اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ.
(فصلت، 41: 53)
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ ‘‘
حدیث قدسی میں ہے: اللہ جل مجدہ کا ارشاد ہے:
میں نے ان لوگوں سے محبت کرنا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے جو از راہ میری وجہ سے لوگوں سے محبت کرتے میری وجہ سے مجلس میں بیٹھتے ہیں، میری وجہ سے کسی کی زیارت کرنے جاتے ہیں، چہرہ دیکھنے جاتے ہیں، میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔
(احمد بن حنبل 5: 233)
اولیاء کی محبت، ذکر، زیارت، تعلق و نسبت مجلس کا انعقاد خالصتاً من اللہ اور الی اللہ ہوتا ہے کوئی شخص اللہ کی دین کے بغیر اللہ کے ولی سے محبت نہیں کرسکتا جو دل اللہ کی محبت سے خالی ہے اس کا مطلب ہے اللہ نے ان دلوں کو محرومی کے لیے چن لیا ہے۔
حضور داتا گنج بخشؒ کا مشن روحانیت ہے۔ اس دور مادیت میں روحانیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی ہے کہ امت مسلمہ کو مادیت کا لبادہ اوڑھایا جارہا ہے جبکہ اسلام اور امت مسلمہ کی زندگی روحانیت سے ہے۔ آج روحانی دور زوال کے بہت سے اسباب وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آج امت مسلمہ روحانیت کے فکر، عمل، عقیدے اور نسبت سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کو روحانیت سے آشنا کرایا جائے۔
آج کے دور کا سب سے بڑا معیار علم سائنس ہے، آج کا تعلیم یافتہ طبقہ اور مادیت زدہ ذہن حقیقت میں تشدد زدہ ہے۔ مادیت زدہ ذہن یہ سمجھتا ہے، سائنس جس چیز کو تسلیم کرے وہی حق ہے جو چیز سائنسی اصولوں پر پوری نہ اترے وہ محض تخیل و تصور اور خیال ہے اور کچھ نہیں۔ سائنسی دنیا آج کے ترقی کے دور میں جس کو مقناطیسیت کہتے ہیں اس دور کی Latest سائنسی Theory ہے۔ جدید تحقیق پر آج امریکہ اور یورپ میں سیمینارز ہورہے ہیں۔ ریسرچ آگے بڑھ رہی ہے۔ Super Alectro-Magnatism (سپر الیکٹرو میگنیٹزم) جس کا مطلب روحانیت اور مقناطیسیت ہے تاکہ پرکھا جاسکے روحانیت کی حقیقت آج کے سائنسی تحقیق کی روشنی میں کیا ہے؟ اولیاء اس سائنسی دور کی روشنی میں کیا مقام رکھتے ہیں؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ہم عنقریب اپنی نشانیاں دکھادیں گے۔ اس پوری خارجی دنیا میں اور ان کی جانوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ تم پر آشکار ہوجائے گا کہ حق وہی ہے جو اس کا غیر ہے وہ باطل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ دنیا دو ہے ایک عالم خارجی اور ایک عالم داخلی۔ خارجی دنیا آفاق ہے۔ مادی کائنات ہے اور داخلی دنیا من قلب و باطن نفس و روح ہے۔ اللہ نے واضح کردیا کہ اللہ کی نشانیاں دونوں دنیائوں میں موجود ہیں۔ جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کو اللہ کی پیدا کردہ قوتوں کو اس خارجی دنیا میں دریافت کیا اور انہیں بروئے کار لائے۔ انہیں سائنس دان کہتے ہیں۔ اس مادی دنیا کو خواہ انسانی زندگی ہے یا آفاقی زندگی اس قوتوں کو بروئے کار لانے کا حق یا تحقیق سائنس کہلاتی ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے اس باطنی دنیا میں اللہ کی نشانیوں اور قوتوںکو تلاش کیا اللہ کی رضا کی سمت انہیں ڈھال کر بروئے کار لائے۔ وہ صوفیاء کہلاتے ہیں جو اس میں کامیاب ہوگئے وہ اولیاء ہوگئے۔ دونوں جگہ تلاش ایک ہی حقیقت کی ہے۔ وہ حقیقت مطلق ہے حقیقت اولیاء ہے۔ سائنس دان اس کو دریافت نہیں کرسکے لیکن ان کے پلڑے کی سمت وہی ہے وہ خارجی دنیا میں اللہ کے نشانیوں کو دریافت کرکے بروئے کار لارہے ہیں۔ صوفیاء اپنی داخلی اور باطنی دنیا میں اللہ کی نشانیوں کو یکجا کرکے اور اس کی رضا کی سمت ڈھال کر دریافت کرکے بروئے کار لائے ہیں۔ یہ عمل تصوف ہے جبکہ وہ عمل سائنس ہے۔ اس وقت تصوف کے حق اور سچ ہونے کی دلیل سائنس سے بہتر اور دوسرا کوئی نہیں ہے جو لوگ معمولی سا بھی سائنسی علم رکھتے ہیں انہیںمعلوم ہے کہ ہر مقناطیسیت کی مقناطیسی قوت ہوتی ہے جس کو Magnatic Fource کہتے ہیں۔ اس کا اثر اردگرد ماحول میں ایک خاص فاصلے تک ہوتا ہے جس قدر زیادہ طاقتور مقناطیس ہوگا اسی قدر فاصلے میں اس کا اثر ہوگا۔ جس حد تک مقناطیس کا اثر ہوتا ہے اسے میگنیٹک فیلڈ کہتے ہیں۔ سائنس دان اس دنیا کو بہت بڑا مقناطیس کہتے ہیں۔ اس زمین کی مقناطیسی قوت کا اثر فضاء میں ہر طرف 80 ہزار کلومیٹر تک جاتا ہے۔ مشتری سب سے بڑا سیارہ ہے اس کی مقناطیسی قوت زمین کے مقابلے میں اڑھائی لاکھ گنا زیادہ ہے۔ مقناطیسی قوت انرجی ہے۔ مادہ نہیں۔ روحانی ہے۔ مادہ روحانی میں بدل رہا ہے۔ انرجی مادہ میں بدل رہی ہے۔ زمین کی قوت 80 ہزار کلومیٹر تک مادے پر اثر انداز ہوتی ہے جو آج تک روحانیت کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے اور مادیت کے علمبردار ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ انہیں نہ مادیت کی خبر ہے نہ روحانیت کی خبر ہے۔ ان کے لیے سوال ہے جو آج تک اس وسوسے میں ہیں کہ اولیاء کرام اپنی پوری توجہ سے کسی مرید کو کیسے فیض یاب کرسکتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہاں بیٹھ کر داتا گنج بخش ہجویریؒ سے تعلق استوار کرنے کی بات کرتے ہیں کبھی خواجہ اجمیرؒ کے فیوض کی بات کرتے ہیں کبھی شہنشاہ بغداد کے عنایات اور نوازشات کی بات کرتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے اتنا دور وہ کون سا رابطہ ہے جو اثر انداز ہوجاتا ہے۔ یہ وہی رابطہ ہے جو زمین کو اللہ نے عطا کیا ہے جو 80 ہزار کلومیٹر تک مادے کو اپنا اثر دیتی ہے۔ مشتری اڑھائی لاکھ گنا زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ اس کائنات کی مادی حقیقتیں ہیں۔ جب مادی حقیقتیں جب روحانی کیفیتوں میں بدلتی ہیں تو وہ کروڑوں، اربوں، میلوں تک بغیر کسی مادی وابستہ کے اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ زمین، مشتری، سیارگانِ فلک مادی حقائق کائنات اپنی جگہ عرش سے فرش تک کائنات کے تمام تر حقائق کے لیے روحانی مقناطیس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے۔ روحانی مقناطیسیت کا نام حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
