دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: رسول اللہ ﷺ کی ولادت کس تاریخ کو ہوئی؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے یا 12 کو دلائل کی روشنی میں جواب عنائیت فرمائیں۔

جواب:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارک 12 ربیع الاول کو ہوئی۔ یہی صحیح قول ہے۔ 12 ربیع الاول یوم میلاد ہے۔ ابن اسحاق نے اس کی تصریح کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں عفان بن سعید بن سینا حضرت جابر اور بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل (جس سال ابرہہ کے ہاتھیوں نے کعبہ پر چڑھائی کر کے اپنی تباہی کا سامان کیا تھا)، بروز پیر 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ اسی تاریخ اور دن کو بعثت ہوئی، اسی کو معراج آسمانی ہوئی، اسی تاریخ کو ہجرت اور اسی تاریخ کو وفات ہوئی اور جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے۔

(البداية والنهاية لابن کثير جلد 2 ص 260 طبع بيروت، سيرت ابن هشام جلد1 صفحه 158 طبع مصر)

سوال: قرآن مجید غلطی سے گر جانے پر کیا کفارہ ہے؟

قرآن مجید غلطی سے گرنے کا مالی کفارہ (جیسے ہدیہ وغیرہ دینا) تاوان کا کوئی ثبوت احادیث یا فقہ میں‌ ہے یا نہیں‌؟

جواب:قرآن مجید اگر غلطی سے گر جائے تو کوئی کفارہ نہیں ہے۔ بس اللہ تعالی سے معافی مانگیں۔ اگر کوئی چاہے تو حسب توفیق صدقہ کر دیں۔

سوال: کیا ننگے سر اور جوتے پہن کر قرآن پاک کی تلاوت کی جاسکتی ہے؟

آفس میں اگر کام نا ہو تو کرسی پر بیٹھے ہوئے کمپوٹر پر یا قرآن پاک کو ٹیبل پر رکھ کر تلاوت کی جا سکتی ہے جبکہ پاؤں میں جوتے بھی ہیں سر بھی ننگا ہے اور ہر آنے جانے والے سے سلام اور گفتگو بھی ہوتی ہے

جواب:یہ تمام باتیں خلاف ادب ہے۔ بحیثیت مسلمان اپنی عظیم الشان کتاب قرآن مجید جو کہ کلام اللہ ہے کی تعظیم و توقیر ہم پر ضروری ہے۔

قرآن مجید سے فیوضات اور برکات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تعظیم اور احترام کیا جائے۔ اس کا باقی کتابوں کی طرح نہ مطالعہ ہو اور نہ ننگا سر اور جوتوں سمیت تلاوت کیا جائے۔ شریعت میں کسی اور کتاب کو چھونے کے لیے وضو کا حکم نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی اور کتاب کے لیےجلد اور غلاف کا اہتمام کیا جاتا ہے لہذا یہ اللہ مجدہ کا کلام ہے اس کی تلاوت کے آداب ضرور ملحوظ خاطر ہوں۔

دوران تلاوت گفتگو کرنا یہ بھی آداب کے خلاف ہے اس لیے فالتو گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی عظیم کتاب پڑھنے اور اسکی توقیر کی توفیق عطا کرے۔

سوال: کیا ایصال ثواب کے لیے قرآن کریم قبرستان لے جا کر پڑھ سکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں! قبرستان میں قبر کے پاس بیٹھ کر مردے کو ایصال ثواب کے لیے تلاوت قرآن کر سکتے ہیں۔

سوال: مزارات پر پھول چڑھانے اور چراغاں کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:تمام مخلوقات اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہیں، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِن لاَّ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا۔

(بنی اسرائیل، 17: 44)

’’کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بے شک وہ بڑا بردبار بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اپنی زبان اور حال کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی پاکی بولتی ہے ہاں مگر ہر چیز کی تسبیح کو ہر ایک نہیں سمجھتا۔ اہل ایمان کی قبروں پر جو سبزہ گھاس وغیرہ ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتا ہے اور اس کا ثواب قبر والے کو پہنچتا ہے نیک ہے تو اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں گناہگار ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور عذاب میں تخفیف کا باعث ہے۔ قبروں اور مزارات پر لوگ پھول چڑھاتے ہیں اس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ سبزہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر و تہلیل کرے گا اور اہل قبور کو اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک ہرا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ فرمایا:

إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِیرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اﷲِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا.

(بخاری، الصحیح، 1: 458، رقم: 1295)

ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ سوکھ نہ جائیں‘‘۔

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

أن المعنی فيه أنه يسبح مادام رطبا فيحصل التخفيف ببرکة التسبيح وعلی هذا فيطرد في کل ما فيه رطوبة من الأشجار وغيرها وکذلک فيما فيه برکة کالذکر وتلاوة القرآن من باب الأولی.

