خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ (حصہ دوم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: مریم اقبال

فَلَمَّا قَضٰی مُوۡسَی الۡاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهۡلِهٖۤ اٰنَسَ مِنۡ جَانِبِ الطُّوۡرِ نَارًا ۚ قَالَ لِاَهۡلِهِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡهَا بِخَبَرٍ اَوۡ جَذۡوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ.

(القصص، 28: 29)

پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی)، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک زمانہ حضرت شعیب ؑ کے ساتھ گزارنے کے بعد جب واپس پلٹے تو انہیں ایک آگ نظر آتی ہے جس کا پتہ سورہ مریم میں بھی دیا گیا ہے۔

وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا.

(مریم، 19: 52)

اور ہم نے انہیں (کوهِ) طور کی داہنی جانب سے ندا دی اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لئے ہم نے انہیں قربتِ (خاص) سے نوازا۔

اگر کوئی سال ہا سال اللہ کی طلب کرے تو اس کو وہ مل جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا:

دمِ عارف نسیمِ صبح دم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نَم ہے

اگر کوئی شعیب آئے میَسّر
شبانی سے کِلیمی دو قدم ہے

کہ شبانی سے کلیمی دو قدم ہے بشرطیکہ کوئی شعیب میسر ہو۔

اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی صحبت میں بیٹھا کرو اگر وہ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی صحبت میں بیٹھا کرو جو اللہ والے ہیں وہ تمہیں سیدھی راہ دکھائیں گے اور جو سیدھی راہ پر ہیں ان کو مضبوط و مستحکم رکھیں گے۔

پہلی صدیوں میں سلف صالحین کا قاعدہ تھا وہ فرماتے تھے کہ جب تم کوئی بات سنتے ہو تو جو سند ہوتی ہے اس کے اندر اس کی حقیقت پوشیدہ ہے، تو دیکھا کرو کہ تم کن سے معلومات اور دین کا علم لینے جا رہے ہو۔ اگر وہ صاحب حق ہوں گے تو تمہیں سیدھا رستہ دیں گے ورنہ وہ تمہیں بھی گمرا کر دیں گے۔

ہدایت پا کر بھی اس کی مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے سورہ محمد میں ہے:

وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پا لی تھی۔۔۔ اللہ نے ان کی ہدایت کو اور بڑھا دیا ہے یعنی وہ لوگ پہلے سے موجود ہدایت پر اکتفا کر کے نہیں بیٹھے تھے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا جو لوگ ہدایت پا لیتے ہیں اور پھر اس پر اور طلب کرتے ہیں تو ہم ان پر ہدایت کو بڑھا دیتے ہیں۔سورہ انفال آیت نمبر 2 میں فرمایا:

جب کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔

ہدایت ایمان اور اس کا کا بچاؤ قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے تعلق سے ہے۔ ایمان کے بچاؤ اور ہدایت کیلئے ضروری ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے۔

قرآن مجید صحابہ کرام کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ بات سمجھائی کہ ایمان والوں کو بھی لمحہ لمحہ ایسی ضرورت ہے کہ جس سے ایمان بڑھتا چلا جائے۔

بری صحبت آج کل کے دور میں اور موبائل فون جدید سوشل میڈیا (جدید ٹیکنالوجی) ایمان کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ اور اس دور میں ہم اپنی نادانی کی وجہ سے ایسے گروپس اور لوگوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں جو گمراہ ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایمان کی تباہی ہوتی ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سال ہا سال وقت گزارا پھر جاکر ہی انہیں روشنی نظر آئی۔

