عشرہ ذوالحجہ اور فقہی مسائل

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: حج کسے کہتے ہیں؟

جواب: لغوی رُو سے حج کا معنی قصد کرنا، زیارت کا ارادہ کرنا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں مخصوص اوقات میں خاص طریقوں سے ضروری عبادات اور مناسک کی بجاآوری کے لئے بیت اللہ کا قصد کرنا، کعبہ اللہ کا طواف کرنا اور میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کہلاتا ہے۔

سوال: ذی الحج کے مہینے کی کیا فضیلت ہے؟ اس کے ابتدائی دس دنوں‌ میں‌ کون کون سے اعمال کرنے چاہیے؟

جواب: حج و قربانی کی مناسبت سے ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس قدر برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں کہ آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذوالحجہ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے‘‘

لیلۃ القدر کی مناسبت سے جہاں ماہ رمضان المبارک کو منفرد شان والی ایک رات لیلۃ القدر نصیب ہوئی ہے جس کے اندر چند ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لئے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی بھلی شے طلب کرتا ہے وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے۔ ادھر ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ ان دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت کر دی۔ اس دن کو عرف عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مامن ايام العمل الصالح فيهن احب الی الله من هذه الايام العشرة قالوا يارسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، قال ولا الجهاد في سبيل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلک بشئی.

’’ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں، فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من ايام احب الی الله ان يتعبدله فيها من عشر ذی الحجة، يعدل صيام کل يوم منها بصيام سنة وقيام کل ليلة منها بقيام ليلة القدر.

(ترمذی، ابن ماجه)

’’اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے‘‘۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ذکر الٰہی کا اہتمام کرنا:

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ.

الْحَجّ، 22: 28

اور مقررہ دنوں کے اندر اللہ کے نام کا ذکر کرو۔

صحابہ کرام اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔

2۔ کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کہنا:

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا

’’کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں ،اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا) عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ،اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو‘‘

سلف صالحین اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے۔ امام بخاری نے بیان کیا ہے کہ ’’ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنھما تکبیر کہتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے‘‘

3۔ بال ناخن وغیرہ نہ کاٹنا:

کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اذا دخل العشر واراد بعضکم ان يضحی فلا ياخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا.

’’جب ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘۔

سوال: کیا عورت محرم کے بغیر سفرِ حج کر سکتی ہے؟

جواب: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر تنہا طے کرے۔

(طبرانی، المعجم الاوسط، 6: 267، رقم: 6376)

پرانے وقتوں میں سفر بہت کٹھن اور پُر خطر ہوتے تھے، زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے صرف ہو جاتے تھے۔ اِس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو تنہا تین دن سے زیادہ کا سفر کرنے سے منع فرما دیا تاکہ اُس کی عفت و عصمت کی حفاظت ہو، بلکہ ایک روایت میں تو ’دو دن‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ اِنہی سفری تکالیف اور خطرات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو تنہا حج کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند یا کسی محرم کے بغیر حج کرے۔‘‘

(ابن خزيمة، الصحيح، 4: 134، رقم: 2522)، (طبرانی، المعجم الکبير، 8: 261، رقم: 8016)

اِنہی اَحادیث اور اَحکامِ شریعت کی روشنی میں وضع کیے گئے، سعودی عرب کے مروّجہ قوانین کے مطابق کسی عورت کو مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کا ویزا ہی جاری نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا موجودہ دور میں عورت کا مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

البتہ ہمیں اُس عِلّت اور پس منظر کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کی بنا پر عورت کو مَحرم کے بغیر تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر اور حج کرنے سے منع فرمایا گیا۔ در حقیقت منع کا یہ حکم اِس لیے دیا گیا تھا کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پُرخطرات ہوتے تھے۔ سفر پیدل یا جانوروں پر کیا جاتا تھا اور کئی کئی ہفتے اور مہینے سفر میں صرف ہوتے تھے۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اندریں حالات عورت کی عصمت و حفاظت اور سفری تکالیف و خطرات کے پیشِ نظر اسے اکیلے سفر کرنے سے منع فرما دیا گیا۔ مَحرم درحقیقت حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ آج ذرائعِ مواصلات بہت ترقی کرگئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات و آسانیاں میسر آ چکی ہیں۔ دورانِ سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیے جاتے ہیں جو مَحرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل و خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے۔ گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی مَحرم بن گئے ہیں، کیونکہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے گروپ میں یا ایک ایسے گروپ میں جہاں مرد و خواتیں اکٹھے ہوں لیکن فیملیز ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اِجتماعیت مَحرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ انِ حالات میں عورت کے لیے مَحرم کے بغیر سفر کرنا ناجائز نہیں رہتا۔ چاہے وہ (تین دن سے زیادہ مسافت کا) عام سفر ہو یا سفرِ حج اور عمرہ۔

سوال: کیا مقروض شخص حج ادا کر سکتا ہے؟

جواب: اگر قرض خواہ بھی اجازت دے رہا ہے تو آپ حج ادا کر سکتے ہیں، قرض بعد میں ادا کر دینا۔ اب ہمیں معلوم نہیں کہ آپ نے قرض کس مقصد کے لیے اور کیوں لیا ہوا ہے کیونکہ کچھ لوگ تو مجبوری کی خاطر قرض لیتے ہیں اور کچھ کاروبار کو مزید وسعت دینے کی خاطر۔ لہذا کاروباری قرضے لینے والوں کے لیے تو مسئلہ نہیں ہے وہ تو سب بڑے لوگوں نے لے رکھا ہوتا ہے، اور ادا بھی کر سکتے ہیں حج ادا کرنے سے ان کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی، لیکن جو غریب ہو بڑی مشکل سے تھوڑے تھوڑے پیسے اکھٹے کر کےقرض ادا کرنے کے لیے جمع کیے ہوں تو اس کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ پہلے قرض ادا کرے اور جب صاحب استطاعت ہو جائے تو حج ادا کرے۔

