مرتبہ: نازیہ عبدالستار
جس طرح عمارتیں اینٹوں سے مل کر بنی ہیں اسی طرح ہمارا جسم بھی اینٹوں سے مل کر بنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمارت کی اینٹیں بڑی ہیں جو ہمیں آنکھوں سے نظر آتی ہیں جبکہ ہمارے جسم کی عمارت جس اینٹ سے بنی ہے اس کو سیل کہتے ہیں وہ اینٹ اتنی چھوٹی ہے کہ روئے زمین پر کوئی بھی انسانی آنکھ اس کو نہیں دیکھ سکتی۔ اس اینٹ کو دیکھنےکےلیے بڑی طاقتور مائیکرو سکوپ ایجاد کی گئی اس کے بعد الیکٹرون مائیکروسکوپ ایجاد ہوئی اگر ہم سیل کا تفصیلی مشاہدہ کرنا چاہیں تو اس کے لیے عام مائیکرو سکوپ کام نہیں کرے گی بلکہ اس کا مشاہدہ الیکٹرون مائیکروسکوپ سے کریں گے۔ اس خطاب میں ہم صرف ایک اینٹ کامطالعہ کریں گے اور اس میں اللہ کی نشانیاں دیکھیں گے۔ اس اینٹ کے اندر ایک قاعدہ دیکھنے کو ملتا ہے تو آج ہم اسی اینٹ (خلیے) سے پوچھیں گے کہ ہم خدا کو کیوں مانیں؟ مزید اسی سے پوچھیں گے کہ کُل کتنی اینٹیں ہیں جس سے ہمارے جسم کی عمارت تعمیر ہوتی ہے؟
انسانی جسم میں سیل کی تعداد:
ہمارا جسم سو کھرب سیلز سے بنا ہوا ہے مزیدسائنس ابھی تحقیق کی منزلیں طے کررہی ہے، 37 کھرب سیلز کا عدد بھی سائنس کی کتابوں میں ملتا ہے جب سو کھرب سیلز جمع ہوتےہیں تو اس کے مجموعے کا نام جسم ہے۔ اگر سوکھرب سیلز علیحدہ علیحدہ کر دیں گے تو یہ ایک جسم نہیں کہلائے گا بلکہ ایک سیل کہلائے گا۔ سیل اپنے اندر ایک کائنات رکھتاہے۔
علاوہ ازیں اس سیل میں کام کرنے کے لیے مالیکیولز بھی ہیں۔ ہر ایک سیل کا اپنا اپنا کام ہوتا ہے۔ درج بالا عدد سیل کے سائز کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ ایک سیل میں چار کروڑ 20 لاکھ مالیکیولز ہیں۔ یہ یونیورسٹی آف ٹورانٹو کی حالیہ تحقیق ہے۔ جن سو کھرب اینٹوں سے ہمارا جسم بنا ہوا ہے۔ دراصل وہ سیلز ہی ہے۔ اور وہ اینٹ سیل ہے۔ سر، ناک، آنکھ، ماتھا، دماغ، منہ، پیٹ ہمارا سارا کا سارا وجود سیل سے بنا ہے۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آج ہم خدا کو کیوں مانیں؟اس سوال کا جواب سیل خود دے گا کہ اللہ بہت بڑا انجینئر، ڈیزائنر ہے اس نے ایک نظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ سیل کو چلایا اور بنایا ہے۔ سیل کو رائی کا دانہ بھی نہیں کہہ سکتے دراصل سیل رائی کے دانے کا کروڑواں حصہ ہے اس طرح ایک سیل کے اندر ایک پوری کائنات ہے جیسے باہر کی دنیا کی کائنات ہے جس میں ستارے، سیارے اور کہکشاں ہیں الغرض جو کچھ سیل کے اندر ہے وہ پکار پکارکر کہہ رہی ہے کہ ہمارا کوئی خدا، خالق اور مدبر ہے۔