Luxor جو کہ مصر کا ایک شہر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو یوسف علیہ السلام کے زمانے سے لیکر بعد کے انبیاء علیھم السلام کا مرکز تھا۔ یہ فراعینِ مصر کا شہر تھا۔ 1898 یعنی 126 سال پہلے ایک شخص وہاں گیا اس کا نام Victor Lotr ہے۔ اس علاقے کو بادشاہوں کی وادی (وادی ملوک) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں اس وقت بھی کھدائی کا عمل جاری تھا۔ نپولین نے جب وہ شہر فتح کیا تھا تو اس نے فراعینِ مصر کی قبروں کی تحقیق کی اور یہ عمل 100 سال تک جاری رہا۔ اس شخص نے وہاں کھدائی کی تو اسے ایک لاش ملی۔ تو اس نے اس لاش کو قاہرہ منتقل کیا۔ جب قاہرہ منتقل کیا تو وہ 1898 سے 1907تک وہیں رہی۔ آج بھی وہیں موجود ہے۔ ایک اور سائنس دان جو اس فیلڈ کا ماہر تھا اس نے اس لاش کے جسم سے غلافوں کو اتارا اور اس کے جسم کا جائزہ لیا اور 1912 میں اس نے ایک کتاب لکھی Royal Mummies اور اس نے اس کتاب میں اس لاش کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ نہایت ہی تسلی بخش حالت میں محفوظ تھی۔ حکومت نے اس پر مزید تحقیق کا کہا۔ ایک اور سائنسدان جس کا نام ڈاکٹر مورس Mourice Bucellie تھا اس نے مصری حکومت سے درخواست کی کہ مجھے اور میری ٹیم کو اجازت دی جائے کہ اس کی مزید تحقیقات کی جائیں۔ اس کو جون 1975 میں اس بات کی اجازت مل گئی۔ اس نے ایک کتاب The Bible, The Quran and Science لکھی اور اس نے اس کتاب کے اندر اس کے سینے اور پیٹ کے اندر کی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کیلئے انہیں فرانس منتقل کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران ان کی ریڈیوگرافی سٹڈی کی گئی۔ اور اس تحقیق کے دوران ڈاکٹر مورس ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ 40 میں لکھتے ہیں کہ یہ شخص فرعون جس کی تلاش کی ہم نے تحقیقات کیں اس کی موت سمندر میں غرق ہوجانے سے سے ہوئی تھی۔ اور پھر اس نے لکھا کہ جب وہ ڈوب رہا تھا تو یہ بھی امکان ہے کہ سمندر میں شدید لہریں تھیں جس میں ہچکولے کھا کھا کے یہ شخص مرا۔ جب تحقیقات نے یہ بات ظاہر کر دی کہ یہ سمندر میں ہلاک ہوا تو اس نے اس بات پہ سر پکڑ لیا کہ اگر یہ سمندر میں ہلاک ہوا تو اس کی لاش غرق ہونے کے بعد کس طرح سے بچ کے باہر آئی۔ وہ بار بار یہ سوال پوچھتا تھا تو اس کے ایک ساتھی نے کہا کہ اس بات کو چھوڑو اتنا نہ پڑھو کیونکہ مسلمان یہی کہتے ہیں کہ ان کی کتاب میں ایسے ہی واقع لکھا ہوا ہے۔ جب اس نے یہ بات سنی تو وہ حیران ہو کر کہنے لگا کہ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب میں ہے تو اس پر ڈاکٹر مورس نے یہ کہا کہ مسلمانوں کے قرآن کو یہ بات کس نہ بتائی، وہ کہتا کہ یہ لاش برآمد تو 1898میں ہوئی ہے اور اس کے بعد 1975میں یہ پیرس منتقل ہوئی ہے۔ ہم اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سمند میں غرق ہوا تھا تو سمندر سے بچ کر باہر آنے کا تو کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔ تو وہ اس بات کو نہیں مانتا تھا کہ مسلمانوں کی کتا ب کو کس نے بتایا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس بات کا مسلمانوں کو علم ہو اس نے کہا کہ اس قصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی ہے تو ان کی کتاب لے آؤ۔ بائیبل کتاب کے باب 14جس کا عنوان ہے خروج وہ اس نے کھولا۔ بائیبل سے پہلے اس نے انجیل کھولی تو انجیل اس موضوع پر خاموش تھی، اس میں اس کی لاش کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ پھر اس نے بائیبل کھولی اور چیپٹر 14 کی آیت نمبر 28پڑھی۔ جس میں لکھا تھا کہ پھر پانی پلٹا اور اس نےسب سپاہوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچا۔ یعنی تورات نے یہ لکھا ہے کہ جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے گیا تو وہ اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا اور ان میں سے کوئی نہیں بچا۔

ایک اور باب ہے psalm 106 نمبر اس میں آیت نمبر 9، 10، 11کو اس نے پھر پڑھا، اور اس میں بھی یہ لکھا تھا کہ جب پانی پلٹا تو ان میں سے کوئی نہیں بچا سب غرق ہوگئے۔

