ماضی میں پوری دنیا میں مختلف نظام ہائے حکومت رائج رہے جن میں اشرافیہ حکومت بھی رہی اور خلفائے راشدین کا پاکیزہ نظام خلافت بھی۔ بادشاہتیں بھی قائم رہیں اور آمریتیں بھی مگر موجودہ دور میں اب بھی بعض ممالک میں بادشاہتیں اور آمریتیں کسی نہ کسی صورت موجود ہیں البتہ زیادہ تر ممالک میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے۔ جمہوری حکومت کو عرف عام میں عوامی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔
لفظ ’’جمہوریت‘‘ دو یونانی الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ پہلا (ڈیموس) جس کا معنی ’’عوام‘‘ ہے جبکہ دوسرا لفظ (کراتوس) جس کا معنی ’’اختیار اور حکومت‘‘ ہے۔ چنانچہ جمہوریت کا معنی ’’عوامی اختیار‘‘ یا ’’عوامی حکومت‘‘ ہے۔
ابراہم لنکن نے جمہوریت کی مختصر اور جامع تعریف کی ہے۔
Government of the people, by the people for the people
’’عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کی مرضی سے‘‘۔
یہاں دیکھنا یہ ہے کہ معروف جمہوری نظام حکومت کے بنیادی اصول کیا ہیں کیونکہ ہم کسی ایسے نظام حکومت کو جمہوری نہیں کہہ سکتے جو بنیادی جمہوری اصولوں سے ہٹ کر ہو۔ اس سلسلے میں ماہرین سیاسیات جمہوری نظام حکومت کے کچھ اصول بیان کرتے ہیں:
1۔بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی:
کسی بھی جمہوری ریاست میں رہنے والے افراد کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آزادیٔ اظہار رائے، مذہبی آزادی اور احتجاج کی آزادی حاصل ہو۔ ہر شہری کو رنگ، نسل، زبان، حسب و نسب سے بالاتر ہوکر حقوق حاصل ہوں۔
2۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات:
نظام انتخابات نہایت صاف شفاف ہو تاکہ اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے ہوسکے۔ دوران انتخابات کسی قسم کی دھاندلی نہ ہو۔ دھن اور دھونس کے ذریعے عوامی رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ووٹ دینے والا ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو اور اپنی مرضی سے اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔
3۔ احتساب:
جمہوری نظام حکومت میں تمام تر فیصلے صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اپنی ذاتی خواہشات اور احباب کی پسند و ناپسند کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نمائندے ہمیشہ عوام کے سامنے جواب دہ رہتے ہیں۔ جواب دہی اور احتساب کا نظام نہایت کڑہ ہوتا ہے۔
4۔ حکومت میں عوام کی شراکت:
جمہوری نظام حکومت میں ہر فرد کو مواقع میسر ہوتے ہیں کہ وہ حکومت کا حصہ بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ حکومت میں عوام کی شراکت ہی اسے حقیقی معنوں میں جمہوری حکومت بناتی ہے۔
5۔ آزاد عدلیہ:
آزاد عدلیہ کسی بھی جمہوری نظام حکومت کا بنیادی رکن ہے۔ آزاد عدلیہ کے لیے نہ صرف ججز اور ان سے منسلک دیگر افراد کا بدعنوانی سے پاک ہونا ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس قدر امانت دار، نڈر، غیر متنازعہ اور انصاف پسند ہوں کہ معاشرے میں امیر، غریب، طاقتور اور کمزور میں فرق کیے بغیر انصاف بہم پہنچاسکیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہو اور کوئی شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قانون اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔
الغرض یہ وہ چند بنیادی جمہوری نظام حکومت کے اصول ہیں جن کے بغیر کوئی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ جمہوری نظام حکومت کے ذیل میں جب ہم پاکستان کے نظام حکومت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ ایک نام نہاد جمہوری نظام نظر آتا ہے کیونکہ یہاں جمہوری نظام حکومت کی نفی نظر آتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں 11.4 فی صد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا اور باقی افراد نے نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ لوگوں کو اس نظام پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کوئی دوسرا راستہ اپنا کر طرزِ حکومت تبدیل کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں 1950ء سے اب تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں وہ سب دھاندلی زدہ تھے۔ ہمارے ہاں نہ صرف انتخابات میں استحصال کیا جاتا ہے بلکہ ووٹرز کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی ممکن نہیں ہوتی۔ اشرافیہ کا ایک خاص طبقہ یکے بعد دیگرے کرسی اقتدار پر براجمان ہوتا ہے۔ عوام کی حکومت میں شراکت داری تو دور کی بات ان کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو بھی ممکن بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ٹیکس چور اور جعلی ڈگریوں کے حامل افراد اسمبلیوں کا حصہ بنتے ہیں اور اپنے قدم مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان سے قانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہورہا۔ ملک کا طرز حکمرانی کرپشن پر مبنی ہے۔ امیر اور طاقتور اپنی مرضی کے فیصلے لے رہا ہے اور غریب اور کمزور عدالتوں کے دھکے کھارہا ہے۔ آج 73 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کے عوام حقیقی جمہوری نظام حکومت کے متلاشی ہیں۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسی حقیقی جمہوریت کی بحالی کی خاطر 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان کے زیر سایہ لاکھوں عوام پاکستان کا ایک فقیدالمثال اجتماع کیا اور موجودہ نظام حکومت کے تمام تر نقائص بیان کرنے کے ساتھ ’’کیسے نظام حکومت کی ضرورت ہے؟‘‘ پر سیر حاصل گفتگو کی تاکہ حقیقی جمہوریت کی بحالی کا سفر شروع کیا جاسکے۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر قوم ساتھ دے تو 1947ء کا پاکستان شروع کرسکتا ہوں‘‘۔
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جس میں قانون کی بالادستی ہو کرپشن اور بددیانتی کا خاتمہ ہوجائے، انتخابات میں استحصال کا خاتمہ ہو، امیدوار اور سپورٹرز کی جان کی حفاظت ہو، معاشرتی انصاف کی دستیابی اور برائیوں کا خاتمہ ہو، لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو، کمزور اور طاقتور کے مابین توازن ہو، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن ہو، ذرائع آمدن اور وسائل میں غیر معمولی فرق نہ ہو، ٹیکس چور اور جعلی ڈگریوں کے حامل ارکانِ پارلیمنٹ نہ ہوں، نظام انتخاب اتنا صاف شفاف اور بدعنوانی سے پاک ہو کہ کوئی اس پر اعتراض نہ اٹھا سکے اور حکومتوں کا بنتا اور اقتدار کی منتقلی ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی مداخلت سے پاک ہو۔
15 ستمبر کو ہر سال جمہوریت کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے تاکہ جمہوریت کے فروغ اور ترقی کے اصولوں کا جائزہ لیا جاسکے۔ آئیں! ہم بھی اپنی 73 سالہ ’’جمہوری زندگی‘‘ کا جائزہ لیں کہ ’’کیا کھویا اور کیا پایا‘‘ اور آئندہ کے لیے عہد کریں کہ حقیقی جمہوریت کی بحالی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے تاکہ مصائب میں گھری اس قوم کو سکون نصیب ہوسکے۔