حضرت علیؑ و فاطمہؑ کے گلشن اقدس کا تیسرا پھول جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں علیؑ و بتولؑ کی بڑی صاحبزادی، حسنؑ و حسینؑ کی خواہر گرامی اور سب سے عظیم الشان تعارف کی محل کہ آپ سرور کائنات رحمۃ للعالمین کی عظیم نواسی ہیں کہ جو اپنے نانا کے دین کو بچانے کے لیے دی جانے والی عظیم قربانی کا حصہ دار بنیں ایک روایت کے مطابق جناب زینب کبریٰ کی ولادت 5 ہجری میں ہوئی۔ مدینہ منورہ میں جناب علی علیہ السلام اور فاطمہؑ زہرا کے گھر میں ہر طرف خوشی وانبساط کا سماں تھا کہ جب جناب رسول خدا سفر سے واپس تشریف لائے تو نومولود کو دیکھنے کے لیے خانہ زہرا میں پہنچے بچی کو گود میں لے کر پیار کیا اور شہزادی کا نام زینب رکھا۔ نام رکھنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمناک اور رنجیدہ ہوگئے۔ جب آپ سے گریہ کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا کہ
’’یہ دختر بے انتہا شدائد و مصائب سے دوچار ہوگی‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب زینب سے بہت یار کرتے تھے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا کہ جس دن آپ شہزادی سے ملنے کے لیے تشریف نہ لاتے۔ بچی کو اپنی گود میں بٹھاتے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیاری نواسی کو پندو نصائح کرتے۔ جناب زینب کو بھی اپنے نانا سے بہت محبت تھی اور وہ بھی اپنے عظیم نانا کی زیارت کا بہت شوق رکھتی تھیں۔ فراغت کے اوقات میں زیارت محبوب خدا سے فیضیاب ہوئیں۔ زینب عالیہ نے ایسے پرنور ماحول میں پرورش پائی جو مرکز نزول وحی اور نزول برکات کا محور تھا۔ اکثر اپنے نانا سے درس آموزی کرتیں۔مسائل دینی سے آگاہی، عبادت و زہد و تقویٰ اور تحمل و برداشت کے ساتھ ساتھ فرض شناسی اور صراط مستقیم کے اصولوں سے بہرہ مند ہوتیں۔ لہذا جو دروس اور پند و نصائح بی بی نے اپنے نانا سے بچپن میں اخذ کیے تھے تمام زندگی آپ کے دل و دماغ پر ان کا غلبہ رہا یہاں تک کہ روز عاشورہ اور اس کے بعد بی بی کے کردار و عمل سے ان کی بھرپور عکاسی ہوتی رہی۔
نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ عظیم والد گرامی علی مرتضیٰؓ اور جناب فاطمہ زہراءؓ جیسی والدہ محترمہ کی یہ عظیم دختر اپنے دو بھائیوں کے بعد دنیا میں تشریف لائی تھیں گھر کی پہلی اور واحد دختر ہونے کی وجہ سے گھر میں اہم ترین اور عزیز ترین مقام پایا، تمام کنبے والے آپ کی بہت عزت و توقیر کرتے تھے۔ آپ کے دونوں برادر محترم حسنؑ و حسینؑ بھی اپنی ہمشیرہ سے بہت محبت کرتے تھے۔
سیدہ زینب کا شمار ان عظیم الشان ہستیوں میں ہوتا ہے جن کو پاکیزہ ماحول حاصل ہوا۔ اپنی حیات طیبہ کی ابتدائی منازل بی بی نے اس پاک و طاہر گھرانے میں طے پائیں۔ جب ثانی زہرا بلوغت کو پہنچیں تو آپ کی شادی حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار سے ہوگئی تو آپ نے اپنے گھر کی تشکیل فرمائی۔ بی بی کے لیے گھر میں ہر قسم کا سامان آرام و آسائش موجود تھا خدام مقرر تھے لیکن سیدہ فاطمہ کی بلند و عالی وقار بیٹی نے اپنے آپ کو عیش و آرام کا عادی بنانے کی بجائے دوسروں کی امداد و دستگیری اور خدمت خلق کا ذمہ اٹھالیا اور اپنی ذات کو دوسروں کی خدمت و نگہبانی کے لیے وقف کردیا۔ اپنے شوہر کے تفویض کردہ اختیارات کی بنا پر ستم رسیدہ، کمزور اور غرض مندوں کی امداد کرتیں۔ آپ کے در عنایت سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ اس تمام خدمتگاری کے علاوہ اپنے زمانے کی خواتین کی ہدایت و رہنمائی کا سلسلہ بھی جاری و ساری رکھا۔ آپ کے مکتب علم سے لاتعداد خواتین نے استفادہ کیا۔
جب امیرالمومنین علی المرتضیٰؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا تو جناب زینب بھی اپنے شوہر نامدار جناب عبداللہ کے ساتھ مع اولاد کوفہ تشریف لے آئیں اور کوفہ کی خواتین کو معاملات دین میں کسب علم کا موقع فراہم کرتی رہیں، کوفہ میں ثانی زہراء جناب زینب کا در اطہر نہ صرف محتاج خواتین کی پناہ گاہ تھا بلکہ تفسیر قرآن کا مرکز بھی تھا۔ آپ کوفہ کی خواتین کو تفسیر قرآن کا درس دیا کرتیں یہاں تک کہ خود امیرالمومنین بھی بسا اوقات اپنی دختر کے عمل تدریس کو ملاحظہ کرنے اور بہت سے مسائل میں آپ کو مزید بہرہ مند کرتے۔ المختصر کہ اس زمانے میں علی المرتضیٰؓ کی عظیم مملکت کے لیے سیدہ زینب جیسی صالحہ، مظہر عفت و عصمت، ایک ہمہ صفت معلمہ اور جامعہ صفات کی حامل خاتون کی موجودگی باعث برکت اور باعث افتخار تھی۔
حصول علم کے سلسلے میں جناب زینبؑ کا دامن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ طاہرین علی مرتضیٰ اور حسنؑ و حسینؑ کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ آپ مقام وحی کے ساتھ متصل تھیں لہذا علوم و معارف کے حوالے سے آپ کا میدان علم چشمہ خدائے لایزال سے سیراب ہورہا تھا۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا اخلاق حمیدہ کے اس مقام پر فائز تھیں کہ جس مرتبے پر ان کی مادر گرامی کے علاوہ کوئی خاتون متمکن نہیں ہوسکتی تھی، بی بی زینب نے یہ تمام صفات اپنی والدہ محترمہ سے وراثت میں حاصل کی تھیں، آپ کی مادر گرامی کے علاوہ مقام اخلاق میں کوئی خاتون ان کی ہم پلہ دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ فطری پاکیزگی، روحانیت و وجدان میں آپ سے بڑھ کر کوئی نہ تھا کیونکہ آپ چادر تطہیر کے سائے میں پلی بڑھی تھیں۔ لہذا جناب زینب اخلاق میں اس مقام پر تھیں کہ جو اخلاص کا مظہر تھا۔ آپ کے تمام اعمال و افکار دکھاوے کے لیے نہیں تھے بلکہ خلوص و ایمان کا مظہر تھے۔ بی بی نے جو بھی عمل سرانجام دیا وہ قبولیت پروردگار کے لیے خالص تھا۔ آپ کے معمولی سے معمولی عمل میں نفاق کا شائبہ تک نہ تھا اور ہوبھی کیسے سکتا تھا خانودہ عصمت و تقویٰ میں ظاہر داری کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کیونکہ آپ نے بزرگی و عصمت جناب علی مرتضیٰ سے ورثہ میں پائی تھی اسی لیے آپ کا رتبہ آسمان کی رفعتوں تک جاپہنچا۔ آپ کی ذات میں فاطمہ زہرائؓ کے وقار و شکوہ کی جھلک نظر آتی تھی۔ صبر و استقلال اپنے بڑے بھائی امام حسنؑ مجتبیٰ سے اخذ کیے اور شجاعت و بہادری اور جرات و سرفروشی اپنے دوسرے بھائی امام حسینؑ سے حاصل کیں۔
زینب عالیہ اپنے بھائی امام حسینؑ کی قربت کی بنا پر امت کے اسرار و رموز کی مخزن تھیں کیونکہ نور امامت وہ نور درخشندہ ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے روشنی حاصل ہوتی ہے۔ آپ اسی علم و اخلاق کی وارث تھیں جس میں جناب فاطمہ زہراؓ کی دانائی اور عظمت و روحانیت کے آثار نظر آتے ہیں۔ جناب زینب کی یہ حیثیت خواتین عالم کے لیے ایک درس ہے جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ آپ کی سیرت سے بہرہ مند ہوں۔ ریاضت اور طلب مغفرت خدا کے لیے سعی کریں اور اس ریاضت میں ریاکاری اور منافقت کا شائبہ تک نہ ہو کیونکہ جناب سیدہ طاہرہ اور ان کی دختر جناب زینب کی ریاضت و عبادت خواہشات نفسانی سے مبرا و منزہ تھیں اور خواہشات نفسانی کی پیروی میں اس مقام شوکت و رفعت کا حصول بھی ممکن نہیں جن پر جناب زہرا اور ثانی زہرا متمکن تھیں۔
