بلاشبہ قوموں کی تعداد اور استحکام میں شخصیات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ زندہ قوموں کا وجود ان کے عظیم قائدین کی قیادت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ گذشتہ صدی میں مسلمانوں میں ایسے بڑے بڑے لیڈر پیدا ہوئے جن کی نظیر آئندہ تاریخ شائد ہی پیش کرسکے ان لیڈرو ںنے اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے مسلمان قوم کو بیدار کیا۔ ان میں ملی احساس اور قومی جذبہ کو ابھار کر جدوجہد پر آمادہ کیا اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا مقصد متعین کیا۔ ان کی صفوں سے انتشار ختم کرکے انہیں ایک جھنڈے تلے متحد و منظم کیا اور دنیا کو دکھا دیا کہ خدا پر ایمان، خلوص نیت و کردار میں صدق و دیانت اور عزم صمیم سے ہر انفرادی اور اجتماعی دشواری پر غلبہ پایا جاسکتا ہے۔ ان لیڈروں میں قائداعظم محمد علی جناح کا نام گرامی سر فہرست ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر مسلمانوں نے برسوں حکومت کی لیکن مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ خطہ بلا واسطہ انگریز کی غلامی کے نرغے میں آگیا اور مسلمان اپنے مقصد حیات سے غافل ہوتے گئے اسی وقت میں چند مسلمان شخصیات آگے بڑھیں اور مسلمانوں کی ڈوبتی کشتی کو اوج ثریا تک پہنچانے کا عزم بنالیا۔ انہیں شخصیات میں سے معتبر شخصیت حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہے۔
آپ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام جناح پونجا تھا آپ کو چھ سال کی عمر میں مدرسے میں داخل کرادیا گیا۔ بنیادی تعلیم مکمل کرکے آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1892ء کو انگلستان چلے گئے۔ 1896ء میں بیرسٹر ہوئے اور وطن کی راہ لی 1902ء میں وکالت کے لیے بمبئی تشریف لے گئے۔ آپ نے سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے حوصلہ اور بہادری کے ساتھ کام کیا قائداعظم کچھ دیر دادا جی نور بھائی کے پولیٹیکل سیکرٹری بھی رہے۔
آپ نے دسمبر 1904ء میں بمبئی میں کانگرس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کرکے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے۔ ابتدا میں قائداعظم کا رجحان آل انڈیا نیشنل کانگرس کی طرف زیادہ تھا اس وقت مسلم لیگ نوابوں کی جماعت تھی بمبئی میں وکالت کے پیشہ کے آغاز میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان دنوں عدالتی دلال روزانہ کی خدمت میں آکر کہتے کہ اگر آپ ہمیں کل فیس کا آدھا دے دیں تو ہم زیادہ سے زیادہ مقدمات آپ کے پاس لائیں گے اس پر قائداعظم نے انہیں جواب دیا۔
’’میں ایسا کبھی نہیں کروں گا ایسا کرنے سے مجھے بھوکا رہنا بہتر ہے‘‘۔
قائداعظم عدالت میں اک خاص انداز سے کھڑے ہوتے پھر ایسا مونوکل آنکھ پے لگاتے اورنہایت پراعتماد اسٹائل سے بحث کرتے اس دوران کمرہ عدالت میں مکمل خاموشی چھا جاتی۔ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران جج کے تنقید کرتے ہوئے کہا مسٹر جناح میں آپ کی آواز نہیں سن پارہا ذرا اونچا بولیں جواباً قائداعظم نے نہایت پروقار انداز میں فرمایا:
’’میں بیرسٹر ہوں ایکٹر نہیں جج صاحب‘‘ قائداعظم اولوالعزمی کی عظیم داستان بنے فاطمہ جناح اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں قائداعظم کی ہمت و شجاعت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ قائداعظم کی بیماری جب شدت اختیار کرتی جارہی تھی تو میں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا جس پر انہوں نے کہا ’’فاطمی کیا تم نے کسی جرنیل کو اس وقت رخصت پر جاتے دیکھا ہے جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقاء کے لیے برسرپیکار ہو‘‘ اس پر میں کہتی کہ مجھے آپ کی زندگی بہت عزیز ہے محمد علی جناح جواب دیتے کہ مجھے ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی زندگی عزیز ہے۔
قائداعظم کی زندگی میں 1931ء سے 1940ء تک کا دور ایسا دور تھا کہ جس میں انہیں چومکھی سیاسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا یہ وہی دور تھا جب کانگرسی راہنمائوں اور ہندوئوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ کانگرس ہی ہندوستان کی تمام قومیتوں کی برملا نمائندگی کرنے والی واحد جماعت ہے اور اقتدار حاصل کرکے حکومت بنانا بھی کانگرس کا حق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کا یہ فلسفہ بھی تھاکہ ہندو مسلم اتحاد ہی ملک کو آزاد کراسکتا ہے اور ملک کو تقسیم کرنے کی بجائے اس کی اکائی کو برقرار رکھا جائے۔
سازشوں کے اس دور میں قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو مضبوط کیا اور انہیں ایک پراعتماد قوم بنانے کے لیے اتحاد، یقین اور نظم کا نعرہ لگایا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے 1940ء کے خطبہ میں فرمایا ’’حقیقت یہ ہے کہ دونوں مذاہب اسلام اور ہندومت صرف مختلف مذاہب نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف دو معاشرتی نظام ہیں۔ متحدہ قومیت اک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک مکمل مستقل قوم ہیں اور ہندو قوم سے جداگانہ قومی تشخص رکھتے ہیں۔ اپنا ایک نظریہ حیات رکھتے اور اکثریتی آبادی والے مسلم علاقوں میں حق خود اختیاری کا حق رکھتے ہیں۔
آپ نے قرار داد پاکستان کی منظوری 1940ء کے بعد سات سال کے قلیل عرصہ میں اس قدر جدوجہد اور تگ و دو کا مظاہرہ کیا کہ انگریز اور ہندو مجبور ہوگئے کہ مسلمانوں کے مطالبہ علیحدہ مملکت کو تسلیم کرلیا گیا یہ مشکل اور کٹھن مرحلہ صرف قائداعظم کی مدبرانہ قیادت اور کرشماتی شخصیت کی بدولت طے ہوا اور علامہ اقبال کا خواب جسے ہندو خام خیالی تصور کرتے تھے شرمندہ تعبیر ہوا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر پہلی ریاست جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی کے طور پر ابھرا۔ بے شک پاکستان کا قیام قائداعظم کی جیتی جاگتی کرامت ہے۔ اس عظیم اسلامی ریاست کو حاصل کرنے کے بعد قائد نے واضح کردیا کہ پاکستان کا نظام اسلامی ہوگا اور فرمایا:
’’آج اسلام اصول زندگی کی سرگرمیوں میں ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسا کہ 1300 سال پہلے تھے اسلام کی تعلیمات نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانوں میں مساوات، عدل اور دوسروں سے بھلائی کرنے کا درس دیا ہے۔ ہم ان مقدس روایات کے وارث ہیں اور ان ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا پورا ادراک رکھتے ہیں جو ہم ہر پاکستان کے مستقبل کے آئین بنانے کے سلسلہ میں عائد ہوتی ہے‘‘۔
آپ نے 25 مارچ 1940ء کو افسران کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ کو قوم کے خادم کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے ہیں چونکہ سرکاری ملازم کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہوتا ہے اس لیے اسے سیاست سے الگ رہ کر عوام کی خدمت کرنی چاہئے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آج اگر اس کا جھکائو ایک خاص پارٹی کی طرف ہے لیکن کل کوئی دوسری پارٹی برسراقتدار آجاتی ہے تو اس طرح اسے پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لہذا سرکاری افسران کو سیاست سے الگ رہ کر عوامی خدمت کار کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔
علاوہ ازیں آپ کو انصاف ایمانداری اور ثابت قدمی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ان چیزوں پر عمل پیرا ہوکر آپ عوام کے دلوں میں ایسا بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے جس طرح انتہائی مشکل حالات میں برصغیر کے مسلمانوں کی راہنمائی فرمائی اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ پاکستان کی آئینی بنیاد، اسلامی اصولوں کے عین مطابق رکھنا چاہتے تھے جس کے تحت ہر خاص و عام کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔ قائداعظم دین اور سیاست کو ایک ساتھ لے کر چلنے کے حق میں تھے۔ آپ کرپشن، رشوت ستانی، بدعنوانی اور اقربا پروری کے سخت خلاف تھے اور ان برائیوں کو ریاست کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے آپ میرٹ اور قانون کی حکمرانی پر کامل یقین رکھتے تھے۔ قائداعظم دراصل ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں کسی قسم کی کرپشن انتہا پسندی، دہشت گردی نہ ہو۔ جہاں سرکاری ملازمین عوام کے خادم بنیں۔ افواج پاکستان سیاست میں مداخلت کی بجائے ملکی سرحدوں کی حفاظت کریں اور عوام کے منتخب نمائندے امور سلطنت کو چلانے میں خور مختار بنیں تاکہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی مستحکم بنیادوں پر استوار کیا جاسکے اور ریاست کا ہر فرد خوشحال زندگی گزارسکے۔