گزشتہ ماہ ایوانِ اقبال لاہور میں جنگ گروپ کے مذہبی ونگ اور مجلسِ رومی و اقبال کے زیرِ اہتمام ’’مولائے روم، حکیم الامت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری‘‘ کے عنوان سے ایک پُروقار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ملک کے نامور دانشور، تجزیہ ہائے نگار، صحافی، اساتذہ اور اہلِ علم نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خصوصی خطاب فرمایا۔ ذیل میں اس پروگرام کی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:
محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل اللہ اور صوفیائے کرام کے نزدیک تعلق بالرسول ﷺ کے تین درجات ہیں:
1۔ صوفیا بتاتے ہیں کہ ایک اُمتی کا اپنے آقا سے اعتقادی تعلق ہوتاہے یعنی انسان کا دل تصدیق اور زبان اقرا رکرتی ہے کہ وہ آقا ﷺ کا اُمتی ہے۔ اعتقادی تعلق بنیادی اور ابتدائی درجے کا ہے۔ یہ اعتقادی تعلق کوئی بھی اُمتی اپنے آقا ﷺ کے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ اگر یہ ابتدائی درجے کا تعلق بھی نہیں ہو گا تو پھر اُمتی ہونے کے کسی اور دعویٰ کی کوئی حیثیت باقی نہیں بچتی۔
2۔ جب انسان اعتقادی تعلق کے اس پہلے درجے کو عبورکر لیتا ہے تو پھر اُسے دوسرا درجہ نصیب ہوتا ہے۔ اس دوسرے درجے کو تعلقِ حُبی کہتے ہیں۔ پہلے درجے میں اُمتی نے اُمتی ہونے کا زبان سے اقرار کیا اور اِس اقرار کی نسبت سے وہ دین کا کچھ نہ کچھ کام بھی کر لیتا تھایا اعلانیہ گمراہی میں پڑنے سے حتی المقدور بچنے کی کوشش بھی کرتا نظر آتا ہے جبکہ دوسرے درجہ تعلقِ حبی میں وہ اُمتی ہونے کے اقرار کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے ادب و احترام کو بھی خود پر لازم ٹھہراتا ہے۔ جب آقا ﷺ کا اسم مبارک سنتا ہے تو اس کا دل ادب سے جھک جاتا ہے۔ اُس کی نگاہیں بھیگ جاتی ہیں، آقا ﷺ کے اسم مبارک کے ساتھ اُس کی ایک وابستگی قائم ہو جاتی ہے اور وہ آقا ﷺ کے ذکر کو ذوق و شوق سے سنتا ہے۔
3۔ جب یہ ادب و احترام اور تعظیم کا تعلق مزید مستحکم ہوجاتا ہے توپھر اُسے تیسرے درجے میں تعلقِ عشقی عطا ہوتا ہے جس کامطلب ہے کہ اس کے دل کی ہر خواہش آقا ﷺ پر فدا ہوجانا ہوتی ہے۔ پھر اُس کی ہر نسبت آقا ﷺ کی نسبت پر قربان ہو جاتی ہے یعنی پہلے اُس نے دل سے اقرار کیا، پھر اُس کے بعد اُس بارگاہ کے ادب و احترام کو اپنے اوپر لازم کیا اور اس ادب و تعظیم کے صدقے اُسے عشق کی دولت عطا ہوئی اور پھر اُس نے اپنے آپ کو اتباع رسول ﷺ میں فناکر لیا۔
فناء فی الرسول ﷺ شخصیات
زیرِ بحث موضوع میں ہم جن تین شخصیات؛ محمد جلال الدین رومی، محمد اقبال اور محمد طاہر القادری کا تذکرہ کررہے ہیں۔ اِن تینوں شخصیات کے اسماء کا آغاز محمد سے ہوتا ہے اور ان تینوں شخصیات کا حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عشق اور سیرت طیبہ کے ساتھ والہانہ وابستگی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ تینوں شخصیات فنا فی الرسول ﷺ ہیں:
1۔ مولانا رومؒ کی ساری زندگی تاجدار کائنات ﷺ کے عشق سے جڑی نظر آتی ہے۔ آپ نے اپنی مثنوی میں مختلف النوع حکایات کے ذریعے اُمت کو باور کروایا کہ زوال اور مشکلات کی بڑی وجہ آپ ﷺ کے ساتھ کمزور تعلق ہے۔ مولائے روم نے تعلق بالرسول ﷺ کی اہمیت اور ناگزیریت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اگر مشکلات سے نکلنا اور عزت پانا چاہتے ہو تو اپنے دلوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کے چراغ روشن کرو، ورنہ مسائل اور مشکلات کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔
2۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کے سارے اشعار عشق مصطفی ﷺ کے خوشبوئوں میں گندھے ہوئے ہیں اور ان کی اردو و فارسی شاعری کا ایک بڑا حصہ تعلقِ بالرسول ﷺ اور حبِ رسول ﷺ پر مبنی ہے۔ اقبال ؒ کے ہاں تعلقِ عشقی میں ادب و احترام کا یہ مقام ہے کہ اقبال اپنا سب کچھ آقا علیہ السلام کی ذات کو قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقبالؒ فرماتے ہیں:
ذکروفکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
میرا ذکر، میری فکر، میرا علم، میری کشتی، میرا دریا اور میرا طوفان بھی آپ ﷺ ہیں۔ یعنی ایک محب اپنے محبوب کی نسبت پر اپنی ہر نسبت قربان کر رہاہے۔ تعلقِ عشقی کا طوفان محب کو کبھی چین نہیں لینے دیتا اوریہ طوفان اُسے ہر وقت کریم آقا ﷺ کی مبارک سنتوں، تعلیمات،احکامات اور ہدایات پر آمادۂ عمل رکھتا ہے۔
3۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کواللہ تعالیٰ نے مجددانہ مقام عطا کیا ہے جس کی وجہ سے آپ نے 8جلدوں اور 5ہزار سے زائد موضوعات پر مشتمل قرآنک انسائیکلوپیڈیا تالیف فرما دیا۔ حدیث مبارکہ کی کتب کا ایسا ذخیرہ جمع کردیا جس نے اسلاف کی دم توڑتی ہوئی علمی و ادبی اقدارکا احیاء کیا۔ آپ نے ایمانیات، اسلامیات، عقائد، فقہ کے موضوعات پر سیکڑوں کتب تحریر فرما دیں اور تعلقِ عشقی کا یہ مقام عظیم الشان تعلیمی، تالیفی و تصنیفی سفر کی صورت میں جاری و ساری ہے۔
خضرِ عصر شخصیات
شیخ الاسلام نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ خضر سے مراد حیات ہے، سیدنا خضر ؑ کا وجود حیات بخش ہے کیونکہ وہ جس آب و ہوا میں رہتے تھے، اُس آب و ہوا میں داخل ہونے والا زندہ ہو جاتا تھا۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ تاریخ میں بہت سارے صوفیائے کرام، درویش، کاملین، جید علماء ومحدثین گزرے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر کسی کا نام عرب و عجم میں نہیں گونجا کچھ ہستیاں ایک خاص خطے میں معتبر ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ اپنے علم میں کامل و اکمل نہیں تھیں۔ مگر تاریخ میں چار شخصیات ایسی گزر ہیں جن کے علم کا شہرہ شرق و غرب میں یکساں ہے۔ جن کو جتنی پذیرائی مشرق میں ملی، مغرب میں بھی اتنی ہی پذیرائی انہیں حاصل ہوئی۔ ان چار شخصیات کو میں خضرِ عصر کہتا ہوں، ان میں: امام غزالیؒ، شیخ محی الدین ابن العربیؒ، مولائے رومؒ اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ شامل ہیں۔
یہ شخصیات خضرِ عصر کیوں؟ اس کے لیے اگر ہم حضرت خضر علیہ السلام کے ایک خاص وصف پر غور کریں تو یہ عقدہ حل ہوجاتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام حیات بخش الوہی اوصاف کے حامل تھے، اس کی دلیل آپ کی موجودگی والی جگہ پر آپ کے وجود کے سبب مچھلی کا زندہ ہوجانا ہے۔ اسی طرح کسی حیات بخش اوصاف کی حامل شخصیت کی محفل میں آنے والے مردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں۔ ہم ان مذکورہ ہستیوں کی کتب پڑھ لیں یا خطاب سن لیں تو فکر و نظر کے زاویے بدل جاتے ہیں اور ان کی صحبت میں مردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں۔ افکارِ تازہ مردہ دل کی حیات ہیں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے اشعار اور افکار کے ذریعے مردہ اور سوئی ہوئی قوم کو زندگی کا شعور دیا۔ قوم کے دل میں اپنے ہونے کا احساس جگایا، مایوسی کو امید میں تبدیل کیا، کمزوروں کو مردِ آہن کے احساس سے قوی کر دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان سویاہوا تھا۔ ایک ہستی نے قائداعظم کو خط لکھ کر ہندوستان بلوایا اور پھر اُس ہستی کی آمد سے ہندوستان کے درودیوار آزادی کے نعرے سے گونجنے لگے۔ خط لکھنے والی وہ ہستی حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی تھی۔
مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہستیاں صدیاں گزرنے کے باجوود زندہ رہتی ہیں کیونکہ حیات بخش اوصاف کے حامل اپنی خدمت کی وجہ سے ہر دور اور ہرماحول میںزندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح مولائے روم نے عشق کی چنگاری کے ساتھ مردہ دلوں کو زندگی عطا کی۔
شیخ الاسلام نے چار ہستیوں کی نشاندہی فرمائی مگر میں آج ایک پانچویں ہستی کو ان کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ وہ ہستی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے۔ اگر آج ہم شیخ الاسلام کا ذکر کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی تقریر اور تحریر نے ہزاروں، لاکھوں کی زندگیاں بدل دیں، ان کی سوچوں کے دھارے بدل دئیے۔۔۔ عقائد و افکار کی پژمردگی کے اس دور میں شیخ الاسلام نے جہالت کے اندھیروں کو روشنی کی کرنیں عطا کیں، دلوں کو عشق مصطفی ﷺ کی شمع سے روشن کیا۔۔۔ اور جو دین سے دور اور بیزار ہو گئے تھے ان کے دلوں میں پھر سے دین کی جوت جگادی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں شرق و غرب، عرب و عجم میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام پر اس وقت 17 پی ایچ ڈیز ہو چکی ہیں۔ امریکن یونیورسٹی میں ایک انگریز سکالر نے منہاج القرآن کی ایڈمنسٹریشن پر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ منہاج القرآن کی ورکنگ اور اس کا نظم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر کا ایک پرتو ہے۔ منہاج القرآن کے اندر ایک جہان آباد ہے جو کئی براعظموں کے باسیوں کو علم و فکر کی روشنائی فراہم کررہا ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے شیخ الاسلام کے امن بیانیہ پر کئی پی ایچ ڈیز ہو چکی ہیں۔ پہلی بار دنیا کو بتایا گیا کہ اسلام انتہا پسندی نہیں بلکہ امن و سلامتی کا دین ہے اور اس موضوع پر قرآن و سنت کے حوالہ جات کے انبار لگا دئیے گئے۔ آج مختلف ممالک کے سربراہان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا رشتہ انتہا پسندی سے جوڑنا درست نہیں ہے۔ مغرب میں بعض نصابی مقام رکھنے والی کتب میں شیخ الاسلام کی امن فلاسفی کے متعدد ابواب شامل کئے گئے ہیں۔
مولانا روم، اقبال اور شیخ الاسلام میں قدر ہائے مشترک
جب ہم ان تینوں (مولانا روم، علامہ اقبال، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری) شخصیات پر بات کرتے ہیں تو ان کے بہت سارے شخصی اوصاف میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند مشترک اقدار کا ذکر کیا جاتا ہے:
1۔ مرض کی تشخیص اور علاج
یہ ہستیاں فنا فی الرسول ﷺ تھیں، یہ اپنے اپنے عہد کے فکری نبض شناس تھے، انہوں نے نہ صرف امت کے زوال کی وجوہات کی نشاندہی کی بلکہ محبت و اتباع رسول ﷺ کی صورت میں علاج بھی تجویز کیا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی شخصیت کا کسی اہم کام کے لئے انتخاب فرماتا ہے تو اُن شخصیات کے اندر مطلوبہ خصوصیات بھی پیدا فرما دیتا ہے۔ تینوں شخصیات کے ہاں اُمتِ مسلمہ کے زوال کا موضوع ایک بنیادی مسئلہ کے طور پر زیر بحث رہا ہے۔ تینوں شخصیات کے ہاں اُمت کے زوال کی بحث کے ضمن میں ایک متفقہ سوچ پائی جاتی ہے کہ مصطفوی تعلیمات سے دوری اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کے رشتے کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے اُمت پر تباہی و بربادی مسلط ہوئی اور اُمت خرافات میں پھنس کر رہ گئی۔
2۔ اسلاف کے ادوار کی تلاش میں سرگرداں