یہ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات میں جاری و ساری ہے مگر کچھ لوگوں کو معلوم ہوتی ہے اور کچھ کو نہیں ہوتی۔ زمین پوری مقناطیسی قوت کے ساتھ لبریز ہے مثلاً لوہا، سوئی رکھ دیں ہزار میٹریل رکھ دیں مگر سوئی کی خاص سمت متعین نہیں ہوگی پڑی رہے گی اس لیے کہ سوئی کا ربط اسی مقناطیسی قوت کے ساتھ نہیں ہے۔ اسی میٹریل سے بنا ہوا ایک کمپاس جس کو ربط دے دیا گیا ہے اس کمپاس کو رکھ دیں وہ فل فور آپ جہاں بھی ہوں گے وہ سمت کو جنوباً اور شمالاً متعین کرلے گا وجہ یہ ہے کہ زمین میں دو پول ہیں۔ نارتھ پول اور سائوتھ پول۔ شمال اور جنوب کے دو مرکز ہیں جہاں سے مقناطیسیت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ جسے کمپاس سے ربط نہ تھا ہزار میلوں کی مسافت کے باوجود لاکھوں اجسام پڑے رہے مگر جسے کمپاس سے ربط ہوگیا اسے زمین کے جس خطے پر لے جائیں اس کا چہرہ اسی پول کی طرف ہوجاتا ہے اس طرح لاکھ جسم ہیں مادیت زدہ، تعصب زدہ، تباہ و برباد جسم جس کا کوئی ربط نہیں نہ اللہ سے نہ اس کے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط مادیت کا ڈھیر ہیں۔ جو خود بے ربط ہیں وہ یہ ہی کہیں گے کہ ربط بن نہیں سکتا مگر وہ لوگ جو اپنے دل کو کمپاس بنالیتے ہیں مدینہ کے پول سے ربط قائم کرلیتے ہیں جو جدھر جاتے ہیں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ ادھر ہوتا ہے۔ ان کی روح ادھر ہوتی ہے۔ ان کا ربط قائم ہوجاتا ہے۔ کیا وجہ ہے؟ اس زمین کا نارتھ اور سائوتھ پول سوئی کو ایک خاص سمت دے سکتا ہے اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ انسانی قلب و روح کو سمت نہیں دے سکتی وجہ کیا ہے۔ وہی وجہ بے ربط مادوں میں ہے وہی وجہ بے جسموں میں ہے۔ زمین کے دو پول ہیں لیکن کائنات کا ایک ہی پول ہے۔ جیسے رب ایک ہے ایسے ہی مرکز فیض بھی ایک ہے۔ یہاں کا پول مدینہ ہے جس کے قلب کے سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی پھر وہ لغزش کا شکار نہیں ہوتا۔ جب اپالو 11، 12 چاند پر تسخیر کیے جارہے تھے۔ امریکہ میں سائنسدانوں نے اپنی لیبارٹریز اسٹیبلش کی تھیں۔ چاند گاڑی چاند پر اتر رہی تھی مگر ہدایات زمین کے مرکز سے لے رہی تھی۔ کوئی تاریں تو نہیں لگی ہوئی تھیں مگر ایک ربط تھا۔ وہ ربط انسان نے پیدا کرلیا ہے۔ زمین پر بیٹھ کر چاند کی پرواز کرنے والے کو ہدایات دے رہا ہے وہ ہدایات لے رہی ہے۔ اپالو11 غالباً 2011ء کی بات ہے ان کا ربط ٹوٹ گیا، ہدایات منقطع ہوگئیں وہ سفر میں تباہ و برباد ہوگیا۔ گردش نظام کی نذر ہوگیا اور منزل مقصود تک نہ پہنچ سکا۔ اپالو12 جس کا ربط قائم رہا منزل مقصود تک پہنچا۔ تحقیقات لے کر واپس آگیا۔ جس طرح اپالو کے سفر کے لیے امریکہ میں قائم کردہ مرکز چاند تک پرواز کا سفر کرنے والے کو اپنے نظم میں رکھے ہوئے تھا جس کا ربط قائم رہا وہ منزل تک جاپہنچا۔ جس کا ربط ٹوٹ گیا وہ تباہ و برباد ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے کائنات انسانی کے اندر ہدایت، رشد، فلاح نجات کامیابی اور منزل تک پہنچنے کے لیے مرکز نجات وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنادیا ہے۔ جس کا ربط تاجدار کائنات کے ساتھ رہے گا وہ کبھی تباہ و برباد نہیں ہوسکتا۔ جس کا ربط کٹ جائے گا وہ تباہی سے کبھی بچ نہیں سکتا۔ اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقناطیس بنتے کیسے ہیں؟ اس کے دو طریقے ہیں ایک الیکٹرک چارج میتھرڈ ہے دوسرا سٹروک میتھرڈ ہے ایک پکا مقناطیس بنانے کا ایک کچا بنانے کا طریقہ ہے۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
الیکٹرک کرنٹ گزارتے ہیں خاص وجود میں خاص پروسیسر میں وہ مستقل مقناطیس بن جاتا ہے، وہ مقناطیس کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی مقناطیسی قوت ہے۔ اس کی فیلڈز ہیں پھر وہ کام کرتا ہے۔ ایک طریقہ کچا ہے جو خود اس محنت سے نہ گزر سکے۔ الیکٹرک کرنٹ کے پروسیسر کو مکمل نہ کرسکے ان میں مقناطیسیت پیدا کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے اس کو سٹروک میتھرڈ کہتے ہیں۔ ایک مقناطیس لے کر عام لوہے کا ٹکڑا لے کر اس کے ساتھ رگڑ دیں اس سے مس ہونے سے بھی مقناطیسیت آجائے گی۔ مقناطیس کو ہاتھ میں اٹھائیں اس کے ساتھ لوہے کے ٹکڑے لگادیں، مقناطیس کو اٹھائیں ٹکڑے ساتھ لٹک جائیں گے کسی چیز سے باندھا ہوا نہیں ہے۔ عام لوہے کے ٹکڑے الگ پڑے ہوئے ہیں الگ ان میں کوئی کشش نہ تھی مگر مقناطیس سے ربط اور مس پیدا ہونے کی وجہ وہ ان کے ساتھ لٹک گئے پھر ان کے ساتھ سویاں چپکادیں یہ چپکتی چلی جائیں گی اس کو اولیاء کا سلسلہ کہتے ہیں۔
اولیاء الیکٹرک چارج میتھرڈ کے ذریعے روحانی مقناطیسیت پیدا کرتے ہیں۔ وہ تذکیر کے مرحلہ سے گزرتے ہیں مجاہدات نفس کرتے ہیں، وہ ریاضات کرتے ہیں وہ اطاعت کی بھٹی میں اپنے آپ کو پکاتے ہیں مجاہدات میں اپنے آپ کو فنا کرتے ہیں مجاہدہ کے دروازے سے گزر کر مقام مشاہدہ پر پہنچتے ہیں جب مشاہدہ ہوتا ہے تو مرکز فیض ان کے لیے کھل جاتا ہے۔ وہ پکے چارج ہوجاتے ہیں۔ پھر انہیں مختلف جگہوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ وہ جنہیں چارج مدینہ سے ملتا ہے وہ بڑا میگنٹ جوپوری دنیا میں پھیلا رہا ہے اسے چارج مقام کعبہ قوسین سے ملتا ہے۔ پھر ساری کائنات کے لیے ایک جگہ برقرار کردیا جاتا ہے پھر اس کے میگنٹ سٹروک میتھرڈ کے ذریعے تیار ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی داتا گنج بخش بناکرلاہور میں رکھا جاتا ہے۔ غوث اعظم بناکر بغداد میں رکھا جاتا ہے، کوئی خواجہ اجمیر بنایا جاتا ہے، حضرت مجدد الف ثانی بناکر سرحد میں رکھا جاتا ہے، کوئی بہائوالدین زکریا ملتانی بناکر ملتان میں رکھا جاتا ہے، کوئی شیخ سہرورد بناکر رکھا جاتا ہے مختلف جگہوں پر میگنٹ رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ہر میگنٹ کا ایک میگنیٹک فیلڈ ہوتا ہے۔ ہر ایک کا دائرہ سلطنت مقرر ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی اور دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ صوفیاء اور اولیاء کہتے ہیں کہ ان کا دائرہ کار ہوتا ہے جہاں ان کا حکم چلتا ہے جبکہ مادی ذہن پوچھتا ہے کیسے؟ اسی طرح ہر مقناطیس کا دائرہ ہے جہاں اس کا حکم چلتا ہے۔ اس دائرے کے اندر جو ذرہ آئے گا اسی سے چپکے گا جو اس سے مس ہوجائے گا اس میں مقناطیسیت منتقل ہوجائے گی پھر اس سے ملے اگلا اس سے ملے گا اگر ربط قائم رہے تو پھر سلسلے اولیاء کے قائم ہوجاتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ جسم موصل ہو۔ جو فیض لے بھی سکے اور دے بھی سکے کچھ اجسام غیر موصل ہوتے ہیں لکڑی غیر موصل ہے۔ اگر اسے آگ میں ڈال دیں وہ خود توجل جائے گی مگر اپنے ہی دوسرے کنارے تپش نہیں پہنچائے گی۔ اس میںاصال کا پروسیسر نہیں، لوہا موصل ہے۔ لوہے کو بھی اسی آگ میں رکھتے ہیں وہ خود جلے گا تپش لے گا۔ اس سے اگلے کنارے اس سے متصل تمام کناروں کو منتقل کرتا چلا جائے گا۔
یہاں انسان کو چاہئے کہ وہ موصل بنے وہ اپنی روح کا سر اس مقناطیسوں کے ساتھ مس کرے تو فیض ان میں آئے گا جو اس کے ساتھ منسلک ہوگا اس کو منتقل ہوتا جائے گا۔ سرکار غوث پاک کی طرح وہ صاحب اتصال یہ کہے گا جو ہم سے متعلق ہوگا وہ بھی ہمارے فیض و برکات سے محروم نہیں ہوگا۔ اس طرح اولیاء کرام اپنے روحانی چارج کے ذریعے اپنے روحانی مقناطیسیت بناتے ہیں سٹروک میتھرڈ کی شکل میں لوگ ان کے ساتھ مس ہوتے ہیں ان سے محبت اور اتباع کا تعلق استوار کرتے ہیں۔ ان کے نقش قدم پر چل کر ان کے ساتھ ملحق ہوجاتے ہیں اور محبت کے ذریعے قلبی لگائو کے ذریعے متصل ہوجاتے ہیں۔ ان میں ان کا فیض منتقل ہوتا ہے۔ روحانی فیض منتقل ہونے کی وجہ سے روحانی مقناطیسیت ان میں آجاتی ہے اس کو قرآن نے بیان کیا:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَہٗ.
(الکهف، 18: 28)
’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) ‘‘۔
انہوں نے مقصود و مطلوب کے سارے بت فنا کردیئے ہیں اور جینے مرنے کا ایک ہی مقصد بنالیا ہے۔
وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَکْبَرُ.
(التوبہ، 9: 72)
’’اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے ‘‘۔
فرمایا واصبر نفسک مع الذین اے بندے تو اپنی جان کو ٹکا اور جما کر ان کی صحبت میں رکھا کر۔ قرآن انسان کو انسان سے متعلق ہونے کا سبق دے رہا ہے جو صبح و شام اللہ کے ذکر میں فنا ہیں تو ان کی صحبت میں فنا ہوجا تو انکے تعلق میں مٹ جا۔ جم کر رہ جب جم کر رہے گا تو شراب عشق کے پیالے پورے میخانے جو ان کو عطا ہوئے ہیں تو کوئی جام تمہیں بھی عطا ہوجائے گا۔ اگر جام نہیں تو شراب معرفت کی کوئی بو ہی آجائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ مستوں کے گرد گھوما کر اس لیے کہ شراب معرفت کا کوئی گھونٹ تمہیں بھی نصیب ہوجائے گا۔ کوئی بات نہیں اگر گھونٹ نہ ملا تو شراب عشق الہٰی کی بو تو مل جائے گی۔ ممکن ہے تمہیں زکام ہو، بو ہو مگر تمہیں محسوس نہ ہو تو پھر بھی تو اس سے محروم نہ سمجھ تو کم ازکم انہیں دیکھ تو لے گا۔
ان عاشقان الہٰی کا تک لینا بھی بڑی غنیمت ہے جو ان کی صحبت میں آتے ہیں کچھ نہ کچھ پاکر جاتے ہیں محروم نہیں لوٹتے‘‘۔
وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْ.
