حضرت داتا گنج بخش سید علی بن عثمان الہجویریؒ اہل بیتِ اطہارکے نفوس قدسیہ سے کمال درجے کی عقیدت و تعظیم رکھتے تھے اور نہ صرف عظمت و شان اور طہارت و پاکی کے معتقد تھے بلکہ انہیں طریقت و حقیقت کے امام و پیشوا مانتے تھے خود بھی گھرانہ مساوات کے روشن آفتاب ہیں۔ آپ کا سلسلسہ طریقت بھی شیر خدا امام الاولیاء والاصفیاء علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔ اہل بیت اطہار کی نسبت، محبت و مودت کے ذریعے آپ نے مقام رفیع حاصل کیاحتی کہ آپ کی شان کا بیان حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ یوں کرتے ہیں۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
محبت و مودت اور حب اہل بیت وہ عظیم تذکرہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے حکم قرآن مجید میں حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ یوں فرمایا ہے۔
قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَن یَقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَهُ فِیهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَکُورٌ.
(الشوری، 34: 43)
فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت)پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی)قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)اور جو شخص نیکی کمائے گا ہم اس کے لئے اس میں اُخروی ثواب اور بڑھا دیں گے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے۔
حضرت امام شافعیؒ محبت اہل بیت کا تذکرہ اپنے اشعار میں یوں کرتے ہیں:
یا آلَ بَیتِ رَسولِ اللَهِ حُبَّکُمُ
فَرضٌ مِنَ اللَهِ فی القُرآنِ أَنزَلَهُ
اے رسول اللہ کی اولاد تمہاری محبت اللہ کی طرف سے فرض ہے اور(جس کا حکم)قرآن میں اس نے نازل فرمایا ہے۔
یَکفیکُمُ مِن عَظیمِ الفَخرِ أَنَّکُمُ
مَن لَم یُصَلِّ عَلَیکُم لا صَلاةَ لَهُ
تمہارے لیے اتنا فخر و عظمت ہی کافی ہے کہ جوتم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے۔
امام شافعیؒ نے دوسرے مقام پر اپنی محبت و مودت اہل بیت کا یوں اعلان فرمایا:
إِن کانَ رَفضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلیَشهَدِ الثَقَلانِ أَنّی رافِض
اگر حب اہل بیت رافضیت ہے تو جن و انس گواہ ہو جائیں کہ پھر میں رافضی ہوں۔
حضرت علی المرتضی اور حضرت فاطمہ الزہرا کا خانوادہ، اولیاء اللہ اور نیکوں کے سرداروں کا خانوادہ ہے۔ جہاں پر شرف اور تمام فضیلتوں کا منتہی ہوتا ہے۔ یہ گھرانہ آئمہ کا ہے۔ جنتی نوجوانوں کی سرداری، اسی گھرانہ کے چشم و چراغ حضرت امام حسن المجتبیٰ اورسید الشہداء حضرت امام حسین کو حاصل ہوئی ہے۔ جس کا ذکر امام ترمذی میں اپنی کتاب السنن میں بروایت حضرت ابو سعید خدریؓ نے کیا کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الحسن والحسین سیدا شباب اهل الجنة‘‘
(سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3768)
حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
تذکرہ آئمہ اہل بیت اور اس سے برکات حاصل کرنا اہل حق کا ابتدائے اسلام سے آج تک شیوہ اور وطیرہ رہا ہے۔ اور تاقیام قیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ باایں وجہ انہوں نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ان ائمہ اطہار کا تذکرہ انتہائی خوبصورت اور باوقار انداز میں رقم فرمایا ہے۔
شان سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا تذکرہ:
آپ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ساتویں باب باب فی ذکر ائمتہم من الصحابۃ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ صحابہ کرام یعنی خلفاء راشدین کے ساتھ کیا ہے۔
خلفائے ثلاثہ کا ذکر کرنے کے بعد آپ حضرت علی المرتضی کے بارے لکھتے ہیں:
و منهم برادر مصطفی، و غریق بحر بلا و حریق نار وَلا، و مقتدای اولیا و اصفیا، ابوالحسن علی بن ابی طالب، کرم اللّه وجهه.
