قرآن کی نظر میں حدیث اور سنت کی فضیلت

ڈاکٹرنعیم انور نعمانی

باری تعالیٰ نے رسول الله ﷺ کی ذات اقدس کو اپنے جملہ معاملات میں اکمل بنایا ہے اور آپ کو اپنے ظاہر و باطن میں اجمل بنایا ہے اور آپ کو اپنی سیرت و شخصیت اور اسوہ حسنہ میں تمام لوگوں سے افضل بنایا ہے اور آپ کو اپنے فرائض نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اور لوگوں کی راہنمای اور رہبری میں اعظم بنایا ہے۔ اپنے ہر امتی کے حق میں اور تمام انسانوں کے لیے آپ کو اکرم بنایا ہے۔ آپ کو اپنی بارگاہ میں ہر لمحہ رجوع الی اللہ کی کیفیات اور شریعت اسلامی کی پیروی میں اسلم بنایا ہے۔ آپ کو اپنی عادات و خصائل میں بہت بڑا بردباد اور تحمل والا احلم بنایا ہے۔

باری تعالیٰ نے آپ کی ذات اقدس کو علوم اولین و آخرین کا منبع و سرچشمہ بناکر اعلم بنایا ہے۔ آپ کو شریعت اسلامی کی تشریح اور تشریع میں مصدر الامر بنایا ہے اور اس پوری کائنات خلق کی ایک ایک چیز کے لیے آپ کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے مصدر خلق بنایا ہے اور حتی کہ کائنات کے آغاز و ارتقاء اور اس کون و مکان کی اصلیت کے تناظر میں آپ کی ذات اقدس کو مدا رتق اور مبدا فتق بنایا ہے۔ حتی کہ اس کائنات کو جس جس جہت سے دیکھیں اور جس جس انداز سے جانیں اس کا اصل منبع اور سرچشمہ باری تعالیٰ نے آپ کی ہی ذات کو بنایا ہے اور اس کائنات میں سب سے بڑا بول اللہ ہی کا ہے اور اس کے بعد اس کائنات میں دوسرا بڑا بول اللہ کے رسول ﷺ کا ہے جس کا اعلان باری تعالیٰ نے خود یوں کیا ہے:

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےاُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

(النجم، 53: 3، 4)

اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’خبردار بے شک مجھے اللہ نے قرآن عطا کیا ہےا ور اس قرآن کی مثل سنت و حدیث بھی عطا کی ہے۔‘‘

(رواہ احمد، ابوداؤد)

اسی طرح دوسری حدیث میں فرمایا:

’’بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کا کسی چیز کو حرام ٹھہرانا ایسے ہی ہے جیسے اللہ کا کسی چیز کو حرام ٹھہرانا ہے۔‘‘

(ابن ماجہ)

اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر واضح کیا۔ اللہ رب العزت نے ان کو دو وحی عطا کی ہیں ایک وحی القرآن ہے اور دوسری وحی السنہ، وحی القرآن یہ وحی متلو ہے اس کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس وحی کی تلاوت کے ذریعے عبادت کی جاتی ہے جبکہ وحی السنہ سے مراد وہ وحی ہے جو غیر متلو ہے۔ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور اس کی تلاوت کے ذریعے عبادت نہیں کی جاتی۔ بعض احادیث رسول میں رسول اللہ ﷺ نے صراحتاً لفظ وحی کا استعمال سنت کے لیے کیا ہے جیسے کہ آپ نے فرمایا:

’’باری تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ لوگ باہمی عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کریں اور کوئی بھی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے۔‘‘

(رواہ مسلم)

امام اوزاعی، حسان بن عطیہ سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’جبرائیل امین رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پر جس طرح قرآن نازل کرتے تھے اس طرح سنت کو بھی نازل کرتے تھے۔‘‘

(رواہ الدارمی)

امام اوزاعی بیان کرتے ہیں:

’’قرآن کا معنی و مفہوم سمجھنے کے لیے ہمیں سنت کی ضرورت و حاجت ہے۔‘‘

(رواہ الدارمی)

امام شافعی نے اپنی کتاب الام میں اسی حقیقت کو یوں واضح کیا ہے:

’’رسول اللہ ﷺ نے کوئی بھی چیز امت پر وحی کے بغیر فرض نہیں کی ہے۔ پس وحی میں سے بھی ایک وحی وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور دوسری وحی وہ ہے جس سے رسول اللہ ﷺ کی سنت ثابت ہوتی ہے۔‘‘

