علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب قبلہ سے واقفیت دو تین دہائیوں سے ہے، تاہم ان کی تحریروں تک رسائی اور استفادے کی توفیق چند سال پیشتر ہوئی جب ہماری اپنے پڑوسی علامہ شاہد بابر صاحب سے رسم و رواہ بڑھی۔ مجھے اپنے آپ پر افسوس ہوا کہ میں کیوں خواہ مخواہ کل حزب بما لدیہم فرحون کا مصداق بن کر ایک عظیم سکالر سے استفادے کے مواقع گنواتا رہا۔ آج سے قریب تین سال قبل ڈاکٹر صاحب قبلہ گلاسگو تشریف لائے، منہاج القرآن نے ان کے اعزاز میں ایک اجتماعِ عام کا انعقاد کیا، جس میں شہر کے بے شمار افراد شریک ہوئے۔ یوکے اسلامک مشن گلاسگو سے بھی ایک وفد گیا جس میں راقم شامل تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب قبلہ کا خطاب سارے شرکاء نے انتہائی انہماک سے سنا۔ خطاب کے اختتام پر میزبانوں نے مختلف مساجد کے وفود کی ملاقات ڈاکٹر صاحب قبلہ سے کرائی۔ راقم کو بھی مصافحہ کرنے کا شرف حاصل ہوا جس کا دورانیہ پانچ سے دس سیکنڈ کا رہا ہوگا۔ میرے عقب میں بہت سارے لوگ اپنی باریوں کا انتظار کررہے تھے اور یہ انتہائی ناشائستگی ہوتی اگر میں دوسروں کے لیے باعثِ زحمت بنتا، چنانچہ میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔
آج سے ایک ہفتہ قبل علامہ شاہد بابر صاحب نے یہ نوید سنائی کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ گلاسگو تشریف لارہے ہیں پھر انہوں نے ازراہِ کرم آج کے دن اپنے گھر آنے اور ڈاکٹر صاحب قبلہ سے ملاقات کرنے کی دعوت دی، جسے میں نے فوراً سے پیشتر قبول بھی کرلیا۔ آج وقتِ مقررہ پر علامہ شاہد بابر صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوا، نشست گاہ میں پہلے سے کئی معززینِ شہر تشریف رکھتے تھے، ان سے مصافحہ کرکے میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب قبلہ تشریف لے آئے اور ہر ایک سے فرداً فرداً ملے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے فوراً پہچان لیا۔ مجھے حیرت کا جھٹکا لگا، چند سیکنڈوں کی ملاقات، وہ بھی کئی سال پہلے! عرض کیا: حضرت! آپ کی یادداشت ماشاء اللہ قابلِ رشک ہے۔ وہ مسکرائے اور یادداشت کے موضوع پر کافی دلچسپ باتیں بتائیں۔
گفتگو کا رخ ڈاکٹر صاحب کی زیرِ تالیف ’’تفسیرِ قرآن‘‘ کی طرف مڑ گیا، میں نے کچھ سوالات کیے تو جناب اگلے ایک گھنٹے تک حضرت کی زبان سے علم کے موتی جھڑتے رہے اور ان کو چننے والے بس چند ہی لوگ تھے۔ حالانکہ کمرے میں کئی معزز شخصیات بیٹھی ہوئی تھیں، مگر ڈاکٹر صاحب قبلہ کی ساری توجہ میری طرف تھی۔ میں شروع میں کچھ فاصلے پر بیٹھا تھا مگر کچھ ہی دیر میں جانبین کی آسانی کے لیے قریب کے صوفے پر جا بیٹھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ نے اپنی کرسی کا رخ میری طرف موڑ لیا ہے۔ میں تو ان کی باتیں سننے میں مستغرق تھا، مگر ڈاکٹر صاحب کو خیال آیا اور انھوں نے دوسرے شرکاء محفل کی طرف توجہ کی اور ان کے مشاغل کے حسبِ حال گفتگو کی مگر پھر وہ میری طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی عالمانہ گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے منقطع کیا تھا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ موضوع کیا تھا؟ سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس سلوک اور مدارج کے حوالے سے کچھ سوالات تھے اور خیال تھا کہ اگر موقع ملا تو کوشش کروں گا کہ اپنے اشکالات ڈاکٹر صاحب قبلہ کے سامنے رکھوں مگر اس کی نوبت ہی نہیں آسکی۔ گفتگو ’’تفسیر کے مناہج اور اصولِ تفسیر‘‘ پر مرتکز رہی۔ ہوسکتا ہے کہ شگفتگی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا خاصہ ہو، یہ میری پہلی بالمشافہ گفتگو تھی، اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کرسکتا، مگرمیں نے محسوس کیا کہ ان کی طبیعت میں بڑا انشراح تھا، میزبان کئی بار ان کو یاد دلاچکے تھے کہ وقت ختم ہوچکا ہے مگر ڈاکٹر صاحب قبلہ بڑے سکون سے بیٹھے اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے محسوس کرلیا ہو کہ ایک سچا طالبِ علم (Knowledge seeker) اپنے سارے ذہنی بوجھ کو دروازے کے باہر رکھ کر اندر داخل ہوا ہے، اس لیے اسے مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ وجہ جو بھی ہو مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ وقت کب ختم ہوگیا۔
پھر ہم سب کھڑے ہوگئے، ڈاکٹر صاحب کوئی ذاتی واقعہ سنانے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ کاروانِ زندگی بھی تالیف کردیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے فرمایا: اس پر کام ہورہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے میرے کندھے کو چھوا، میں نے علامہ شاہد بابر صاحب سے کہا: ڈاکٹر صاحب قبلہ نے مجھے چھولیا ہے، اب میں بھی Blessed ہوجائوں گا۔ دونوں صاحب نے میرا مدعا سمجھ لیا اور دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
کمرے سے باہر ان کے تلامذہ باادب کھڑے تھے، باہر ان کے جانثاروں کی جمعیت ان کا استقبال کرنے کو موجود تھی۔
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق