نظریہ، قوم کی شناخت ہوتا ہے۔ قوم اپنے نظریے کے تناظرمیں اقدار اور رہنما اصول طے کرتی ہے اور اسی سے قوم کے رحجانات کا تعین ہوتا ہے۔ نظریہ اور اس سے وجود میں آنے والی اقدار انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک اثر انداز ہوتیں ہیں۔ قومیت کا تصور، مختلف نظریات کی بنا پر وجود میں آیا۔ قومیں معاشرتی، سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور فکری اختلافات کی بنیاد پر الگ الگ پہچان رکھتی ہیں۔ دیگر اقوام کی طرح مسلم قوم بھی امتیازی شناخت اور ساکھ رکھتی ہے اور اس قوم کی نظریاتی اساس"امن" ہے۔ جو مسلم قوم کو اقوامِ عالم میں منفرد اور ممتاز کرتی ہے۔
امن کے تصور کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے امن کے حقیقی معنی ومفہوم کو سمجھا جائے۔
امن، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سلامتی وامان کے ہیں۔ اردو لغت میں اس کے معنی صلح وآشتی، عافیت، سکون اور آسودگی کے ہیں۔ یہ حفاظت اور امان کے معنی میں بھی آتا ہے۔ امن کی ضد جنگ، انتشار، تناؤ اور الجھاؤ ہے۔
عمومی تعریف میں امن کو تحفظ، آزادی اور اعتدال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
امن کے اصطلاحی معنی اپنے اور اپنے اردگرد کے ماحول کو انتشارو الجھاؤ سے محفوظ کرنا اور سلامتی اور آسودگی کو قائم کرنا ہے۔ المختصر امن سے مراد تشدد وانتشار سے خالی ایک طرزِ زندگی ہے جس میں لوگوں کے جان ومال اور عزتیں محفوظ ہوں اور معاشرے میں باہمی محبت و اعتماد اور احترامِ آدمیت کا جذبہ ہو۔
امن فطرت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ قدرت کا سارا نظام ایک منظم انداز میں مربوط ہے۔ جس کا ہر کرشمہ روحانی وقلبی سکون اور طمانیت کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ قدرت کی جملہ تخلیقات، امن وسلامتی کا عملی نمونہ پیش کرتی ہیں اور کہیں بھی کوئی تصادم نظر نہیں آتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ.
(الملک، 67: 3)
تم(خدائے)رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدم تناسب نہیں دیکھو گے۔
بنیادی طور پر انسان کی تخلیق بھی اسی فطرت پر کی گئی ہے۔ انسان کی فطرت امن پسند ہے۔ اسی لیے امن کے ماحول میں انسان سکون اور فرحت محسوس کرتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں بہترین نظامِ حیات، اسلام کا عطا کردہ ہے۔ جس کے اصول وضوابط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرت اور حیات مبارکہ سے وضع فرما دیے۔
اسلام کی بنیاد، امن و سلامتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے نام ہی "اسلام" پسند کیا۔ اسلام کا معنی سلامتی وعافیت کے ہیں۔ گویا نظام خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن وسلامتی کا پیغام دیتا ہے۔اس دین اور نظام کے پیروکاروں کو مسلم یا مومن کہا گیا۔ قرآن وحدیث میں مسلم یا مومن سے مراد وہ شخص ہے جو تمام انسانیت کے لیے پیکرامن و سلامتی ہو۔ اپنے اور اردگرد کے ماحول کو محفوظ بنائے اور سلامتی کو قائم کرنے والا ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مسلم کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کی جان ومال اور عزتیں محفوظ رہیں۔
(الصحیح البخاری: کتاب الایمان)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زندگی امن و سلامتی کی عملی تصویر ہے۔ اعلان نبوت سے پہلے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان ومال کا امین سمجھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو سچ جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد، جب کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنا مال بطورِ امانت رکھواتے، کیونکہ دشمن بھی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مال کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔ حتیٰ کہ جب کفار کے ظلم وستم کے باعث، نوبت ہجرت تک آگئی اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس امانتیں موجود تھیں۔ جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سپردِ کر آئے۔