یہ سیل جو بہت چھوٹا خلیہ ہے اس کے اندر کروڑوں اربوں، کھربوں مخلوقات آباد ہیں۔ پوری روئے کائنات پر پونے آٹھ ارب انسان رہتے ہیں۔ 7.8 ارب آبادی کے مقابلہ میں ہزاروں، لاکھوں گنا زیادہ آبادی اس ایک سیل میں موجودہے۔ ہمارے سیل کے ایک ایک ذرے میں کھربوں شہر، بجلی گھر اور انڈسٹریز ہیں، اس سیل کے اندر کیمیکل پلانٹ،پاور پلانٹ ذرائع نقل و حمل،مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی و دفاع کا نظام الغرض اعلیٰ قسم کے انتظامات ہیں جو 24 گھنٹے ہمہ وقت فعل رہتے ہیں۔ ہمہ وقت سیل کے اندر رہنے والے اربوں افراد ہیں مزید اس کے جز ہیں جو اس کی ہر قسم کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔
انسانی جسم میں کہیں تیل کہیں معدنیات، کہیں تیزاب، کہیں گوشت، کہیں ہوا، کہیں آکسیجن، کہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ سر سے لے کر پاؤں تک یہ ضروری اشیاء جس پر زندگی کا انحصار ہے یہ سیلز مہیا کرتے ہیں۔
سیل کا سائز کیا ہے؟
سیل کا سائز آنکھ دیکھنے اوردماغ کے سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم یہاں صرف ایک آنکھ کے سیل کا مطالعہ کریں گے۔ آنکھ میں ایک بہت بڑی کائنات آباد ہے۔ آنکھ کی پچھلی سائیڈ پر ایک پردہ ہے جس کو رٹینا کہتے ہیں اس رٹینا میں راڈ کی شکل میں 12 کروڑ سیلز کے خاندان آباد ہیں اس طرح اس میں 60 لاکھ بون کی شکل کے خلیے آباد ہیں۔ یہ ایک آنکھ ہے اگر دونوں آنکھوں کو جمع کرلیں تو لگ بھگ 27 کروڑ سیل روڈ کی شکل میں ہیں۔ جیسے کیمرے کے پیچھے پردہ ہوتا ہے جہاں تصویر بنتی ہے۔ اس کو بلڈنگ بلاک کہتے ہیں۔
آنکھ کا کام یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا سیل جس میں مدھم اور ہلکی سی روشنی آتی ہے۔ یہ پیچیدہ قسم کا الیکٹرومکینیکل پروسس ہے۔ جس کے ذریعے گزار کر وہ تصویر کو پیغام میں تبدیل کرتا ہے۔ اور فوری طور پر آپٹیک نروز کو منتقل کرتا ہے آپٹیکل نرومناسب تعداد تک پیغام کو دماغ تک پہنچاتی ہے۔ اتنا پیغام پہنچاتی ہیں کہ دماغ اس سگنل کو دیکھ لیتا ہے دماغ یہ بتادیتا ہے کہ یہ گلاس ہے، ہنڈیا ہے، روٹی ہے، چائے ہے کہ بلڈنگ ہے، یہ تار ہے، یہ بندہ ہے، یہ بچہ ہے، یہ بوڑھا ہے جبکہ آنکھ کا کام پیغام دینا ہے۔ دماغ فیصلہ کرتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے اگر کسی نے آپ کو سوئی چبھوئی تو نروسیل اس کو ایک الیکٹرک سگنل میں تبدیل کرکے دماغ تک پہنچاتا ہے۔ روشنی کو معلوم کرنے والے مالیکیولز تقریباً 3 کروڑ ایک سیل میں ہوتے ہیں۔ بعض تحقیق میں 4 کروڑ 20 لاکھ بھی بیان ہوئے ہیں مگر مختلف سیلز کے 3 سائز کے اعتبار سے کئی جگہوں پر یہ عدد مختلف بھی ہوتا ہے۔
یہ لائٹ کیچنگ مالیکیولز ہوتے ہیں یہ تمام مالیکیولز اپنی توانائی کی ضرورت کو بھی خود پورا کرتے ہیں۔ زندگی کے لیے ہر عضو کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہےکیونکہ ہر سیل نے کروڑوں کام کرنے ہیں۔ اس کے اندر پوری کائنات آباد ہے۔ ان کو توانائی چاہیے لہذا ہر سیل کے اندر ہی بجلی گھر ہیں۔ رٹینا سیل میں ایک ہزار سے لے کر 250 ہزار تک پاور پلانٹس ہیں جو شب و روز کام کرتے ہیں۔ ان کو مائیکروکانڈریا کہا جاتا ہے۔ جس طرح بجلی گھر کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح کس ذات نے یہ 250 ہزار پاور پلانٹ اس رٹینا میں قائم کردیئے تاکہ حسب ضرورت توانائی پیدا کریں؟
نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مَن کے اندر اللہ کی محبت کی ایسی پیاس پیدا کریں کہ جب اُس ذاتِ حق کے ذکر اور یاد کا پانی پیو تو مَن کے اندر ٹھنڈک چلی جائے۔ نوجوانو! رب ذو الجلال کے تابع فرمان بن جاؤ۔ جو اُس کی اطاعت میں آجاتے ہیں، اُنہیں باری تعالیٰ اپنا عشق و محبت اور قُرب عطا فرماتا ہے
پورے جسم میں یہی کیفیت ہے ایک منظم نظام قائم ہے۔ درخت، گھاس، پھول، چڑیا، پرندے حتی کہ مچھر، مکھیاں بھی اسی سیل کے ساتھ بنتے ہیں۔
الغرض کائنات میں جو جو چیز زندہ ہے وہ سیل کے ساتھ بنی ہے۔ اگر 10 لاکھ سیل جمع کردیں تو اس کا سائز پن کی ایک نوک کے برابر بنتا ہے۔ اگر کاغذ پر ایک نکتہ لگائیں تو دس لاکھ سیلز اس نکتہ جتنی جگہ گھیریں گے۔ اللہ تعالی نے ہر سیل کو ایک کائنات بنایا ہے اس سیل کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں۔ جیسے جیسے ان کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں اُن کے مطابق ان کا سائز اور شکل بنائی گئی ہے۔ ان کی ذمہ داریوں کے مطابق ہی ان کے احوال قائم کیے گئے ہیں۔
خلیات کی اقسام
سیل کے کچھ نمونے درج ذیل ہیں:
نروسیل:
یہ خلیے پورے جسم سے پیغامات لے کر دماغ کو پہنچاتے ہیں اس کی شکل بھی اللہ رب العزت نے جاسوسی والے جال کی طرح بنائی ہے جیسے جاسوس ایجنسی ہر طرف جال پھیلاتی ہے۔ اگر کسی نے چھوٹی سی آہ بھی لی وہ بھی خبر ان تک پہنچ جاتی ہے۔ کان کیونکہ نروسیل کا ایسا حصہ ہے اگر کوئی کھانا کھائے تب بھی خبر ہوتی ہے کوئی گفتگو کرتا ہے تب بھی خبر ہوجاتی ہےیہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی سرگوشی کی بھی نروسیل کو خبر ہوجاتی ہے۔
آج کے نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میرے بیٹو اور بیٹیو! پڑھنے اور سمجھنے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ سب اپنے مذہب کی تعلیمات اور قرآن کا مطالعہ کیا کریں، اور اس میں غور و فکر اور تدبر کیا کریں۔ اللہ کے عاشقوں کے دل اللہ کے راز اور اَسرار و رُموز کے میدانوں کی سیر کرتے ہیں
سپرم سیل:
یہ کیڑے کی طرح ہوتا ہے جس نے چوہے کی طرح آگے بڑھنا ہوتاہےاس سیل کی شکل الگ بنائی ہے۔ عورت کا اووم ہے جس چیز نے اس سپرم سیل کو کیری کرنا ہے اس کی شکل الگ بنائی ہے۔ سرخ رنگ کا ریڈ بلڈ سیل ہے۔ وائٹ بلڈ سیل ہےان کا جو کام ہے اس کے مطابق اس کی شکل بنادی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ سارے ہی سیلز ہیں مگر ان کی شکلیں جدا جدا کیوں ہیں؟ ان کی مختلف شکلیں کس نے بنائیں ؟ ہم خدا کو کیوں مانیں اس پر میرا سوال ہے کہ ایک ہی سیل سے سب کچھ بنا یہ شکلیں کس نے جدا بنائی ہیں؟ اگریہ سمجھیں کہ انسان خود ہی خدا ہے اور یہ سوچ دی جارہی ہے کہ کائنات خود خدا ہے۔ کائنات نے خود سیل میں گھس کر شکلیں تو جدا نہیں بنائیں۔ اگر کہیں کہ انسان خود خدا ہے حالانکہ انسان کو یہ علم ہی نہیں کہ میں کتنے سیلز سے بنا ہوا ہوں اور اس کے کتنے کام ہیں یہ معلومات تو سائنس نے کتاب کے ذریعے دکھائی ہے کہ سیل کی اتنی بڑی ذمہ داریا ں ہیں۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: انتظار کرو ہم تمھیں تمھارے اندر اپنی نشانیاں دکھادیں گے اس سےپتہ چلا ہمیں سائنس و تحقیق کی آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
مزید یہ معلومات بھی جان لیں کہ انسان کو کام کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہےاس توانائی کے لیے خون میں شکر کو بطور ایندھن جلایا جاتا ہے۔
سیل میں توانائی کی پیداور
پورے جسم میں سیل کے اندر موجود بجلی گھر ایندھن سے چلتے ہیں اورشوگر ایندھن ہے ہم جو کچھ کھاتے اور پیتے ہیں اس میں شوگر ہوتی ہے۔ اب انسانی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ایندھن پڑا نہ رہ جائے جتنی ضرورت ہے وہ جل جائے۔ سیل کو جتنی توانائی کی ضرورت ہے وہ شوگر کو جلاکر توانائی پیدا کرے۔ اتنی زیادہ بھی نہ جلالے کہ شوگر کم ہوجائے۔ اور نہ اتنی کم جلائے کہ بلڈ میں شوگر بچ جائے کہ بندہ شوگر کا مریض ہوجائے۔ اگر بلڈ میں شوگر زیادہ بچ جائے گی تو اس کا لیول ہائی ہوجائے گا یہاں اللہ نے ایک چھوٹا سا عضو اور بنایا ہے وہ ہے پینکر یاز (لبلبہ) اس میں انسولین پیدا ہوتی ہے۔ وہ تمام ہارمون کو پیغام دیتی ہے کہ شوگر کا لیول زیادہ ہوگیا ہےجو انسان کے لیے خطرناک ہے لہذا اس کو زیادہ جلاؤ تاکہ شوگر کا لیول اپنی صحیح جگہ پر آجائے اور شوگر کا لیول کنٹرول ہوجائے۔
اگر شوگر کا لیول نیچے چلا جائے تو جگر میں شوگر کا لیول کسی اور چیز میں تبدیل ہوکر سٹور ہو کر پڑا ہوتا ہے۔ اگر شوگر کا لیول کم ہوجائے تو لیور اس کو دوبارہ شوگر میں تبدیل کرتا ہے۔ شوگر پھر بلڈ لیول کو اونچا کرتی ہے۔ اب میرا سوال ہے کہ لیور کو عقل و شعور کس نے دیا اور پینکریاز کو عقل و شعور کس نے دیا کہ شوگر کا لیول کم ہوگیا ہے اب اس کو مزید شوگر چاہیے یہ کون بتاتا ہے؟ یہ ذی شعور انسان نہیں ہیں ان کے پاس کمپیوٹر نہیں ہیں، ان کے پاس لیبارٹریز نہیں ہیں۔ ان کے پاس چیک کرنے کے لیے سائنسی آلات نہیں ہیں۔ یہ تو عضو چھوٹے چھوٹے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو پیغام کون دیتا ہے کہ شوگر زیادہ چاہیے رلیز کرو شوگر بڑھ گئی ہے زیادہ جلانا ہےکنزیوم کرو، لبلبہ پیغام دے رہا۔ اس طرح جتنی توانائی کی ضرورت پڑتی ہے اتنا ایندھن میسر ہوتا ہے پاور ہاؤس میں اتنی پاور پیدا ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے دل کی دھڑکن بھی چلتی ہے۔ ہمارا دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے۔ وہ غذائی ضروریات کو بلڈ میں بھیجتا ہے ریڈ بلڈ سیلز ان کو لے کر جاتے ہیں اور پورے جسم کے ایک ایک سیل اورٹشو کو پہنچاکر آتے ہیں۔
آخر اِس سارے عمل کو اتنے نظم سے انجام دینے کا شعور کس نے دیا ہے؟ ان کی ابتداء تو ماں کا چھوٹا سا اووم تھا یا باپ کا چھوٹا سا سپرم تھا جس سے زائیگوٹ بنا تھا اس نفس واحد سے پوری کائناتیں بنی تھیں۔ ہر ایک سیل کے اندر ایک کائنات چل رہی ہے۔ ہر ایک عضو اپنے فرائض انجام دے رہا ہے، ان کو کون شعور دے رہا ہے؟ ان کے پاس تو کو ئی پارلیمنٹ، عدالتیں اور ججز نہیں ہیں۔ ان کے پاس ایگزیکٹو اور بیوروکریٹس نہیں جو آڈرز دیں بلکہ وہ ہمارے اندر ہیں جو اعلیٰ اندرونی کائنات کا نظام چلارہے ہیں وہ نظام اس طرح چلا تے ہیں کہ دل کی دھڑکن بھی اسی توانائی سے چلتی ہے، سانس بھی جاری رہتا ہے۔ سانس لینے کے لیے سینہ سکڑتا اور پھیلتا ہے، پلکیں جھپکتی ہیں اس کے لیے بھی توانائی درکار ہے۔ ہر حرکت و عمل کے لیے جتنی توانائی درکار ہے وہ ملتی رہتی ہیں۔
انسانی جسم کو بے حساب توانائی درکار ہے مگر اس میں کبھی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی، جب کہ جو دنیا انسان چلارہے ہیں، اس میں تو ہر وقت لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ یہ کون سی دنیا ہے جس میں لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہوتی اور ہر مہینے بل بھی نہیں آتے یہ ایک خود کار نظام ہے تو خود کار نظام خود بالکل حادثاتی طور پر تو نہیں چل پڑا۔ کس نے اس خوبصورت اور منظم نظام کو بنایا ہے؟ کس نے ہمارے جسم کے اندر اس نظام کو نافذ کیا ہے؟ اور کون یہ نظام چلارہا ہے؟ وہی خدا ہے اور صرف خدا ہے۔ یہ پاور پلانٹ تمام خلیوں میں ہے کیونکہ ہر سیل کو توانائی کی ضرورت ہے۔ سوائے خون کے اندر ریڈ بلڈ سیلز کے کیونکہ ان میں پاور پلانٹ نہیں ہوتے کیونکہ ان کاکام ویسا نہیں جیسے باقی خلیات کے فنکشنز ہوتے ہیں، سرخ خلیے کسی چیز کو بناتے نہیں ہیں جبکہ باقی سیلز کا کام چیزوں کو بنانا ہے اور چلانا ہے۔ سرخ خلیوں کا کام محو سفر رہنا ہے سرخ خلیے کیریئر ہیں اچھی چیزیں اندر لے جاتے ہیں اور بری چیزیں باہر لے آتے ہیں کیونکہ انھوں نے چیزوں کو بنانا نہیں اس لیے خون کے اندر جو سرخ خلیے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ نے پاور پلانٹ نہیں رکھے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے اور جسم میں موجود تمام سیلز کو خون مہیا کرتا ہے۔ انسان کے اندر موجود تمام خودکار نظام خود سے نہیں بنے، بلکہ انہیں کسی نے بنایا ہے اور انہیں ان کے معاملات کا شعور دیا ہے... وہی خدا ہے!۔ خون کے سرخ خلیات (red blood cells) ہر 90 سیکنڈز میں 75 ہزار میل کا سفر کرتے ہیں... سوال یہ ہے کہ انہیں کون گائیڈ کرتا کہ انہوں نے کب، کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ کوئی تو ان کا تخلیق کار اور ان کا صورت گر ہوگا؟... وہی خدا ہے!
