تشکیلِ جدید الہٰیات اسلامیہ کے سلسلے کے تیسرے خطبے میں اقبال نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے اسلامی تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے فلسفہ مذہب کا ایک دیرینہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ خالق کائنات کے قادر مطلق اور خیر کل ہونے پر ایمان کے ساتھ ساتھ کائنات میں شر کے وجود کی توجیہہ کس طرح کی جائے۔ وہ اس مسئلہ کا حل قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی تعلیم رجائیت و قنوطیت کی بجائے ترقی و اصلاح پذیری ہے جو ایک مائل بہ وسعت کائنات کا اثبات کرتی ہے اور یہ امید رکھتی ہے کہ بالآخر انسان کو شر پر فتح حاصل ہوگی۔
اس مسئلہ کی بہتر تفہیم کے لیے اقبال نے قصہ آدم و حوا کی طرف رجوع کیا ہے۔ اس قصے کو تمثیلی و علامتی جان کر انھوں نے جو تاویل وتعبیر کی ہے وہ خود اپنی جگہ ندرت اور انوکھے پن کی وجہ سے توجہ کے قابل ہے۔ اس ضمن میں اقبال نے ہمیں قرآن کے عمل تقلیب کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ھبوطِ آدمؑ کے قصہ میں قرآن مجید نے قدیم علامات کو بعینہ برقرار رکھا ہے لیکن نفسِ مضمون میں بہت کچھ بدل دیا جس سے اس کے اندر ایک نئے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔
اقبال کے اس موقف کو تسلیم کرنے میں ہمیں تامل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ قرآن میں عادو ثمود کا ذکر ہو یا بنی اسرائیل کا، حضرت ابراہیمؑ و حضرت عیسیٰؑ کا ذکرہو یا فرعون و نمرود کا، حضرت خضرؑ و اصحاب کہفؑ کا ذکر ہو یا حضرت سلیمانؑ و ملکہ سبا کا، کہیں کوئی چیز بطور قصہ ترتیب سے کڑی در کڑی نہیں ملتی۔ مثلاً عہد نامہ عتیق میں بنی اسرائل کی تاریخ کے پس منظر میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات یوم میں زمین آسمان تخلیق کرنے کے بعد زمین کی مٹی سے انسان بناکر اس کے نتھنوں میں دم پھونکا اور اسے جیتی جان کیا۔ اس کی خوراک کے لیے ہر طرح کے درخت اگائے۔ باغ کے وسط میں شجر حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت اگایا اور ان کو سیراب کرنے کے لیے مختلف چشمے نکالے پھر انسان کو حکم دیا کہ وہ ہر درخت کا پھل کھاسکتا ہے سوائے نیک و بد کے درخت کے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو مختلف اشیا کے نام سکھائے۔ اس کے بعد اس پر گہری نیند طاری کرکے اس کی پسلیوں سے ایک پسلی نکال کر عورت تخلیق کی اور اسے آدمؑ کے سپرد کردیا۔
آدم اور اس کی بی بی جنت میں رہنے لگے۔ سانپ نے انھیں درمیان والے درخت کا پھل کھانے پہ اکسایا۔ دونوں نے پھل کھالیا اور دونوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ دونوں نے عریانی محسوس کی اور انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں۔ خداوند کو معلوم ہوا تو اس نے فرمایا:
چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ محنت کے ساتھ تو اپنی زندگی کے تمام ایام اس سے کھائے گا۔
پھر خداوند نے کہا کہ یہ نیک و بد کی پہچان میں میری مانند ہوگیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شجر حیات سے کچھ کھاکر ہمیشہ کے لیے جیتا رہے۔ اس لیے خداوند نے اس کو باغِ عدن سے باہر نکال دیا اور باغ عدن کے مشرق میں اس نے کارو بیم کو شعلہ زن اور برق فشاں تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے رکھا کہ شجر حیات کی راہ نگہبانی کرے۔
