منشیات کے خلاف عالمی دن

سعدیہ کریم

منشیات انسانی زندگی کے لیے زہر، قاتل ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 26 جون کو منشیات کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت کا انسداد کرنے کا عہد ہوتا ہے۔

سگریٹ نوشی منشیات کی طرف اٹھنے والا پہلا قدم ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی موجود دور میں فیشن کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن فیشن کی یہ علامت اب قومی عادت بنتی جارہی ہے۔ منشیات کا زہر معاشروں کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔ ہزاروں والدین منشیات میں مبتلا اولادوں کے مستقبل سے یکسر ناامید ہوچکے ہیں۔

منشیات کے استعمال کی وجہ سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ ہماری نئی نسل اکثر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنالیتے ہیں وقتی طور پر وہ اسے اپنی پریشانیوں کا حل سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ زہر ان کی زندگیوں کو ختم کردیتا ہے۔ منشیات استعمال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان والے بھی اذیت اور ذلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں 15-64سال کی عمر کے 35 کروڑ لوگ کسی نہ کسی طرح نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ صرف پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد نشے میں مبتلا ہیں اور ہر سال اس میں پانچ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ سرکاری سطح پر انسداد منشیات کے لیے بہت سے ادارے کام کررہے ہیں مگر اس کے باوجود دن بدن منشیات استعمال کرنے والے افراد میں اضافہ ہورہا ہے۔

منشیات میں کیا کیا شامل ہوتا ہے

منشیات میں تمام نشہ آور اشیاءشامل ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ، حشیش سمیت منشیات کی 21 سے زائد اقسام ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 62 فیصد لوگ چرس، بھنگ اور حشیش کے عادی ہیں جبکہ باقی 20 فیصد ہیروئن، 10 فیصد افیون، 20 فیصدلوگ کوکین کیپسول، کرسٹل اور گولیاں استعمال کرتے ہیں۔

منشیات کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار

آسودگی کی تلاش، بوریت سے نجات اور فیشن زدہ نظر آنے کی چاہ میں لوگ منشیات کی دلدل میں دھکیلتے چلےجارہے ہیں۔ موجودہ دور میں یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اب منشیات کی فروخت روایتی انداز سے نہیں کی جارہی بلکہ جدید انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے منشیات کی جاتی ہے۔ منشیات فروش واٹس ایپ اور فیس بک، انسٹا گرام اوردیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو اس دلدل میں اتارتے ہیں امیرلوگوں کے بچے بہت جلد فیشن کے نام پر اس کےعادی ہوتے چلے جارہے ہیں کیونکہ ان کے لیے پیسہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور منشیات فروش لوگ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایسے ہی نوجوانوں کواپنا آلہ کار بناتے ہیں۔

وجوہات و اسباب

ماہرین منشیات کے مطابق منشیات کو استعمال کرنے کی تین بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔

  1. ذہنی دباؤ جو کہ امتحان، محبت کی ناکامی، تاخیر سے شادی، بے روزگاری، غربت، نظر انداز کیے جانے یا کسی بھی سماجی و خاندانی محرک کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
  2. شخصیت کا عدم توازن
  3. بری صحبت

بعض اوقات جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی منشیات کے استعمال کی وجہ بنتی ہے۔

والدین کا اپنے بچوں کو مناسب توجہ اور وقت نہ دینا بھی انہیں منشیات کی طرف لے جانے والا اہم محرک ہے۔ بچے والدین کی توجہ نہ ہونے کے باعث سگریٹ نوشی کی طرف بڑھتے ہیں اور آہستہ آہستہ مزید نشہ آور اشیاء کے عادی ہوجاتے ہیں۔

موجودہ دور میں جدید صنعتی ترقی کی دوڑ نے انسانی اعصاب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر انسان اعصابی مریض نہ ہو تو بھی اسے ہر لمحہ اعصاب کو سکون دینے کی حاجت رہتی ہے اور سگریٹ چاہے وقتی اور عارضی استعمال کیاجائے لیکن اس حاجت کی تسکین کا موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں اور بتدریج کثرت استعمال سے انسانی صحت مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے۔ انسان کے اعصاب قطعی طورپر ناکارہ ہوجاتے ہیں اور کوئی مہلک مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

اس سال 26 جون کو منشیات کے استعمال اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف 35 واں عالمی دن منایا جائے گا۔ منشیات ایک طویل عرصے سے انسانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچارہی ہے۔ جس سے نہ صرف لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے بلکہ یہ معاشی غربت، سماجی ماحول کو زہر آلود کرنےاور غیر قانونی سرگرمیوں اور جرائم کو پیدا کرنے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی عوامی خطرہ ہے جس کا تمام نوع انسانی کو سامنا ہے۔ عالمی برادری کی مسلسل کوششوں کے باوجود انسداد منشیات کی موجودہ صورتحال بہت سنگین ہے اور بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں بارود کادھواں نہیں ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کی جنگ ہے۔ منشیات سے لڑنا اور زندگیوں کی حفاظت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ منشیات کا استعمال یورپی ممالک میں ہوتا ہے جن میں امریکہ سرفہرست ہے جہاں تقریباً 75 فیصد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارالیتے ہیں۔