(هجویری، علی بن عثمان، کشف المحجوب، لاهور، النوریه الرضویه پبلشنگ کمپنی، طبع 1435ھ، ص: 72)
اور انہی میں برادر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، غریق بحر بلا، حریق نارِ وِلا، مقتداء اولیاء وأصفیا ابو الحسن علی بن ابی طالب شیر خدا کرم اللہ وجہہ ہیں۔
تین خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم کے بیان کے بعد آپ نے حضرت سیدنا علی المرتضیؒ کے نامی گرامی کو جن القاب سے ادا کیا ہے وہ آپ کی شخصیت کے اہم اور عظیم پہلو بھی ہیں یعنی آپ ابتلاء و آزمائش میں تھے لیکن صبر و استقامت کا دامن کمزور نہ ہوا۔ اسی طرح اولیاء و اصفیاء خیرات طریقت و حقیقت سیدنا علی سے ہی حاصل کرتے ہیں۔
مزید برآں طریقت و حقیقت میں آپ کے مقام رفیع کو یوں درج فرماتے ہیں:
را اندر این طریق شأنی عظیم و درجتی رفیع است و اندر دقت عبارت از اصول حقایق حظی تمام داشت
ان کی شان جادہ طریقت میں بہت ارفع واعلیٰ ہے اور بیان حقیقت میں ان کی باریک بینی بہت بلند ہے۔
یعنی آپ طریقت وحقیقت کے میدان کے پیشوا و مقتدی ہیں تمام اولیاء اور اصفیاء آپ کے در کی خوشہ چینی کرتے ہیں اور حضرت داتا گنج بخش سید علی بن عثمان ہجویری نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقام اور معرفت دقائق و حقائق کو بیان کرنے کے لیے آپ کے بارے میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ
"شیخنا فی الاصول والبلاء علی المرتضی"
اصول و آزمائش میں ہمارے شیخ علی المرتضیؓ ہیں۔
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 72)
اصطلاح میں اصول سے مرادعلم تصوف و طریقت ہے۔
یاد رہے کہ مذکورہ بالا چند اقتباسات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم طریقت و حقیقت کے باب ہیں اور آپ خیرات حقائق و دقائق آقائے دوجہاں سے لے کر اولیاء امت میں تقسیم فرماتے ہیں:
حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویریؒ نے آٹھواں باب اہل بیت نبی کے عنوان سے باندھا ہے اور اس باب میں باقاعدہ تذکرہ اہل بیت سے قبل آپ نے ان مبارک ہستیوں سے متعلق اپنے عقیدہ طاہرہ کو بیان فرمایا ہے اس باب کے مقدمہ میں آپ نے دوضروری چیزوں کی تصریح فرمائی ہے۔
1۔ طہارت اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یعنی اہل بیتِ نبی کی طہارت اللہ کی طرف سے ہے۔ اوریہ مقدس ہستیاں کامل ہیں اور مشائخ طریقت کی امام بھی ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان الہجویریؒ اہل بیت کی طہارت کے بارے میں یوں رقمطراز ہوتے ہیں:
واہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنان کہ بطہارت ازلی مخصوص بودند
(هجویری، کشف المحجوب، ص:73)
اہل بیت اطہار وہ پاک ہستیاں ہیں کہ ان کی پاکی ازلی ان کی ذات کے واسطے مخصوص ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیرًا"
سورۃ الاحزاب، 33: 33)
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک)دُور کر دے اور تمہیں (کامل)طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
2۔ طریقت و حقیقت کی امامت:
مشائخ طریقت کی امامت کا بیان کرتے ہوئے صراحت یوں فرماتے ہیں:
ہر یکی را اندر این معانی قدمی تمام بودہ است و جملہ قدوہ این طایفہ بودند از خاص و عام
(هجویری، کشف المحجوب، ص:73)
اور ان میں سے ہر ایک طریقت میں کامل اور مشائخ طریقت کے امام ہیں اور جملہ خاص و عام کے قدوہ ہیں
حضرت امام حسن المجتبیٰ علیہ السلام:
حضرت داتا گنج بخش حضرت امام حسن المجتبی علیہ السلام کے مسائل تصوف پر کامل دسترس کے حوالے سے اور طریقت میں مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
منہم: جگربند مصطفی و ریحان دل مرتضی، و قرّۃ عین زہرا، ابومحمد الحسن بن علی، کرّم اللّہ وجہہ. وی را اندر این طریقت نظری تمام بود و اندر دقایق عبارات حظی وافر تا حدی کہ گفت اندر حال وصیتش.
