اسلام کا طرزِ معیشت خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے، جس میں قرضِ حسنہ کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر مضاربہ کی صورت میں سرمایہ کاری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
بیع مضاربہ
دو یا زائد افراد کے درمیان ایسا معاملہ جس میں ایک فریق سرمایہ فراہم کرتا ہے اور فریقِ ثانی اس سرمائے سے اس معاہدے کے تحت کاروبار کرتا ہے کہ اسے کاروبار کے منافع میں سے ایک متعین نسبت سے حصہ ملے گا۔
مضاربت کے بارے میں احادیث
1۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ مخصوص شرائط کے ساتھ مضاربت کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ نے اظہار پسندیدگی فرمایا۔ (المبسوط)
2۔ ابونعیم راوی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال کو مضاربت کے طور پر حاصل کر کے شام میں تجارت کی۔ (المبسوط)
3۔ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ مضاربت میں برکت ہے۔ (ابوداؤد)
4۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ مضاربت کیا کرتے تھے۔ (التبرکات فی الفقہ الاسلامی)
5۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے پاس لوگوں کو جمع شدہ سرمایہ مضاربت کے طور پر کاروبار کیلئے دیا کرتی تھیں۔ (التبرکات فی الفقہ الاسلامی)
6۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی زید بن خلیدہ کے ساتھ مضاربت کی۔ (المبسوط)
7۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے بھی مضاربت کے اصول پر کاروبار کے لئے رقم دی۔ آپ یتیموں کا مال مضاربت کے اصول پر کاروبار کے لئے دیتے تھے تاکہ اس میں اضافہ ہو۔ (المبسوط)
مضاربت کے احکام
1۔ مضارب کو مال حوالہ کرنے کے بعد اور کاروبار شروع کرنے سے پہلے تک اس مال کی حیثیت امانت کی ہے اور امانت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے اور جب رب المال اس رقم کو واپس مانگے تو اس کی واپسی بھی مضارب کی ذمہ داری ہے۔ مال ضائع ہو جانے کی صورت میں مضارب پر جرمانہ نہیں ہوگا۔
2۔ کاروبار شروع ہوجانے کے بعد مضارب کی حیثیت رب المال کے وکیل (نمائندہ)کی ہو جاتی ہے۔
3۔ کاروبار میں منافع ہونے کی صورت میں مضارب کی حیثیت مالیاتی معاہدہ کے شریک کی ہو جاتی ہے اور ہر شریکِ کاروبار کو معینہ اور طے شدہ نسبت سے منافع کی تقسیم کی جائے گی۔
4۔ اگر کسی وجہ سے معاہدہ مضاربت منسوخ ہو جائے تو اس صورت میں یہ معاہدہ مضاربت نہیں بلکہ معاہدہ روزگار کی شکل اختیار کرے گا اور مضارب کی حیثیت ملازم کی ہو جائے گی۔ نفع یانقصان رب المال کا ہوگا جبکہ مضارب کو اس کی اجرت ملے گی۔
5۔ اگر مضارب معاہدہ مضاربت کی شرائط میں سے کسی شرط کو تسلیم نہ کرے تو اس کی حیثیت غاصب کی ہوگی اور اس پر اصل سرمایہ کی واپسی کی ذمہ داری ہوگی۔
6۔ اگر معاہدہ مضاربت کی ایک شرط یہ ہو کر سارا کا سارا منافع مضارب کو ملے گا تو یہ معاہدہ مضاربت نہیں بلکہ مضارب کی حیثیت مقروض کی ہوگی اور یہ معاملہ قرض کا معاملہ ہوگا۔ نفع و نقصان کی ذمہ داری اس کی اپنی ہوگی اور سرمایہ کے ضیاع کی صورت میں سرمایہ کی رب المال کو واپسی اس کی ذمہ داری ہوگی۔
7۔ اگر شرط یہ ہو کہ سارا کا سارا منافع مالک کا ہوگا تو یہ معاملہ عقدالبضاعۃ کا ہوگا۔ مضاربہ نہ ہوگا، مضارب ملازم ہو جائے گا۔
مضاربت کی شرائط
معاہدہ مضاربت کی درج ذیل شرائط ہیں:
