شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء: فکر و تدبر کی دعوت (قسط نمبر6)

ڈاکٹر فرح ناز

غور و خوض اور تفکر و تدبراشرف المخلوقات کے لیے امرِ الٰہی ہے۔ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تدبر اور غور فکر کو بلند مقام حاصل ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں جا بجا اہل عقل و دانش کو خصوصی طور پر اپنی نشانیوں اور کائنات میں تدبر اورغور فکر کی دعوت دی ہے۔ اللہ رب العزت کی تخلیق کے مظاہر اور کائنات کی وسعت میں غور وفکر کرنے سے اللہ رب العزت کی معرفت اور دین اسلام کی حقانیت ثابت ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْکَ مُبٰـرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ.

(ص، 38: 29)

’’یہ کتاب برکت والی ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانش مند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس وسیع و عریض کائنات میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ زمین و آسمان حیوانات ونباتات اور جمادات، چاند، سورج، ستارے سب پر غور وفکر سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی ملتی ہے۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے خطابات کا آغاز سورہ ص کی مذکورہ آیت کریمہ سے کرکے کائنات کے عجائبات اور خود جسم انسانی میں تدبر و تفکر سے خالق کائنات کی عظمت و کبریائی کو ثابت کیا ہے۔ آپ نے بیان کیا کہ:

’’قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کو بار بار دعوت دی ہےکہ غور کرو، تدبر سے کام لو تحقیق سے کام لو علم سے تعلق جوڑو، جو کتاب اپنے ماننے والوں کو غور و فکر کی دعوت دے کیا وہ کتاب غلط ہو سکتی ہے؟ اسی لیے قرآن کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر کے اہل زبان مل کر اس جیسی کوئی ایک آیت یا سورۃ لے آؤ؟

نوجوان اپنا تعلق علم اور کتاب سے جوڑ یں علم میں پختگی کے لیے خوب محنت کریں اور مطالعہ کا شوق پیدا کریں۔ قرآن مجید پر غور وفکر کریں اور تحقیقی موازنہ کی طرف آئیں قرآن میں 856 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ نے علم کی ضرورت واہمیت پر زور دیا ہے، جب کہ ایک ہزار کے قریب آیات میں بالواسطہ یا بلا واسطہ سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں پونے دو ہزار آیات ایسی ہیں جن میں علم اور سائنس کی بات کی گئی ہے۔ ‘‘

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-12، یکم اپریل2024ء)

حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے اپنے دوسرے خطاب میں فرمایا:

’’خدا تک رسائی کا طریقہ ’’تحقیق‘‘ ہے اور تحقیق کے لیے انسان کو قرآن مجید میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے۔ ‘‘

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-13، 2 اپریل2024ء)

دنیا کی تمام تر ترقی انسانی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ تمام ٹیکنالوجی کسی نہ کسی تدبر ہی کا نتیجہ ہے۔ جب اس کائنات کے فطری مطالعہ میں سائنس دانوں نے غور و تدبر کیا تو اس کے نتیجے میں نئی سے نئی ایجاد کی راہ کھلی غور و فکر اور تدبر سے دل غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور دل کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ غورو فکر اور تدبر درحقیقت ایک عبادت ہے۔ جسے جدید دنیا کا انسان عبادت تصور نہیں کرتا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’تفکر‘‘ غور و فکر سے کیا مراد ہے؟

دراصل تفکر و تدبر عربی زبان کے الفاظ‌ ہیں جن کے لغوی معنیٰ سوچ، بچار اور غور و فکر کرنے کے ہیں۔ تفکر و تدبر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر توہمات اور خیالات کو جھٹک کر کسی ایک خیال، نکتہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ گویا علم و عقل کے ذریعہ دنیا، کائنات اور اطراف میں وقوع پذیر ہونے والے عوامل میں چھپے اسرار و رموز جاننے کی کوشش کرنا غور و فکر ہے۔

غور و فکر کی دعوت و ترغیب بذریعہ سوالات

سوالات کے ذریعہ مزید جستجو ایک مسلمہ امر ہے۔ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے شہر اعتکاف 2024ء کے دوران اپنے خطابات میں گاہے بگاہے اہم سوالات کے ذریعہ ذہنوں کے بند دریچوں کو کھولنے کی خوب سعی کی ہے۔ آپ نے درج ذیل سوالات کو اٹھا کر اور دلائل سے مزین جوابات دے کر کفرو الحاد کی پراگندگی سے ذہنوں کو بچایا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ’’میں ہر روز چند سوالات یا نوجوان نسل کے ذہنوں میں ابھرنے والے چند اشکالات ان کا تذکرہ تھوڑا تھوڑا کرتا رہوں گا‘‘۔

1۔ انہوں نے پہلی نشت کا آغاز یہ سوال قائم کر کے کیا کہ: ’’اگر خدا ہے تو اس کا پتہ کیا ہے اور وہ کہاں ہے؟‘‘

2۔ پھولوں کی خوشبو سے وجود باری تعالیٰ پر استدلال کرتے ہوئے انہوں نے یہ سوال اٹھایا: ’’کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب خوشبو کو میں دیکھتا نہیں ہوں تو کیوں مانوں؟‘‘

3۔ دورانِ خطاب حواس خمسہ کے کردار سے وجود باری تعالیٰ کے ثبوت پر آپ نے یہ سوال قائم کیا: انسان کی زبان 10 ہزار قسموں کے ذائقے میں فرق کر سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی ہے جس کو 10 ہزار ذائقے معلوم ہوں؟ یہ 10 ہزار ذائقے کہاں سے وجود میں آگئے؟

4۔ پھر ایمان بالغیب کے ضمن یہ اہم سوال اٹھایا: میں سائنس سے پوچھتا ہوں کہ کیا کسی سائنس دان نے آج تک ایٹم (Atom) کو دیکھا ہے؟

5۔ یہ بھی ایک سوال اٹھایا کہ سائنسدان الیکٹران، نیوٹران، پروٹان کو دیکھ نہیں سکتے مگر مانتے ہیں تو خدا کو کیوں نہیں مانتے؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-12 یکم اپریل2024ء)

6۔ مچھلیوں کو فرعون کی لاش نہ کھانے کاشعور اور حکم کس نے دیا ؟

7۔ اگر خدا نہ ہوتا، اللہ حق اور سچ نہ ہو تو پھر تاجدار کائنات ﷺ کو کس نے یہ علم دیا کہ جسم انسانی میں 360 ہڈیوں کے جوڑ ہیں؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-13 2اپریل2024ء)

8۔ 1400 سال قبل اس قرآن کو کس نے بتایا کہ پہاڑ زمین کے اوپر اور اندر بھی میخوں کی طرح گاڑے ہوئے ہیں؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-14 3اپریل2024ء)

9۔ بچے کی ماں کے پیٹ میں پروش کے مراحل سائنس کو کب معلوم ہوئے؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-15 4اپریل2024ء)

10۔ انسان کا جسم کتنے خلیوں سے مل کر بنا ہے؟ وہ کون ہے جو جسمانی نظام کو شعوردے کر نظم کے ساتھ چلا رہا ہے؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-16 5اپریل2024ء)

11۔ سائنس سے سوال ہے کہ انسانی اور آفاقی نظام کس طرح چل رہا ہے؟

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-17 6اپریل2024ء)

شیخ الاسلام مدظلہ کے اس طرح کے تمام سوالات نے اساتذہ، والدین اور نو جوان نسل کو شدت سے جھنجھوڑا ہے کہ کہیں ہم ذہنی اور دماغی سطح پر مکمل طور پر غفلت کا شکار تو نہیں ہیں؟ اور ان سوالات کو قائم کرنے کے بعد آپ نے ان کے مدلل جوابات بھی فراہم کئے ہیں۔

غور و فکر کی ترغیب کے لئے چند مزید اہم سوالات

شیخ الاسلام کے امسال (2024ء) خطابات کا ایک نمایاں پہلویہ ہے کہ انہوں نے سوالات کے ذریعہ غور و فکر کی ترغیب دی ہے ۔ سوچ بچار سے ہمارے اندر غورو فکر کی ترغیب اور شوق و ولولہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم خود سے اس طرح کے چند سوالات کریں توممکن ہے اس سے ہمارے اندر مزید غور و فکر کا داعیہ پیدا ہو۔ ہمیں چاہیے کہ خود سے سوال کریں کہ:

1۔ آخری مرتبہ کوئی بڑا سوال ہمارے ذہن میں کب پیدا ہوا؟

وہ سوال کیا تھا اور اس سوال کے ساتھ آپ نے کیا کیا؟ اور ایسا آپ کی زندگی میں کس قدر واقعہ ہوتا رہتا ہے؟

2۔ کیا آپ جذباتی ہو کر کوئی رد عمل اختیار کرتے ہیں؟آپ پریشان ہوتے ہیں یااس کے رد میں معقول روّیہ اختیار کرتے ہیں؟

3۔ جب بھی کوئی ایسا سوال جو آپ سے آپ کی زندگی سے متعلق کیا جائے آپ اس پر reactive ہوتے ہیں یا defensive؟ یا پھر اور زیادہ committed ہوتے ہیں؟

4۔ کیا آپ نے ان سوالات کی لسٹ بنائی ہےکہ جن پر غور کیے بغیر زندگی با معنی نہیں بنائی جاسکتی؟ یا زندگی کی معنویت نہیں پائی جاسکتی۔

