فرمانِ الٰہی
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ِللهِ ط فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ج وَلَا تَحْلِقُوْا رُئُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّہٗ ط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ ج فَاِذَآ اَمِنْتُمْ قف فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ ج فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ط تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ط ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَهْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
(البقرہ، 196)
’’اور حج اور عمرہ (کے مناسک) اللہ کے لیے مکمل کرو، پھر اگر تم (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جو قربانی بھی میسر آئے (کرنے کے لیے بھیج دو) اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی (کا جانور) اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے، پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو(اس وجہ سے قبل از وقت سر منڈوالے) تو (اس کے) بدلے میں روزے (رکھے) یا صدقہ (دے) یا قربانی (کرے) پھر جب تم اطمینان کی حالت میں ہو تو جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے تو جو بھی قربانی میّسر آئے (کر دے)، پھر جسے یہ بھی میّسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے (زمانۂ) حج میں رکھے اور سات جب تم حج سے واپس لوٹو، یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ (رعایت) اس کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مسجدِ حرام کے پاس نہ رہتے ہوں (یعنی جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو)، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔
(ترجمه عرفان القرآن)
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عَنْ ھِشَامٍ رضی اللہ عنہ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: ذَھَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَۃَ رضي اللہ عنها، فَقَالَتْ: لَا تَسُبَّہُ فَإِنَّہُ کَانَ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا (کیونکہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘
عَنِ الْبَرَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم لِحَسَّانَ: اهْجُھُمْ أَوْھَاجِھِمْ وَجِبْرِیْلُ مَعَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ. وفي روایۃ البخاري: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: یَوْمَ قُرَیْظَۃَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ: اھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَإِنَّ جِبْرِیْلَ مَعَکَ.
’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘
بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘
(المنهاج السوی من الحدیث النبوی صلی الله علیه وآله وسلم، ص: 462)