(هجویری، علی بن عثمان، ص: 73)
ان میں سے جگر بندِ مصطفیٰ، ریحان دلِ مرتضی، قرۃ العینِ زہرا، ابو محمد حسن بن علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ ان کو طریقت میں نظر کامل عطا ہوئی اور تصوف کے مسائل حل کرنے اور اس کے دقائق بیان فرمانے میں آپ کو بڑاحصہ ملا ہے۔ آپ نے وصیت فرمائی۔
"علیکم بِحِفْظِ السَّرائِرِ؛ فانَّ اللّهَ تعالی مُطَّلِعٌ عَلَی الضَّمائِرِ"
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 73)
تمہیں اپنی اندرونی اسرار کا محفوظ کرنا لازمی ہے اس لیے کہ اللہ رب العزت ضمیروں کے حال کا جاننے والا ہے۔
اس مختصر اقتباس میں آپ نے سید امام حسن ؓ کی اہم صفات اور خوبیوں کو درج کیا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے حضرت اما م حسن کے آقائے دوجہاں، شیرخدا اور سیدہ کائنات کے ساتھ تعلق کو بیان کیا۔ پھر طریقت کے میدان میں آپ کے مرتبہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
حضرت امام حسین سید الشہداء علیہ السلام:
آپ نے حضرت امام حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
و منهم: شمع آل محمد، و از جملهٔ علایق مجرد سید زمانه خود، ابوعبداللّه الحسین بن علی بن ابی طالب، رضی اللّه عنهما از محققان اولیا بود و قبلهٔ اهل بلا و قتیل دشت کربلا.
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 76)
انہیں میں سے شمع آل محمد، از علائق خلائق مجرد، سید زمانہ خود، ابو عبد اللہ حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمیعن ہیں۔ جو محققانِ اولیاء کرام سے ہیں اور قبلہ اہل صفاء، قتل دشت کربلا ہیں۔
آپؒ نے حضرت امام حسین سید الشہداء علیہ السلام کی جن صفات قدسیہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ آپ آل محمد کی منور شمع ہیں نہ صرف اولیاء و اصفیاء کے امام ہیں بلکہ اہل بلاو آزمائش کے قبلہ و امام اور شہید کربلا ہیں۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام:
حضرت علی زین العابدین کو تصوف و طریقت میں وہ مقام حاصل ہے جو آج تک کوئی فرد واحد نہ حاصل کر سکا ہے اور نہ ہی قیامت تک کسی کو حاصل ہو گا۔ مزید برآں آپ کی فضیلت، بلند مقام و مرتبہ کی بے شمار مثالیں اور واقعات کتب تاریخ، سیر اور کتب تصوف کے روشن باب گردانے جاتے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش نے حضرت امام زین العابدین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
و منهم وارث نبوت و چراغ امت، سید مظلوم و امام مرحوم، زین العُبّاد و شمع الاوتاد، ابوالحسن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، رضی اللّه عنهما اکرم و اعبد اهل زمانهٔ خود بود و وی مشهور است به کشف حقایق و نشر دقایق. از وی پرسیدند که سعیدترین دنیا و آخرت کیست؟
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 77)
انہیں میں سے وارثِ نبوت، چراغ امت، سید مظلوم، امام محروم، زین عباد، شمع اوتاد، ابو الحسن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو اکرم اعبد اپنے زمانہ کے لوگوں میں سے گذرے۔ آپ بیان حقائق اور انکشافِ دقائق میں لوگوں کے اندر مشہور تھے۔ آپ علیہ السلام سے لوگوں نے پوچھا حضور! دنیا و آخرت میں نیک بخت شخص کون ہوسکتا ہے تو آپ ؑنے فرمایا:
مَنْ إذا رَضِیَ لَمْ یَحْمِلْهُ رِضاهُ عَلَی الباطِلِ، و إذا سخِطَ لَمْ یَخْرِجْہ سَخَطُہ مِن الحقِّ.
