ڈاکٹر زیب النساء سرویا

برداشت فارسی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں اسے محمل کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی منفی رجحان کے نتیجے میں اپنے سخت ردعمل پر قابو پالینے کا نام برداشت ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو انسان میں طاقت اور قوت پیدا کرتی ہے، جس کے سبب وہ غصے، جوش، اشتعال اور انتقام کے جذبے کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے۔ برداشت اور تحمل ہم معنی ہیں۔

رواداری کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور انہیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں بلکہ ردعمل کے طور پر منفی رویے کے بجائے حسن سلوک روا رکھیں۔

برداشت اور رواداری کی صفت انسان کو دوسرے انسانوں کے ساتھ امن و آشتی سے رہنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ یہ معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ برداشت اور رواداری کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم کسی متنوع معاشرے کا حصہ ہوں، جہاں مختلف قوموں، مذہبی گروہوں اور ثقافتوں کے لوگ مل کر رہتے ہوں۔

برداشت اور رواداری کو انسانی معاشرے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اگرچہ تمام مذاہب اس کی تعلیم دیتے ہیں لیکن جس طرح دین اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے وہ قابل تحسین ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہوچکا تھا۔ حلم و رواداری اس معاشرے سے اٹھ چکی تھی۔ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ زمانہ جاہلیت میں قبائل معمولی باتوں پر آپس میں جھگڑنے لگتے اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا تھا۔ قبیلہ بکر اور تغلب آپس میں چالیس سال تک مسلسل باہم دست و گریبان رہے اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس معاشرے کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے:

چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگ میں بے باک جیسے

دوسری جگہ برداشت اور رواداری سے عاری اس قوم کی باہمی جنگوں اور قبیلوں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں:

کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تلوار ان میں

عرب کی تاریخ میں ’’داحس‘‘ اور غبرا نامی دو جنگوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ جنگیں کئی دہائیوں تک جاری رہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ بالآخر رحمت خداوندی جوش میں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت میں ڈوبی اس قوم کی بھلائی اور اصلاح کے لیے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ محسن انسانیت ہیں۔ آپ خاتم النبیین ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات نے لوگوں کی عادات، اخلاقی اقدار، آداب، معاشرت، طرز فکر اور نقطہ نظر کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے اہل عرب کی اتنی اچھی تربیت کی کہ انھوں نے حکم الہٰی کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا۔ معاشرے سے ظلم و ستم اور جورو جفا کا خاتمہ ہوگیا:

کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کردیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کردیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا

قرآن حکیم میں برداشت کرنے والوں کی کئی مقامات پر تعریف کی ہے:

’’ اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘

(آل عمران،3: 134)

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے قرآن حکیم کی تعلیمات کی عملی تصویر اور تفسیر پیش فرمائی۔

’’ فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔ ‘‘

(الاحزاب:21)

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور آپ کو صفت ’’حلم و بردباری‘‘ سے بھی نوازا۔ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر برسائے گئے، طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کیا گیا مگر آپ ﷺ نے ہمیشہ برداشت اور تحمل سے کام لیا۔

ان میں سے ایک واقعہ فتح مکہ کا بھی ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب پورا مکہ مکرمہ آپ ﷺ کے رحم وکرم پر تھا اور تمام قریش مکہ عاجز و مجبور تھے لیکن اس کے باوجود بھی حضور اکرم ﷺ نے شانِ رحمت اور شانِ حلم کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ کرامؓ پر سرزمین مکہ تنگ کرنے والوں، غلام صحابہ کرامؓ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے اور انھیں بے دردی سے شہید کرنےو الوں کو بھی یہ کہہ کر معاف فرمادیا کہ ’’جو ہتھیار ڈال دے اس کے لیے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اس کے لیے امان ہے جو مسجد میں داخل ہوائے اس کے لیے امان ہے اور جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لے بھی امان ہے۔ یہ واقعہ برداشت اور رواداری کے لیے بھی امان ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ:

’’حضور نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی سے ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ کسی نے احکام خداوندی کی نافرمانی کی ہو۔ ‘‘

(بخاری و مسلم)

