موسمیاتی تبدیلی ایک بہت گھمبیر اور تحقیق طلب معاملہ ہے جو دنیا بھر میں اپنا نقصان دہ اثر چھوڑ رہا ہے۔ موجودہ دور میں بنی نوع انسان اپنی بقا کے حوالے سے مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر پیش آنے والے سب سے اہم مسئلے یعنی موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دراصل آب و ہوا کے قدرتی نظام میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے۔ قدرتی وسائل مثلاً پانی، خوراک، لکڑی، اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کے ضیاع جیسے مسائل اس مسئلے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا معاملہ بنیادی طور پر عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے منسلک ہے، جس کی چند بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات کے رقبے میں نمایاں کمی ہونا سرفہرست ہیں۔
عمومی طور پر موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے لیے گلوبل وارمنگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے‘ اس وجہ سے عام لوگوں کے خیال میں اس سے مراد گرمی کی شدت میں اضافہ ہے، حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب شدید اور دیر پا سردی یا گرم اور متعدل مہینوں میں سخت سردی بھی ہو سکتی ہے۔ عام آدمی کی زندگی پر شاید اس کے اثرات فوری نمایاں نہ ہوں مگر فصلوں اور زراعت پر ایسے موسموں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے بھرپور وسائل کی وجہ سے کسی حد تک موسمیاتی تبدیلی کے برے اثرات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن مالی مشکلات، تحقیقی و سائنسی سہولتوں کے فقدان اور تربیت یافتہ عملے کی کمی کے باعث ترقی پذیر اقوام موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنے سے عمومی طور پر قاصر نظر آتی ہیں۔
دنیا کو اس وقت جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔ جو اس وقت بہت تیزی سے دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی زمین کی ماحولیاتی حالات میں تبدیلی کا نام ہے۔ جو کہ اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے دور میں یہ دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ، خشک سالی، گلیشیرز کے پگھلاؤ، سطح سمندر میں اضافے، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافے جیسے نمایاں اثرات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں جہاں ناپائیدار ترقی‘ سماجی تفریق اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی میں اضافے کا موجب ہوسکتی ہیں وہاں ان کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، بے ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات میں اضافہ جیسے مسائل بھی دیکھے گئے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات
موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ کوئلہ، گیس، تیل کا استعمال ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال جب سے شروع ہوا ہے تب سے دنیا تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہوئی ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اسکے علاوہ دن بدن زمین پر درختوں کا کٹاؤ جس سے گرین ہاؤس گیسز کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ پانی کا بے تحاشا استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں مثلاً ماحول کو آلودہ کرنے والی گیس اور آلودہ پانی جو کہ آلودگی کا سبب بھی ہے۔ ان میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔ اسی طرح ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو سورج کی توانائی کو پھنساتی ہیں۔ ماحول دشمن انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
چونکہ دنیا بھر میں ماحول ایک منسلک فریم ورک ہے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہر جگہ محسوس کیے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات میں موسمیاتی تبدیلی کے انسانی صحت پر اثرات، غذائی اجناس کی کی پیداوار میں کمی، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، وبائی امراض کا پھیلاؤ، سیلاب، گرمی سردی کی شدت میں اضافہ ہونا، موسم کے دورانیوں کا طویل ہونا اور تغیر نما ہوتے جانا۔ برف کا پگھلنا، خشک سالی، وغیرہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب، اثرات اور ان سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے مختلف سطحوں پر مربوط کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں اس موضوع پر اب تک ہونے والا کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات میں اس سلسلے میں تحقیقی مراکز اور جدید تجربہ گاہیں قائم کی جائیں اور ماہر افرادی قوت پیدا کی جائے۔ تحقیق کے چند اہم توجہ طلب نکات میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار مقامی انسانی و قدرتی عوامل کو جانچنا، فضائی آلودگی کی اہم وجوہات جاننا اور اس کی نقل وحرکت کا بروقت پتا لگانا، موسمیاتی تبدیلی کے انسانی صحت، مزاج اور رہن سہن پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا مشاہدہ کرنا، بیماریوں کے پھیلاؤ، زراعت اور اجناس کی پیداوار، زمین اور پانی کے حساس ماحولیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لینا اور ان اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ان کے حل تلاش کرنا اور ان کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنا شامل ہو سکتے ہیں۔
انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں چاہیے کہ اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات کو محدود رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں اور ضرورت کے تحت ان چیزیں کو اپنے استعمال میں لائیں۔ پلاسٹک کے لفافوں اور اس سے بنی دوسری اشیا کے استعمال کو کم سے کم کرتے جائیں، پانی کو ضائع ہونے سے روکیں اور اگر ممکن ہو تو استعمال شدہ صاف پانی کو ''ری سائیکل‘‘ کریں، قریبی جگہوں پر جانے کے لیے اپنی ٹانگوں یا سائیکل کا استعمال کریں، گھروں میں سولر انرجی سسٹم لگائیں اور بجلی کے استعمال کو کم سے کم سطح پر رکھیں۔ گندگی نہ پھیلائیں، گاڑی، کپڑے اور گھر وغیرہ دھوتے، وضو اور غسل کرتے وقت پانی کا ضیاع نہ ہونے دیں اور ناقابلِ تلف چیزوں کے استعمال سے پرہیز کریں
حکومتی سطح پر ماحولیات دوست اقدامات میں ماحولیاتی قوانین پر عمل کرانا، صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنا، جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا اور نئے جنگلات اگانا، شہری علاقوں میں کوڑا کرکٹ کا بہتر نظام بنانا، فضلہ جات ٹھکانے لگانے والی جگہوں کا مناسب انتخاب کرنا، گرین انرجی کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنا، نئے شہروں کو بسانا اور اس حوالے سے عوامی سطح پر احساس ذمہ داری جگانا اور تربیتی پروگرامز منعقد کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے ایک وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی قائم کی گئی جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد وزارت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں موجودہ حکومت کی ترجیحات میں اہم مقام رکھتی ہیں اور اس حوالے سے بلین ٹری سونامی، ٹین بلین ٹری، گرین کلین پنجاب، ای گورننس، گرین انرجی، الیکٹرانک وہیکلز، گرین ہاؤس اور زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی، بھٹوں میں زگ زیگ ٹیکنالوجی جیسے کئی منصوبوں پر کام بھی کیا گیا ہے۔ یہ حکومتی منصوبے یقینا بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آف پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آنے والی آفات اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے دن رات کوشاں ہے‘ اور اس کے قیام اور کاوشوں کے سبب جانی نقصان میں کمی بھی آئی ہے جبکہ قیمتی املاک کو بچانے میں مدد بھی مل رہی ہے۔ عوام میں اس بارے آگاہی مہم کے ذریعے شعور بیدار کرنے میں بھی یہ اتھارٹی خاصی فعال رہی ہے۔
انفرادی و اجتماعی طور پر ہمیں چاہیے کہ اپنی بڑھتی ہوئی خواہشات کو محدود رکھیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں اور ضرورت کے تحت ان چیزیں کو اپنے استعمال میں لائیں۔ پلاسٹک کے لفافوں اور اس سے بنی دوسری اشیا کے استعمال کو کم سے کم کرتے جائیں، پانی کو ضائع ہونے سے روکیں اور اگر ممکن ہو تو استعمال شدہ صاف پانی کو ''ری سائیکل‘‘ کریں، قریبی جگہوں پر جانے کے لیے اپنی ٹانگوں یا سائیکل کا استعمال کریں، گھروں میں سولر انرجی سسٹم لگائیں اور بجلی کے استعمال کو کم سے کم سطح پر رکھیں۔ گندگی نہ پھیلائیں، گاڑی، کپڑے اور گھر وغیرہ دھوتے، وضو اور غسل کرتے وقت پانی کا ضیاع نہ ہونے دیں اور ناقابلِ تلف چیزوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔
پاکستان اور انڈیا میں شدید گرمی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور شمال مغربی انڈیا میں موسموں کی شدت کے نئے ریکارڈ قائم ہونے کے امکانات 100 گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔ اب اس خطے کو ہر تین برسوں بعد 2010 کے شدید ترین گرم موسم سے زیادہ گرم موسموں کی توقع کرنی چاہیے۔ برطانوی میٹ آفس کے مطابق پاکستان اور شمال مغربی انڈیا کو ہر تین سال بعد ایسے شدید گرم موسم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے بغیر 312 سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔ موسمیاتی پیشین گوئی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں شمال مغربی انڈیا میں درجہ حرارت نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔
اِن نتائج کو مد ِنظر رکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ اپنے اِردگرد زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائیں۔ گاڑیوں کا استعمال مہذب طریقے سے کریں۔ حکومت کو دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ عوام کو کم سفر کے لئے ذاتی گاڑیاں کم سے کم استعمال کرتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ کو یا پھر پیدل چلنے کو ترجیح دینی چاہیے جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوتا ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں کے مالکان کو بھی اپنے زہریلے کیمیکل کو فضا میں چھوڑنے کی بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ فیکٹریوں کو آبادی سے دور شفٹ کرنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح بھٹہ مالکان کو بھی اپنے بھٹے جدید طریقوں سے نصب کرنے چاہئیں تاکہ غریب عوام اُن کے ذاتی مفاد کی زد میں نہ آئیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دن بدن سنگین صورتِ حال اختیار کررہا ہے۔ اس تبدیلی سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ستمبر 2019ء اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ زیر بحث رہا ہے، لہٰذا حکومت ِوقت کو بھی اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے ایمرجنسی نافذ کرنا ہو گی۔ عوام میں اس مسئلے کا شعور اجاگر کرنے کے لئے میڈیا کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ محکمہ ماحولیات کو بھی پوری توانائی اور ایمانداری سے اس مسئلے کے تدارک میں اپنی ذمہ داری نبھا نا ہو گی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کہ انسان تمام ان سرگرمیوں کو ترک کرے جو موسمیاتی تبدیلی کا سب بن رہی ہیں۔ اس کے لیے جو ممکنہ اقدامات ہو وہ کیے جائیں۔ یہ جتنا جلد ممکن ہو سکے کیا جائے۔