جب مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام وجود میں آیا تو اس کی بنیاد بھی امن پر رکھی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی دیگر اقوام کے ساتھ معاہدہ امن کیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے اس معاہدے کا مقصد مدینہ میں امن و سلامتی کے ماحول کو قائم کرنا تھا۔ اس نظام کی نمایاں خصوصیت، یکساں اور غیر جانبدارانہ عدل وانصاف کی فراہمی تھی۔ اس سے معاشرے میں یکساں حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا اور معاشرے میں مساوات کو فروغ ملا۔ جس نے دیگر اقوام کو اس نظام حکومت و عدالت کو اپنانے پر مجبور کر دیا۔ کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان بہت سی جنگیں لڑی گئیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ کے لیے جو اصول وضع کیے ان میں بھی ظلم و تشدد اور فساد پیدا کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ صرف ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی جاتی جو ہتھیار لے کر جنگ کرنا چاہتا۔ جنگ میں عورتوں، بچوں، بیماروں، بوڑھوں اور نہتے شہریوں کو قتل کرنا جنگ کے اصولوں کے منافی تھا۔
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا بظاہر وہ مسلمانوں کے حق میں نہیں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امن کو حج کی ادائیگی پر مقدم جانا اور امن کے فروغ کی خاطر اس معاہدے کو قائم کیا۔
فتح مکہ کے موقعہ پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کر کے ساری انسانیت کے لیے امن کا پیغام دیا۔
خطبہ حجتہ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا اور طبقاتی، نسلی، نصبی، لسانی، اختلافات، جو کہ امن میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں، کو مٹا کر مساوات کا درس دیا۔
اس کے علاوہ، دین اسلام کے شریعی احکامات میں بھی انفرادی اور اجتماعی امن و سلامتی کی تعلیم ملتی ہے۔ اسلام کے بنیادی اراکین، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج میں بھی باہمی محبت، رواداری، مساوات اور اخوت کا درس ملتا ہے۔ ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لیے حقوق العباد دیے گئے جن کا مقصد طبقاتی فرق اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت ، بغض، حسد، اور عناد کو مٹانا تھا۔ معاشرے میں محبت، مودت اور باہمی اعتماد کی فضا کو قائم کرنا تھا۔ الغرض جملہ حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کا تعلق انسان کی سیرت و کردار کو سنوارنے سے ہے تاکہ مسلمان کی شخصیت امن، احترامِ آدمیت، تحمل و برداشت جیسے اوصاف سے متصف ہو اور ہر کوئی اس سے امان و عافیت پائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلام کے صحیح اصولوں پر مبنی معاشرہ قائم ہوا تو مسلمان قوم نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اوج کمال حاصل کیا۔ مسلمانوں نے سائنسی ترقی کے راستے ہموار کیے۔ دنیائے انسانیت کو نئے طرزِ معاشرت سے متعارف کروایا۔ لوگ جوق در جوق اس نظام حیات کو اپنانے لگے۔ کیونکہ اس نظام میں لوگوں کی جانوں کو امان ملی۔ ان کے مال اور عزتوں کو تحفظ ملا۔ اقوامِ عالم نے بھی تسلیم کیا کہ یہی وہ نظام ہے جو صحیح معنوں میں انسانیت کو فروغ دیتا ہے اور اسی نظام میں انسانیت کی بقا کا راز مضمر ہے۔ بعد میں آنے والے نظام اور طرزِ حکومتوں نے اسلام سے رہنمائی حاصل کی، لیکن ان کی نظریاتی اساس مادیت اور دنیاوی فوائد پر رکھی گئی جس کی وجہ سے وہ تصورِ امن کی روح کو حاصل نہ کر سکے۔