منشیات کے انسداد کے لیے ہمہ گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عوامی شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے۔منشیات کے خلاف عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اسباب کو دور کیا جائے یا انھیں کم کیا جائے جو منشیات کے استعمال کے فروغ کا باعث ہیں تاکہ نئی نسل منشیات کی لعنت سے بچ سکے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں بڑھتی ہوئی منشیات نوشی پر 7 دسمبر 1987ء کو اقوام متحدہ نے اس دن کو ہر سال 26 جون کو منانے کا فیصلہ کیا تھا

طبی اور نفسیاتی ماہرین کے مطابق نئی نسل میں نشہ آور اشیاء (منشیات) کے استعمال کی وجوہات میں دولت کی فراوانی یا انتہائی غربت، بری صحبت، جنس مخالف کی بے وفائی، مقاصد میں ناکامی، حالات کی بے چینی اور مایوسی، والدین کی بچوں کی طرف سے بے اعتنائی و لاپرواہی، معاشرتی عدم مساوات، ناانصافی اور والدین کی آپس کی ناچاقیاں بھی شامل ہیں۔

منشیات کی تاریخ

اگرچہ آج پاکستان میں تمباکو اور نشہ آور اجناس کی کاشت بطور ایک نقد آور اور منافع بخش جنس کے طور پر کی جاتی ہے اور اس کا بیشتر حصہ اندرون ملک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی دریافت سب سے پہلے امریکہ میں ہوئی تھی۔ تمباکو کو وہاں جنم بھومی قرار دیا جاتا تھا۔ جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تو اسے اور اس کے ساتھیوں کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں کے مقامی لوگ بانس کی لمبی لمبی نالیوں میں تمباکو کو بھر کر اس کے کش لگاتے تھے۔ اس کے بعد سولہویں صدی عیسوی میں یورپ میں بھی سگریٹ نوشی نے رواج پانا شروع کیا۔ چنانچہ پرتگال میں فرانسیسی سفیر جبین نکٹ سب سے پہلے تمباکو کے بیج اور تمباکو کے نمونے بطور سوغات ہندوستان میں لے کرآیا۔

منشیات کا استعمال کرنے سے انسانی صحت مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے انسان کے اعصاب مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں اور وہ کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے اس کے فوری اور یقینی انسداد کی ضرورت ہے۔ منشیات فروشی پر پابندی اور اس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچوں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کے ساتھ ان کے دوستوں پرنظر رکھنی چاہیے اور انھیں اچھے دوستوں کی صحبت میں رہنے کے فوائد و ثمرات سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان کے قدم غلط راہوں کی طرف اٹھنے سے پہلے ہی انھیں روکا جاسکے اور نئی نسل تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے

منشیات کے ذریعے پھیلنے والی جسمانی بیماریاں

تمباکو میں نکوٹین کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے جو ایک خطرناک اور مہلک زہر ہے۔ اس کا نام فرانسیسی سفیر جبین نکٹ کے نام پر ’’نکوٹین‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ زہر اتنا قاتل ہے کہ کوئی ڈاکٹر یا حکیم اسے دوسرے زہروں کی طرح ادویات میں استعمال نہیں کرتا اور ایک سگریٹ کے تین کشوں میں یہ زہر اتنی بڑی مقدار میں انسانی جسم میں داخل ہوجاتا ہے جو موت کے لیے کافی ہوتا ہے۔

اس کی وجہ سے انسان کو بھوک کی کمی، بے خوابی، دل کی دھڑکن اور دماغی کمزوری لاحق ہوتی ہے اور سگریٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان علامات میں شدت پیدا ہوجاتی ہے اور بالآخر انسان خون کی کمی، دل کے عارضہ، دمہ یا سرطان جیسے موذی امراض میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔خاص طورپر نکوٹین کا زیادہ اثر لڑکیوں اور خواتین پر ہوتا ہے۔ نکوٹین کا استعمال کمزور اور غیر صحت مند بچوں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔

تمباکو نوشی یا منشیات کا استعمال ہماری قوم کے اخلاقی اور معاشرتی انحطاط کا باعث ہے بھلا جس قوم کے افراد غیر صحتمند ہوں یا ان کی صحت انحطاط پذیر ہو وہ قوم اپنی ترقی و خوشحالی کے عظیم الشان منصوبوں کوکس طرح مکمل کرسکتی ہے اور کس طرح آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔ ہماری قومی دولت کا ایک وافر حصہ منشیات کی نذر ہورہا ہے۔