(کتاب الام، کتاب الرسالہ)

مزید برآں فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا ہے اور آپ پر وحی نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تلاوت کریں اور دوسری وحی میں آپ سے یہ فرمایا ہے:

’افعل کذا‘ تو آپ نے ’فیفعلہ‘ پر عمل کرکے اس کو ویسے ہی کیا ہے جیسا آپ کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

امام ابن حزم نے اپنی کتاب الاحکام میں بھی اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنے رسول کو دو طرح کی وحی عطا کی ہے۔ایک وحی متلو ہے اور دوسری وحی مروی ہے۔ یہ دونوں وحییں حقیقت میں ایک ہی چیز ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کا منبع و سرچشمہ اللہ کی ذات ہے اور اسی بنا پر ان دونوں کا حکم بھی ایک ہے۔ امام ابوالمعالی جوینی بیان کرتے ہیں کہ :

دوسری قسم وہ ہے جس میں باری تعالیٰ جبرائیل سے فرماتا ہے اقرا علی النبی رسول اللہ پر ان آیات قرآن کو تلاوت کرو۔ پس جبرئیل امین ان آیات و کلمات کو لے کر آتے ہیں اس طرح کہ ان الفاظ و کلمات میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی نہیں کرتے۔ پس اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں قرآن کلام اللہ کے الفاظ کی روایت کا نام ہے جبکہ سنت رسول ﷺ کلام اللہ کے معنی کی روایت کا نام ہے پہلے سے مقصود تلاوت و عبادت ہے جبکہ دوسرے سے مراد روایت و تنقل ہے۔

پس قرآن اور سنت دونوں وحی ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ پس قرآن کا اثبات سنت کا اثبات ہے اور سنت کا انکار قرآن کا انکار ہے اور یہ اصول ہم اس آیہ کریمہ سے اخذ کرتے ہیں جس میں باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اللہ کی وہ قدرنہ جانی جیسی قدرجاننا چاہیے تھی جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی کا انکارکر) دیا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ ‘‘

(الانعام،6: 91)

یہ آیہ کریمہ واضح کرتی ہے کہ اللہ کی قدر اور اس کی عظمت الوہیت کا اثبات اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اقرار رسالت اور تسلیم نبوت کا اعتراف نہ کرلیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تک پہنچنے اور اس کی قدر و عظمت کو جاننے کا واحد واسطہ اور اکیلا وسیلہ صرف اور صرف نبوت و رسالت کا ہے۔ معرفت الہٰیہ کی خبر اور وجود باری تعالیٰ کا علم اور شان الوہیت کی معرفت، شریعت اسلامی کا لوگوں تک ابلاغ اور اللہ کی اطاعت کی عملی صورت اور اس کے احکام و فرمودات کی پیروی ہمیں رسولوں اور نبیوں کے بغیر میسر نہیں آسکتی۔ یہ رسول و انبیاء ہی ہیں جو اپنے خالق سے احکام حاصل کرتے ہیں اور مخلوق خدا تک اس کے احکام کو پہنچاتے ہیں جو اللہ سے لیتے ہیں اور مخلوق میں بانٹتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام واسطہ وحی کے ذریعے سنتے ہیں اور اس کی مخلوق کے لیے روایت کرتے ہیں۔

پس ہم تو صرف اللہ کی ذات پر ایمان لاتے ہیں اور ہم توحید کا اقرار اور اعتراف کرتے ہیں اور آپ کی عظمت و رفعت کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسا کہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ e سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لیے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بے شک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

(الشوریٰ، 42: 51)

اس آیت کریمہ نے واضح کردیا ہے باری تعالیٰ اپنا کوئی امر اور کوئی حکم براہ راست اپنی مخلوق کو نہیں دیتا ہے وہ جب بھی اپنا کوئی حکم اور کوئی امر اپنے بندوں کو دیتا ہے تو وہ رسول اور نبی کےواسطے کے ذریعے دیتا ہے۔