(الکھف، 18: 28)
’’تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں‘‘۔
یہ عارف لوگ کی صحبت میں جمع اور نگاہیں ان کے چہروں پر جمائے رکھ۔ اگر تیری نگاہیں ان سے ہٹ گئیں تو دنیا کی زینت میں پھنس جائے گا۔ اے بندے تو دنیا کا طلب گار نہ بن آخرت کا بن، اے عاشق تو آخرت کا طلب گارنہ بن آخرت والے مولا کا طلب گار بن۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا.
(الکهف، 18: 28)
’’اور تم اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے۔‘‘
قرآن مجید جابجا بندوں کو بندوں کے پیچھے چلتے بندوں سے متعلق ہونے، بندوں کو بندوں کی صحبت میں جا بیٹھنے بندوں کو بندوں کے مکھڑے کو تکنے کی بات کررہا۔ یہ سڑوک میتھرڈ ہے اس سے فیض منتقل ہوتا ہے۔ آج کی دنیا، سائنس اور آلات سپر الیکٹرو میگنٹ کے ذریعے چل رہے ہیں۔ اس الیکٹرو میگنیٹک میں تین چیزیں توجہ طلب ہیں کسی میٹریل کی تاریں ہوتی ہیں ان میٹریل پر اتنی محنت کی جاتی ہے وہ ساری الیکٹریکل مزاحمت ہوتی ہے وہ ان کی ختم کردی جاتی ہے۔ اس کو روحانیت کے باب میں تزکیہ کہتے ہیں۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ.
(الاعلیٰ، 87: 14)
’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا‘‘۔
سپر الیکٹرو میگنیٹک فیڈکے لیے جو بجلی کے چارج کے خلاف مزاحمت تھی اس کو ختم کرنے پر محنت کی جاتی ہے۔ صوفیاء اطاع الہٰی کے خلاف جو نفس میں مزاحمت ہے اسے ختم کرنے پر محنت کرتے ہیں۔
وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی.
(الاعلیٰ، 87: 15)
’’اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا‘‘۔
نفس کی کثافتوں کو دور کرتے ہیں روزے رکھتے ہیں، عبادت کرتے ہیں، شب کی سجدہ ریزیاں کرتے ہیں، ریاضات کرتے ہیں، نفس کی کثافتوں کو، کدورات کو، رزائل کو ختم کرکے اپنے آپ کو مذکیٰ و مصفٰی کرتے ہیں تاکہ اطاعت الہٰی، قرب الہٰی، معرفت الہٰی کا نور ان کے اندر اتر سکے اور جاگزیں ہوسکے۔ دوسری شرط یہ ہے جب کوئل ٹھنڈا ہوتا ہے اس کو اتنا ٹھنڈا کرتے کہ وہ منفی 269 سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے تو الیکٹرک چارج زیادہ سے زیادہ کرنٹ کو اپنے اندر سما سکتا ہے۔ صوفیاء تزکیہ کے ذریعے نفس کی کثافتوں کو دور کرتے ہیں پھر وہ تصفیہ کرتے ہیں پھر اپنے اندر سے غصہ، تکبر، حسد و عناد، بغض و کینہ کو نکال دیتے ہیں۔ وہ ساری چیزیں جو فیض کو لینے میں رکاوٹ ہیں۔
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
(آل عمران، 3: 134)
’’اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔
وہ بے نفس ہوجاتے ہیں پھر کرنٹ لینے کے قابل ہوتے ہیں اس کو ہوائے نفس کی نفی کہتے ہیں۔
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰی.