ان شخصیات کے ہاں فکری توسع تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تینوں ہستیوں کی زبان پر یہ الفاظ بھی مشترک ہیں کہ ہم اپنے دور سے ٹوٹے ہوئے اور اکیلے ہیں۔ حضرت مولائے رومؒ کی کتابیں پڑھیں تو وہ لکھتے ہیں کہ ہم کسی اور دور کے باسی تھے مگر کسی اور دور میں جی رہے ہیں۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے محترم محمدحسین ارشی سے تصوف کے متعلق بعض امور زیر بحث لاتے ہوئے ایک جملہ ادا فرمایا کہ ہم آج اس دور میں ہیں کہ جس دور میں کوئی محبت اورتصوف کے ذکر کو سمجھنے والا نہیں ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ اب یہاں راز ونیاز کوسمجھنے والا کوئی پیدا نہیں ہورہا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی متعدد بار اس سوچ کا ذکر کر چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انتہا پسندی کی کوکھ سے فتوے جنم لینے لگیں تو پھر اہلِ علم خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔
3۔ حاملینِ توازن و اعتدال
تینوں شخصیات کے ہاں ایک خاص Acceptance Level اور اعتدال نظر آتا ہے۔ یہ شخصی اوصاف تینوں شخصیات کے ہاں کمال درجہ کے پائے جاتے ہیں۔ حضرت مولائے روم کے حوالے سے ایک بات کہی جاتی تھی کہ آپ دوسرے مذاہب کے متعلق کہتے تھے کہ سب اللہ کی مخلوق ہیں اور میں سب سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر وقت کے علماء جھگڑا کرتے تھے، آپ جھگڑا کرنے والوں سے بھی کوئی جھگڑا نہیں کرتے تھے اور ہر جھگڑے کے اختتام پر کہتے تھے کہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔
اسی طرح حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اہلِ علم حضرات کی تعریف کیا کرتے تھے۔ خواہ وہ مغرب کے عیسائی ہوں یا کسی بھی فکر کے افراد۔ حکیم الامت اپنے عیسائی اساتذہ کا بڑے ادب و احترام کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علم کی ایک تعریف ہی یہ ہے کہ وہ فکر ونظر کی تنگی کو دور اور برداشت کے لیول کو بڑھا دیتا ہے۔
یہی شیخ الاسلام کی شخصیت ہے۔ آپ 80ء کی دہائی میں بین المذاہب رواداری کی بات کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ لوگوں کو اس فلاسفی کی سمجھ نہیں آتی تھی اور وہ بدگمان ہوتے تھے مگر آپ کبھی کسی سے بدگمان نہیں ہوئے۔ شیخ الاسلام جھگڑا کرنے والوں سے قطع نظر تحریک منہاج القرآن کو دنیا کے 7براعظموں تک لے گئے۔ آج منہاج القرآن کے ایک معتبر تعلیمی انسٹی ٹیوشن منہاج یونیورسٹی لاہور میں بین المذاہب رواداری کا یہ عالم ہے کہ یہاں تقابلِ ادیان کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور ڈگری پروگرامز شروع کیے گئے ہیں۔ ہر مذہب کے طلبہ و طالبات بخوشی داخلہ لیتے اور اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں کیونکہ منہاج یونیورسٹی میں سب کو مساوی تعلیمی، تحقیقی ماحول میسر ہے اور یہاں فکر و نظر کی تنگی نہیں ہے۔ طلبہ کو مذہب، کلچر، ثقافت سے بالاتر علم و تحقیق کا ماحول مہیا کیا گیا ہے۔
4۔ فکر و نظر میں تحرک
اِسی طرح جن شخصیات کا ہم ذکر کررہے ہیں وہ فکر و نظر میں جامد نہیں بلکہ متحرک تھیں۔ تینوں شخصیات نے عشق مصطفی ﷺ کو ایک مختلف انداز میں سمجھا اور پھر عامۃ الناس کو اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی۔ مولائے روم کا تصورِ عشق،حکیم الامت کا تصورِ خودی اور شیخ الاسلام کا تصورِ روح ساکت و جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ تینوں شخصیات کا عشق مایوسی کو امیدکی طرف لے جاتا ہے اور سرنگ کی دوسری طرف روشنی دکھاتا ہے۔ ان شخصیات کی فکر جنون نہیں بلکہ علوم و فنون ہے۔ ان شخصیات کا عشق دل میں انقلاب کی شمع روشن کرتا ہے۔
دیگر مہمانانِ گرامی کا اظہارِ خیال
پروگرام میں ’’مجلسِ رومی و اقبال‘‘ کے آرگنائزر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں ایک ایسی نعمت عطا فرمائی ہے جنہیں میں وقت کا مولائے روم سمجھتا ہوں۔ میری مراد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں دیکھیں تو ہمیں ایسا ایک شخص بھی نظر نہیں آئے گا کہ جس پر مسلک کی چھاپ نہیں ہے جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی شخصیت ایسی شخصیت ہے جنہوں نے ایسا نعرہ بلند کیا جن پر کسی مسلک کی کوئی چھاپ نہیں ہے بلکہ انہوں نے محبت، یگانگت، اخوت، بھائی چارہ اور حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کے مطابق علم بلند کررکھا ہے۔
کانفرنس سے محترم ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو جو پیغام ہے، یہ وہی پیغام ہے جو اقبالؒ نے اس قوم تک پہنچایا اور یہ وہی پیغام ہے جو مولانا روم نے دیا۔ اقبال فرماتے ہیں جس قافلہ شوق کی قیادت رومی کررہے ہیں، میں اس قافلہ شوق کا حصہ ہوں۔ ہر چیز کی ایک اصل ہوتی ہے جس سے اس چیز کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جدوجہد اور ان کے پس منظر کو دیکھیں تو وہ آپ کو مولانا روم کے سرچشمے سے جڑا ہوا نظر آئے گا۔ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ا س زمانے کے فتنوں کا جواب رومی نے دیا تھا اور آج کے دور کے فتنوں کا جواب میں دے رہا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آج کے فتنوں اور چیلنجز کو دیکھا جائے تو اس کا جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دے رہے ہیں۔ رومی اور اقبالؒ نے سمجھایا کہ اس قوم کی بقاء اللہ کی کتاب اور حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت میں ہے۔ اگر ہم منہاج القرآن کی جدوجہد کودیکھیں تو یہاں بھی قرآن اور نسبتِ مصطفی سے تمسک کا درس نظر آتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن مسلم دنیا کی سب سے کم عمر اور سب سے زیادہ نفوذ پذیر ہونے والی تحریک ہے۔ منہا ج القرآن کے بعد آپ کو کوئی ایسی تحریک اٹھتی نظر نہیں آئے گی جس نے ملت کو اتنا متاثر کیا ہو۔ یہ اعزاز منہاج القرآن کے پاس ہے۔ یہ قرآن پر یقین کا فیضان ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت کا فیضان ہے۔ یہ طریقِ صوفیاء کی برکت ہے۔ اقبالؒ نے اسی کو قافلہ شوق کا نام دیا ہے۔
محترم ڈاکٹر فخر الحق نوری نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا روم، علامہ محمد اقبال، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ان تینوں کے در عشق رسول ﷺ کی طرف کھلتے ہیں۔ آج ہماری قوم کو اسی جذبے کی ضرورت ہے جس جذبے کا اظہار رومی کے ہاں بھی ہو ا، اقبالؒ کے ہاں بھی ہوا اور ڈاکٹر طاہرا لقادری کے ہاں بھی ہورہا ہے۔ اقبالؒ اور رومی نے محض شاعری نہیں کی بلکہ قرآن کا پیغام اور صاحبِ قرآن کے پیغام کو شعر کا روپ دیا ہے۔ اقبالؒ اپنے شعر کے ذریعے بتاتے ہیں کہ کل میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو شہر کے گرد گھوم رہا تھا اور ہاتھ میں چراغ تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرا دل جانوروں کو دیکھ کر ملول ہے اور مجھے کسی انسان کی آرزو ہے۔ اقبالؒ اور رومی کو قحط رجال کا احساس ہوا اور دونوں نے اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ابھی دجلہ اور فرات موجود ہیں مگر ایک بھی حسین علیہ السلام دکھائی نہیں دیتا۔ جس طرح رومی نے کہا علیؓ دکھائی نہیں دیتا تو اقبالؒ نے کہا حسین علیہ السلام دکھائی نہیں دیتا۔ اس قحط رجال کا علاج اقبالؒ اور رومی نے خود ہی دریافت کیا۔ اقبالؒ نے کہا تھا کہ تین سو سال سے ہندوستان کے میخانے بند ہیں، ضرورت ہے کہ اب تیرا فیض عام ہو۔یہ فیض تین سو سال کے بعد جاری ہوا اور اسی کا تسلسل شیخ الاسلام ہیں۔
تقریب سے معروف صحافی و تجزیہ نگار محترم قیوم نظامی، محترمہ صوفیہ بیدار، محترم ڈاکٹر جاوید یونس، محترم ڈاکٹر علی محمد اور محترم سید یاور عباس بخاری نے بھی خطاب کیا۔