نبی اکرم ﷺ کو مکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بار آزمائشوں، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ ﷺ نے ہر موقع پر نہ صرف خود صبر و تحمل، استقامت، عفو و درگزر اور برداشت و رواداری کا عظیم مظاہرہ کیا بلکہ صحابہ کرامؓ کو بھی صبرو تحمل کی تاکید و تلقین فرمائی۔ ’’واقعہ افک‘‘ میں آپ ﷺ اور آپ کے گھرانے کو ایک سخت آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑا۔ لیکن اس سخت ترین آزمائش کے موقع پر بھی آپ ﷺ نے کمال برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔

واقعہ افک ایک ایسا موقع تھا جہاں شاید صبرو تحمل کے پیکر کا دامن بھی صبرو استقامت سے لبریز ہوجاتا۔ (واقعہ افک سے مراد وہ واقعہ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دامنِ عفت و عزت کو داغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیاتِ مبارکہ نازل فرماکر آپ ؓ کی پاک دامنی اور عفت و پاکیزگی کو روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح کردیا۔

نبی اکرم ﷺ نے غصے پر قابو رکھنے اور برداشت کو اصل طاقت قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کشتی (پہلوانی) میں دوسروں کو پچھاڑ دیتا ہے بلکہ طاقت ور تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے موقع پر اپنے (نفس کے) اوپر قابو رکھتا ہے۔

(صحیح بخاری: 6114)

جو شخص انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود دوسروں کو معاف کردیتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔

(مشکوٰۃ المصابیح)

مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک تحریری معاہدہ 6 ہجری/ 628ء میں طے پایا تھا جس کے نتیجے میں رسول اکرم ﷺ نے صبرو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریش کی جانب دارانہ اور یک طرفہ مفادات پر مشتمل یہ معاہدہ منظور فرمالیا تھا لیکن بعد میں وقت نے ثابت کر دکھایا کہ صلح حدیبیہ کا فائدہ مسلمانوں کو ہوا۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے نگاہ نبوت سے دیکھ لیا تھا کہ کفار قریش اس معاہدے کی پاس داری نہیں کرسکیں گے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے صلح کی شرائط تحریر کرنے کی ذمہ داری حضرت علیؓ کو دی۔ حضرت علیؓ نے معاہدہ سے قبل ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا لیکن سہیل بن عمرو نے کہا کہ عرب دستور کے مطابق ’’باسمک اللہم‘‘ لکھا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو یہی لکھنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد یہ لکھا جانا تھا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ ﷺ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا اور جب ’’محمد رسول اللہ‘‘ لکھا گیا تو سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا کہ ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھا جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس شرط کو بھی منظور کرلیا۔

اس طرح یک طرفہ مفادات، مسلمانوں کے نکتہ نظر سے سخت شرائط اور قریش کی من مانیوں نے مسلمان کو شدید اضطراب سے دوچار کردیا لیکن مسلمانوں نے اس کڑے وقت میں بڑے صبروتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور اس معاہدہ کی پاس داری پر عمل درآمد کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو فتح کی خوش خبری دی۔ حضور اکرم ﷺ نے جب یہ خوشخبری اہل ایمان کو سنائی تو مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔

ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی۔ ہم نے یہ وطن توحید کی بنیاد پر حاصل کیا لیکن افسوس کہ توحیدکی تعلیمات سے روگردانی کی وجہ سے لوگوں میں عدم برداشت اور غیر رواداری میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ عدم برداشت کی کئی وجوہات ہیں، پہلی وجہ لوگوں نے اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول ﷺ میں بے انتہا غفلت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ دوسری وجہ والدین اولاد کی تربیت کرتے ہوئے عدم برداشت سے کام لیتے ہیں۔ تیسری وجہ لوگ اپنے فیصلوں، اپنے رویے کوہر کسی کے رویے سے بہترین سمجھتے ہیں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں۔ پانچویں اہم وجہ جو زیادہ لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ تنقید برائے تنقید اور بے جا تنقید ہے۔ پانچویں اہم وجہ غصے کو قابو میں نہ رکھنا ہے۔ یہ رویہ ہم انفرادی سطح سے لے کر ملکی سطح پر دیکھ سکتے ہیں۔ دو اہم وجوہات اور بھی ہیں جن کا ہمیں ملکی سطح پر سامنا ہے۔ یہ سنگین مسائل کی صورت اختیار کرچکی ہیں اور لوگوں کو عدم برداشت اور تصادم کی طرف لے جارہی ہیں، وہ ہیں: فرقہ واریت اور طبقاتی امتیاز۔