منشیات نوشی نقصان دہ عادت ہے

دنیا کے تمام ڈاکٹرز اور طبی ماہرین کے مطابق منشیات کا استعمال سراسر نقصان دہ عادت ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس سے پرہیز اور اجتناب کرنے کے بجائے اسے اختیارکرتےہیں۔

منشیات کے ذریعے پھیلنے والی اخلاقی برائیاں

منشیات کے استعمال سے نہایت مکروہ قسم کی اخلاقی برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور معاشرے میں ایسی برائیوں کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اگر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات کے عادی ہوجائیں تو پھر جھوٹ، چوری اور بداخلاقی جیسے جرائم اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔

منشیات کی وجہ سے والدین کی نافرمانی، غیبت، فساد، قتل و غارت، اپنی ذات کی نفی کرنا، دوسروں کا حق مارنا، بے حیائی اور فحاشی جیسی برائیاں معاشرے کو گھیر لیتی ہیں۔ معاشرتی امن و سکون تباہ ہوجاتا ہے۔ منشیات کےعادی افراد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

لوگ اپنے ذہنی تناؤ یا پریشانیوں کو کم کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں لیکن اس کے استعمال سے ان کے دل و دماغ کی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی تمام تر توانائیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ معاشرے میں موجود دوسرے لوگ ان سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ منشیات کے عادی لوگ عزت و احترام سے محروم ہوجاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال انہیں روحانی اور جسمانی طور پر موت سے ہمکنارکردیتا ہے۔

منشیات کے بارے میں شرعی حکم

شرعی طور پر تمباکو نوشی یا منشیات کا استعمال مکروہ ہے۔ فقہی اعتبار سے حقے یا سگریٹ کا کش لگاکر انسان نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں نہیں جاسکتا ۔ اس سے دوسرے نمازیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور مسجدکا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ منشیات استعمال کرنے کے بعد آپ کسی قسم کی عبادت کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اسی طرح منشیات کے استعمال کے بعد آپ قرآن کریم کی تلاوت بھی نہیں کرسکتے۔

منشیات کے انسداد کے لیے ہمہ گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عوامی شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے۔

منشیات کے خلاف عالمی دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اسباب کو دور کیا جائے یا انھیں کم کیا جائے جو منشیات کے استعمال کے فروغ کا باعث ہیں تاکہ نئی نسل منشیات کی لعنت سے بچ سکے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں بڑھتی ہوئی منشیات نوشی پر 7 دسمبر 1987ء کو اقوام متحدہ نے اس دن کو ہر سال 26 جون کو منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

انسداد منشیات؛ وقت کی اہم ضرورت

منشیات پر قابو پانے کے عظیم مقصد کے لیے بین الاقوامی تعاون ہی واحد راستہ ہے اور اس کی وجوہات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسداد منشیات کے عمل میں بہت سے پہلو شامل ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی مشترکہ کوششوں اور جامع انتظام، قانون کے نفاذ، منشیات اگانے والے علاقوں میں متبادل شجر کاری، متاثرین کی صحت یابی اور متعلقہ تعلیم کے شعبوں میں ہم آہنگی اور تعاون سے ہی ہم موثر طور پر منشیات سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے انسداد منشیات کے بین الاقوامی تعاون کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ بین الاقوامی کنونشنز کے مقاصد اور اصولوں کے تحت عمل میں لایا جانا چاہیے۔ ممالک کو ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ برابری اور باہمی فائدے کے اصول کی روشنی میں کام کرنا چاہیے۔

منشیات کے خلاف عالمی دن کو مناتے ہوئے 35 سال گزر چکے ہیں لیکن منشیات کے خاتمے کی حتمی منزل کا راستہ اب بھی کافی طویل اور کٹھن ہے لیکن مسلسل جدوجہد اور ہمت سے یہ راستہ کاٹا جاسکتا ہے اور منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔

حاصل کلام

منشیات کا استعمال کرنے سے انسانی صحت مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے انسان کے اعصاب مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں اور وہ کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس لیے اس کے فوری اور یقینی انسداد کی ضرورت ہے۔ منشیات فروشی پر پابندی اور اس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچوں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچوں کے ساتھ ان کے دوستوں پرنظر رکھنی چاہیے اور انھیں اچھے دوستوں کی صحبت میں رہنے کے فوائد و ثمرات سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے تاکہ ان کے قدم غلط راہوں کی طرف اٹھنے سے پہلے ہی انھیں روکا جاسکے اور نئی نسل تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے۔