1۔ راس المال (یعنی سرمایہ) نقدی یا زر یا سونے چاندی کی صورت میں ہونا چاہئے۔ باقی مال تجارت (عروض التجارۃ) کے ساتھ مضاربت جائز نہیں ہے۔ نقدی ہونا ضروری ہے کیونکہ مال تجارت کی قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے قدرِ سرمایہ اورمنافع کی مقداربھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص کہتا ہے کہ یہ کپاس یا کپڑا ایک ہزار روپے کا ہے، یہ لو اور مضاربت کی بنا پر اس کو فروخت کرو تو معاملہ درست نہیں ہے۔ البتہ اگر مضارب سے کہا جائے کہ یہ مال تجارت لو اور اس سے جو سرمایہ حاصل ہو، اسکے ساتھ مضاربت کرو تو حنفی اور حنبلی فقہ کے مطابق جائز ہے جبکہ حنبلی مکتبہ فکر کے مطابق مشینری اور اوزاروں کی صورت میں سرمایہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ شکست وریخت کے اخراجات رب المال کے ذمہ ہوں۔
2۔ معاہدہ مضاربت کے وقت راس المال (سرمایہ) معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو سکے۔
3۔ معاہدہ مضاربت کے موقع پر رب المال کے پاس سرمایہ کی موجودگی ضروری ہے۔ مضارب پر اگر قرض ہو تو اس کی بنیاد پر معاہدہ مضاربت نہیں ہو سکتاہے۔ البتہ اگر مضارب کو کسی اور شخص سے قرض وصول کرنے اور اس کے بعد کاروبار شروع کرنے کے لئے کہا جائے۔ اس صورت میں مضارب رب المال کا نمائندہ ہوگا۔
4۔ معاہدہ کے وقت سرمایہ مضارب کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس پر تصرف کر سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ رب المال مضارب کے ساتھ کاروبار میں حصہ لے گا تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔
5۔ متوقع منافع میں سے مضارب کا حصہ (شرح یا فیصد) معلوم ہونا چاہئے۔ مثلاً نصف یا تیسرا حصہ وغیرہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سرمایہ سے کاروبار کرو، منافع میں سے تمہیں دو ہزار یا (کم وبیش) رقم ملے گی تو مضاربت کا معاملہ منسوخ ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ نصف اور اسکے علاوہ ایک ہزار روپے تو یہ صورت بھی درست نہیں۔
6۔ مضارب کا حصہ منافع میں سے طے کیا جائے گا۔ راس المال (سرمایہ) میں سے نہیں۔ مثلاً: اگر یہ کہا جائے کہ نصف مال تمہارا اور منافع میں سے بھی اتنا اور اتنا حصہ تو درست نہیں۔ اسی طرح یہ شرط بھی درست نہیں کہ مضارب کو نصف یا تیسرا حصہ منافع کے علاوہ ماہانہ تنخواہ بھی ملے گی۔ یہ شرط باطل ہے جبکہ معاہدہ درست ہے۔ مضارب صرف منافع میں سے حصہ کا مالک ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ مضارب کو رہنے کو مکان یا زراعت کے لئے زمین بھی دی جائے گی تو معاہدہ فاسدہوگا۔
7۔ اگر مضارب کے پاس رب المال کا مال یا مالی ذرائع بطور رہن موجود ہوں اور رب المال نے مضارب سے قرض لے رکھا ہوتو ایسے سرمایہ پر مضاربت درست نہیں ہے۔
مضارب کے حقوق وفرائض
1۔ مضارب کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاہدہ کی تمام شقوں اور شرائط کی پابندی کرے۔
2۔ کوئی تیسرا شخص مضارب کی بلامعاوضہ مدد کر سکتا ہے تاکہ وہ کاروبار کو بہتر طورپر چلا سکے۔
3۔ اکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ رب المال مضارب کے ساتھ کاروبار میں عملی حصہ نہیں لے سکتا کیونکہ اس سے مضارب کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں جبکہ شافعی مکتبہ فکر کے کچھ علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ رب المال مضاربت میں عملی حصہ بھی لے سکتا ہے۔ دور جدید کے بڑے پیمانے کے کاروبار جن میں فیصلوں کا اختیار فرد واحد کی بجائے بالعموم ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پاس ہوتا ہے۔ رب المال کا مضاربت کے کاروبار میں عملی شرکت کرناجائز ہے۔
4۔ معاہدہ مضاربت میں ضارب کی طرف سے راس المال (سرمایہ) کی بحفاظت واپسی کی ضمانت دینے سے مضاربت کا معاہدہ منسوخ ہو جاتا ہے۔ البتہ مضارب کی طرف سے پوری ذمہ داری سے کام کرنے کی ضمانت لی جا سکتی ہے۔
