شاید ہی خطۂ ارض پر کسی اور قوم نے اپنے وطن کے قیام و استحکام کیلئے اتنی قربانیاں دی ہوں جتنی پاکستانی قوم کے مقدر میں تھیں۔ قیام پاکستان کا اولین محرک مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت، انہیں ہندو اکثریت کی چیرہ دستیوں سے محفوظ بنانا اور انہیں احساسِ تحفظ فراہم کرنا تھا۔ 14 اگست یوم احتساب ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا تجزیہ کریں اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لئے حکمت عملی بنائیں۔ اس حوالے سے غور کریں تو محسوس ہوتاہے کہ تمام تر کوششوں اور قابلِ رشک کامیابیوں کے باوجود دشمن بار بار کامیاب ہوجاتا ہے اور ہم ناکام ہو جاتے ہیں؟
شبنم لہو بنی ہے، گلوں سے اٹھے شرار
یوں بھی ہوا ہے جشن بہاراں کبھی کبھی
14اگست یوم آزادی اور خوابوں کی تعبیر کا دن ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے یہ یوم احتساب ہے کہ ہم غور کریں اور سوچیں پاکستان کن خوابوں کی تعبیر تھا اور وہ خواب کس حد تک پورے ہوئے تاکہ وہ مقاصد اور منزل ہماری نگاہوں اور ذہنوں میں زندہ رہیں۔ احساسِ منزل جہاں بے حسی کا جمود توڑتا ہے وہاں جدوجہد اور حرکت کا جذبہ بھی پیدا کرتاہے۔ اس لئے نوجوان نسلوں میں حصول پاکستان کے مقاصد کو زندہ رکھنا ضروری ہے تاکہ انہیں احساس رہے کہ
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
منزل کیا تھی۔۔۔؟ اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: اول تو یہ کہ قائداعظمؒ کا تصور پاکستان کیا تھا اور انہوں نے کس قسم کے پاکستان کیلئے عوام سے حمایت طلب کی۔۔۔؟ دوم یہ کہ خود عوام کے ذہنوں میں پاکستان کا کیا نقشہ تھا اور انہوں نے کس قسم کے پاکستان کیلئے تاریخی قربانیاں دیں۔۔۔؟ بلاشبہ راہ ِ آزادی میں خون کے چراغ جلانے ہی پڑتے ہیں کیونکہ غیرملکی حاکموں کے تسلط سے نجات حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن قیام پاکستان کیلئے ہجرت سے لے کر قیدو بند اور قتل و غارت تک جتنی قربانیاں دی گئیں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔
قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامی فلاحی جمہوری ملک دیکھنا چاہتے تھے جس میں انسانی سطح پر مساوات، معاشی، سماجی عدل، انصاف، اقلیتوں کے لئے برابر کے حقوق، شہری آزادیوں، استحصال، کرپشن، کنبہ پروری اور بلیک مارکیٹنگ کے خاتمہ اور سیاسی سطح پر قانون کی حاکمیت (Rule of Law) کا دور دورہ ہو۔ اس ضمن میں ان کی بے شمار تقاریر کے حوالے دیئے جاسکتے ہیں جن میں قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد ازاں کی تقریریں شامل ہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق قائداعظمؒ نہ ہی مذہبی شخصیت تھے اور نہ ہی سیکولر تھے۔ وہ ایک روشن خیال، وسیع المطالعہ مسلمان تھے اور انہوں نے سیرت نبویa، قرآن حکیم اور اسلامی قوانین کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ قائداعظمؒ کے ذاتی اسٹاف کے اراکین اور دوست اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی لائبریری میں ان موضوعات پر مستند کتابیں موجود تھیں جن کا قائداعظمؒ مطالعہ کرچکے تھے۔
وہ ہمارے حاکموں کی مانند محض سن سنا کر تقریریں نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی تقریریں ان کی گہری فکر کی غمازی کرتی تھیں۔ وہ بہت غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ اس میں فرقہ پرستی، برادری ازم، جاگیرداری اور دھونس دھاندلی نہیں ہوگی بلکہ پاکستان ایک ماڈرن اسلامی فلاحی جمہوری ملک ہوگا۔