اللہ اپنے بندوں میں کسی ایک بندہ کواپنی نبوت و رسالت کے لیے چن لیتا ہے اور اس کو اپنے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ خطاب و کلام کی سعادت عطا کرتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل کرتا ہے تو وہ نبی اللہ کا رسول بن کر اس کا کلام ان تک پہنچاتا ہے اور اس کی نیابت میں اس کے بندوں سے بات کرتا ہے اور لوگوں کو اس امر اور اس کی نہی کی خبر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خطاب نبی کو اپنا خطاب قرار دیتا ہے اور کلام نبی کو اپنا کلام قرار دیتا ہےا ور اخیار نبی کو اپنی خبر قرار دیتا ہے اور بیان نبی کو اپنا بیان قرار دیتا ہے۔ اطاعت نبی کو اپنی اطاعت کہتا ہے۔ معصیت النبی کو اپنی معصیت سے تعبیر کرتا ہے، سنت نبی کو اپنا راستہ قرار دیتا ہے اور اتباع نبی کو اپنی دلیل قرار دیتا ہے وہ اپنے ملائکہ کے ذریعے اپنے نبی کی زبان سے یہ اعلان کراتا ہے۔

رسالت و نبوت ایک عظیم منصب ہے۔ رسالت ایک عظیم نعمت ہے اس کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے۔ یہ اللہ ہی کی مشیت ہے جس کو چاہتا ہے اس کو منصب کے لیے چن لیتا ہے اس کے بعد پھر قول رسول کسی عام آدمی کے قول کی طرح نہیں ہوتا:

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

(النجم، 53: 3،4)

پھر فعل رسول کسی عام بشر کے فعل کی طرح نہیں ہوتا بلکہ وہ فعل الہٰی بن جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

اور پھر صراط رسول کسی عام آدمی کے صراط کی طرح نہیں ہوتا۔

(الانفال، 8: 17)

بلاشبہ اللہ نے اپنے مرسل کی نعمت پر شکر گزاری کا حکم دیا ہے۔

(الانعام، 6: 126)

باری تعالیٰ نے اپنے دین کو صحیح عدالت کی علوت سے بلند کیا ہے اور واضح کیا ہے اور دین کی تمام باتوں کو اپنے رسول کے ذریعے اعلیٰ ضبط کے ساتھ پہنچایا ہے اور اپنے دین کو تمام شذود سے محفوظ کیا ہے اور اس دین کو ہر علت، طعن اور سوء حال سے محفوظ و سالم رکھتے ہوئے لوگوں تک اسے پھیلایا ہے اور ہماری دین کی نسبت اور سند کو اول سے آخر تک اتصال کے شرف سے نوازا ہے۔

سند کے اس امتیاز سے یہ یقین و اعتماد حاصل ہوا ہے۔ من اطاع فقد اطاع اللہ جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، ومن عصاہ فقد عصی اللہ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے اور مقبول اور مردود میں امتیاز کرنے والی ہے اور اللہ نے آپ ﷺ کے اعمال اور احوال کو صحیح، حسن اور ضعیف کے درمیان روایت کے اعتبار سے تقسیم کیا ہے اور اللہ نے آپ ﷺ کے ذکر کو مرفوع لہ بناکر رفعت دی ہے اور آپ ﷺ کی محبت و مودت کو اہل ایمان کے لیے مسند بنایا ہے اور آپ ﷺ کے ہر حکم کو اپنے حکم سے متصل کیا ہے اور اللہ نے ہر عمل کی قبولیت کو آپ ﷺ کی اتباع کامل پر موقوف کیا ہے اور اللہ نے کمالِ ایمان کو جو کچھ آپ ﷺ لے کر آئے ہیں اس پر مقطوع کیا ہے۔

اس طرح کہ وہ ایمان منقطع نہ ہو اور وہ ایمان مفصل نہ ہو اور وہ ایمان مرسل نہ ہو اور جس نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی نسبت اتصال کو منقطع کیا اور جس نے آپ ﷺ کی نسبت اسناد کو درمیان سے منقطع کیا تو اس کا ایمان درمیان ہی میں معلق ہوجائے گا اور جس نے رسول اللہ ﷺ کی عطا کردہ ہدایت کو بدل دیا تو اس کی حیثیت مقلوب کی ہوجائے گی اور جس نے مختلف اسانید میں اختلاف کیا ہے اور ان میں ترجیح کو قائم نہ کرسکا اور نہ ہی ان میں مطابقت و تطبیق کرسکا تو وہ مضطرب ہوجائے گا اور جس شخص نے ایک علت قادمہ کو اس سند کے باطن میں داخل کردیا اس حال میں کہ اس کا ظاہر ہر علت قادمہ سے محفوظ ہوا تو یہ معلل ہوجائے گا اور جس شخص نے کسی ثقہ کی پیروی کرتے ہوئے اس شخص کی مخالفت کردی جو اس سے بھی زیادہ اوثق تھا تو یہ شخص شاذ ہوجائے گا اور جس شخص نے کسی کا اصل نام ترک کردیا یا اس کی کوئی چیز پوشیدہ رکھی جبکہ اس کا ذکر کسی اور جہت سے معروف تھا تو اس نے مدلس ہونے کا ثبوت دیا اور جس نے اپنے شیخ سے حدیث کو لیا مگر اس کا نام ذکر نہیں کیا تو وہ مبہم ہوجائے گا اور جس نے ایک کلام میں دوسرے کے کلام کو بھی داخل کردیا وہ مدرج ہوگا۔

اور جس نے حدیث کے اعراب اور حروف کو بدل دیا وہ محرف ہوجائے گا اور جس نے کسی کلمہ کی شکل کو نقطوں کے ساتھ تبدیل کردیا وہ مصحف ہوجائے گا۔ جس نے کسی کی خواہش میں کسی پر تہمت لگائی تو وہ شخص متروک ہوجائے گا اور اگر کسی ضعیف نے کسی معروف کی مخالفت کی جو اس سے اولیٰ اور اوثق تھا تو ایسا شخص منکر ہوجائے گا اور جس نے کسی چیز کو بنایا اور اس کو گھڑا اور اس کو کذباً کہا اور اس کو خود تراشا تو وہ شخص وضاع ہوجائے گا اور اس کی روایت موضوع ہوگی اور یہ قسم سب سے زیادہ خطرناک اور بہت زیادہ نقصان کی حامل ہے۔

خیر مرسل بھی علم حدیث میں ایک قابل اعتماد اور قابل ترجیح حیثیت رکھتی ہے۔ اکثر ائمہ حدیث کا یہی موقف ہے اس خبر مرسل کو کسی بھی قسم کے سہارے اور مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث ضعیف اور حدیث مجروح کو ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔‘‘

(التوبۃ،9: 122)

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ طائفہ و گروہ جو دین میں تفقہ و فہم حاصل کرتا ہے اور جو دین میں تخصص و مہارت حاصل کرتا ہے وہ جب اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو اس کو اپنی قوم کے اندر اللہ کا خوف و ڈر اور تقویٰ و زہد پیدا کرنا چاہیے اور رسول اللہ ﷺ نے اس گروہ کے بارے میں خبر دی ہے کہ ان کی قوم پر ان کی بات کو قبول کرنا واجب اور ضروری ہے۔

یہ آیہ کریمہ یہاں ان کی طرف سے کسی بھی خبر کے دینے اور کسی بھی قسم کے ڈر کےسنانے میں کسی بھی نوعیت کا کوئی فرق قائم نہیں کرتی ہے اور نہ ہی یہ فرق قائم کرتی ہے کہ وہ جو براہ راست خبر دیں اور وہ جو بالواسطہ بات پہنچائیں اور جس کا ارسال کریں ان میں کسی قسم کا فرق ہوگا اور اس آیہ کریمہ نے اس بات میں بھی کوئی فرق قائم نہیں کیا ہے کہ وہ خیر پہنچانے والا صحابی ہے یا تابعی ہے یا ان کے بعد کے طبقہ کا ہے اور نہ ہی اس آیت نے یہ فرق قائم کیا ہے کہ وہ خبر پہنچانے والا اور ڈر سنانے والا وہ مسند ہے یا مرسل ہے۔

جیسا کہ باری تعالیٰ نے دوسری آیت کریمہ میں مخبر مسند اور مخیر مرسل کی بات ہی نہیں کی ہے۔ مطلقاً مخبر کی بات کی ہے خواہ وہ مخبر مسند ہو یا مخبر مرسل ہو۔ یہ دونوں قبول ہیں اس لیے خبر مسند اور خبر مرسل دونوں اصلاً قبول ہی قبول ہیں جبکہ مخبر فاسق کی بات اس آیہ کریمہ میں کی ہے۔ ارشاد فرمایا:

’’ اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو ‘‘۔

(الحجرات، 49: 6)

اس آیہ کریمہ کی دو قرات بیان کی گئی ہیں۔ یہ دونوں روایتیں متواتر ہیں۔ تبینوا او فتثبتوا تم ان کی اچھی طرح چھان بین کرلو، تم اس فاسق کی خبر کا اچھی طرح ثبوت لے لو اور تحقیق کرلو۔ یہاں یہ نہیں فرمایا فلا تقبلوا تم سرے سے فاسق کی خبر کو قبول ہی نہ کرنا یا اوردوہ تم فاسق کی خبر کلیتاً رد کردینا یا یہ بھی نہیں فرمایا اترکوہ تم فاسق کی خبرکو بالکل چھوڑ ہی دینا اور بالکل اس سے کوئی تعلق ہی نہ رکھنا اور اس کو کاملاً ترک کردینا بلکہ امر حق فاسق کی خبر کے بارے میں یہ ہے تم اچھی طرح اس میں تبین کا اہتمام کرنا۔ تم خبر فاسق کو تحقیق کے میزان پر تولنا اور تم خبر فاسق کو تثبت کے ترازو میں تولنا۔

باری تعالیٰ نے خبر فاسق کے ہی لیے تبین اور تثبت کا حکم دیا ہے اور آیت کریمہ کا نفس مضمون خود واضح کرتا ہے کہ وہ

راوی جو عادل ہے اور جو ثقہ ہے اس کی خبر کے تبین اور تحقق کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ خبر مرسل کا راوی عادل ہے اور ثقہ ہے بس اس بنا پر اس کی خبر کو قبول کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ آیہ کریمہ مخبر کے مسند ہونے اور مخبر کے مرسل ہونے کا فرق نہیں کرتی۔

احادیث نبویہ ﷺ سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’میری ہر ہر حدیث کو لوگوں تک پہنچاؤ۔‘‘

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو اس وقت میری مجلس میں موجود ہے وہ میری بات کو اس تک پہنچادے جو اس وقت غیر حاضر ہے۔‘‘

(رواہ البخاری)

ان دونوں احادیث مبارکہ میں امرتبلیغ پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو مامور کررہے ہیں۔ امر تبلیغ تو ہر حالت اور ہر صورت اورہر حال و مجال میں ادا کیا جاتا ہے۔ امر تبلیغ سے عمل کا فائدہ حاصل ہوتا ہے جب کوئی امر کوئی راوی اپنے بعد کے لوگوں تک پہنچاتا ہے تو وہ اس کی تبلیغ کی بنا پر عمل شروع کردیتے ہیں اور یہ دونوں احادیث اس میں فرق نہیں کرتی ہیں کہ وہ راوی وہ مبلغ مسند ہونا چاہیے یا مرسل ہونا چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے صغائر صحابہ کرام و اہل بیت میں سے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ، حضرت نعمان بن بشیرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ سب کی روایت کو بالاتفاق قبول کیا ہے۔ باوجود اس کے انہوں نے ساری احادیث براہ راست رسول اللہ سے نہیں سنی تھیں اور انہوں نے سب احادیث کو مرسلاً روایت کیا ہے اور اسی طرح تابعین بھی مراسیل کے قبول کرنے پر متفق نظر آتے ہیں بلکہ ان کا اس بات پر اجماع نظر آتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں خبر فاسق بہت زیادہ ضعیف السند ہے مگر یہاں اس آیہ کریمہ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے۔ اس کے باوجود خبر فاسق، ضعیف السند ہوکر بھی اصلاً قبولیت کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ اگر خبر فاسق کلیتاً مردود ہوتی اور قطعی ناقابل حجت ہوتی اور مطلقاً قابل اعتبار نہ ہوتی تو پھر باری تعالیٰ ان کی خبر میں تبین، تحقق اور تظبت کا حکم نہ دیتا

بلکہ یوں ارشاد فرماتا:

’’ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں۔‘‘

(النور، 24: 4)