اسی کتاب کے باب 136 میں پھر اس کا ذکر آیا ہے کہ سمندر نے فرعون کو اور اس کی پوری کی پوری فوج کو غرق کردیا اور کوئی ایک شخص نہیں بچا۔ ڈاکٹر مور س یہ کہتے ہیں کہ تورات تو جگہ جگہ یہ کہہ رہی ہے کہ کوئی بھی نہیں بچا تو وہ یہ کہتا کہ اس کے خیال میں صرف بائیبل ہی ایک ذریعہ ہے اور اس کے مطابق تو سب کچھ غرق ہو گیا تھا، اس فرعون کا کوئی واقعہ یا اس کی لاش سے متعلق کوئی اشارہ کسی تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں تھا۔ اس کا سوال یہ تھا کہ یہ تو دریافت ہی 1898 میں ہوئی تھی اور اس کا تذکرہ کہیں نہیں ہے تو مسلمانوں کی کتاب کو یہ بات کس نے بتائی۔ پھر اس نے 1975 میں سعودیہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کی اور اس میں اپنا پیپر پڑھا۔ فرعون کی لاش کی دریافت کی خبر ایک بہت بڑی خبر تھی کہ ایک ایسا فرعون ملا ہے جو سمند د میں غرق ہوا تھا۔ اس نے اپنی ریسرچ کے نتائج جگہ جگہ بیان کیے اور اس کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ سب کے علم میں ایک ہی فرعون تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے گیا تھا لیکن پوری دنیا یہ جانتی تھی کہ وہ سمند میں غرق ہو گیا تھا۔ اس خبر کے بعد سعودی عرب میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اس نے بھی اس میں شرکت کی اور اپنا پیپر پڑھا۔ اس کا فوکس یہ تھا کہ جو فرعون غرق ہوگیا تھا اس کی لاش ملی ہے اور اس کا سوال یہ تھا کہ کس طرح اس کی لاش محفوظ ہوئی۔ تو وہاں اس کو اس کاجواب دیا گیا اور سورہ یونس کی آیت نمبر 90، 91، 92 بیان کی گئیں۔

اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے (یعنی فرعون کو) ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا: ’’میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں۔ ‘‘

(جواب دیا گیا کہ) اب (ایمان لاتا ہے)؟ حالانکہ تو پہلے (مسلسل) نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد بپا کرنے والوں میں سے تھا۔

(اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے (عبرت کا) نشان ہوسکے اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیں۔

جوں ہی قرآن مجید کی یہ آیت اس کو پڑھ کر سنائی گئیں وہ اپنے جذبات کو قابو رکھتے ہوئے کھڑا ہوا اور بولا:

اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

اور اس نے کہا کہ مجھے اس لاش کی خبر فقط خدا اور قرآن نے دی۔

قرآن مجید نے اس لاش کی خبر 1400 قبل بتائی جب کہ دنیا کو اس کی خبر 1898 میں ہوئی۔ اور 1975 میں اس نے اس بات کو واضح کیا۔ وہ ڈاکٹر جو اس بات پر گواہ ہوا وہ ایک عیسائی تھا جس نے گواہی دی کہ یہ لاش سمند میں غرق ہوئی تھی اس کا سوال یہ تھا کہ سمندر کی موجوں کو یہ خبر کس نے دی۔ اس لاش کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرنا، اور پھر ان مچھلیوں کو یہ شعور کس نے دیا تھا کہ اس لاش کو نقصان نہیں پہنچانا تو ان سب کو حکم دینے والا اللہ ہے تاکہ بعد میں آنے والے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔

اس نے اس کتاب میں 241 صفحہ میں بھی یہ لکھا تھا کہ یہ اللہ کا امر تھا کہ جتنا بھی زمانہ گزرتا جائے گا اس کی لاش کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

1988 میں یہی ڈاکٹر مورس سیدی شیخ الاسلام کی دعوت پر ویمبلے ایرینا لندن میں کانفرنس پر تشریف لائے اور اس کانفرنس میں انہوں خطاب بھی کیا اور یہ واقعہ بھی سنایا کہ کیسے انہوں نے خدا کو پایا۔