ہم نے بحیثیتِ قوم ملکِ پاکستان کی صورت میں ملنے والی نعمت کا جو حشر کیا وہ سات دہائیوں پر محیط دردناک داستان ہے۔ ہم نے اسلامی قدروں کو پامال کر کے لوٹ مار، رشوت خوری، قتل و غارت، کمیشن خوری، شراب و جنس پرستی، جھوٹ، بے انصافی اور عوامی استحصال کا غدر برپا کئے رکھا اور گلہ پھر بھی اللہ پاک سے ہے۔ نعمت ملتی ہے تو اس کی پاسداری کے کچھ اصول بھی ہوتے ہیں۔ نعمت برستی ہے تو اپنے ساتھ آزمائش بھی لاتی ہے۔ آزمائش کیا ہے۔۔۔؟ آزمائش شکر بجا لانے اور خدائی حدود کے اندر رہنے کی۔
دراصل پاکستان کی صورت میں ملنے والی اللہ پاک کی نعمت کا خلوصِ نیت سے شکر بجا لانا بذات خود تقاضا کرتا ہے کہ ہم رضائے الٰہی کے لئے ان حدود و قیود کو پامال نہ کریں جو اللہ پاک نے متعین کر رکھی ہیں۔ لیکن ذرا غور کیجئے ہم نے شکر بجا لانے کے بجائے ہر وہ کام کیا جو رضائے الٰہی کے بجائے غضب الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔
جس ملک کے اقتدار پر مختلف مافیاز قابض ہوں۔۔۔ جو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے عوام کاخون چوستے ہوں۔۔۔ اور جس کی قیادت کے بارے میں اربوں کھربوں لوٹ کر بیرون ملک محلات خریدنے کی کہانیاں زبان زدِ عام ہوں کیا اس ملک اور ایسے نمائندوں کو منتخب کرنے والی قوم پر اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی نعمت کی تکمیل فرمائے گا؟
’’یوم آزادی۔۔۔ یوم احتساب‘‘ کے حوالے سے ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ کیا ہم نے پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنا دیا ہے۔۔۔؟ کیا ہم نے اس خواب کی تعبیر پالی ہے جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔۔۔؟ کیا پاکستان اپنے سیاسی معاشی نظام، حکمرانوں کے کردار اور عام شہریوں کے حقوق کے حوالے سے ایک ماڈرن اسلامی جمہوری ملک بننے میں کامیاب ہوا ہے۔۔۔؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان نہ جمہوری ملک ہے اور نہ اس کا معاشرہ استحصال سے پاک ہے۔ یہاں نہ لوگوں کو معاشی و سماجی عدل حاصل ہے اور نہ قانون کی حکمرانی ہے۔ یہاں نہ عدالتی انصاف شہریوں کو میسر ہے اور نہ ہی احساسِ تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان پر بدقسمتی سے مخصوص طبقے حاوی ہیں، وہی اقتدار میں رہتے ہیں اور انہی کے مفادات ملک کی اجتماعی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ نتیجے کے طور پر عام شہری اور بے وسیلہ پاکستانی ظالمانہ اور جابرانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں اور انہیں منزل کی روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔
اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ’’چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔‘‘ ہماری منزل وہ پاکستان ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اور جس کا تصور قائداعظمؒ نے دیا تھا اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہمارا سب کا انفرادی اور اجتماعی فرض ہے۔ مایوسی کی بجائے عمل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کے لئے نہ ہی آسمان سے فرشتے اتریں گے اور نہ ہی یہ ہماری قیادت کے بس کا روگ ہے۔ اس لئے معجزوں کا انتظار کرنے کی بجائے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، وہ کردار کم ہو یا زیادہ۔۔۔کیونکہ قرآن مجید کا فیصلہ ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا