اس وقت 22 کروڑ 3 لاکھ آبادی والے ملک پاکستان کی 73 فیصدآبادی موبائل استعمال کرتی ہے۔ یہ 10 کروڑ 73لاکھ بنتے ہیں۔ پاکستان میں 6کروڑ 10 لاکھ لوگ نیٹ استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر 4کروڑ 60 لاکھ لوگ متحرک ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ 2021ء میں پاکستان کے 46 لاکھ لوگ ڈیجیٹل میڈیا ورلڈ کا حصہ بنے۔ جو مختلف سوشل ٹولز پر ایکٹوسٹس کے طور پر اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ پاکستان میں 98 فیصد لوگ موبائل کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ اور ٹیب پر 22 فیصد لوگ نیٹ سروسز استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں 4کروڑ شہری فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ 3کروڑ 60 لاکھ شہری یوٹیوب کے وزیٹرز ہیں۔ پاکستان میں انسٹا گرام استعمال کرنے والوں کی تعداد 1 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ سنیپ چیٹ یوزر 60 لاکھ ہیں۔ پاکستان میں ٹویٹر پر ایکٹو کردار ادا کرنے والے شہریوں کی تعداد 20 لاکھ ہے۔ فیس بک میسنجر ایک کروڑ 20 لاکھ شہری استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں ٹک ٹاک استعمال کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
سوشل میڈیا 21 ویں صدی کا ایک ایسا کھلا سمندر ہے جس میں ہر شخص اپنی ہمت کے مطابق غوطہ زن ہو کر اپنے حصے کے سیپ اور موتی نکال سکتا ہے۔ یہ استعمال کی نیت پر منحصر ہے کہ وہ کیا نکالنا چاہتا ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شرح خواندگی کم ہونے کے باوجود پاکستان میں سوشل میڈیااور نیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد روزبروز بڑھ رہی ہے اور اس تعداد میں زیادہ حصہ نوجوانوں کا ہے۔اس وقت ہماری نئی نسل سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتی ہے۔
اگرچہ سوشل میڈیا کے بہت سارے فوائد بھی ہیں مگر اس کے نقصانات کی بھی بہت ساری اقسام ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ اگر دیکھیں تو وہ برق رفتار معلومات اور علوم کے ذخائر تک رسائی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دستیاب مواد کو آنکھیں بند کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بہت سارے فرقہ وارانہ گروہ، انتہا پسندی کو فروغ دینے والے گینگز اور قرآن و سنت کے تراجم میں تحریف کرنے والے فکری دہشت گرد بھی سوشل میڈیا پر متحرک رہتے ہیں بلکہ انتہا پسندانہ جذبات کو فروغ دینے والے گروہوں نے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
بہت سارے ملک اور اس کی ایجنسیز اپنے مخالف ملک کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ کسی ملک میں نظریاتی دہشت گردی کرنی ہو یا غلط فہمیاں پیدا کرنی ہوں، داخلی اتحاد اور امن کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ رائے عامہ ہموار کرنے اور برباد کرنے میں سوشل میڈیا نے اپنی حیثیت مسلّمہ بنا لی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے کالم نویس اور اینکر پرسن نیشنل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی بجائے یوٹیوب اور فیس بک پر زیادہ متحرک نظر آتے ہیں اور ان کی ویوور شپ ملینز کے اعداد و شمار کو چھوتی ہے۔ کاروباری، سیاسی، سماجی، صحافتی، ثقافتی، ادبی حلقے سوشل میڈیا کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں اور اب تو مذہبی حلقے بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ مذہبی جماعتوں اور تحریکوں نے بھی سوشل میڈیا کو دعوتی ٹول کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا فکر کے فروغ اور وسائل کے حصول کے لئے بھی ایک کار آمد ٹول کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
سوشل میڈیا ایک شتر بے مہار میڈیم ہے جسے کنٹرول کرنا کسی ریاستی ادارے کے بس میں نہیں ہے۔ فیک اکائونٹس اور فیک آئی ڈیز کے ساتھ کچھ حلقے اور لوگ متحرک ہوتے ہیں اور منفی سوچ کے ساتھ سوسائٹی کے امن کو تہ و بالا کرتے ہیں۔ یہ مشہور عام مقولہ ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ آج سے 20 سال قبل کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اظہار رائے کے ایس او پیز تبدیل ہوجائیں گے اور کنٹرولڈ اظہار رائے ممکن نہیں رہے گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے والے ادارے بھی سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے میں بے بس نظر آئیں گے۔
سوشل میڈیا اب ایک حقیقت ہے۔ اس سے پہلو تہی ممکن نہیں رہی۔ اس کا اخلاقی اور قانونی استعمال آج کے دور کی سب سے بڑی بحث ہے۔ جب بھی کسی ایجاد اور سہولت کو مناسب تربیت کے بغیر استعمال میں لایا جاتا ہے تو اُس کے بہت سارے مضمرات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا کا استعمال بھی بغیر کسی مناسب تربیت کے کررہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج کسی ادارے، کسی جماعت اور کسی شخصیت کی پگڑی سلامت نہیں رہی۔ الیکٹرانک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو اس پر ظاہر ہونے والے خبر باقاعدہ ایک ایڈیٹنگ سسٹم سے گزرتی ہے جبکہ سوشل میڈیا کے لئے ایسی کوئی قدغن نہیں ہے، جس شخص کے پاس بھی موبائل ہے اور اس کا فیس بک، ٹویٹر یا انسٹا گرام اکائونٹ ہے وہ اپنے فہم کے مطابق اُس کا بے دھڑک استعمال شروع کر دیتا ہے اور جو وہ سمجھتا ہے وہی اس کے نزدیک متوازن ردعمل ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر نوجوانوں کے ظاہر کئے گئے ردعمل اور اظہار رائے ان کے شخصی جذبات کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ جذبات اچھے ہیں یا برے، یہ ایک الگ بحث ہے مگر وہ یکطرفہ ہوتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے اخلاقی اور قانونی استعمال کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں؟ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ایک دہائی سے سوشل میڈیا کی تعمیری اور تخریبی سرگرمیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی کہ نوجوانوں کی اس معاملے میں تربیت کے لئے کوئی کردار ادا کیا جائے۔ اگر ہم بک شاپس پر جائیں تو ہمیں سوشل میڈیا کے موضوع پر نہ ہونے کے برابر کتب ملتی ہیں۔ زیادہ تر کتب کا تعلق صحافتی ٹیکسٹ سے ہے اور ان کا مزاج تدریسی ہے جبکہ سوشل میڈیا کے کھلے عام استعمال کے ضمن میں اخلاقی موضوعات پر ہمیں کوئی کتاب نہیں ملتی۔ مختلف اوقات کار میں آرٹیکلز شائع ہوتے ہوئے ہمیں نظر آتے ہیں مگر کتابی صورت میں ہمیں اس موضوع پر کوئی جامع کتاب نہیں ملتی۔
ہمیشہ کی طرح ہر ایک حوالے سے قوم و ملت کو درست رہنمائی فراہم کرنے میں پیش پیش منہاج القرآن انٹرنیشنل سوشل میڈیا کے استعمال کی اخلاقیات کے موضوع پر بھی سامنے آئی ہے۔ اس ضمن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اس موضوع پر ایک جامع کتاب مرتب کررہے ہیں۔بلاشبہ یہ کتاب موضوع اور مواد کی افادیت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہوگی۔ اس کتاب میں اس بات پر فوکس کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کی اخلاقی ضرورت کو اجاگر کیاجائے اور نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تحریک پیدا کی جائے اور انہیں سائبر اور ففتھ جنریشن وار سے بچایا جائے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مبلغ بنایا جائے تاکہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے خدمتِ دین اور خدمتِ انسانیت کا فریضہ انجام دے سکیں۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج اورپی اے ایف انٹرمیڈیٹ کالج لاہور سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ’’لاء گریجوایشن ’’کی ڈگری مکمل کی۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن لاہور سے 7 سالہ علوم شریعہ کی تکمیل کی اور منہاج یونیورسٹی لاہور سے ’’ماسٹر ان عریبک اینڈ اسلامک سائنسز‘‘کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے سٹی یونیورسٹی لندن سے مینجمنٹ سائنسز میں ایم ایس سی کیا ۔سٹی یونیورسٹی لندن کے Cass بزنس سکول سے ’’Organizational Behaviour and Devolopment‘‘ میں سپیشلائزیشن کی ۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے مصر کی ’’عرب لیگ یونیورسٹی‘‘ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔آپ کا مقالہ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھا جس کا موضوع ’’دستور ریاست مدینہ کا جدید امریکی، برطانوی اور یورپی دساتیر سے تقابلی و تحقیقی جائزہ‘‘ہے۔
محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے عرب و عجم کے معروف اہلِ علم حضرات سے کسبِ علم و فیض کیا۔ آپ کو عالم عرب کی ممتاز علمی شخصیت امام یوسف بن اسماعیل النبہانیؒ سے ’’الشیخ حسین بن احمد عُسَیران اللبنانی ‘‘کے صرف ایک واسطے سے شرف تلمذ حاصل ہے۔آپ نے شام کے جید شیوخ و اساتذہ سے تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، اصولِ دین، فلسفہ میںاعلیٰ درجے کی اِسناد اور اجازات حاصل کیں۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری ورلڈ اکنامک فورم، واشنگٹن ڈی سی، کینیڈا، UK، پیرس، ڈنمارک، اوسلو، نیدرلینڈ، جرمنی، بارسلونا، اٹلی، یونان، آسٹریلیا، مشرقی ایشیاء، انڈونیشیا، کوالالمپور، سنگاپور، سائوتھ کوریا، منیلا، بنگلہ دیش، ایران اور اردن میں ’’اسلام اور عصری چیلنجز‘‘،’’ تصوف‘‘، ’’عالمی معیشت‘‘، ’’اخلاقی اقدار‘‘ ، ’’ قرآن اور نظام حکومت‘‘ ، ’’ بین المذاہب رواداری‘‘، ’’انتہاپسندی کے تدارک ‘‘کے موضوعات پر مقالہ جات پیش کر چکے ہیں۔محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی کئی کتب طبع ہو چکی ہیں اور اردو اور انگریزی میں ایک درجن سے زائد کتب زیر طبع ہیں۔
یہ بات لائق تحسین اور باعث افتخار ہے کہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے سوشل میڈیا کی اخلاقیات اور اس کی تاریخ اور اقسام پر ایک جامع کتاب تحریر کی ہے جو جلد زیور طباعت سے آراستہ ہو گی۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اپنی اس انتہائی اہم موضوع پر لکھی جانے والی کتاب میں سوشل میڈیا کی تاریخ،سوشل میڈیا کے ٹولز، سوشل میڈیا کے حوالے سے عالمی میڈیا ایکسپرٹس کی آراء، اس کے استعمال کی ضرورت و اہمیت، اس کی افادیت اور اس کے استعمال کے سوسائٹی پر مرتب ہونے والے اثرات و نتائج کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی اور افادیت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کی اخلاقیات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ اس موضوع پر اتنی دقیق اور ضخیم کتاب اس سے پہلے ہمیں مارکیٹ میں نظر نہیں آتی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے شائع ہونے پر اس کے شایان شان اس کی تقریب رونمائی کی جائے گی اور یہ کتاب نوجوانوں کے لئے بیش قیمت سرمایہ ثابت ہو گی۔