(النازعات، 79: 40)
’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا‘‘۔
نفس جب ہوا سے خالی ہوگیا تو فیضان الہٰی لینے کے قابل ہوگیا۔ اس مقام پر پہنچ کر پھر وہ چارج ان میں آتا ہے پھر وہ سپر الیکٹرو میگنٹ بنتے ہیں پھر وہ دنیا میں سائنسی کائنات میں کرامات صادر ہونے لگتی ہیں۔ صوفیاء کا نفس رزائل سے پاک ہوکر فیضان الوہیت و رسالت کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں پھر وہ چارج ہوتے ہیں پھر وہ اولیاء اس مادی کائنات میں جس طرح نگاہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے وجود سے کرامات کا ظہور شروع ہوجاتا ہے پھر وہ سپر کنڈکٹنگ میگنٹ بن جاتے ہیں۔ آج ایکسرے مشینوںمیں استعمال ہورہے ہیں مریض کو میگنیٹک فیلڈ کے سامنے لٹا دیتے ہیں۔ یہ سپر کنڈکٹنگ میتھرڈ اس کے اندر پروسس ہوتا ہے جسے نیوکلیر میگنگ ریزولس کہتے ہیں یہ پروسیسر کام کرتا ہے اس پروسیس سے ننگی آنکھ اس جسم کی پردے کے اندر کیا ہے نہیں دیکھ سکتی مگر اس پروسس کے سامنے پردہ اٹھادیا جاتا ہے۔ کشف ہوتا ہے پھر دل کے اندر کیا؟ اس کی تصویر آتی ہے سینے پر کیا کیا داغ ہے؟ اس کی تصویر آتی ہے الٹرا سائونڈ آنے لگتے ہیں ساری چیزیں جو ننگی آنکھ کے لیے غیب تھیں اس سکینر کے لیے آشکار کردی جاتی ہیں۔ جو لوگ ابھی پردوں میں ہیں جنہوں نے ابھی تزکیہ و تصفیہ کی راہ نہیں دیکھی وہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ ابھی پردہ ہے۔ دکھائی نہیں دے سکتا اور جن کے پروسیس جاری ہوجاتے ہیں۔ ان کے سامنے بصورت کشف پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ جہاں بیٹھ کر توجہ کرتے ہیں ہزارہا میل کے کشف ہوتے ہیں۔ اندر کی چیزیں ان پر آشکار ہوتی ہیں۔ یہی پروسس میگنیٹک فورس اور فیلڈ کا ہے بجلی کے ذریعے اس میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حرارت میں بھی منتقل ہوتا ہے یہ لائٹ میں بھی منتقل ہوتا ہے اس سے بجلی بھی، روشنی بھی بنتی ہے یہ مکینیکل انرجی میں بھی منتقل ہوتا ہے جب مکینیکل انرجی آتی ہے جو جسم مردہ کی مانند ساکن پڑے ہوتے ہیں موو کرنے لگتے ہیں۔ ایک کھلونا لگائیں، ایک گڑیا لائیں اس میں بیٹری چارج ہوتی ہے تو گڑیا مردہ کی مانند ہے، پلاسٹک کا کھلونا ہے جس کے چلنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس بیٹری کے ڈالنے سے وہ کھلونا چلنے لگتا ہے۔ ہے تو وہ مردہ جسم جن میں وہ اعضاء پیدا نہیں کیے تھے وہ چل سکے لیکن اس پروسیسر کے ذریعے اس کو زندہ بنادیا جس طرح اس مادی دنیا میں انرجی کا نظام تن مردہ کو تن زندہ بناتا ہے اس طرح جب اولیاء کرام کی روحانیت جب اپنے پروسیس میں آتی ہے توہ تن مردہ کو تن زندہ بنادیتی ہے جس پر ولی کی نظر پڑ جاتی ہے وہ دل زندہ ہوجاتا ہے جو مردہ ہوکر صحبت اولیاء میں آتے ہیں تو اس صحبت سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں اور غافل دل ذاکر ہوتے ہیں۔
اس طرح قرآن گواہ ہے موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے ملنے گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی کاٹ کر تل لی ناشتے کے طور پر تیار کرلی۔ راستے پر مرج البحرین پر پہنچے جہاں حضرت خضر علیہ السلام رہتے تھے۔ قرآن میں ہے کہ پتہ نہیں بتایا گیا تھا بلکہ نشانی بتائی گئی تھی۔ فرمایا یوشع تلی ہوئی مچھلی لائو تاکہ سالن کھالیں اس وقت یوشع بن نون کو یاد آیا حضرت جہاں دو دریا مل رہے تھے وہاں وہ مردہ مچھلی زندہ ہوکر بھاگ گئی تھی۔
فَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا.
(الکهف، 18: 61)
’’پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی‘‘۔
اب موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ.
(الکهف، 18: 64)
جہاں مردہ مچھلی زندہ ہوگئی تھی ہم اسی کی تلاش میں نکلے تھے۔
فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِهِمَا قَصَصًا.
(الکهف، 18: 64)
دیکھتے دیکھتے پلٹے اس جگہ پہنچے جہاں پانی اور ہوا کی تاثیر یہ تھی کہ مردہ مچھلی کو زندگی مل گئی جب اس مقام پر پہنچے تو قرآن کہتا ہے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.
(الکهف، 18: 65)
’’جہاں مچھلی کو زندگی مل گئی تھی جب اس مقام پر پہنچے اس مقام پر ہمارے بندے کو پالیا جنہیں ہم نے اپنی خاص رحمت دی تھی اور خاص علم سے نوازا تھا‘‘۔
سائنسی حوالے سے بات یہ ہے جب چارج بڑھتا ہے تو موت زندگی میں بدلنے لگتی ہے۔ اللہ کا ولی جس جگہ قیام کرتا ہے وہاں کی ہوائیں اور فضائیں۔ اس کے سانس کی برکت سے اور اس کے وجود کے اثر سے وہ بھی حیات بخش ہوجاتی ہیں۔ ولی کا وجود ایک زندگی دیتا ہے کئی ایسے ہیں جو حیات بخش نہیں بلکہ گنج بخش ہوجاتے ہیں جہاں کوئی آتا ہے دلوں کو زندگی ملتی ہے نابینوں کو نظر ملتی ہے، مردوں کو زندگی ملتی ہے، دوری والوں کو قرب، جاہلوں کو علم ملتا ہے، فاسقوں کو ہدایت ملتی ہے، کافروں کوایمان کا نور ملتا ہے۔ جبکہ طلبگاروں کو خدا ملتا ہے وہاں پر خزانہ پایا جاتا ہے۔ حیات بخش اور گنج بخش۔ یہ اولیاء کا مقام ہے بڑے بڑے اولیاء اپنے ساتھ ایک ایک خزانہ رکھتے ہیں۔ کوئی ایک رکھتا ہے کوئی تین مگر حضور داتا گنج بخشؒ کو اللہ رب العزت نے بہت سے خزانے دیئے جس کی وجہ سے خواجہ اجمیرؒ نے انہیں گنج بخش کہا اور جگہوں پر عام سائل جاتے ہیں یہاں آقا جاتے ہیں اور جگہوں پر لینے والے جاتے ہیں ان کی بارگاہ میں خود دینے والے جاتے ہیں اور جگہوں پر وہ جاتے ہیں جن بننا ہوتا ہے ان کے بارگاہ میں وہ آتے ہیں جن کو بنانا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں آپ کی ذات اور مرکز سے اپنا قلبی اور روحانی تعلق استوار کرنے اور اس سلسلہ فیض سے خیرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین