پاکستان 14اگست 2022ء کو اپنا 75واں یوم آزادی منارہا ہے۔ پاکستان جن عظیم مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا، ان میں سرِفہرست اسلام کے زریں اصولوں کو نافذ کر کے ایک ماڈل اسلامی ریاست تشکیل دینا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تقاریر اور خطابات کو ملاحظہ کیا جائے تو ہمیں وہ ہر جگہ قرآن و سنت سے استفادہ کرتے اور رہنمائی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی تحریک، ملک اور ادارہ اپنی مشن سٹیٹمنٹ پر چلتا اور پھلتا پھولتا ہے، یہی مشن سٹیٹمنٹ اس کی نظریاتی شناخت ہوتی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ اسلام ایک ایسا ماڈرن ضابطۂ حیات ہے جس نے قیامت تک کیلئے انسانیت کو راہ نمائی مہیا کرنی ہے مگر شومئی قسمت قیامِ پاکستان کے فوری بعد پے در پے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ پاکستان کی نظریاتی بنیادیں دھندلانے لگیں۔ ان میں سرفہرست بانی پاکستان کی ناگہانی وفات اور پھر یکے بعد دیگرے ان کے قابلِ اعتماد ساتھیوں کی حادثاتی اموات ہیں اور پھر اس کے بعد جس کی لاٹھی اس کے بھینس کا ایک ایسا سلسلہ چلا کہ وہ آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
بانی پاکستان نے پاکستان کے لئے پارلیمانی جمہوری نظام منتخب فرمایا۔ آپ نے اس بات کو آخری سانس تک یقینی بنائے رکھا کہ جس کا جو کام ہے وہ اس پر ’’فوکسڈ‘‘ ہو۔ انہوں نے میرٹ اور قانون کی بالادستی کو خوشحال پاکستان کے لئے ایک زریں اصول قرار دیا مگر ان کی وفات کے بعد نہ صرف یہ سارے اصول پسِ پشت ڈال دئیے گئے بلکہ وہ تمام خرافات جن سے بچنے کے لئے بانی پاکستان نے ہر موقع پر احکامات صادر فرمائے، انہیں اختیار کر لیا گیا اور یوں پاکستان اپنی نظریاتی بنیادوں سے ہٹتے ہٹتے کوسوں دور چلا گیا۔
پاکستان کے اس نظریاتی تشخص پر پڑنے والی گرد کو ہٹانے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف شخصیات نے حب الوطنی پر مبنی اپنا قومی و نظریاتی کردار ادا کیا۔ ان شخصیات میں تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نمایاں نظر آتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے ظلم اور استحصال کے خاتمے اور آئین کی ہر شق کی اس کی روح کے مطابق نفاذ کے لئے ایک پرامن شاندار عوامی مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد پاکستان کو آئین کے قالب میں ڈھالنا اور کمزور طبقات کی امپاورمنٹ تھا۔ شیخ الاسلام نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی سیاسی، سماجی اور معاشی فکر کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے تاریخ ساز جدوجہد کی۔ شیخ الاسلام کی اس جدوجہد کو سٹیٹس کو کی حامی قوتوں نے اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اسے دبانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ تاہم جب بھی نظام کی تبدیلی کی بات ہوتی رہے گی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جدوجہد کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ آپ نے بیداریٔ شعور کی ایک ایسی ملک گیر مہم چلائی کہ آج بھی اُن افکار کی روشنی ہر سو پھیل رہی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ چراغ سے چراغ جلتے رہیں گے اور ایک دن پاکستان سے جہالت اور گمراہی کے اندھیرے روشنی میں ضرور بدل جائیں گے۔