جبکہ باری تعالیٰ نے ایسا نہیں فرمایا ہے بلکہ فرمایا نبا فاسقٌ کو فتبینوا کے میزان پر پرکھو۔ یہ لفظ اپنے معنی و مفہوم میں واضح ہے۔ خبر فاسق کے لیے باری تعالیٰ نے صرف اتنی شرط لگائی ہے کہ اس کو قبول کرنے کے لیے اسے تبیین اور تحقق کے عمل سے گذارا جبکہ خبر فاسق کا کلیتاً انکار کردینا اور اس کو سراسر جھوٹ جاننا اور مطلقاً اس کو قبول نہ کرنا اس آیت کا مقصود ہرگز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے جب خبر فاسق کو کوئی اور قوی سند مل جائے جس کو ثقہ راوی بیان کریں تو ایسی صورت میں اس کو قبول بھی کیا جائے گا اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے خبر ضعیف کو مناقب کے باب میں پایا یا فضائل اعمال میں خبر ضعیف کو جانا یا کسی دینی امر میں ترغیب اور ترہیب کے باب میں دیکھا تو اسے قبول کیا جائے گا اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا یا کسی نے خبر ضعیف کو دو طرق میں پایا جن میں ایک ضعیف اور دوسرا قوی تھا تو پھر حدیث ضعیف حدیث حسن بن جائے گی یا کسی ایسی خبر ضعیف کو پایا جس کے بارے میں ائمہ نے صراحتاً جرح کی ہو یا اس کو ضعیف قرار دیا ہو اور کچھ نے اس کو صحیح قرار دیا ہو اور اس کے بعد اس کے زیادہ طرق ہوں تو ایسی خبر ضعیف بھی خبر حسن میں بدل جائے گی یا خبر ضعیف ہو مگر اس کے توابع ہوں تو اس کو قبول کیا جائے گا یا خبر ضعیف ہو مگر وہ دوسرے طرق سے بھی روایت ہو یا کسی معاملے میں تم حدیث ضعیف پاؤ مگر اس بارے میں حدیث ضعیف سے اعلیٰ تر اسانید نہ پائی جائیں تو اس حدیث کو قبول کرلیا جائے گا اور اس پر عمل کیا جائے گا۔ اس لیے کہ حدیث ضعیف وہ ہے جو درجہ حسن سے کچھ کم تر ہے۔

جبکہ حدیث حسن وہ ہے جو درجہ صحیح سے کچھ کم تر ہے جبکہ حدیث صحیح حدیث ضعیف سے اپنے مرتبہ و درجہ میں بلند تر ہے۔ یہی وجہ ہے حدیث حسن کے آخری مراتب ہی حدیث ضعیف کے اول مراتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح حدیث دو مطروح وہ ہے جو حدیث ضعیف سے بھی کم تر مرتبے میں ہے مگر یہ حدیث موضوع سے بلند تر مرتبے میں ہے۔

پس حدیث مطروح حدیث ضعیف اور حدیث موضوع کے درمیان کا مرتبہ ہے۔یہی وجہ ہے حدیث ضعیف حدیث متروک اور حدیث مطروح کو حدیث موضوع نہیں کہتے۔ اسی بنا پر حدیث ضعیف موضوع نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے کہ موضوع تو اس حدیث کوکہتے ہیں جو خودساختہ ہے جو گھڑی ہوئی ہے جبکہ اصل بات یہ ہے کہ موضوع اصلاً حدیث ہوتی ہی نہیں لیکن محدثین راوی کے گمان و وہم کی بنا پر اس کو حدیث موضوع کا نام دے دیتے ہیں۔ اس لیے حدیث موضوع کبھی بھی حدیث ضعیف کے برابر اور اس کے درجے میں ہر گز ہرگز نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ وہ ہے ہی بے اصل ہے اور خودساختہ ہے۔

’’ اے ایمان والو! (نبی اکرم ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظر کرم فرمائیے) کہا کرو۔‘‘

(البقرہ،2: 102)

اہل ایمان کو حکم ہے جو کچھ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمائیں اس کو یہ سنیں، رسول اللہ ﷺ سے سنتے ہیں باواسطہ جبرئیل، امت رسول اللہ ﷺ سے براہ راست صحابہ کرامؓ کے ذریعے اور پھر صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ حدیث کے ذریعے اور ان کی کتابوں کے ذریعے سنے بھی اور سمجھے بھی، گویا امت کے لیے حکم ہے۔ رسول اللہ کی ذات کے بارے میں واسمعوا کا ہے۔

’’ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں ۔‘‘

(التوبۃ،9: 122)

حدیث و سنگت تفقہ فی الدین کے حکم میں قرآن کے بعد کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر قرآن کا سمجھنا تفقہ فی الدین ہے تو قرآنی احکام کے مطابق حدیث و سنت رسول کا سمجھنا بھی تفقہ فی الدین ہے۔ اگر حدیث و سنت کو تفقہ فی الدین سے معاذ اللہ خارج کردیا جائے تو آدھا دین از خود ختم کردینا ہے اور قرآن کی آیات شان نبوت اور شان رسالت کا انکار کرنا ہے اور یہ عمل کفر ہے۔

’’اور میں نے تمہیں (اپنی رسالت کے لیے) چن لیا ہے پس تم پوری توجہ سے سنو جو تمہیں وحی کی جارہی ہے۔‘‘