5۔ مضارب کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کاروباری خرید وفروخت کر سکتا ہے۔ اشیاء وغیرہ کو اپنے قبضے میں رکھ سکتا ہے۔ کسی فرد کے ساتھ رہن (قرض یا ادھار دیتے ہوئے ضمانت کے طور پر کوئی چیز رکھنا ) کا معاملہ کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے فرد کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کرسکتا ہے۔ الایہ کہ اس کو ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔
6۔ مضارب کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ رب المال کا سرمایہ کسی دوسرے شخص کو قرض دیدے یا کسی کومفت دے۔ البتہ رب المال کی اجازت سے قرض دے سکتا ہے۔
7۔ مضاربت کے معاہدہ میں رب المال کی مالی ذمہ داری اس کے فراہم کردہ سرمائے کی حد تک محدود ہوتی ہے۔ الا یہ کہ اس نے مضارب کو قرض لینے یا ادھار خریدنے کی اجازت دی ہو۔
8۔ مضارب کاروبار میں ادھار فروخت کا اختیار رکھتا ہے۔ الا یہ کہ اس کو صاحبِ سرمایہ روک دے۔
معاہدہ مضاربت کی مدت
1۔ مالک سرمایہ یا مضارب دونوں میں سے کوئی ایک فریق یا دونوں معاہدہ کو کسی وقت بھی منسوخ کر سکتے ہیں۔ اگر معاہدہ میں دوسے زائد افراد ہیں تو ان میں معاہدہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
2۔ مضاربت کا معاہدہ ایک خاص عرصہ وقت کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے اور لامحدود مدت کے لئے بھی۔
3۔ معاہدہ مضاربت کسی ایک فریق کی موت سے ختم ہو جاتا ہے البتہ دو سے زائد افراد کی صورت میں معاہدہ کو باقی فریق جاری رکھ سکتے ہیں۔
4۔ معاہدہ مضاربت پہلے سے طے شدہ شرائط پر مسلسل جاری رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً: مضاربت کا معاملہ ایک معین عرصہ کے لئے کیا گیا اور جو کام شروع کیا گیا وہ مقررہ مدت سے پہلے ہی ختم ہو گیا اس صورت میں مضارب سرمایہ کو بقیہ عرصہ کے لئے دوسرے کاروبار میں لگا سکتا ہے۔البتہ اس صورت میں نفع ونقصان کے حوالے سے کچھ اختلاف رائے ہے۔
نفع و نقصان کے احکام
1۔ شراکت کے معاملہ میں نقصان کاروبار میں لگائے گئے سرمایہ کے تناسب سے سرمایہ کے مالکوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے چونکہ مضاربت میں سرمایہ ایک فریق لگاتا ہے اس لئے نقصان کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے یعنی کاروبار میں جو بھی نقصان ہوگا وہ رب المال کو پورا کرنا ہوگا۔
2۔ نفع کی تقسیم معاہدہ مضاربت میں طے شدہ نسبتوں سے ہو گی کسی بھی فریق کے لئے کوئی متعین رقسم پیشگی طے نہیں کی جا سکتی۔
3۔ حنفی فقہ کے مطابق راس المال رب المال کے حوالے کرنے سے پہلے نفع کی تقسیم درست نہیں۔
4۔ مسلسل جاری کاروبار میں نقصانات کی تلافی نفع سے کی جاتی رہے گی۔ یہاں تک کہ کاروبار ختم کر کے حساب صاف کرلئے جائیں۔
5۔ فریقین کے نفع ونقصان کی مقداروں کا تعین کاروبار ختم ہونے پر ہی کیا جائے گا۔
6۔ کاروبار میں نفع کے حق دار نفع کے مالک اس وقت قرار پائیں گے جب اصل سرمایہ رب المال کو واپس مل جائے، خواہ اپنے سرمایہ پر اس کا قبضہ عملا ہو یا قانوناً۔ مثلاً: اگر ایک فرد کی بنک کے ساتھ مضاربت کا معاہدہ کرے تو اس معاہدے کے اختتام اور نفع کی تقسیم کے لئے یہ کافی ہوگا کہ اصل سرمایہ اس فرد کے کھاتے میں جمع کر دیا جائے یہ قانونی قبضہ ہے۔
7۔ نفع سرمایہ میں اضافہ کا باعث ہوگا۔ حقیقی منافع نہ ہونے کی صورت میں مضارب کی محنت کا ازالہ ضروری ہے۔
8۔ کاروبار میں کسی قسم کے اختیارات کا حصول یا مختلف تصرفات اورمعاہدات کی اجازت یا کسی قسم کی پابندیاں باہمی رضامندی سے عائد کی جا سکتی ہیں۔