقیق نہیں ہوتی، خود مطالعہ نہیں ہوتا، اچھی صحبت و سنگت نہیں ہوتی۔ محض نصابات اور سکول آپ کے ایمان کی حفاظت نہیں کر رہے ہوتے۔ والدین کی بھی غفلت ہوتی ہے، وہ بچے کو سنبھالنے کا وقت لاڈ پیار میں گزارتے ہیں یا اپنی روٹی کمانے میں اتنے بے فکر ہیں کہ اولاد کی فکر نہیں رہتی، الغرض پھر پورا معاشرہ اور سماج اور پوری دنیا ہزارہا عوامل کو ملا کر آپ کے ایمان پر حملہ آور ہوتی ہے۔ جتنی شدت کے ساتھ حملے ہیں ایمان کے دفاع اور بچاؤ کا اہتمام بھی اسی قدر زور سے ہونا چاہیے جبکہ بچاؤ کا اہتمام سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہم تلاش حق کے نام پر اپنی نادانی کے باعث نااندیش رہنماؤں کے نرغے میں، ان گروپس میں، ان حلقوں میں، ان blocks میں، ان صحبتوں میں، مجلسوں میں غلط سمت کو منتخب کر لیتے ہیں کہ جہاں خود ہدایت نام کی کوئی شے نہیں تو نتیجتاً تباہی ہوتی ہے۔‘‘

دورِ جدید کا سب سے مہلک فتنہ مادیت پرستی کے نتیجہ میں الحاد ہے۔ ائمہ اسلام نے الحاد کے لغوی و اصطلاحی معنی کی وضاحت شرح و بسط کے ساتھ کر دی ہے کہ

أَصْل الْإِلْحَاد الْمَيْل وَالْعُدُول عَنْ الشَّيْء، وَقِيلَ لِلْمَائِلِ عَنْ الدِّين مُلْحِد.

(ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 4/415)

لغوی اعتبار سے الحاد کا معنی”اعراض اور تجاوز“ہے، اور (اصطلاح معنی کے بارے میں) کہا گیا ہے دین سے انحراف کرنے والا ملحد ہے۔ 

جدید مفکرین کے نزدیک ملحد سے مراد ہے

“A person who does not believe that God or a divine being exists.”

دین سے دوری اور مادہ پرستی پر مبنی یہ رویہ انسان کو رفتہ رفتہ وجودِ الٰہی کے انکار اور مذہب سے لاتعلقی کے فتنہ میں مبتلا کرد یتا ہے۔ مادہ پرستی اور دین سے دوری جدید فیشن کا روپ دھار چکی ہے تعلیم یافتہ طبقہ، حتیٰ کہ راسخ العقیدہ مسلمان گھرانوں کے نوجوان بھی بتدریج اس اعتقادی گمراہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے ایمان کی جڑیں دن بہ دن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس روش پر چلتے ہوئے اِن افراد پر ایک وقت ایسابھی آتا ہے کہ وہ نہ صرف دین بلکہ اس کے ارکان و عقائد کا بھی مطلقاً انکار کر دیتے ہیں۔  مغرب کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد فتنہ الحاد مشرق میں بھی نہایت شدت کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے لہٰذا نوجوان نسل کو ایمان کی بقا کے لیے حقیقی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا، دینِ متین کا بنیادی اور ناگزیر تقاضا ہے۔

انسانی تاریخ نے ہمیشہ مذہب کو بھی تسلیم اور ساری کائنات کے اس خالق و مالک کو بھی قبول کیا جس کے پاس بالآخر ہر انسان نے پلٹ کر جانا اور دنیا میں کیے گئے اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔وہ اللہ رب العزت ہی ہے جس نے ہمیں عقل و شعور دیا اور دنیا میں رہنے کا ڈھنگ سکھایا۔ یہ مذہب ہی تھا جسے انسانیت نے روزِ اوّل ہی سے بغیر کسی عقلی دلیل کے تسلیم کیا۔ ارسطو ہو یا افلاطون، سقراط ہو یا بقراط جتنے بھی قدیم فلاسفر گزرے یا ان کے بعد آنے والے مفکرین، کسی کی بھی تحقیق و تحریر میں وجودِ الٰہی کا انکار موجود نہیں اور نہ ہی کسی کے ہاں مذہب کا انکار ہے، کیوں کہ انسانیت نے جب سے غور و فکر کرنے اور سوچنے کا عمل شروع کیا، تو پہلی چیز جو ذہن میں آئی، وہ اللہ رب العزت کے وجود کا شعور تھا جو مذہب کی شکل میں بنی نوع انسان کو ودیعت کیا گیا۔

انسانی زندگی کو باقاعدہ منظم کرنے کے لیے مذہب ایسی ضرورت ہے جس سے انکار فطرت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ مذہب یہ واضح کرتا ہے کہ یہ کائنات اول یا آخر سارے نظاموں کو جس ایک نظام کے تحت چلا رہی ہے، اسے ایک وحدت کے تابع کرنے والے کا نام ’اللہ‘ ہے اور وہی رب العالمین، سب کو پالنے والا اور تمام کائناتوں کو چلانے والا ہے۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے خطابات میں عقلی اور سائنسی بنیادوں پر الحاد کا رد کیا۔ آپ نے ثابت کیا کہ سائنس وجودِ باری تعالیٰ کا انکار نہیں کرتی۔ سال ہا سال کی تحقیق و جستجو کے بعد سائنسدان بھی بالآخر اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ کوئی بھی نظام اکائی و وحدت کے بغیر کبھی نہیں چل سکتا۔ لہٰذا سائنس آج بھی ہر نظام کے اندر اکائی یا وحدت کی تلاش میں ہے اور اس ساری کائنات کو نظام وحدت کے تابع کرنا چاہتی ہے۔ یہ درحقیقت دلائل کے ساتھ وجود باری تعالیٰ اور ضرورتِ مذہب کو ثابت کرتی چلی جا رہی ہے، درحقیقت سائنس انسان کو توحید کی طرف لے جانے کی ایک راہ ہے جو انسان کو اپنی حقیقی منزل تک لے جانے کا موجب بن رہی ہے۔

اُمید کی جاتی ہے کہ ان خطابات سے ہماری نسل نو کی ایمانی زندگی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