(طہ، 20: 13)

رسالت اور نبوت تو سراسر ابلاغ دین کا نام ہے۔ تبلیغ احکام الہٰی کا نام ہے اور ابلاغ پیغام اسلام کا نام ہے۔ رسالت کیا ہے ’فاستمع لما یوحی‘۔ رسول اللہ ﷺ نے وحی الہٰی کو سنا، امت نے قول و فعل، حال کو سنا، دیکھا اور جانا۔ یہی کل دین ہے امت نے جو قول رسول، فعل رسول اور حال رسول کی صورت میں جانا اسی کو حدیث و سنت رسول کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ’فاستمع لما یوحی‘ کا عمل اپنایا اور امت نے ’فاستمع لما قال رسول اللہ‘ اور ’فعل رسول اللہ‘ کا عمل اپنایا۔ رسول اللہ کا اللہ کا پیغام بواسطہ وحی سننا رسالت و نبوت کہلوایا اور امت کا مختلف واسطوں اور وسیلوں سے رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کو سننا حدیث و سنت رسول کہلوایا۔

’’جو لوگ بات کو غور سے سنتے ہیں، پھر اس کے بہتر پہلو کی اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے اور یہی لوگ عقلمند ہیں۔‘‘

(الزمر، 39: 18)

حدیث و سنت رسول یستمعون القول کا نام ہے، رسول اللہ کی باتوں اور ارشادات کو امت غورو فکر سے سنتی ہے اور پھر آپ ﷺ کی احادیث جو امت تک پہنچتی ہیں۔ ان میں سے فیتبعون احسنہ پر عمل کرتی ہے۔ تیتبعون احسنہ کے تحت حدیث متواتر، حدیث مشہور، حدیث عزیر، حدیث غریب اور حدیث صحیح، حدیث حسن، حدیث ضعیف سب اقسام حدیث میں آجاتی ہیں۔

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘

(الحجرات، 49: 6)

اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اس آيت کریمہ میں لفظ فاسقٌ نے علم اصول حدیث و علم روایت، علم السند کی بنیاد اور اساس فراہم کی ہے۔ بنباء نے علم درایت، علم المتن، نفس حدیث کی بنیاد و اساس امت کو دی ہے۔ فتبینوا نےکلمات نے بقات روات، علم اسماء الرجال اور علم عدل و جرح، جرح و تعدیل ، علم العلل کی ساری بنیادیں فراہم کردی ہیں۔

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےاُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

(النجم، 53: 3، 4)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے بڑے علم والے، بڑی آگاہی والے رب نے بتادیا ہے۔ اب اللہ نے اپنے رسول کو کیا بتایا ہے اور کیا آگاہی دی ہے۔ ہمیں اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکتا۔ سوائے اس کے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے ذریعے اور اسے جاننے کا ذریعہ صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور سنن ہیں۔

ہم قرآن کو رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے سن کر قرآن پر عمل کرتے ہیں اس لیے کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو قرآن کہا ہے اور ہم حدیث کو حدیث اس لیے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قرآن نہیں کہا۔ جس طرح ہم قرآن کو رسول اللہ ﷺ کی زبان اور ذات سے لیتے ہیں تو اگر یہ ہمارا عمل ایمان ہے تو اس طرح حدیث و سنت رسول کو بھی ہم رسول اللہ ﷺ کی ذات سے لیتے ہیں تو ہمارا یہ عمل ایمان کیونکر نہ ہوگا؟ دونوں کی قبولیت کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے یہ عجب بات ہوگی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ذات سے قرآن کو تو قبول کریں اور حدیث و سنت رسول کو چھوڑ دیں ہاں قرآن کی روایت طریق تواتر سے ہے اور حدیث بھی طریق تواتر سے بھی ہے اور دیگر طرق سے بھی ہے۔ پس جن طرق کو امت نے حدیث کی قبولیت کے باب میں آج تک قبول کیا ہے ہم بھی اسی طرح قبول کریں۔ ہم حدیث کی قبولیت کے لیے الگ ضابطے اور الگ سے قاعدے نہ بنائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا یہ عمل حدیث کے منکرین کی صف میں ہم کو شامل کردے اور ہم اپنے ایمان کو از خود تباہ و برباد کرنے والے ہوں۔

حجیت سنت و حدیث کے دلائل خود احادیث رسول ﷺ سے

تبلیغ حدیث کا حکم رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کرامؓ کو بحیثیت جماعت یوں دیا:

فلیبلغ الشاهد الغائب ضرب مبلغ اوعی من سامع.

(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبۃ ایام منی، 2۔ 620، رقم 1654)

اگر حدیث حجت نہ ہوتی اور دلیل شرعی نہ بن سکتی تو رسول اللہ ﷺ کبھی بھی اس کے ابلاغ کا حکم نہ دیتے اور یہاں رسول اللہ ﷺ اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام کی تمام تعلیمات کا اعادہ کررہے ہیں۔ ان میں سے انتہائی اہم تبلیغ و ابلاغ حدیث کا فریضہ ہے۔ جس کا حکم امت کو دے رہے ہیں۔ کچھ احادیث میں یہ الفاظ یوں آئے ہیں:

فلیحدث الی فر منکم الغائب.

( المقدسی، الاحادیث المختارہ، 8: 335، رقم الحدیث 406)

(دیلمی، مسند الفردوس، 1: 77، رقم الحدیث 233)

حدیث و سنت رسول اللہ ﷺ کے نزدیک حجت شرعی اور دلیل شرعی تھی تو اس بنا پر آپ ﷺ نے اس کی حفاظت کا حکم بھی دیا اور اس کو اخبار کے سانچوں اور ابلاغ کے ذرائع میں بھی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے فرمایا:

میری ان احادیث کو محفوظ کرلو اور یاد کرلو اور اپنے بعد میں آنے والے لوگوں تک ان کو پہنچادینا۔

(متفق علیہ بخاری، الجامع الصحیح، کتاب العلم، باب تحریص النبی وقد عبدالقیس، 1: 45، رقم 87)

رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم احفظوہ آج بھی امت پر نافذ ہے اور تمام اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے،حفاظت حدیث کا اہتمام اگر آج کوئی یاداشت کے ذریعے کرتا ہے۔ تدریس کے عمل کو اختیار کرکے کرتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے سلسلے کو قائم کرکے کرتا ہے یا کتب و رسائل اورمضامین لکھ کر اور تحقیق کرکے کرتاہے ایسے تمام کے تمام لوگ حدیث مبارکہ کے ان الفاظ کے مصداق کے حامل ہیں، ان پر ان کلمات کا اطلاق ہورہا ہے اور اسی حدیث میں دوسرا حکم یہ ہے اخبروہ من وراء کم، حدیث مبارکہ کے یہ کلمات بھی اہل علم کو متوجہ کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے دور کے بعد والے دورکے لیے اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لیے ابلاغ حدیث اور تبلیغ حدیث کا کوئی نہ کوئی عمل اختیار کرکے جائیں اور وہ اس عمل سے خود کو بری الذمہ ہرگز تصور نہ کریں۔ اخبار اور ابلاغ حدیث کا یہ فریضہ بعدکے لوگوں کے لیے یہ رسول اللہ ﷺ کی تاکید ہے۔ امت کو اس حکم کو بہر صورت اختیار کرنا ہے۔ ہر ایک علم حدیث کے طالب علم اور عالم پر لازم ہے کہ وہ اخبروہ من وراء کم کا فریضہ سرانجام دے۔

حتی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی صراحۃ دوسری حدیث میں تفصیل بھی بیان کردی ہے۔

’’ابو ہارون عبدی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابو سعید خدریؓ کے پاس آتے تو وہ ہمارا یوں استقبال کرتے اور کہتے رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق خوش آمدید ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کیا ہے وہ فرماتے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ میرے بعد تمہارے پاس عنقریب لوگ آئیں گے وہ تم سے میری حدیث کے متعلق سوال کریں گے۔ جب وہ لوگ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا اور انہیں میری حدیث بیان کرنا۔‘

(رامھرمزی المحدث الفاصل بین الراوی والواعی، خطیب بغدادی، شرف اصحابہ الحدیث، 210،176، رقم22)

اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کی بھی خبر دے دی ہے جو کہ بعد میں علم حدیث کی طلب کے لیے آنے والے ہیں۔ فرمایا ان کے ساتھ مہربانی و شفقت کے ساتھ پیش آنا اور ان سے میری احادیث کو بیان کرنا اور وہ تمہارے پاس میری احادیث سننے کے لیے دور دراز کا سفر کرکے آئیں گے اُن کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنا، بہتر برتاؤ کرنا اورمہربانی و کرم نوازی کےساتھ ان کے ساتھ پیش آنا۔