اللہ کا پتہ جاننے کا طریقہ صرف تحقیق ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں غوطہ زن ہوا جائے۔

رب کو پانے کا طریق قرآن مجید میں غوطہ زنی ہے۔

1978 میں ایک شخص تھے DR. Gary Miller اور ٹورانٹو یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ اور وہ 1977 تک مسلمان سکالرز سے اسلام کے خلاف مناظرے کرتے تھے۔ اس نے تحقیق شروع کی کہ قرآن مجید میں سے کوئی غلطی نکالوں۔ قرآن مجید کو غلط ثابت کرنے کیلئے ریسرچ کی اور جب ریسرچ ختم ہوئی تو اس نے قرآن مجید کو سچا مان لیا۔

ان کی نظر میں سورہ نحل کی آیت 68 اور 69 آئی۔

وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ۙ

اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیںo

ثُمَّ کُلِیۡ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِهَا شَرَابٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ فِیۡهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ

پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو ان پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لئے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانی ہے۔

یہاں تفکر پر بات ختم کی ہے۔ انھوں نے جب یہ آیت پڑھی تو وہ اس بات پر چونک پڑھا کہ 4 دفعہ ذکر آیا ہے اور چوتھی دفعہ فی میل (صیغہ مونث) استعمال کیا گیا۔ اَنِ اتَّخِذِیۡ، ثُمَّ کُلِیۡ، فَاسۡلُکِیۡ، مِنۡۢ بُطُوۡنِهَا اس کیلئے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن مجید نے چاروں جگہ صیغہ مونث استعمال کیا ہے۔ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو اس وقت کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شہد کی مکھیوں کے بھی دو جنس ہوتے ہیں۔ توقرآن مجید نے مکھیوں کی جنس کا بتایا۔ سائنس کو 1637میں یہ بات چلی کہ شہد کی مکھیوں میں میل بھی ہے اور فی میل بھی۔ اور یہ بات جب قرآن مجید میں بتائی گئی تو وہ اس تحقیق سے 1000 سال پہلے کا زمانہ تھا۔ Richard Lamnant نے 1637 میں تحقیق کر کے بتایا کہ شہد جمع کرنے والی مکھیاں فی میل ہوتی ہیں۔ اور قرآن مجید نے 4 دفعہ 2 آیات میں ذکر کرتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ شہد جمع کرنے کا کام فی میل مکھیاں کرتی ہیں۔ یقیناً خدا ہی ہے جو ان حقیقتوں کو اپنے نبیﷺ کو بتا رہا ہے۔

پودوں کے اندر بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یہ سائنس کو 1694 میں پتہ چلا۔ آج سے 328 سال پہلے امریکن سائنس دان نے اس پر تحقیقات کی اور یہ تحقیقات 1900 تک جاری رہیں۔ 1694 سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا۔ قرآن مجید نے سورہ یٰسین میں فرمایا:

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ کُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَ مِمَّا لَا یَعۡلَمُوۡنَ

پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کئے، ان سے (بھی) جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود اُن کی جانوں سے بھی اور (مزید) ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اور بھی تحقیقات ہوں گی۔ سورہ طہٰ ا ٓیت نمبر 53 میں فرمایا:

الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ مَهۡدًا وَّ سَلَکَ لَکُمۡ فِیۡهَا سُبُلًا وَّ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ؕ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡ نَّبَاتٍ شَتّٰی

وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے رہنے کی جگہ بنایا اور اس میں تمہارے (سفر کرنے کے) لئے راستے بنائے اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) انواع و اقسام کی نباتات کے جوڑے نکال دیئے۔

نباتات کا یہ علم قرآن مجید نے 1400 سال قبل بتایا جب کہ سائنس کو یہ خبر صرف 300 سال قبل ہوئی۔ اور اللہ رب العزت نے فرمایا صرف یہی نہیں ہیں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو وقت آنے پر جان جاؤ گے۔

سورہ الذریات میں آیت نمبر 49 میں فرمایا:

وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ

اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو۔

جسم میں جب 2 ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں جوائنٹس کہتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق 360 جوائنٹس ہیں، 206 ہڈیاں ہیں۔ design for ergonomics کے صفحہ 243 میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر 360 جوائنٹس ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد سائنسدان یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان کے اندر 360 جوائنٹس ہیں۔ اس کے علاوہ ریسرچ پیپرز میں بھی یہ ہے کہ 360 جوائنٹس ہیں۔ 1900ء تک یہ عدد مختلف تھا۔ فرانس کے سائنسدانوں نے بھی یہ بیان کیا کہ انسانی جسم میں ہڈیوں کے 360جوڑ ہیں۔ سائنس کو یہ بات اب معلوم ہوئی ہے کہ 360جوڑ ہیں۔ یہ حقیقت آج سے 1400 سال قبل صحیح مسلم شریف کتاب زکوۃ میں حدیث نمبر 1007، سنن ابی داؤد اور احمد بن حنبل اور دیگر کتب میں ہے۔

إِنَّهُ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ عَلٰی سِتِّیْنَ وَثَلَاثِمِائَۃِ مِفْصَلٍ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو آدم میں سے ہر انسان کی تخلیق تین سو ساٹھ جوڑوں پر ہوئی۔

ہم تاجدارِ کائنات ﷺ کو سلام پیش کرتے ہیں جو ہمارے پاس اتنا کامل دین لائے ہیں۔

خلاصہ

خدا تک رسائی کا طریقہ، تحقیق ہے اور تحقیق کے لیے انسان کو قرآن مجید میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی اُس حسنِ مطلق کی تلاش میں سرگرداں ہو اور اس تلاش کے تمام مطلوبہ تقاضے پورے کرے تو اس کا پتہ لازمی مل جاتا ہے اور اُس تک رسائی نصیب ہوجاتی ہے۔ ایمان والوں کو لمحہ بہ لمحہ ایسے اِہتمام کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی رہے۔ ایمان پر جتنی شدت کے حملے ہورہے ہیں، اس کے بچاؤ کے لیے کوشش بھی اتنی شدت کی ہونی چاہیے۔

آج کے دور میں ایمان کو کمزور کرنے کے عوامل بے شمار ہیں۔ موبائل فون اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہدایت پا لینے کے بعد بھی ہدایت کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے کے بعد بھی ایمان کو پختہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میری کوشش ہے کہ ملک و ملت اور اُمت کے سرمائے کی مانند اپنے نوجوانوں کو لادینیت کے فتنے سے بچایا جائے اور ان کے اَخلاق و کردار کی حفاظت کی جائے۔ ایمان کو حاصل کرنے اور ایمان کو بچانے کےلیے ہماری کوئی شعوری کوشش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل بکھرے ہوئے تنکوں کی مانند ہے جسے تھوڑی سی ہوا کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔

پہلے شفا خانے ہوتے تھے، اب بدقسمتی سے مرض خانے کھل گئے ہیں۔ آن لائن گروپس بن گئے ہیں جنہیں ex-Muslims کا نام دیا گیا ہے۔ وہ دہریت کے online گروپس چلا رہے ہیں، ان کی اپنی زندگیوں میں بے شمار کجیاں ہیں اور وہ خود راهِ ہدایت پر نہیں ہیں۔ ایمان کا بچاؤ قرآن کے ذریعے ممکن ہے اور اس بچاؤ کیلئے اچھی سنگت اور صحبت لازم ہے۔ القرآن: "وہ لوگ جنہوں نے محنت کر کے ہدایت پالی تھی اللہ نے انہیں مزید ہدایت عطا فرما دی ہے۔" جو رب سے ملاقات رکھتے ہیں، ان سے ملاقات و تعلقات اُستوار رکھنا ہمیں اُس ملاقات کی کچھ تجلیات، اثرات اور کیفیات دیتا ہے۔

سلامتی پانے کے لیے دنیا کو دل سے نکالنا ہوتا ہے۔ جس دل سے دنیا نکل جائے گی اس دل میں سلامتی آجائے گی۔ اگر آپ اُس سے جڑے رہیں اور دنیا کو بھی اپنے دل میں سموئے رکھیں تو سلامتی نہیں آتی۔ اللہ سے ملاقات کے لیے دل کو دنیا سے مستغنی کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک دل میں دنیا کا حرص، لالچ، رغبت اور تڑپ قائم رہے گی اور دل دنیا سے جڑا رہے گا، اُس وقت تک وہ مولا سے جڑ نہیں سکتا۔