اگر حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ صدی جو علم ، ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کا سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ انسان خود کو باشعور گردانتا ہے لیکن اطراف و اکناف میں نگاہ دوڑائی جائے تو ہر طرف بدامنی، مایوسی اور پریشانی کی فضا نظر آتی ہے۔ کسی کی جان ومال اور عزت محفوظ نہیں۔ معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی انتشار کا ماحول موجود ہے۔ مذہب، قوم، رنگ ، نسل، زبان کے اختلافات کو متعصبانہ رخ دیا جا رہا ہے۔ سیاست کے نام پر قتل و غارت گری عام ہے۔ مذہبی حلقوں کی جانب درندگی منسوب کی جا رہی ہے۔ مذہبی رحجان کو انتہا پسندی قرار دیا جاتا ہے۔ نام نہاد لبرل ازم کے ذریعے معاشرتی اقدار کو ختم کیا جا رہا ہے۔ رنگ نسل کے تفاخر کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ایک فرد ، مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کسی دوسرے فرد کے لیے برداشت نہیں رکھتا۔ ایک حلقہ دوسرے حلقے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم دوسری قوم کی سا لمیت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ انفرادی زندگی سے لے کر پوری دنیائے انسانیت ایک پس پردہ جنگ کی سی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ علمی قوتیں ایک طرف تو امن کی داعی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف وہی امن کی سب سے بڑی دشمن بھی ہیں۔ اور انھوں نے دنیا کے امن کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ حتیٰ کہ معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر اسلام ، جو کہ دین ہی امن وسلامتی کا ہے، کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ منسوب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امن کا حقیقی تصور آج کی دنیا میں مفقود ہو چکا ہے اور یہ اقوامِ عالم کے ہاتھ میں، حاکمیت و تسلط حاصل کرنے کا ہتھیار بن کے رہ گیا ہے۔
انسانی تاریخ ایسے حادثات اور واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں قیام امن کے لیے اقوام عالم کے اقوال و افعال میں صریح تضاد نظر آتا ہے۔
جنگ عظیم اول کے اختتام پر معاہدہ لوزان کے تحت ترکی کے عوام کے ساتھ ظلم کیا گیا اور انھیں ان کے جائز حقوق سے روک دیا گیا۔
جنگ عظیم دوم کے اختتام پر علمی یوم امن منانے کا اعلان کیا گیا اور امن کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ لیکن اگر ان کے عملی اقدامات کو دیکھیں تو یہ کسی صورت امن قائم کرتے نظر نہیں آتے۔
افریقہ کے ممالک میں نوآبادیاتی نظام قائم کر کے وہاں کے ذخائر اور قدرتی وسائل کا ناجائز استعمال کیا گیا اور آج بھی ترقی یافتہ ممالک وہاں سے ذخائر حاصل کرتے ہیں جو کہ وہاں کی مقامی آبادی کا حق ہے۔ جبکہ وہاں کی عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔
برصغیر میں غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر شروع ہوا جس کی وجہ سے آج تک خطے میں امن کی بحالی ممکن نہیں ہو سکی۔
فلسطین پر اسرائیل نے اپنا غاصبانہ تسلط قائم کیا۔
دہشتگردی کی زد میں عراق، افغانستان، شام اور پاکستان میں معصوم شہریوں کا قتل عام ہوا۔
ہیروشیما اور ناگاساکی ، ایٹم بم کی نذر ہوئے۔
یمن پر جنگ مسلط کر دی گئی۔
چین میں مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک اپنایا گیا۔
مغربی دنیا میں نصبی تعصب کی زد میں ہونے والے واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن میں انسانی بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑا دی گئیں مگر عالمی قوتوں اور امن کے علمبرداروں نے ان کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔
ان تمام حالات و واقعات کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ امن آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے حقیقی معنوں میں امن کے نظام کے قیام کی ضرورت ہے۔ اور امن کے قیام کے لیے جو اصول اسلام نے وضع کیے وہ اور کسی نظام میں نظر نہیں آتے۔ امن کے قیام کے بغیر انسانیت کا تصور ممکن نہیں۔ امن ہی انسانیت کی بقاء کا ضامن ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کایہ قول اس بات پر مہر ثبت کر دیتا ہے:
کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں۔