جناب زینب عالیہ وہ عظیم و بے مثال خاتون تھیں کہ جن کی عظمت و شان کے تمام اہل علم معترف ہیں۔ آپ امام حسینؑ کے بعد حرم امام کی مکمل طور پر سربراہ تھیں۔ واقعہ کربلا میں آپ تنہا خاندان رسالت و امامت کی کفیل اور امام سجاد علیہ السلام کی محافظ تھیں اور بعد شہادت امام عالی مقام آپ نے اس قدر مصائب و آلام برداشت کیے لیکن ان تمام حالات میں آپ صبر و رضا کا پیکر بنی رہیں۔ بی بی خود اسیر تھیں دشمن کے قبضہ میں تھیں لیکن تمام قیدیوں کی سرپرست تھیں۔ بھوکی پیاسی ہوکر قیدی بچوں کے لیے دست نیاز پھیلائے رہتیں وہ آپ ہی سے کھانا مانگتے۔ روتے تو آپ کے دامن میں پناہ حاصل کرتے اور بی بی زینب جو کہ خود ایک ایسی خاتون تھیں جو ظالموں کے تازیانوں سے چور چور تھیں زخم خوردہ تھیں اپنے عزیزوں کی درد ناک شہادت کا غم سینے پر لیے ہوئے تھیں اتنی مجبور و بے بس تھیں کہ اپنے شہدا کی لاشوں کو بے کفن ہی چھوڑ آئیں انہیں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانے کی اجازت نہ مل سکی یہاں تک کہ دشمن نے ان شہداء کی لاشوں کو گھوڑوں سے پامال کردیا شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کرکے خیام اہل بیت کو جلاکر بربادکردیا۔ بیمار بھتیجے امام زین العابدین کے نیچے سے بستر تک کھینچ لیا گیا ان جلتے ہوئے خیام میں صرف چند خواتین اور بچوں کے سوا کچھ نہ بچا تھا لیکن یہ باہمت علی کی بیٹی ان سب کے لیے ڈھال بن گئی۔ زینب کبریٰ شجاعت و دلیری و بے باکی کا مجسمہ تھیں۔ وہ قوی حوصلہ اور عظیم ہمت کی حامل خاتون تھیں کہ دربار یزید میں جس اسلوب و انداز سے آپ نے گفتگو فرمائی وہ آپ کی قوت قلب و استقامت فکر کی روشن و محکم دلیل ہے۔
جناب زینب کے کمالات اور قوت روحانی کے ساتھ ساتھ آپ کا معیار و جذبہ عزت نفس بھی بے مثال ہے۔ جب سیدہ زینب کو ابن زیاد ملعون کے دربار میں لے جایا گیا تو آپ ایک غیر معروف خاتون کی طرح ایک گوشے میں بیٹھ گئیں۔ دیگر قیدی خواتین نے آپ کو گھیرے میں لے لیا۔ ابن زیاد ملعون نے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اسے بتایا گیا کہ یہ زینب بنت علیؑ ہیں آپؑ نے اس ملعون کے سامنے پہاڑ کی استقامت کا مظاہرہ کیا کہ اس ملعون کا غرور خاک میں مل گیا۔ ابن زیاد نے مخدومہ کونین کو غصے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں رسوا کیا، قتل کیا اور تمہارے دروغِ کذب کو ظاہر کردیا۔۔۔ سیدہ زینب عالیہ نے فرمایا۔
حمد ہے اس پروردگار کی جس نے ہمارے رسول کی طرف سے ہمیں عزت بخشی ہمیں ہر قسم کے رجس و ناپاکی سے پاکیزہ قرار دیا اور جو شخص بھی اپنے فسق و فجور کے باعث رسوا ہوتا ہے یا فجو رکی وجہ سے جھوٹ بولتا ہے وہ ہمارے علاوہ ہے۔ ہمارا غیر ہے اور اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