فرقہ واریت ہمارے ملک میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں جو ملی اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

1۔ ایک قسم وہ اختلاف اور تفرق ہے جو حسد و عناد اور قبائلی یا گروہی عصبیت پر مبنی ہو، اس کی بنیاد مذہبی عقیدے پر نہیں ہوتی۔

2۔ دوسری قسم اسلام کے بنیادی عقائد سے جان بوجھ کر انکار کرنا،اختلاف کرنا اور پھوٹ ڈالنا ہے۔ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ خودسری و سرکشی ہوتی ہے۔

3۔ تیسری قسم فروعی اور اجتہادی مسائل ہیں۔ جن کی بنا پر ایک دوسرے سے برات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی اور انتظامی خامیاں بھی فرقہ واریت کو مستحکم کرنے میں معاون ہیں۔ گذشتہ دودہائیوں سے فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہورہا ہے:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مختلف مسالک کے علما کرام کا اتحاد وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رکھیں امت مسلمہ اور امت اسلامیہ فرقوں اور گروہوں کے مصنوعی اور سطحی اتحاد کا نام نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں جسد واحد اور بنیان مرصوص کی طرح امت واحدہ ہیں:

’’ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ ‘‘

(آل عمران: 103)

حدیث نبوی ﷺ ہے: ’’اللہ تمھارے لیے یہی پسند کرتا ہے کہ حبل اللہ پر متحد ہوجاؤ اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ ‘‘

اس ضمن میں حکومت، تعلیمی اداروں، دینی مدارس اور علما کو دینی و سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر برداشت اور رواداری، باہمی احترام اور قانون کے بلاامتیاز نفاذ کے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

پاکستان اسلامی نظریاتی مملکت ہے۔ اسلام، قرآن اور عشق رسول ﷺ اس کی رگ و پے میں رچا بسا ہے۔ لہذا موجودہ نظام تعلیم کو تبدیل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

طبقاتی امتیاز بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ انسانیت کا مہلک روگ اور مرگ آفریں عارضہ ہے۔ اس عارضے نے انسانوں کو جوہری جنگوں سے دوچار کروایا۔ اسلام میں طبقاتی امتیاز منع ہے۔ ہمیں نسلی و طبقاتی امتیاز سے بھی خود کو دور رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے خاندانی اور قومی تفاخر کی بنا پر دوسرے لوگوں کو خود سے حقیر اور کم تر گردانتے ہیں۔ یہ رویہ بھی بسا اوقات جھگڑے اور تصادم کی فضا پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جس سے لوگوں کا سکون غارت اور وقت ضائع ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:

’’اور ہم نے تمھیں (مختلف) قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ ‘‘

(الحجرات:13)

اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے واضح کردیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ ان واضح تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو چاہیے کہ نسلی اور خاندانی تفاخر سے بالاتر ہوکر ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے دوسروں کی باتوں کو برداشت کریں اور ان کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اس رویے سے یقیناً معاشرے میں زندہ اور تابندہ روایات کو فروغ ملے گا۔

یاد رکھیں! عدم برداشت کی وجہ سے معاشرے میں جرائم پنپتے ہیں۔ صرف اس رویے کو تبدیل کرکے جرائم کی شرح میں غیر معمولی کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس وقت اشد ضرورت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر ابتدائی سطح پر برداشت اور رواداری، اچھائی اور برائی میں امتیاز اور بدعنوانی کے حوالے سے نصاب سازی کی جائے۔ علاوہ ازیں حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے قانون سازی کرنے اور اس پر عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔

بانی پاکستان نے 11 اگست 1947ء کو مجلس قانون ساز کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’ہم آج اس اصول کے ساتھ شروعات کررہے ہیں کہ ہم تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی ملک کے اور سب برابر کے شہری ہیں۔ اس اصول کو اپنائے بغیر ہم عدم برداشت اور شدت پسندی سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘

اس تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمیں مثبت رویوں کو فروغ دینے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

یاد رکھیے ہر سال 16 نومبر کو برداشت اور رواداری کا دن منانے کے ثمرات ہم منفی رویوں کو ختم کرکے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