اقبال نے قادر مطلق پر ایمان کے ساتھ ساتھ شر کی توجیہہ کے حوالے سے قصہ آدمؑ و حواؑ کا ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ قدیم ادب میں ھبوطِ آدمؑ کے قصے کی کئی شکلیں ملتی ہیں جن کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں لیکن جہاں تک سامی شکل میں اس روایت کا تعلق ہے اس کا جائزہ لینے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی دور کی زندگی کے مصائب سے پریشان ہونے کی وجہ سے زندگی کے متعلق ایک ایسانظریہ اختیار کرلیا گیا جس پر یاس اور قنوطیت کا غلبہ تھا۔ اس کے بعد اقبال نے قدیم بابل کے کتبے کا ذکر کیا ہے۔ کتبے میں سانپ (جو آلہ تناسل کی تمثیل ہے) درخت اور عورت۔ مرد کو سیب نذر کررہی ہے۔ سب ہی موجود ہیں۔ یہاں یہ کہنا لاحاصل ہوگا کہ اس قصے کا اشارہ کس طرف ہے۔ مسرت اور سعادت کی ایک فرض کی گئی حالت سے انسان کے اخراج کی طرف مرد وزن کے سب سے پہلے جنسی فعل کی سزا میں۔ اقبال نے جس تصویر کا حوالہ دیا ہے اس کے مطابق وہ تصویر میں سیب کو عورت کی عصمت اور سانپ کو لنگم کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد قرآن نے قصے کو نئے معنی پہناکر پیش کیا ہے۔ اس قصہ کے حوالے سے قرآن اور بائبل کی تعلیمات کا موازنہ کیا ہے اور درج ذیل نکات واضح کیے ہیں:
1۔ جب ہم قرآن مجید کی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں حواؑ کا آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہونے اور سانپ کا ذکر حذف کردیا گیا ہے۔ مراد یہی ہے کہ اس قصے کو جنسی ماحول سے علیحدہ کردیا جائے اور ساتھ ہی اس یاس و ناامیدی کے نظریے کی نفی کی جائے جو روایتاً پہلے سے موجود تھا اور قرآن کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ قصے سے اس کی دلچسپی تاریخی پہلو سے نہیں جیسا کہ بائبل کا منشا رہا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ قرآن نے آدمؑ اور اس کی بیوی کے وجود میں لائے جانے کا ذکر بہشت میں کیا ہے، وہ یہ دنیا بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی انسان کے وجود کا ذکر ملتا ہے، اس کے لیے لفظ ’’بشر‘‘ یا ’’انسان‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ آدمؑ کا لفظ اگر استعمال ہوا ہے تو اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کہ انسان کے اندر نائب الہٰی بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ آدمؑ کا لفظ حذف کیے بغیر اس کا اشارہ کسی مخصوص انسان کی طرف نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک تصور یا خیال کی ہے جیسا کہ قرآن کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ.
(الاعراف، 7: 11)
’’ اور بے شک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورتگری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا) پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔‘‘
2۔ اقبال کا خیال ہے کہ قرآن آدمؑ و حواؑ کے قصے کو دو الگ الگ واقعات میں تقسیم کردیتا ہے ۔ ایک واقعہ محض الشجر سے متعلق ہے اور دوسرے کا تعلق حیات ابدی اور لازوال حکومت کے درخت سے ہے۔ان کے خیال میں پہلا واقعہ سورہ الاعراف میں اور دوسرا سورہ طہ میں ملتا ہے۔ قرآن مجید کی معلومات کے مطابق شیطان نے آدمؑ اور اس کی بیوی دونوں کو بہکایا اور انھوں نے مل کر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا لیکن عہد نامہ عتیق کے مطابق جیسے ہی آدمؑ نافرمانی کے جرم کا مرتکب ہوا اسے باغ عدن سے نکال دیا گیا اور شجر حیات تک انسانی رسائی نہ کرسکے، پہرے بٹھادیئے گئے۔
3۔ عہد نامہ عتیق کے مطابق دنیا میں آدمؑ کا نزول اس کی اسی نافرمانی کے نتیجے میں ہوا اور آدمؑ نے زمین کو موردِ الزام ٹھہرایا جبکہ اس کے برعکس قرآن حکیم کے نزدیک وہ انسان کے لیے رہنے کا مقام ہے۔آرام گاہ ہےا ور متاع ہے جس کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
وَلَقَدْ مَکَّنّٰـکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ.
(الاعراف، 7: 10)
’’اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لیے اسبابِ معیشت پیدا کیے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہو۔‘‘
وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ.
(الاعراف، 7: 11)
’’اور بے شک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورتگری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا) پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔‘‘
جس جنت میں آدمؑ و حواؑ کو پہلے رکھا گیا اس کے متعلق اقبال کا خیال ہے کہ وہ جنت نہیں جو نیکوں کے لیے مستقل قائم کی جائے گی بلکہ قصہ کی جنت سے اسی ارضی زندگی کا ایک دور مراد ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہبوطِ آدمؑ کا ذکر کیا ہے تو یہ بتانے کے لیے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر اس کا ظہور کیسے اور کس طرح ہوا؟ اس کے پیش نظر انسانی زندگی کا وہ ابتدائی دور ہے جس میں ابھی انسان بھی اپنی ماحول سے مانوس نہ ہوا تھا یعنی اسے نہ تو اپنی کمزوری کا احساس تھا اور نہ ہی محتاجی کا۔ اس نے اپنے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کوشش شروع کی اور تہذیب انسانی کی بنیاد رکھی۔ لہذا ہبوطِ آدمؑ سے مراد اخلاقی پستی نہیں بلکہ شعورِ ذات ہے، وہ رقمطراز ہیں:
’’مختصراً یہ کہ ہبوط کا اشارہ کسی اخلاقی پستی کی طرف نہیں اس کا اشارہ اس تبدیلی کی طرف ہے جو شعور کی صاف اور سادہ حالت میں شعور ذات کی پہلی جھلک سے اس نے اپنی ذات میں محسوس کی۔ وہ خواب فطرت سے بیدار ہوا اور سمجھا کہ اس کی حیثیت خود بھی اپنی جگہ پر ایک سبب کی ہے اور یوں بھی قرآن مجید میں یہ کہیں بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ کرہ ارض ایک دارالعذاب ہے جہاں انسان جس کا خمیر ہی برائی سے اٹھایا گیا ہے، کسی پہلے گناہ کی سزا میں زندگی بسر کررہا ہے۔ اس کے برعکس کہ اس کی پہلی نافرمانی ہی وہ پہلا اختیاری عمل تھا جو اس نے خود اپنے ارادے اور اپنی رضا سے کیا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق انسان کا پہلا گناہ معاف کردیا گیا۔‘‘
اقبال کے خیال میں خیر کا اطلاق جبر پر نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی خیر کے لیے اولین شرط ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ جب آزادی کے باعث انسان کے سامنے کئی راستے کھلے ہوں تو وہ جیسے خیر کو منتخب کرسکتا ہے بالکل اسی طرح شرکو بھی چن سکتا ہے۔مشیت ایزدی متقاضی تھی کہ اس قسم کے خطرے کو برداشت کرلیا جائے۔ اس لیے کہ اس کی مخفی قوتوں کی تربیت کچھ ایسے ہی ممکن تھی۔ پھر بھی خیر و شر اگرچہ ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر دونوں ایک ہی کل سے وابستہ ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج بھی۔
اقبال کے نزدیک انسان یا ذات کا تقاضا ہی خود کو قائم رکھنا ہے۔لہذا وہ علم، افزائش نسل اور طاقت کا طالب ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق آدمؑ کو اشیا کے نام جاننے کے سبب ملائکہ پر فضیلت دی گئی۔ اقبال نے آدمؑ کو شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے سے روکنے کا سبب مادام بلوتسکی کی تصنیف عقیدہ خفیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ یعنی قدیم اشاریت کے مطابق شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے سے آدمؑ ایک دوسری نوع کا علم یا علم خفی حاصل کرلیتا جس کی تحصیل مشقت کے بغیر مختصر راہ اختیار کرنے سے ممکن تھی۔ چنانچہ شیطان نے اسی وجہ سے اسے بہکایا اور وہ اس کے بہکاوے میں آگیا۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ وہ فطرتاً شر کی طرف مائل ہے بلکہ اس لیے کہ وہ عجول یا جاہل ہے۔ درحقیقت وہ علم کی منازل سرعت سے طے کرنے کا متمنی تھا۔ پس اسے درست راستہ پر ڈالنے کی یہ صورت تھی کہ اس کی نشوونما ایسے ماحول میں ہو جہاں مختلف قسم کی تکلیفوں اور اذیتوں کو برداشت کرنے کے باوجود اسے ذہنی قوتوں کے اظہار کا موقع میسر رہے اور یوں وہ اپنے تجربات میں اضافہ کرتا رہے۔چاہے تجربات کے اس سلسلہ میں اسے غلطی یا خطا جیسے ذہنی شر کے ان گنت مراحل سے گزرنا پڑے۔
اقبال قرآنی آیات جن میں شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی (القرآن، 20: 120۔122) کا ذکر ہے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انسان ایسی زندگی کا خواہشمند ہے جسے زوال نہ ہو اور ایسی حکومت کا طلبگار ہے جو کبھی ختم نہ ہو۔ وہ مرنا نہیں چاہتا اس لیے فنا سے نجات کے حصول کی خاطر جنسی عمل سے اپنی نسل میں اضافہ کرتا ہے اور اجتماعی لحاظ سے لافانیت پالیتا ہے۔ پیدائشی عمل کے جاری و ساری رہنے اور انسانوں کے پے درپے ظہور میں آنے سے فرد کی انفرادیت پختگی کے مراحل سے گزر کر شخصیت میں بدل گئی ہے۔ قرآن مجید میں (القرآن33: 72) میں جس امانت کا ذکر ملتا ہے، وہ یہی شخصیت، خودی یا اناکی امانت ہے، جس کا بوجھ انسان نے اپنے سر لے رکھا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ خودی یا شخصیت کی امانت انسان نے تمام خطرات و مصائب کے باوجود خود اٹھائی ہے۔خودی کے ارتقا کے مراحل میں سختیاں اور مصائب سہنا اس کے عمل کا حصہ ہیں۔ ہر مرحلے پر ناکامیوں اورمایوسیوں کا سامنا شاید اسے سخت جاں بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے۔غالباً اس لیے کہ اسے پختہ یقین ہوجائے کہ آخر کار فتح خیر ہی کی ہوگی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا مقصد پورا کرکے رہتا ہے مگر اکثر لوگوں کو علم نہیں۔ (القرآن، 12: 21)
علامہ اقبال کے آدمؑ و حواؑ کے قصہ کی تمثیلی و علامتی تعبیر اپنی جگہ بہت توجہ کے قابل ہے۔
قرآن میں حضرت آدمؑ و حضرت حواؑ کے قصے کا ذکر خصوصیت سے تین مقامات پر آیا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیات 20، 39 سورہ الاعراف کی آیات 11، 25، سورہ طہ کی آیات 114، 123 اگر فرشتوں کا آدمؑ کو سجدہ اور ابلیس کے انکار کو قصے کا جزو مانا جائے تو یہ ذکر قرآن میں کم و بیش آٹھ جگہوں پر آیا ہے۔ قیامِ جنت اور شجر ممنوعہ کے بارے میں سورہ البقرہ میں بغیر کسی نام یا صفت کے صرف ہذہ الشجر کہا گیا ہے جس کا پھل کھانے سے خدا کی نافرمانی ہوئی۔ شیطان نے کیا کہہ کر سبز باغ دکھائے اور اس کے کھانے سے آدمؑ و حواؑ پر کیا کیفیت گزری؟ اس کا ذکر سورہ البقرہ میں بالکل نہیں، البتہ سورہ الاعراف اور سورہ طہ میں ہے۔سورہ الاعراف میں شیطان نے آدمؑ و حواؑ کو یہ کہہ کر بہکایا کہ خدا نے اس وجہ سے اس درخت کے پاس آنے سے انہیں روکا ہے کہ کہیں وہ فرشتے نہ بن جائیں اور انہیں ہمیشگی کی زندگی نہ حاصل ہوجائے۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھی، ان کے سامنے کھول دے۔ سورہ طہ میں بیان اس طرح ہے:
’’ایسا نہ ہو کہ یہ (شیطان ) تمہیں جنت سے نکلوادے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے۔ لیکن شیطان نے اسے پھسلایا کہنے لگا آدمؑ بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے۔ آخر کار دونوں اس درخت کا پھل کھاگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی ان کے ستر ایک دوسرے کے آگے کھل گئے۔ اور دونوں جنت کے پتوں سے ستر ڈھانپنے لگے۔‘‘
قصے کی جنت سے پہلے کی چند اہم کڑیاں یہ ہیں: خدا کا فرشتوں کے سامنے انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا اعلان (میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں) آدمؑ کی تخلیق میں مادہ ارض کا استعمال پھر اسی میں خدا کا اپنی روح پھونکنا۔ فرشتوں کا خدا کے اس فیصلے پر استعجاب پھر اپنی کم علمی کا اعتراف، آدمؑ کو اللہ نے سب اشیا کے نام سکھائے، فرشتے ان کا نام بتلانے سے قاصر رہے۔ خدا نے علم کے معاملے میں آدمؑ اور فرشتوں کا مقابلہ کرایا اور آدمؑ کی فوقیت ثابت کی۔ پھر فرشتوں کو آدمؑ کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، جو آگ سے بنا تھا اس نے مٹی سے بنے آدمؑ کے سامنے جھکنے میں اپنی تحقیر سمجھی۔ خدانے اسے مقہور و مغضوب اور راندہ درگاہ کیا۔ ابلیس نے آدمؑ کو بہکانے کی خدا سے مہلت مانگی جو اسے دی گئی (خدا اور ابلیس کا مکالمہ قرآن میں بہ تکرار آیا ہے)۔ آدمؑ کی موانست کے لیے اسی سے اس کا جوڑا بنایا (پسلی کا کوئی ذکر نہیں) قرآن میں سانپ کا ذکر نہیں اور نہ ہی پہلے حواؑ اور اسکے ذریعے بہکنے کا ذکر، دونوں نے جو کچھ کیا ساتھ کیا۔ قرآن نے شجر ممنوعہ کو کوئی نام نہیں دیا۔ شیطان نے دو موقعوں پر لفظ کی تبدیلی کے ساتھ یہ کہا ہے کہ اس کے کھانے سے تمہیں حیات جاوداں اور سلطنت لازوال حاصل ہوگی اور اس کے کھانے سے دونوں کو شرم کا احساس ہوا اور وہ اپنے ستر ڈھانپنے لگے۔
اقبال کا خطبہ سوم میں یہ کہنا کہ قرآن کی رو سے آدمؑ نے دو الگ الگ درختوں کے دوبارہ پھل کھائے ایک شجر علم اور دوسرا شجر حیات جاوداں۔ قرآن اور بائبل کے متنوں کے سیاق و سباق میں ایک انوکھی بات ہے۔وہ پہلے واقعے کو سورہ الاعراف اور دوسرے کو سورہ طہ سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں ان دونوں جگہوں پر شیطان کی زبانی یہ کہا گیا کہ اس کا پھل کھا کر تم ہمیشگی کی زندگی اور سلطنت لازوال حاصل کرلو گے۔ اور دونوں ہی جگہ پھل کھانے سے ایک ہی اثر ظاہر ہوا یعنی شرمگاہوں کا ظاہر ہوجانا۔ سب سے پہلے سورہ البقرہ میں شجر کی صفت یا اس کا پھل کھانے کے اثرات کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے اقبال نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ظاہر ہے کہ دو یا تین یا متعدد بار قرآن میں اس واقعے کو الفاظ بدل کر بیان کرنے یا مختلف اوقات میں مختلف پہلوؤں کی طرف متوجہ کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ واقعات بھی متعدد ہیں۔ مثلاً حضرت یوسف، موسیٰ و عیسیٰ علیھم السلام سے متعلق بعض قصے کئی جگہ آئے ہیں اور ہر جگہ کسی خاص پہلو پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس کے باوجود قصہ ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ا قبال نے خود قرآن کے اس اسلوب پر زور دیا ہے کہ اس کی دلچسپی قصہ گوئی میں نہیں۔ دو درختوں کا خیال تو اقبال نے بائبل سے لیا۔اقبال نے قرآن کی تاویل اس طرح کی کہ آدمؑ دونوں درختوں کے پھل سے بہرہ مند ہوئے۔
پہلا درخت اقبال کے نزدیک شجرِ علم ہے۔ (محض علم، نیکی و بدی کا علم نہیں) یہاں اقبال کو دشواری یہ پیش آئی ہوگی کہ علم کی صفت سے تو اللہ نے آدمؑ کو پہلے ہی متصف کیا تھا، اس لیے اب اس کی کہاں گنجائش کہ علم حاصل کرنے کے لیے شیطان آدمؑ کو ورغلائے، اس کی اقبال نے ایک خاصی کامیاب تعبیر یہ کی کہ جنت کے شجر علم سے پراسرار علم مراد ہے، جسے خدا نے ممنوع کیا، کیونکہ آدمؑ کو خدا نے دوسری طرح کے آلات علم سے آراستہ کیا تھا یعنی تجربات یا استقرائی طریقہ کار جو موجودہ سائنس کی بنیاد ہے اور جس سے اقبال کا مرد مومن خلافت ارضی کے لیے تسخیر فطرت کا کام لیتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ایک خط میں اقبال نے یہ دلچسپ بات کہی تھی کہ شجر ممنوعہ سے غالباً تصوف ہی مراد ہے۔تصوف اقبال کے نزدیک شجر ممنوعہ اسی لیے رہا ہے کہ وہ کار خلافت ارضی ترک کرکے کشف و کرامت اور تجلی الہٰی اور اس کے دیدار اور اس میں فنا کی راہ پر انسان کو لے جاتی ہے۔ یعنی اس تصوف کا طریقہ ز مانہ قدیم کی پراسرارمشقتوں سے مشابہ ہے۔ دو متضاد طریقہ علم اور مقاصد علم کی بھرپور عکاسی ڈاکٹر فاسٹس کے قصے میں ہوتی ہے۔ فاسٹس کا قصہ جرمنی میں بکثرت رائج رہا۔ اس کے مطابق فاسٹس ایک متبحر عالم تھا اور وہ ریاض کے مشاغل میں منہمک رہتا تھا۔ شیطان نے اسے Occult Knowledge کے Black Art کے ذریعے کائنات پر تسلط و حکمرانی اور لذائذ سے متمتع ہونے کے لامتناہی امکان کی تحریص کے ذریعے گمراہ کیا۔ اقبال کو Faust سے خاصہ شغف تھا، ممکن ہے شجر علم کی تعبیر میں اس کی جھلک آئی ہو۔ اقبال کے نظام فکر میں تجربہ ومشاہدہ اور استقرائی طریقہ کار سے حاصل کردہ بتدریج وسعت پذیر علم جو مرد مومن کو تسخیر فطرت میں مدد دیتا ہے اس کی عکاسی شجر علم کی تاویل و تعبیر میں بھی ہوتی ہے۔ اقبال کے خیال میں شیطان بر بنائے عناد انسان کو اس علم سے محروم رکھنے کے لیے اس پر اسرار کشفی علم کے چکر میں پھنسانا چاہتا تھا۔
اقبال جسے دوسرا واقعہ Episode کہتے ہیں، اس کا ذکر سورہ طہ میں اس طرح ہے کہ جنت میں آدمؑ کو بھوکے اور ننگے ہونے کا احساس دھوپ و پیاس بالکل نہیں یعنی احتیاجات سے آزادی ہے، قرآن کا انداز بیان یہاں ایسا ہے کہ جیسے درخت کی یہ حالت بہتر ہے، جس سے شیطان آدمؑ کو نکلوانے کے درپے ہے۔ جبکہ اقبال کے نزدیک یہ حالت جنت انسان کی اس ابتدائی زندگی کی کیفیت ہے، جس میں وہ اپنے ماحول سے رشتہ مربوط نہیں کرسکا تھا۔ شجر ممنوعہ ثانی (شجر حیات) کا پھل کھاکر (یعنی جنسی فعل کے ذریعے) آدمؑ و حواؑ کی جنسی تفریق اور ذات کی انفرادیت و شخصیت کی ابتدا، بھوک پیاس اور ماحول کے شدائد سے پیدا شدہ احتیاجات کے نتائج ہیں۔ تہذیب انسانی کی بھی ابتدا ہوتی ہے۔ اسی لیے ان کے خیال میں آدمؑ کی پہلی نافرمانی اس کے آزاد ارادے کا پہلا استعمال بھی ہے۔ یہاں اقبال اس رومانیت کے ترجمان نظر آتے ہیں جس کے نزدیک انفرادی شخصیت کا ادعا اور آزاد ارادہ خواہ مشکل انحراف و بغاوت ہی کا باعث کیوں نہ ہو اپنے ہدف کے محمود ونامحمود ہونے کے علی الرغم مستحسن قرار پاتا ہے۔ اس میں اقبال انسانی خود کی خوابیدگی سے بیداری دیکھتے ہیں۔ فلسفہ وجودیت کے ماننے والے بھی آزاد انتخاب کے بغیر زندگی کو نامعتبر سمجھتے ہیں۔
جس ابتدائی جنت میں آدمؑ و حواؑ کو رکھا گیا تھا، اس کے بارے میں مفسرین کا ایک طبقہ اس کا قائل رہا ہے کہ وہ اسی دنیا میں واقع تھی نہ کہ آسمان میں، جہاں سے آدمؑ کا نزول ہوا۔ اسی طرح شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے آدمؑ و حواؑ کی شرمگاہوں کا ان پر کھل جانا اور انھیں شرم کا احساس، اس کا قرآن میں جس طرح ذکر آیا ہے اس کی تعبیر مختلف طریقوں سے ممکن ہے، اس انداز سے بھی جو اقبال نے اختیار کیا۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ آدمؑ و حواؑ کے قصے کو قرآن نے نئے انداز میں پیش کیا۔ مفسرین اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح و تعبیر کرتے رہے ہیں مثلاً سرسید احمد خان کو لیجیے انھوں نے ملائکہ، شیطان اور آدمؑ کے سلسلے میں قرٓنی آیات کی تفسیر تمثیلی انداز میں کی ہے اور قصہ آدمؑ کی ساری جزئیات و تفصیلات اسی تمثیلی پیرائے میں بیان کی ہیں۔ مثلاً آدمؑ کی بہشت کی زندگی سے مراد ارتقائے انسانیت کا وہ درجہ ہے، جب انسان غیر مکلف اور تمام قیود سے آزاد تھا۔ شجر ممنوعہ کا پھل کھاکر جنت سے نکلنے سے مراد عقل و شعور کا ابھرنا اور اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوکر زندگی کی جدوجہد شروع کرنا ہے۔
اقبال کا خیال ہے کہ قرآن آدمؑ و حواؑ کے قصے کو دو الگ الگ واقعات میں تقسیم کردیتا ہے ۔ ایک واقعہ محض الشجر سے متعلق ہے اور دوسرے کا تعلق حیات ابدی اور لازوال حکومت کے درخت سے ہے۔ان کے خیال میں پہلا واقعہ سورہ الاعراف میں اور دوسرا سورہ طہ میں ملتا ہے۔ قرآن مجید کی معلومات کے مطابق شیطان نے آدمؑ اور اس کی بیوی دونوں کو بہکایا اور انھوں نے مل کر شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا لیکن عہد نامہ عتیق کے مطابق جیسے ہی آدمؑ نافرمانی کے جرم کا مرتکب ہوا اسے باغ عدن سے نکال دیا گیا اور شجر حیات تک انسانی رسائی نہ کرسکے، پہرے بٹھادیئے گئے۔
اقبال بھی یقیناً استاد محترم میر حسن کی طرح سرسید کے تفسیری مضامین کا مطالعہ کرچکے تھے۔ چنانچہ ان کے ہاں بھی ایسی تمثیلی وضاحت ملتی ہے۔ اسی طرح سرسید کی پیروی میں انھوں نے نظم سرگزشتِ آدمؑ میں بھی شعور کی بیداری کا ذکر کیا ہے۔
لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنت میں
پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے
اقبال نے ہبوط آدمؑ کی تمثیلی توضیح کس سے متاثر ہوکر کی، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بقول محمد فرمان ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا:
’’اقبال نے جس طرح قرآن کی سورہ 7 اور سورہ20 کا تعلق قائم کرکے ہبوط آدمؑ کے مسئلے کو واضح کیا ہے وہ ان کے کمال قرآن فہمی کا ایک نادر نمونہ ہے۔۔ اقبال سے قبل کے مفکرین نے اس مسئلے پر اس حیثیت سے کم سوچا ہے اور ہمارے نزدیک اقبال کی اجتہادی اہمیت جن مسائل کی وجہ سے ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔‘‘