5۔ کیا آپ کے نزدیک پر آسائش زندگی ہی کامیابی کی علامت ہے؟

6۔ آپ کے نزدیک با مقصد اور با معنی زندگی سے کیا مراد ہے؟

7۔ وہ کون سے اسباب ہیں جس نے آپ کی سوچ کو انقلاب آشنا کیا؟

8۔ وہ کونسے سوالات ہیں جن کے نتیجے میں آپ کے اندرتعلیم کی جستجو پیدا ہوئی؟

9۔ وہ کون سے سوالات تھے جو بچپن میں یا آپ کی سابقہ زندگی میں کبھی آپ کے ذہن میں پیدا ہوئے اور آپ کی تعلیم ان سوالات کے جوابات دینے کا موجب بن سکی؟۔

10۔ کیا ہم سورج، چاند پر پہنچ سکتے ہیں؟

11۔ میرے جسم میں میری سانسوں کی ترتیب کون کنٹرول کر رہا ہے؟

درج بالا تمام سوالات اگر آپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کر رہےہیں تو مبارک ہو کہ آپ صحت مند ہیں اگر ان تمام سوالات پر ہم ایک مہینہ اپنی توجہ مرکوز کریں تو لامحالہ ہمارے اندر غور و فکر کرنے کی صلاحیت بڑھے گی۔

غور و فکر کی اہم جہات

يوں تو غور و فکر اور تدبر کی کئی جہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ غور و فکر کی ترغیب کیسے دی جائے؟ فتنہ الحاد کے تناظر میں غور و فکر نہ کرنے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ وغیرہ، یہاں شیخ الاسلام کے خطابات کی روشنی میں درج ذیل صرف 3 اہم جہات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

1۔ انسان کا اپنی ذات پر تدبر

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کو احسنِ تقویم کہہ کر اسے باقی تمام مخلوقات میں اشرف و ممتاز قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام نے جدید سائنسی تحقیقات کےتناظر میں رحمِ مادر میں جنین کے تخلیقی مراحل کو اتنی تفصیل سے بیان کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کو پختہ کرنے اوربارگاہِ الٰہی میں جبینِ نیاز خم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

(خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-15، 4 اپریل2024ء)

انسان ایک بہت بڑی کائنات ہے

مخلوق پر غور و فکر خالق تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے تبھی تو اپنے نیکوکاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایا کہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں مجھے یاد کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق میں بھی غوروفکر کرتے رہتے ہیں۔ جس سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتا ہے اور بات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اِیقان تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ. الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیٰـمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.

(آل عمران، 3: 190)

بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اس کی معرفت سے لذت آشنا ہو کر پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔

تدبر وتفکر کو اگر عبادت قرار دیا جائے تو اس کے دو پہلو ہیں:

  • پہلا یہ کہ جس میں انسان اپنی ذات پہ غور کرتا ہے۔
  • اور دوسرا یہ کہ انسان معاشرے پر غور کرتا ہے۔

اپنی ذات پر غور کرنا، یہ سب سے بلند چیز ہے۔ اس سے گریز کرنے کے نتیجے میں انسان کے اندر اپنے بارے میں عدم واقفیت پیدا ہوتی ہے ۔ آج کا انسان جس چیز کے بارے میں سب سے کم جانتا ہے وہ اُس کی اپنی ذات ہے۔ دنیا بھر کے علوم و فنون پر عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے مگر اپنے نفس جس کے ساتھ اس کا ہر وقت کا واسطہ پڑتا ہے اس کے بارے میں سرے سے لاعلم ہے اورانسان اپنے وجود کے اسرار سے واقف ہی نہیں ہے۔

جدید پڑھے لکھے معاشروں میں غور و فکر اور تدبر کی اہمیت کا احساس نہیں۔ ہماری تعلیم ہمیں باہر کی دنیا کے بارے تو معلومات فراہم کرتی ہے مگر اپنے قلب کے بارے میں جاننے سے اُسےکوئی غرض نہیں۔

2۔ نظامِ کائنات اور مظاہر قدرت پر غور و فکر

اِس وسیع و عریض کائنات کی تخلیق و تشکیل، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کائنات میں اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید پائی جاتی ہیں۔ جس سے کائنات کی وسعت اور بے توقیری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس سے خالقِ کائنات کی حقیقی معرفت کا ادراک ہوتا ہے کہ اس ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کا ایک ماہرطبیعیات سائنس دان جان پولکنگھون (John Polkinghorne) نے جب غورو فکر کیا تو وہ نہ صرف یہ کہ خدا کے وجود کا قائل ہو گیا بلکہ مذہب کا مبلغ بن گیا ۔ وہ لکھتا ہے:

“That conspires to plant the idea that the universe did not just happen But that there must be a purpose behind it.” (John Polkinghorne()

’’اس پوری کائنات کے طبیعیاتی مطالعے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا کہ یہ کائنات کسی حادثے کے نتیجے میں ازخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کے پیچھے کوئی مقصد کار فرما ہے۔ ‘‘

3۔ قوموں کے عروج و زوال پر غورو فکر

فتنہ الحاد کے رد میں ایک اہم جہت قوموں کے عروج و زوال پر تدبر اور غور و فکرکرنا ہے۔ قرآن کریم میں جابجا اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر کافروں کو تنبیہ فرمائی کہ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اس سے پہلے نافرمان اور سرکش قوموں کا ہم نے کیا حال کیا؟ یہ عقل والوں کے لیے ہے کہ سمجھ سکیں۔ دنیا میں بڑے بڑے فرعون، نمرود، ہامان اور شداد آئے جنہوں نے خدائی دعوے کیے، جنت تیار کی، انسانوں کی زندگیوں اور موت کے مالک بن بیٹھے مگر خود ان کا انجام دنیا کے لیے نشانِ عبرت بن گیا اور بد عقیدہ لوگوں یا قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ کفر پر قائم رہنے والوں کا انجام وہی ہے جس کی قرآن کریم نے جگہ جگہ نشاندہی فرمائی ہے۔ فرعون کے بارے فرمایا:

فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ ج فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰـلِمِیْنَ.

(القصص، 28: 40)

’’سو ہم نے اس کو اور اس کی فوجوں کو (عذاب میں) پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا، تو آپ دیکھئے کہ ظالموں کا انجام کیسا (عبرت ناک) ہوا۔‘‘

غور و فکر نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟

غور و فکر کو غیر ضروری سمجھنا اور اس کی اہلیت نہ رکھنا یا اس کی دینی ضرورت ہی محسوس نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں:

1۔ مصروفیت اور فرصت میں عدم توازن

2۔ مرعوبیت(شہرت کی مرعوبیت، زبان کی مرعوبیت، دولت کی مرعوبیت)

3۔ لسانی استعداد کی کمی (Linguistic competency)

4۔ جاننا اور جذب کرنے کا عدم توازن

5۔ ہمارے تعلیمی عمل میں مکالمہ اور سوالات کے اظہار کی کمی

غور و فکر کے عمل کو بہتر کرنے کے لئے تجاویز

1۔ خود کو وقت دیجئے اور اپنی ذات پر غور و فکر سے اس سفر کا آغاز کیجئے۔

2۔ زندگی میں لا یعنی باتوں کو ختم کیجئے

3۔ اپنی زندگی کے تجربات اور مختلف مراحل لکھئے

4۔ زندگی کے حادثات اور زیادتیوں کے نتیجے میں آپ نے جو جو رد عمل کیےانکا جائزہ لیجئے۔ اپنے خیالات، محسوسات اور تاثرات کو ضبط تحریر میں لائیے۔

5۔ اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے ان پر غور کیجئے اور سوال اٹھائیے! کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اپنے سوالات کوریکارڈ کرناشروع کیجئے۔

غور و فکر نہ کرنے کے نتائج یا نقصانات

1۔ غور و فکر نہ کرنے کا ایک نقصان عہد حاضر میں الحاد اور جدید تہذیب کے اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر ہونا اور بیزاری دین کا رجحان پیدا ہونا ہے ۔ نتیجتاً انکار دین کا نظریہ فروغ پا رہا ہے۔

2۔ غورو فکر نہ کرنے کا نتیجہ فکری انتشار ہےجس سے اشکال اور ابہام پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارا تیقن کمزور پڑ جاتا ہے اور Confusion پیدا ہوتی ہے۔ ہم منکرین کی شان و شوکت سے متاثر اور مرعوب ہو کر ان کی طرف سے انکار دین کے argument کو دلیل کی بنیاد پر رد کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔

3۔ غورو فکر نہ کرنے کی وجہ سے انسان اپنے نفس کا تزکیہ اور اصلاح نہیں کرپاتا۔ اسی طرح اس کا علم حال نہیں بن پا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا معاشرہ ایسے لوگوں سے محروم ہے جن کو دیکھ لینے سے نصیحت ملتی تھی اور جنہیں دیکھ کر خیر منتقل ہوتی تھی۔

شیخ الاسلام کے ان خطابات میں معاشرے کے تمام طبقات کے لئے غور و فکر کی کئی جہات ہیں۔ بلا شبہ یہ خطابات فتنہ الحاد کے رد میں اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