سوال: حج کے سفری اخراجات کے برابر مالیت کے زیورات کے مالک پر حج فرض‌ ہے؟

جواب: حج ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے‘ بلکہ حج کی فرضیت کے لیے عاقل و بالغ ہونے کے ساتھ صاحب استطاعت وقدرت ہونا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً.

آل عِمْرَان، 3: 97

اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کی اہمیت کے پیشِ نظر فرمایا:

مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَی بَیْتِ اﷲِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْهِ أَنْ یَمُوتَ یَهُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا وَذَلِکَ أَنَّ اﷲَ یَقُولُ فِي کِتَابِهِ {وَللهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلا}[آل عمران، 3: 97]

ترمذي، السنن، 3: 176، رقم: 812، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

جس شخص کے پاس بیت اللہ شریف تک پہنچنے کا سامان سفر اور سواری ہو، پھر وہ حج نہ کرے تو اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی یا عیسائی ہو کر مرے اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے{اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو}۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان {جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو} کے متعلق پوچھا گیا کہ ’سبیل‘ سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ.

سامانِ سفر اور سواری۔

(یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن اسے صحیحین میں نقل نہیں کیا گیا)

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 609، رقم: 1614، بیروت: دار الکتب العلمیة)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک شخص نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! کس چیز سے حج فرض ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ.

ترمذي، السنن، 3: 177، رقم: 813

سامان سفر اور سواری سے۔

گویا استطاعت سے مراد سفری اخراجات کی دستیابی اور عزت وآبرو کا تحفظ ہے۔ اس لیے اگر کسی عورت کے پاس اپنی ضرورت اور استعمال سے زائد زیورات موجود ہیں جن کی مالیت حج کے سفری اخراجات کے برابر ہے تو اس پر حج فرض ہے۔ وہ ان زیورات کو فروخت کر کےکسی محرم یا بااعتماد گروپ کے ساتھ حج کے سفر پر جائے گی۔

سوال: کیا حجاج کرام سے وعدہ خلافی کرنے والے ٹریول ایجنٹس کی کمائی حلال ہے؟

جواب: اسلام میں جھوٹ بولنے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد بای تعالیٰ ہے:

فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.

(آل عمران، 3: 61)

’’اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘

لعنت سے مراد اللہ تعالی کی رحمت سے دور ہونا اور غضب الہی کا مستحق ہونا ہے۔ العیاذ باللہ

حضرت عبدالرحمن بن شبل سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:

إن التجار هم الفجار.

’’بے شک تاجر فاجر (گناہ گار) ہیں۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:

يا رسول الله! أليس قد أحل الله البيع؟

’’یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال نہیں فرمایا ہے؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بلى ولكنهم يحلفون فيأثمون ويحدثون فيكذبون.

(المستدرک للحاکم، کتاب البيوع، باب البيع يحضره الکذب واليمين، 2: 8، رقم: 2145)

’’(اللہ تعالی نے خرید و فروخت اور تجارت کو) حلال کیا ہے لیکن یہ تاجر (کاروبار میں جھوٹی) قسمیں کھاتے ہیں تو گنہگار ہو جاتے ہیں، اور جب کاروباری معاملہ کرتے ہیں تو اس میں جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘

ثانیا یہ بھی واضح رہے کہ حجاج کرام اور معتمرین کے ساتھ حسن سلوک کرنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:

ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليكرم ضيفه.

(صحيح البخاری، کتاب الادب، باب حق الضيف، 5: 2272، رقم: 5784)

’’اور جو کوئی اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔‘‘

حاجی صاحبان کے دو حقوق واضح ہیں: ایک مسافر کے حوالے سے اور دوسرا حق یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ لہذا تمام ٹور آپریٹرز کا دینی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ کے مہمانوں کو وہی سہولیات فراہم کریں جن کا انہوں نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جن کے مطابق مہمانان الہی سے رقم وصول کی گئی ہے۔ پس قرآن و حدیث کی رو سے ایسے حج ٹور آپریٹرز، جو حجاج کرام اور معتمرین کو وعدہ کے مطابق سہولیات فراہم نہ کریں، اللہ تعالی اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے نافرمان ہیں اور دوسروں کو دھوکہ دینے والے ہیں اور حرام کماتے ہیں کیوں کہ جھوٹی قسمیں کھانے اور سہولیات کے لیے کیے گئے وعدہ کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ان کی کمائی حرام ہے۔

سوال: کیا عمرہ کرنے کے بعد لازم ہے وہ بڑا حج بھی کرے؟

جواب: عمرہ ادا کرنے کے بعد شرعا حج کرنا لازمی نہیں ہوتا اگر کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر عمرہ ادا کرنے والا صاحب استطاعت ہے، عمرہ ادا کرنے کے بعد اس کے پاس اتنا مال ودولت موجود ہے جس سے اس پر حج فرض ہو جاتا ہو تو ایسی صورت میں حج ادا کرنا فرض ہے۔