اس وقت نوجوان نسل کو پاکستان کے قیام اور اس کے نظریاتی تشخص سے بہرہ مند اور بہرہ ور کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جو قومیں اپنے نظریاتی تشخص کو مٹا بیٹھتی ہیں، بتدریج ان کا وجود بھی مٹ جاتا ہے۔ اس جذبہ آزادی کو علامہ محمد اقبال کے خطبۂ آلہ آباد کی صورت میں 1930ء میں ایک ایسا نظریہ ملا جو قیام پاکستان پر منتج ہوا۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے 28مئی 1937ء میں اپنے ایک خط میں ایک فکر انگیز اصول دیا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل اسلامی شریعتِ کے نفاذ میں موجود ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ ایک آزاد مسلم ریاست کے بغیر ناممکن ہے۔ حکیم الامت کے اس ایک زریں جملے نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے قلب و روح میں ایک بجلی دوڑا دی اور اسی خط کے تناظر میں مارچ 1940ء میں لاہور میں ایک تاریخی اجلاس منعقد ہوا جس میں پہلی بار مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔
پاکستان کے قیام کا مقصد اور غرض و غایت اسلام کے زریں اصولوں کا عملی نفاذ ہے۔ ہم نے اغیار کے نظاموں کو سنبھالنے اور چلانے کے لئے 75سال صرف کر دئیے اور ہمارا دائرے کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ جب تک ذمہ داران حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکر کے مطابق نہیں چلیں گے تب تک ہم بحرانوں کی زد پر رہیں گے۔ 75سال قبل بھی آزادی کی جدوجہد میں ایک مرکزی نکتہ تھا کہ الگ وطن میں ہم کسی کے معاشی غلام نہیں ہوں گے مگر افسوس کہ ابھی تحریک پاکستان کا معاشی خودانحصاری والا ایجنڈا نامکمل ہے۔ نہ صرف یہ ایجنڈا نامکمل ہے بلکہ ہم آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اغیار کی معاشی غلامی کی زد پر ہیں۔
14 اگست،آزادی اور جشن آزادی کا مفہوم کیا ہے؟ عام لوگ بالخصوص نئی نسل اس کے نظریاتی پس منظر سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ پڑھے لکھے احباب بھی اس نظریاتی تشخص کے بارے میں فکری اعتبار سے دھندلا چکے ہیں۔ 14 اگست کے دن یوم آزادی کے بینر لگتے ہیں، پرچم کشائی کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ہر یوم آزادی پر نئے نئے ترانے تیار کر کے خوشی کااظہار کیا جاتا ہے لیکن آزادی حاصل کرنے کی غرض و غایت پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ ہم نے اپنی ہر خوشی اور غمی کو رسومات کی ادائیگی تک محدود کر دیا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے عام شہری تعلیم، صحت اور انصاف کی سہولتوں سے محروم تھا، اُسے اپنے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھانے کی آزادی نہیں تھی، اُسے روزگار میسر نہیں تھا، اُسے کاروباری معاملات میں بھی امتیازی رویوں کا سامنا تھا اور مسلمانوں سے زبان، مذہب اور کلچر کی بنیاد پر نفرت کی جاتی تھی۔ یہ وہ سارے تعصبات تھے جن سے نجات کے لئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور ہماری مائوں، بہنوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اگر ہم ان پر غور کریں تو کیا یہ مقاصد ہم نے حاصل کر لئے۔۔۔؟ کیا آج ہر غریب کے بچے کو معیاری تعلیم کی سہولت میسر ہے۔۔۔؟ کیا ہر غریب آدمی کو صحت اور روزگار کی مساوی سہولت میسر ہے۔۔۔؟ کیااپنے مسائل پر بے دھڑک آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔۔۔؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا۔ تو یہ مقاصد کب حاصل ہوں گے۔۔۔؟ اصل یہ سوال یہ جس پر ہر شخص کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 13اپریل کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ ہم ایک ایسا علاقہ چاہتے ہیں، جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ‘‘۔ پاکستان کرۂ ارض کا وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریہ پر رکھی گئی ہے اور وہ نظریہ اسلام ہے۔