زینب عالیہ نے یزید ملعون کے دربار میں بھی اپنی اسی استقامت اور استقلال کو برقرار رکھا درحقیقت اس اسیری کے سفر میں جو واقعات کوفہ و شام میں پیش آئے وہ اس قدر شدید تھے کہ کوئی بھی شخص اپنے اعتدال و توازن کو کھوسکتا تھا لیکن علی کی شجاع بیٹی نے ان تمام صعوبتوں کے صدموں میں اپنے حوصلے کو قائم رکھا۔ سیدہ زینب قوی و پر زور قوت ارادی کی مالک تھیں اور اپنے اس قوی ارادہ کو راہ خدا میں بروئے کار لاتی رہیں۔ انسان کی قوت ارادی اس کی روحانیت سے براہ راست متعلق ہوتی ہے چنانچہ اس مقام پر بھی بی بی زینب ہمیں ایسی شجاع اور قابل تقلید خاتون کے طور پر نظر آتی ہیں کہ جنہوں نے خوف و و حشت اور اضطراب و اضطرار میں بھی پروردگار عالم سے لو لگالی۔ ثانی زہرا کی قدرت کلام و خطابت، آپ کی جرات و توانائی وبزرگی کی حقیقت یہی تھی کہ آپ نے اپنے پروردگار کے سامنے مکمل خودسپردگی کرتے ہوئے اسیری کی مشکلات و مصائب کو تحمل و برداشت سے جھیلا آپ نے بغیر احساس نقاہت۔ مدینہ سے مکہ، مکہ سے کربلا اور کربلا سے کوفہ و شام کے جاں فرسا سفر کو طے کیا۔ پروردگار کی رضا کی خاطر ان تما م مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے اپنے بھائی کی شہادت کے مقصد کو زندہ رکھا۔ آپ کے ایمان و اعتقاد میں کسی قسم کی لچک نہیں آئی حالانکہ آپ کو سنگین روحانی صدمات کا سامنا تھا لیکن چونکہ آپ کا مقصد زندگی خدائے لا یزال کی خاطر مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے آپ کے پائے استقلال میں کسی قسم کی لرزش نہ آئی کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار اس بات کا شاہد ہے اور وہ آپ پر آنے والی تمام مصائب کو دیکھ رہا ہے جو آپ کو اس کی راہ میں اٹھانے پڑ رہے ہیں۔
سیدالشہداء کے شہید ہوتے ہی ثانی زہرا کا جہاد شروع ہوگیا۔ جہاں سے ایک بڑے جہاد کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ جہاد خونِ ناحق کی اشاعت اور پیغام کا، ثانی زہرا کے ذمہ اب یہ قرض تھا کہ واقعہ کربلا کو تاریخ کے صفحات تک پہنچائیں اور مستقلاً اس واقعہ کو اوراق پر ثبت کردیں اگرچہ دشمن نے ان واقعات کی تفصیلات رقم کرنے کے لیے ملازم مقرر کیے ہوئے تھے لیکن ان کی یہ کارکردگی بے کار ثابت ہوئی کیونکہ زینب علیہا السلام نے ان کے تحریر کردہ واقعات و نقوش کو حرف غلط کی طرح مٹاکر رکھ دیا۔
جناب زینب نے کوفہ و شام کے لوگوں کا باور کرایا کہ اس دور میں حکومت کی باگ دوڑ ایسے لوگو ںکے ہاتھوں میں ہے جو دین سے منحرف ہیں۔ اسلام پر وہ لوگ حکمران ہیں جو دین کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔ عوام الناس کو خبردار کیا کہ یہ افراد شراب نوشی اور ناپاک افکار کو پھیلارہے ہیں یہ ہرگز اس قابل نہیں کہ اسلامی حکومت کی سربراہی ان کے سپرد کی جائے۔ دربار یزید اور ابن زیاد کے دربار میں ثانی زہرا نے یہ واضح کردیا کہ یزید کے اعمال عدل و انصاف کے متصادم ہیں۔ اس نے اپنے گھر کی عورتوں کو تو پردہ میں رکھا ہے اور رسول زادیوں کو ننگے سر بازاروں اور درباروں میں پیش کیا جارہا ہے۔ الغرض جناب زینب نے اپنی اسیری پر پڑے ہوئے جہل و مکرو فریب کے دبیز پردوں کو چاک چاک کردیا جو حکومت وقت نے لوگوں کی عقلوں پر ڈال رکھے تھے۔ آپ نے یزید کے شرمناک افعال بلکہ کفر کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ عوام الناس نے علی کی بیٹی کے دلیرانہ خطبات کو جب سنا توانہیں معلوم ہوا کہ امام عالی مقام کی شہادت کیونکر ہوئی اور اس کا مقصد کیا تھا اور آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود امام حسینؑ کا پیغام زندہ ہے۔
قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی
نہ کوئی لشکر، نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر
غرور ظلم و ستم کے پردے اڑ گئی ہے علی کی بیٹی
ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی
(محسن نقوی)