خلیوں میں پاور کی یہ تفریق کس نے کی ہے؟ جسم میں سپلائی اور ٹرانسپورٹ کا نظام ہے جس چیز کی جہاں سپلائی درکار ہے خون کے اندر سیل کی شکل میں ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہے۔ ٹرانسپورٹنگ ہورہی ہے اور ٹرانسپورٹنگ کی رفتار بھی خالق کی انجینئرنگ کی ایک الگ خاصیت ہے۔
خون کی گردش کی رفتار
خون کے سرخ خلیے ڈیڑھ منٹ کے اندر یعنی 90 سیکنڈ میں 75 ہزار میل کا سفر طے کرتے ہیں جو راؤڈ دی ٹریپ جسم کے اندر جانا اور آنا سفر کرتے چلے جارہے ہیں یہ خلیے کبھی راستہ نہیں بھولتے۔ ٹریفک میں سگنل کروس نہیں کرتے۔ غلط روڈ پر نہیں جاتے۔ کسی اور محلے میں نہیں چلے جاتے ان کو کس نے یہ پتہ بتایا ہے کہ یہاں پہنچنا ہے یہ یہ چیزیں ساتھ لے جاتی ہیں اور اتارنی ہیں فلاں چیز واپس لے آنی ہے۔ کس راستے سے جانا ہے اور کس راستے سے واپس آنا ہے کیا یہ اتفاقیہ ہورہا ہے؟ اور ان کا کوئی خالق نہیں، کوئی پلانر، ڈیزائنر اور بتانےو الا نہیں؟ کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں تو پھر سب کچھ خود بخود کیسے ہوگیا؟ جسم کو اشیاء و ضروریات مہیا کرنے والے یہ سیلز دنیا کی کل آبادی سے کم از کم 20 ہزار گنازیادہ ہیں۔ ہر سیل کے اندر قدرت نے بہت بڑا معجزہ رکھا ہےاب سوچئے کہ انسانی جسم میں یہ نظام کس نے بنایا ہے؟ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کیا یہ کوئی حادثاتی عمل ہوسکتا ہے؟ علاوہ جسم کے اندر جو معجزہ رکھا ہے اس کا نام DNA ہے۔
اہم نکات
"خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟ کے موضوع پر پانچویں نشست سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ:
- نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مَن کے اندر اللہ کی محبت کی ایسی پیاس پیدا کریں کہ جب اُس ذاتِ حق کے ذکر اور یاد کا پانی پیو تو مَن کے اندر ٹھنڈک چلی جائے۔ نوجوانو! رب ذو الجلال کے تابع فرمان بن جاؤ۔ جو اُس کی اطاعت میں آجاتے ہیں، اُنہیں باری تعالیٰ اپنا عشق و محبت اور قُرب عطا فرماتا ہے۔ آج کے نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میرے بیٹو اور بیٹیو! پڑھنے اور سمجھنے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ سب اپنے مذہب کی تعلیمات اور قرآن کا مطالعہ کیا کریں، اور اس میں غور و فکر اور تدبر کیا کریں۔ اللہ کے عاشقوں کے دل اللہ کے راز اور اَسرار و رُموز کے میدانوں کی سیر کرتے ہیں۔
- انہوں نے کہا کہ انسان کا جسم 100 کھرب خلیوں (cells) کے ساتھ تشکیل پاتا ہے اور ہر سیل اپنے اندر ایک کائنات ہے۔ ایک سیل کے اندر 100 ارب atoms اور 4 کروڑ 20 لاکھ مالیکیولز ہوتے ہیں۔ ان سیلز پر تحقیق سے معلوم ہوگا کہ کوئی ذات ہے جس نے انہیں ڈیزائن کیا، بنایا اور پھر ترتیب سے ان کی جگہوں پر لگایا ہے۔ ... وہی خدا ہے۔ کائنات میں تمام اشیاء خلیات (cells) سے مل کر بنی ہیں۔ ایک خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ 10 لاکھ خلیات (cells) جمع کیے جائیں تو ان کا سائز ایسے بنتا ہے جیسے بال پوائنٹ کی نوک ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے ہر خلیہ (cell) کے اندر ایک کائنات آباد ہے۔ خدا نے اس سیل کی ضرورت کی تمام اشیاء اس کے اندر پیدا کی ہیں۔ جیسا کہ آنکھ کے retina کے خلیات میں ایک ہزار سے اڑھائی ہزار تک پاور پلانٹس ہوتے ہیں اور وہ پاور پلانٹس جسم میں موجود شوگر سے چلتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنکھ کے ایک سیل سے پورا انسان تشکیل پاسکتا ہے۔ ہمیں علم، تحقیق اور سائنس کی آنکھ کھول کر ان آفاقی حقیقتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں خدا کے وجود کا پتہ ملے گا-
- انہوں نے کہا کہ انسانی دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے اور جسم میں موجود تمام سیلز کو خون مہیا کرتا ہے۔ انسان کے اندر موجود تمام خودکار نظام خود سے نہیں بنے، بلکہ انہیں کسی نے بنایا ہے اور انہیں ان کے معاملات کا شعور دیا ہے... وہی خدا ہے!۔ خون کے سرخ خلیات (red blood cells) ہر 90 سیکنڈز میں 75 ہزار میل کا سفر کرتے ہیں... سوال یہ ہے کہ انہیں کون گائیڈ کرتا کہ انہوں نے کب، کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ کوئی تو ان کا تخلیق کار اور ان کا صورت گر ہوگا؟... وہی خدا ہے!