’’مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنابریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جیسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولیٰ باعث برکت و تخفیف ہیں، وھو اولی ان ینتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے‘‘۔

(عسقلانی، فتح الباری، 1: 320، دار المعرفة بیروت)

دیو بندی عالم شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:

’’در مختار میں ہے قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔۔۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی ہے‘‘۔

(انور شاه کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری، 3 : 72، دار الکتب العلمیة بیروت، لبنان)

دیوبندی عالم شیخ رشید احمد گنگوھی کا مؤقف درج ذیل ہے:

ابن عابدین (شامی) نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے خشک جائز ہے جیسا کہ البحر و الدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سر سبز رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کیے اور جن دو قبروں کو عذاب ہو رہا تھا ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب تک یہ خشک نہ ہونگی ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں کمی رہے گی کیونکہ خشک کی تسبیح سے زیادہ کامل سرسبز کی تسبیح ہوتی ہے کہ ہری ٹہنی کی ایک خاص قسم کی زندگی ہے۔ اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سر سبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔

(رشيد أحمد گنگوهی، لامع الدراری علی جامع البخاری، 4 : 380، المکتبة الإمدادية، باب العمرة. مکة المکرمة)

ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور امام طحاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا ہے:

أفتی بعض الأئمة من متأخري أصحابنا بأن ما اعتيد من وضع الريحان والجريد سنة لهذا الحديث.

’’ہمارے متاخرین ائمہ احناف نے فتوی دیا کہ قبروں پر جو پھول اور ٹہنیاں رکھنے کا دستور ہے اس حدیث پاک کی رو سے سنت ہے‘‘۔

(ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، 2: 53، دار الکتب العلمیة لبنان، بیروت)

(طحاوی، حاشیة علی مراقي الفلاح، 1: 415، المطبة الکبری الامیریة ببولاق، مصر)

امام طحاوی مذکورہ عبارت کے ساتھ مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وإذا کان يرجی التخفيف عن الميت بتسبيح الجريدة فتلاوة القرآن أعظم برکة.

’’اورجب ٹہنیوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف کی امید ہے تو تلاوت قرآن کی برکت تو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے‘‘۔

(طحاوی، حاشیة علی مراقي الفلاح، 1: 415، المطبة الکبری الامیریة ببولاق، مصر)

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں:

وذهب المحققون من المفسرين وغير هم إلی أنه علی عمومه... استحب العلماء قرأة القرآن عند القبر لهذا الحديث لأنه إذا کان يرجی التخفيف يتسبيح الجريد فبتلاوة القرآن أولی.

’’محققین، مفسرین اور دیگر ائمہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث پاک عام ہے۔ ۔ ۔ علماء نے اس حدیث پاک کی روشنی میں قبر کے پاس تلاوت قرآن کو مستحب کہا ہے اس لیے کہ جب ٹہنی کی تسبیح سے تخفیف کی امید ہوسکتی ہے تو تلاوت قرآن سے بطریق اولیٰ امید کی جا سکتی ہے‘‘۔

(نووی، شرح صحیح مسلم، 3 : 202، دار اِحیاء التراث العربي بیروت)

ذیل میں زیرِ بحث مسئلہ سے متعلق فقہائے کرام کی آراء پیشِ خدمت ہیں:

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

وضع الورود و الرياحين علی القبور حسن وإن تصدق بقيمة الورد کان أحسن.

’’گلاب کے یا دوسرے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ اچھا ہے‘‘۔

(الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 5: 351، دار الفکر)

یہ حقیقت تو بےغبار ہوگئی اور حق بات روشن ہوگئی کہ مسلمانوں کی قبروں پر پھول رکھنا، پتے، ٹہنیاں اور گھاس اگانا، رکھنا مسنون ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور اس کی جو وجہ بتائی کہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ عمل عام ہے قیامت تک اس کو نسخ نہیں کیا جا سکتا، کوئی کلمہ گو اس کا انکار نہیں کر سکتا اور مزید کسی کی تائید کی ضرورت نہیں تاہم، ہم نے تبرعاً اکابر ائمہ اہل سنت کے اقوال پیش کر دئیے ہیں۔ اب بھی کوئی نہ سمجھے یا نہ سمجھنا چاہے تو اس کو اﷲ ہی سمجھائے۔ اہل ایمان کو اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کا یہ عمل سنت نبویﷺ ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام کہ دیا جو سراسر زیادتی اور احکام شرع کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔

مزارات صالحین کے پاس موم بتیاں جلانے اور چراغ روشن کرنے کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے رات کو وقت ملتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں قبرستان تک پہنچنے کے لیے اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔

علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشےۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں:

’’اچھی بدعت (نئی بات) جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہوتا کہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے لہٰذا جائز ہے اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔

(عبدالقادرالرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیه ابن عابدین، 2 : 123)

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

’’بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے فتاویٰ الحجۃ میں کہا قبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے۔

لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور تاکہ عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اگرچہ نئی چیز ہے‘‘۔

(ابن عابدین شامي، ردالمحتار، 6 : 363، دار الفکر بیروت)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کار خیر ہے اس سے لوگوں کو آرام اور صاحب قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