وہ شخص دارین میں نیک بخت ہو سکتا ہے، جب خوش ہو تو باطل پر نہ ہو اور جب غضبناک ہو تو اس کا غصہ اسے حق سے باہر نہ کر دے۔
حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ نے کشف المحجوب میں آپ کی شان عالی مرتبت سے متعلقہ ایک واقعہ یوں بیان فرمایا:
هشام بن عبدالملک بن مروان سالی بحج آمد، خانه را طواف می کرد، خواست تا حجر الاسود را ببوسد از زحمت خلق راه نیافت. آن گاه بر منبر شد و خطبه کرد. اندران میان زین العابدین، علی بن الحسین رضی اللّه عنه بمسجد اندر آمد با رویی مقمر و خدی منور و جامئه معطر، و ابتدای طواف کرد چون بنزدیک حجرالاسود فر از رسید، مردمان مر تعظیم او را حوالی حجر را خالی کردند تا وی مر آن را ببوسید.
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 78)
ایک دفعہ اموی بادشاہ ہشام بن عبد الملک بن مروان حج کے لیے آیا دوران حج اس نے ہجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ بعد ازاں اس نے خطبہ دینا شروع کر دیا۔ خطبہ کے دوران حضرت زین العابدینؓ تشریف لائے آپ کا چہرہ چمک رہا تھا۔ خال مبارک روشن تھے۔ کپڑے خوشبو سے مہک رہے تھے۔ آپ نے طواف شروع کیا جب حجر اسود کے پاس پہنچے تو لوگوں نے آپ کی تعظیم کرتے ہوئے حجر اسود کے اردگرد کو خالی کر دیا تاکہ آپ اس کو بوسہ دیں۔
مردی از اہل شام، چون آن ہیئت بدید با ہشام گفت یا امیرالمؤمنین ترا بحجرہ راہ ندادند کہ امیرالمؤمنین توئی آن جوان خوب روی کہ بود کہ چون بیامد مردم جملہ از حجر اندر رمیدند و آن حجر مر ذرا خالی کردند ہشام گفت من وی رانشناسم و مرا وی بدین آن بود کہ تا اہل شام مر او را نشناسند و بدو تولی نکنند و بامارت وی رغبت ننمایند.
شام کے کسی آدمی نے یہ کیفیت دیکھی اور ہشام کو بتادی۔ اور کہا اے امیر المومنین حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے لوگوں نے آپ کو راستہ نہ دیا۔ وہ خوبصورت چہرے والا نوجوان اندر آیا تو لوگوں نے حجر اسود کو خالی کر دیا۔ ہشام نے کہا کہ میں اس نوجوان کو نہیں جانتا۔ اور اس سے ہشام کی مراد تھی کہ شام والے آپ کو پہچان نہ لیں۔ آپ کو دوست نہ بنالیں۔ اور حکومت و امار ت کے لیے امام زین العابدین کی طرف رغبت نہ دکھائیں۔
فرزدق شاعر آنجا استادہ بود، گفت من او را نیک شناسم گفتندآن کیست یا با فراس ما را خبردہ کہ سخت مھیب جوانی دیدم فرزدق گفت شما گوش دارید تا من حال صفت دی بگویم فأنشاء فرزدق یقول:
(هجویری، کشف المحجوب، ص: 78)
فرزدق شاعر اس جگہ کھڑا تھا۔ اس نے کہا میں ان کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ لوگوں نے کہا وہ کون ہے۔ ابا فراس۔ ہم کو ان سے باخبر کر کہ بہت ہی دبدبے والا جوان دیکھا ہے۔ فرزدق نے کہا۔ آپ کان لگا کر سنیں۔ تاکہ میں ان کے حال۔ ان کی صفت اور ان کی نسبت کو بیان کروں۔ فرزدق نے اس وقت آپ کی شان میں ایک قصیدہ کہا۔
حضرت علی بن عثمان الہجویریؒ نے اپنی کتاب میں فرزدق کا وہ پورا قصیدہ کو رقم کیا ہے۔ قصیدہ کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
هَذا الَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَاء ُ وَطْأتَهُ
وَالبَیْتُ یعْرِفُهُ وَالحِلُّ وَالحَرَمُ
یہ وہ ہستی ہیں جن کے پائمال کرنے کو مکہ جانتا ہے۔ بیت اللہ شریف، حل اور حرم بھی انہیں جانتے ہیں۔
هَذَا ابْنُ خَیرِ عِبادِ اللہ کُلُّهِمُ
هَذَا التَّقِیُّ النَّقِیُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ
یہ اللہ تعالیٰ کے سب سے بہتر بندے کے بیٹے ہیں یہ متقی پاک طیب و طاہر علم و عمل کے پہاڑ ہیں۔
هَذَا ابْنُ فَاطِمَةَ، إنْ کُنْتَ جاهِلَهُ
بِجَدّهِ أنْبِیَاءُ اللہ قَدْ خُتِمُ
اگر تو ان سے جاہل ہے تو (سن یہ)حضرت فاطمۃ الزھراء کے بیٹے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے جد امجد پر نبوت ختم کردی ہے۔
من مَعشَرٍ حُبُّهُمْ دِینٌ، وَبُغْضُهُمُ
کُفْرٌ، وَقُرْبُهُمُ مَنجیً وَمُعتَصَمُ
آپ اس قبیلے سے ہیں جس کے ساتھ محبت کرنا دین اور اس سے بغض کرنا کفر اور ان کے قریب ہونا نجات اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔
إنْ عُدّ أهْلُ التّقَی کانوا أئِمّتَهمْ
أوْ قیل: من خیرُ أهل الأرْض؟ قیل: هم
اگر اہل تقوی کی گنتی کی جائے تو آپ ان کے امام ہوں گے اگر پوچھا جائے کہ سب سے بہتر کون ہیں تو کہا جائے گا اہل بیت رسول ہیں۔
مُقَدَّمٌ بعد ذِکْرِ اللہ ذِکْرُهُمُ،
فی کلّ بَدْء، وَمَختومٌ بہ الکَلِمُ
اللہ کے ذکر کے بعد ان کا ذکر سب سے پہلے ہوتا ہے ہر اس ابتداء میں جس سے کلام ختم ہوتا ہے۔
(فرزدق، أبو فراس همام بن غالب بن صعصعۃ، الدیوان، دار الکتب العلمیۃ، بیروت1407ھ، ص: 89۔91)
بلاشبہ اہل بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کے ساتھ محبت و مودت ایمان کی علامت و نشانی ہے چنانچہ آج تک جتنے بھی آئمہ و محدثین اور صوفیا ء گزرے ہیں ان میں سے کوئی بھی امام اور مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہل بیت کی محبت و مودت کا وافر حصہ نہ پایا ہو۔ جمیع صحابہ، تابعین، اتباع التابعین اور سلف صالحین نے اپنے اپنے انداز میں ان مقدس نفوس کے ساتھ اظہارِ محبت و عقیدت کیا ہے۔ بزرگان دین اور اہل تصوف میں سے ایک نا م حضرت داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویریؒ کا بھی ہے جو کہ تصوف و ولایت میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ اہل بیت سے والہانہ محبت و مودت رکھتے تھے چنانچہ آپ نے دیگر اکابرین امت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی بارگاہ میں اپنی کتاب کشف المحجوب میں نذرانہ عقیدت ومحبت پیش کیا۔ آپؒ نے آئمہ اہل بیت اطہار کے تذکرہ خیر کے لیے جن الفاظ کا چناؤ کیا اُن سے آپ کی ان نفوس قدسیہ کے ساتھ شدِت محبت اور والہانہ عقیدت واضح نظر آتی ہے۔ آپ نے اہل بیت اطہار کو تصوف کی اصل اور اصول قرار دیا۔ اللہ رب العزت ہمیں تمام اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنے اور ان کا دل سے احترام کرنے اور ان کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین