ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰـنِ. بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰـنِ. فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ. یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ. فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.
(الرحمٰن، 55: 91۔23)
’’اسی نے دو سمندر رواں کیے جو باہم مل جاتے ہیں۔ اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔ پس تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟۔ اُن دونوں (سمندروں) سے موتی (جس کی جھلک سبز ہوتی ہے) اور مَرجان (جِس کی رنگت سرخ ہوتی ہے) نکلتے ہیں۔ پس تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
اللہ کا کلام قرآن مجید چونکہ لا محدود ذات کا کلام ہے، اس لیے اس کلام کے معانی و معارف بھی لامحدود ہیں، اس کلام کو صرف ایک معنی پر محصور نہیں کرتے۔ امام فخرالدین رازیؒ جیسے اکابر مفسرین ایک ہی آیت کے متعدد معانی، مطالب اور معارف بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ سب معارف اسی آیت کے اندر مخفی ہوتے ہیں۔ جیسے ایک ہیرے سے طرح طرح کی شعاعیں نکلتی ہیں بلاتشبیہ و بلامثال اللہ کے کلام قرآن مجید سے بھی معانی اور مطالب کی لاتعداد شعاعیں نکلتی ہیں۔
اسی تناظر میں جب ہم مذکور آیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اِن آیات میں بھی معانی و معارف کا ایک جہاں آباد نظر آتا ہے۔ ان آیات کے اِن ہی معانی و معارف میں سے ایک معنٰی کی روایت امام جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور فی التفسیر باالماثور نے کی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
مرج البحرین (دو سمندروں کا ملنا) میں ایک سمندر سے مراد بحرِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ ہے اور دوسرے سمندر سے مراد بحرِ طہارت و عصمتِ فاطمہ علیہا السلام ہے۔ یعنی ولایتِ علی رضی اللہ عنہ اور عصمتِ و طہارتِ فاطمہ علیہا السلام کے دو سمندر آپس میں مل گئے۔ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ سے مراد ان کے درمیان ان کے حقوق کی حدود مقرر کرنے والا پردۂ نکاح ہے اور اللُوْلُوْ وَالْمَرْجَان سے مراد حسنین کریمین علیہم السلام ہیں۔
حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے درمیان ہونے والا یہ نکاح عام مسلمانوں کے نکاحوںجیسا نہیں، اس لیے کہ اگر یہی ہو تو یہ پردۂ نکاح تو ہر میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور اس صورت میں اِس نکاح کی انفرادیت نہیں رہتی۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے درمیان جو پردۂ نکاح ہے، اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ نکاح عرش پر پہلے منعقد ہوا اور زمین پر بعد میں پڑھا گیا۔
حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیہما السلام کے نکاح کی انفرادیت
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ علیہا السلام کا نکاح عام مومنین کے نکاح سے منفرد اور مختلف ہونے کا اظہار حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إن الله أمرنی أن أزوج فاطمة من علی.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 10: 156، رقم؛ 10305)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
یا أنس! أ تدری ما جاء نی به جبریل من صاحب العرش؟ قال: إن الله أمرنی أن أزواج فاطمة من علی.
(حسینی ’البیان و التعریف، 2: 301، رقم: 1803)
’’اے انس! کیا تم جانتے ہو کہ جبرئیل میرے پاس صاحبِ عرش کا کیا پیغام لائے ہیں؟ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت کچھ یوں ہے کہ
بینما رسول الله ﷺ فی المسجد، إذ قال ﷺ لعلی: هٰذا جبریل یخبرنی أن الله زوجک فاطمة، و أشهد علی تزویجک أربعین ألف ملک، و أوحی إلی شجرة طوبی أن انثری علیهم الدر والیاقوت، فنثرت علیهم الدر و الیاقوت، فابتدرت إلیه الحور العین یلتقطن من أطباق الدر و الیاقوت، فهم یتهادونه بینهم إلی یوم القیامة.
(محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذَوِی القربی: 72)
’’رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علیص سے فرمایا: یہ جبرئیل مجھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلسِ نکاح میں شریک کیا گیا اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا: ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کر۔ پھر دلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطورِ تحائف دیں گے۔‘‘
پہلی حدیث میں تھا کہ اَمَرَنِیْ حکم دیا کہ شادی کردو۔ اس روایت میں اب تفصیل ہے کہ جبرائیل نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر حضرت فاطمہ علیہا السلام کی شادی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردی ہے۔ اس شادی میں صرف چالیس ہزار فرشتوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ گویا لاتعداد ملائکہ میں سے ہر ایک کو شرکت کی اجازت نہ تھی بلکہ اعلیٰ مقام و مناصب کے حاملین چالیس ہزار ملائکہ شریک ہوئے اور وہ مجلسِ نکاح کے گواہ بنے۔ جس طرح ہم اپنی شادی بیاہ کے موقع پر مہمانانِ گرامی کی ضیافت کرتے ہیں، بلاتشبیہ و بلا مثال اللہ رب العزت نے بھی چالیس ہزار ملائکہ جو اس مجلسِ نکاح میں شریک تھے، اُن میں موتی اور یاقوت کے تحائف تقسیم فرمائے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أتانی ملَکٌ، فقال: یا محمد! إن الله تعالٰی یقرأ علیک السلام، و یقول لک: إنی قد زوجتُ فاطمة ابنتک من علیّ بن أبی طالب فی الملأ الأعلی، فزَوِّجْها منه فی الأرض.
(محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ، 73)
’’میرے پاس ایک فرشتہ نے آ کر کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے: میں نے آپ کی بیٹی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔‘‘
پس مرج البحرین سے مراد بحرِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ اور بحرِ طہارت فاطمہ علیہا السلام کا رشتۂ نکاح کے ذریعے آپس میں ملنا ہے۔ پھر اس رشتۂ نکاح کے بعد یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ کے مصداق ان میں سے ایک اللُّؤْلُؤُ (سبز رنگ کا موتی) اور ایک مرجان (سرخ رنگ کا موتی) نکلا۔ اللُّؤْلُؤُ سے مراد حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہیں۔ سبز رنگ کا اشارہ اس زہر کی طرف ہے جو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو دیا گیا اور جس سے آپ کی شہادت ہوئی۔ الْمَرْجَانُ سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیں، اس کی سرخی کا اشارہ خونِ حسین علیہ السلام کی طرف ہے جو کربلا میں بہا۔
حضور نبی اکرم ﷺ اور حسنین کریمین علیہما السلام کے باہمی رشتہ کی نوعیت
امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کا حضور نبی اکرم ﷺ سے رشتہ کیا ہے؟ عام رشتوں میں یہ رشتہ نانا نواسے کا بنتا ہے مگر آقا علیہ السلام نے اس رشتے کی نوعیت بدل دی۔ حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السلام سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
کل بنی أمٍّ یَنْتَمُوْن إلی عصبة إلا ولد فاطمة، فأنا وَلِیُّهُم، و أنا عصبتهم.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 44، رقم: 2632)
’’ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے، سوائے فاطمہ کی اولاد کے۔ پس میں اُن کا ولی ہوں اور میں اُن کا نسب ہوں۔‘‘
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ بَنِي أُنْثَی فَإِنَّ عُصْبَتَهُمْ لِأَبِیْهِمْ مَا خَـلَا بَنِي فَاطِمَةَ، فَإِنِّي أَنَا عُصْبَتُهُمْ وَأَنَا أَبُوْهُمْ.
(اخرجه الدیلمی فی مسند الفردوس، 3: 234، الرقم: 4787)
’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولادِ فاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘
یعنی اب نسبِ فاطمہ علیہا السلام ہی نسبِ مصطفی ﷺ ہے۔ اب حسن و حسینk حضور ﷺ کے نواسے نہیں بلکہ بیٹے کہلائیں گے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
کُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ یَنْقَطِعُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلاَّ مَا کَانَ مِنْ سَبَبِي وَنَسَبِي.
(اخرجه الحاکم فی المستدرک، 3: 153، الرقم: 4684)
’’قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ ہر ایک کے نسب اور آل کو فنا ہے مگر نسبِ فاطمہ علیہا السلام اور آلِ فاطمہ علیہا السلام کو فنا نہیں، اس لیے کہ نسبِ فاطمہ علیہا السلام ؛ نسبِ مصطفی ﷺ ہے اور آلِ فاطمہ؛ آلِ مصطفی ﷺ ہے۔
نمازمیں نبی ﷺ اور آلِ نبی پر درود و سلام
یہی وجہ ہے کہ رب کائنات نے نماز جیسی عبادت جو خالصتاً اللہ کے لیے ہے، اس میں بھی آلِ محمد ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم دیا۔ نماز فقط اللہ کے ذکر اور اس کے حضور بندگی کے اظہار کے لیے ہے اور اللہ کی عبادت میں کسی غیر کا ذکر بھی روا نہیں ہے۔ کسی غیر کا ذکر اگر نماز کے دوران آجائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی بڑا سے بڑا شخص، کوئی محترم ہستی، کوئی پیر طریقت، وقت کا ولی، قطب، غوث بھی آجائے اور ہم حالتِ نماز میں ادباً یا احتراماً دھیان کرکے اسے السلام علیکم کہہ دیں تو ہماری نماز ٹوٹ گئی۔ نماز سے فارغ ہوکر سلام کریں، ہاتھ چومیں، پائوں چومیں، جو ادب چاہیں کریں مگر حالتِ نماز چونکہ عبادتِ خدا ہے، اس میں کسی اور کو سلام نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اگر آنے والے نے سلام کیا اور وہ خواہ کتنا ہی بلند رتبہ کیوں نہ ہو، ہم حالتِ نماز میں اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دے سکتے، بعد میں دیں گے۔ یعنی حا لتِ نماز عبادتِ خدا ہے اور اس دوران کسی غیر کا ذکر نہیں کیا جاسکتا۔
مگر قربان جائیں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی عظمت پر کہ وہ نماز جو نہ صرف خالصتاً اللہ کا ذکر ہے بلکہ اس کے ذکر و عبادت کا کمال اور انتہا ہے، اس نمازمیں بھی اس نے حضور نبی اکرم ﷺ اور اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کا ذکر رکھا ہے۔جب ہم نماز میں ہر یاد سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے، ہر رشتہ منقطع کرتے ہوئے اور ہر ایک سے منہ پھیرتے ہوئے اس کی طرف یکسو ہوجاتے ہیں، قیام اور رکوع و سجود کے بعد حا لتِ تشہد میں بیٹھ کر ساری جسمانی ومالی عبادتیں اللہ کے لیے خالص کرنے کا اقرار کرتے ہیں تو اس کا حکم ہے کہ اب اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عبادت کمال کو پہنچ جائے اور قبولیت پالے، میں تمہاری جھولی اپنی عطائوں کی خیرات سے بھردوں تو میری عبادت کے اس کمال اور انتہاء پر میرے نبی ﷺ پر سلام پڑھو۔ عبادت میری ہے مگر سلام میرے مصطفی ﷺ پر کہو۔
گویا عبادتِ خدا جب اپنے منتہائے کمال کو پہنچی اور بندہ قیام، تلاوت، رکوع و سجود اور ذکر کا پھل لینے کے لیے خدا کے دروازے پر بیٹھ گیا تو اس وقت حکم ہوا کہ اگر چاہتے ہو کہ میری عطائوں کا دروازہ کھلے اور تمہاری جھولی میں لطف و کرم کی خیرات آئے تو میری عطا کا دروازہ کھولنے کے لیے میرے مصطفی ﷺ پر سلام پڑھو۔ پس بندہ السلام علیک ایھا النبی کے الفاظ کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سلام پیش کرتا ہے۔
بعض لوگ حضور نبی اکرم ﷺ پر سلام پڑھنے کے حوالے سے بحث و تکرار کرتے ہیں اور سلام پڑھنے پر نہ جانے کون کون سے فتوے لگاتے ہیں، انھیں اتنی سی بات معلوم نہیں کہ جس نبی پر سلام پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی، اس نبی پر سلام کے بغیر باقی عبادتیں کیسے مقبول ہوسکتی ہیں۔ السلام علیک ایھا النبی کے بھی وہی معانی ہیں جو یا نبی سلام علیک کا معنی ہے۔ فقط الفاظ کا تاخر و تقدم ہے۔ ایک حرف کے معنی کا بھی فرق نہیں ہے۔ ایھا کا معنی ’’یا‘‘ ہے۔ السلام علیک ایھا النبی کے الفاظ کو عام لوگ یا نبی سلام علیک، یارسول اللہ سلام علیک کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
پس جب تک میرے نبی ﷺ پر سلام نہ پڑھو گے، نماز قبول نہیں ہوگی۔ گویا اللہ نے اپنی عبادت قبول کروانے کے لیے مصطفی ﷺ پر سلام پڑھایا۔
سلام پڑھ کر کچھ لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے کام کرلیا۔ فرمایا: نہیں، اپنی عبادت کی قبولیت کے لیے مصطفی ﷺ پر صلوۃ و سلام پڑھوایا، اب مصطفی ﷺ پر سلام کی قبولیت کے لیے ان کی آل پر درود پڑھو۔ پس ہم نماز میں حالتِ تشھد میں اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم کے الفاظ کے ذریعے محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ پر درود پڑھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ نبی پر درود و سلام پڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت قبول ہوگی اورنبی ﷺ پر درود و سلام تب قبول ہوگا، جب نبی ﷺ کی آل پر درود و سلام پڑھیں گے۔
حضرت ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کے آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ یُصَلِّ فِیْهَا عَلَيَّ وَعَلَی أَهْلِ بَیْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَقَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه: لَوْ صَلَّیْتُ صَـلَاةً لَا أُصَلِّي فِیْهَا عَلَی مُحَمَّدٍ، مَا رَأَیْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ.
(اخرجه الدار قطنی فی السنن، 1: 355، الرقم: 6۔7)
’’جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہلِ بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی۔‘‘
ذکرِ اہلِ بیت عین ذکرِ مصطفی ﷺ ہے
سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کی آل پر درود کو نمازمیں داخل کیوں کیا، حالانکہ شریعت کا مسئلہ واضح ہے کہ غیر کو سلام کردیں یا غیر کے سلام کا جواب دیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے؟ حضور ﷺ کی آل پر درود و سلام پڑھنے کا حکم اللہ نے دیا اور اس سے نمازنہیں ٹوٹتی تومعلوم ہوا کہ اگر نبی ﷺ اور آل نبی غیر ہوتے تو نماز ٹوٹ جاتی۔ جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اگر دورانِ نماز نبی ﷺ اور آل نبی پر درود و سلام نہ پڑھیں تو نماز ہی نہیں ہوتی۔ معلوم ہوا کہ یہ غیر نہیں بلکہ عین مصطفی ﷺ ہیں۔ عین یعنی اپنے ہوئے۔ یہ اس لیے اپنے ہوئے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ہر رشتہ اور نسب منقطع ہوجائے گا مگر فاطمہ علیہا السلام کا رشتہ اورنسب منقطع نہیں ہوگا کیونکہ وہ نسبِ فاطمہ علیہا السلام نہیں بلکہ نسب مصطفی ﷺ ہے۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فاطمة بَضْعَةٌ منِّی، فمن أغضبها أغضبنی.
(بخاری، الصحیح، 3: 1361، رقم: 3510)
’’فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، پس جس نے اُنہیں ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ فاطمہ علیہا السلام میرا سب کچھ ہے، میری جان کا حصہ بھی ہے، جگر کا ٹکڑا بھی ہے، بدن کا ٹکڑا بھی ہے، دل بھی ہے، روح بھی ہے اور جان بھی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ اور آل نبی کے ذکر کو اپنی عبادت کی تھال میں رکھا اور اپنی عبادت کے جھرمٹ میں سجا کر رکھا ہے۔ جس طرح اللہ کے ذکر کو فنا نہیں، اسی طرح نبی ﷺ اور آل نبی کے ذکر کو بھی فنا نہیں۔ جن کے ذکر کو بھی فنا نہیں، اُن ہستیوں کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور بے شک اِن سے محبت پر مبنی مضبوط تعلق ہی ذریعۂ نجات ہے۔
آقا علیہ السلام نے اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے ذکر کو عین اپنا ذکر قرار دیا، ان کی محبت کو عین اپنی محبت قرار دیا، ان کے نسب کو عین اپنا نسب قرار دیا اور ان پر درود و سلام کو عین اپنے اوپر درود و سلام بنایا۔
بغضِ اہلِ بیت منافقت ہے
حضور نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف اپنی دوستی اور دشمنی کا معیار اہلِ بیت کو قرار دیا بلکہ اہلِ بیت سے محبت کو ایمان اور ان سے بغض کو منافقت سے تعبیر فرمایا۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ:لِعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ: أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ.
(اخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: فضل فاطمة بنت محمد ﷺ، 5: 699، الرقم: 3870)
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیہم السلام سے فرمایا: تم جس سے لڑو گے، میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو، میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔‘‘
اس فرمان کے ذریعے آقا علیہ السلام نے اپنی دوستی اور دشمنی کا معیار اہلِ بیت کے افراد کو بنادیا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من أبغضنا أهل البیت فهو منافق.
(احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 661، رقم: 1126)
’’جس نے ہم اہلِ بیت سے بغض رکھا تو وہ منافق ہے۔‘‘
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
لایحبنا منافق و لا یبغضنا مؤمن.
(ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 372، رقم: 32116)
’’منافق شخص کبھی ہمارے ساتھ محبت نہیں کرتا اور مومن شخص کبھی ہمارے ساتھ بغض نہیں رکھتا۔‘‘
یعنی یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص منافق ہو، اس کا دل ایمان سے محروم ہو اور وہ ہم سے محبت کرے۔ منافقت اور محبتِ اہلِ بیت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص مومن ہو اور ہم سے بغض رکھے۔ ایمان اور بغضِ اہل بیت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔
حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
أیها الناس! من أبغضنا أهل البیت حشره الله یوم القیامة یهودیا. فقلت: یا رسول الله ﷺ! و إن صام و صلی؟ قال: و إن صام و صلی.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 4: 212، رقم: 4002)
’’جس نے ہم اہلِ بیت کے ساتھ بغض رکھا روزِ قیامت اُس کا حشر یہودیوں کے ساتھ ہو گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز (بھی) پڑھے آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز (بھی) پڑھے (اِس کے باوجود دشمنِ اہل بیت ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی عبادات کو رد فرما کر اسے یہودیوں کے ساتھ اٹھائے گا)۔‘‘
دو مرتبہ صام و صل فرماکر اس حوالے سے ہر طرح کے مغالطے کو ختم کردیا اور واضح کردیا کہ میری اہلِ بیت سے بغض رکھنے والے کی ساری عبادات نامقبول ہیں۔ جس دل میں بغضِ اہلِ بیت ہے، اس کی نماز قبول ہے اور نہ اس کا روزہ قبول ہے۔ یعنی اگر دل میں اہلِ بیت کا بغض ہو تو بغضِ اہلِ بیت رکھنے والے شخص کو نمازیں اور روزے نہیں بخشوا سکتے۔
میں یہ تمام احادیث شیعہ کتب سے نہیں بلکہ کتبِ اہلِ سنت سے بیان کررہا ہوں۔ ہمارے ائمہ کا اِن احادیث کو بیان کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ سنت و جماعت کا اصل عقیدہ کیا ہے؟ یاد رکھیں! اگر محبتِ اہلِ بیت کے حوالے سے اِن احادیث میں بیان کردہ مذکورہ عقیدہ ہے تو اہلِ سنت کہلائیں گے اور یہ عقیدہ نہ رکھنے والا دوزخ کا ایندھن بنے گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
و الذی نفسی بیده! لایبغضنا أهل البیت أحد إلا أدخله الله النار.
(حاکم، المستدرک، 3: 162، رقم: 4717)
’’خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں جان ہے! ہم اہل بیت سے بغض رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ جہنم میں نہ ڈالے۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لو أن رجلا صف بین الرکن والمقام، فصلی و صام، ثم لقی الله وهو مبغضٌ لأهل بیت محمد دخل النار.
(محب طبری، ذخائر العقبیٰ فی مناقب ذوی القربیٰ: 51)
’’اگر کوئی شخص کعبۃ اللہ کے پاس رکن یمانی اور مقامِ ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور روزہ (بھی) رکھے اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ اہلِ بیت سے بغض رکھتا ہو تو وہ شخص جہنم میں جائے گا۔‘‘
یعنی جو کعبہ کے صحن میں سب سے بلند رتبہ جگہ پر کھڑا ہو اور ساری زندگی روزے بھی رکھے اور نماز بھی پڑھے مگر وہ اہلِ بیت محمد ﷺ سے بغض رکھنے والا ہے تو دوزخ کا ایندھن ہوگا۔ نہ رکنِ یمانی اسے بچائے گا اورنہ مقامِ ابراہیم اس کی شفاعت کرے گا۔
لوگو! حضور کی اہلِ بیت کے بغض سے بچے رہنا، اگر اہلِ بیت کا بغض دل میں ہوا اور بھول کر کہیں حوضِ کوثر پر آگئے تو وہاں سے تمہیں دوزخ کی آگ کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ حوضِ کوثر کا پانی نصیب ہوگا اور نہ مصطفی ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی۔ کیوں؟ اس لیے کہ حوضِ کوثر تو ایک طرف رہا، روزِ محشر کا انعقاد ہی شانِ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے اظہار کے لیے ہے۔ روز محشر ہر کوئی آئے گا، ہر ایک کی آمد یکساں ہوگی، بڑی بڑی تقدس مآب خواتین آئیں گی، بڑی بڑی عظیم ولیہ، صالحہ، عابدہ زاہدہ، عارفہ آئیں گی، سراپا عصمت و طہارت آئیں گی، بڑی بڑی ہستیاں آئیں گی، ہر ایک کی آمد اس کی شان کے مطابق ہوگی مگر ایک ہستی ایسی ہیں کہ اُن کی آمد قیامت کے دن سب سے منفرد و ممتاز ہوگی۔ حضرت علی علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
إذا کان یوم القیامة نادی مناد من وراء الحجاب: یا أهل الجمع! غضوا أبصارکم عن فاطمة بنت محمد ﷺ حتی تمر.
(حاکم، المستدرک، 3: 166، رقم: 4728)
’’قیامت کے دن ایک نداء دینے والا پردے کے پیچھے سے آواز دے گا: اے اہلِ محشر! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنت مصطفی ﷺ گزر جائیں۔‘‘
جب تک سیدہ نساء اہل الجنۃ، سیدۃ نسآ ء المومنین، سیدۃ نساء العالمین، لخت جگر مصطفی ﷺ، جان مصطفی ﷺ، روحِ مصطفی ﷺ فاطمۃ الزہراء علیہا السلام گزر نہ جائیں گی، اہلِ محشر میں کوئی نبی ہو یا ولی، نظر اٹھا کر کھڑے ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔ معلوم ہوا کہ جب روزِ محشر بھی ان کا ہے تو دنیا میں اہلِ بیتِ اطہار کی محبت دلوں میں نہ رکھنے والوں کو ان کی شفاعت کس طرح نصیب ہوگی؟
حسنین کریمین علیہما السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظاہری و باطنی مشابہت
تاجدار کائنات ﷺ نے حسنین کریمین علیہما السلام کے حوالے سے فرمایا:
من احب الحسن والحسین علیه السلام فقد احبنی ومن ابغضهما فقد ابغضنی. (سنن ابن ماجه، فضل الحسن والحسین علیہ السلام)
جس نے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
آقا علیہ السلام کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نگاہیں جب دیدارِ مصطفی ﷺ کے لیے ترس جاتیں تو مشتاقانِ دیدارِ مصطفی ﷺ سیدہ کائنات علیہما السلام کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور شہزادے باہر آتے تو حسن اور حسین علیہما السلام دونوں کو ملاکر دیکھ لیتے تو انھیں دیدار مصطفی ﷺ ہوجاتا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الْحَسَنُ أَشْبَهُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا بَیْنَ الصَّدْرِ إِلَی الرَّأْسِ، وَالْحُسَیْنُ أَشْبَهُ بِالنَّبِيِّ ﷺ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ.
(اخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول اللہ ﷺ، باب: مناقب الحسن والحسین علیه السلام، 5: 660، الرقم: 3779)
’’حضرت حسنں سینہ سے سر تک رسول اللہ ﷺ کی کامل شبیہ ہیں اور حضرت حسینں سینہ سے نیچے تک حضور ﷺ کی کامل شبیہ ہیں۔‘‘
حسنین کریمن علیہما السلام کو حضورنبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظاہری مشابہت کے ساتھ ساتھ باطنی مشابہت بھی حاصل تھی۔ حسن اور حسین علیہما السلام ظاہر میں بھی شبیہ مصطفی ﷺ تھے اور باطن میں بھی شبیہ مصطفی ﷺ تھے۔ اسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:
حسین منی وانا من حسین.
(سنن ترمذی، ابواب المناقب)
’’حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں۔‘‘
حسین علیہ السلام کا مصطفی ﷺ سے ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، اس لیے کہ بیٹا اپنے باپ سے ہوا کرتا ہے۔۔۔ جز اپنے کُل سے ہوا کرتا ہے۔۔۔ شاخ اپنے درخت سے ہوتی ہے۔۔۔ پھل اپنی شاخ سے ہوتا ہے۔۔۔ اسی طرح حسین علیہ السلام ؛ مصطفی ﷺ سے ہیں، یہ سمجھ میں آتا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصطفی ﷺ ؛ حسین علیہ السلام سے کیسے ہوئے؟
حسین منی (حسین مجھ سے ہے) کا مطلب ہے کہ حسین علیہ السلام میرا آئینہ ہے۔ ہر کمال، ہر فضیلت، ہر حسن، ہر جمال، ہر عظمت، ہر رفعت اور ہر خوبی جو تم حسین علیہ السلام میں دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ یہ کمال مصطفی ﷺ کا ہے مگر نظر حسین علیہ السلام میں آتا ہے۔۔۔ وصف مصطفی ﷺ کا ہے مگر جھلکتا اور دکھائی حسین علیہ السلام میں دیتا ہے۔ گویا حسین منی کا مطلب یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کے ہر کمال کا مصدر اور اصل میں ہوں۔
جبکہ انا من الحسین (میں حسین سے ہوں) کا مطلب یہ ہے کہ مصطفی ﷺ ؛ حسین علیہ السلام کا مصدر اور حسین علیہ السلام ؛ مصطفی ﷺ کا مظہر ہیں۔۔۔ حسین علیہ السلام کے ہر کمال کی اصل مصطفی ﷺ سے ہے اور مصطفی ﷺ کے ہر کمال کی جھلک حسین علیہ السلام سے ہے۔۔۔ لہذا حسین علیہ السلام سے دوری کرنا حسین علیہ السلام سے دوری نہیں ہوگی بلکہ وہ مصطفی ﷺ سے دوری ہوگی۔۔۔ حسین علیہ السلام سے محروم ہوجانا مصطفی ﷺ سے محرومی ہوگی۔۔۔ حسین علیہ السلام سے بغض رکھنا مصطفی ﷺ سے بغض ہوگا۔۔۔ حسین علیہ السلام سے محبت مصطفی ﷺ سے محبت ہوگی۔۔۔ حسین علیہ السلام کی غلامی مصطفی ﷺ غلامی ہوگی۔۔۔ اور امام حسین علیہ السلام کا ذکر کرنے کا معنی حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر کرنا ہوگا۔ یعنی جس نے حسین علیہ السلام کا نام عقیدت و محبت سے لیا گویا اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کا نام عقیدت و محبت کے جذبات سے اپنی زبان سے ادا کیا۔ یہ رشتہ مصدر و مظہر ہے۔ یعنی مصطفی ﷺ ؛ حسین علیہ السلام کا مصدر اور حسین علیہ السلام ؛ مصطفی ﷺ کا مظہر ہیں۔
اسلام اپنے وجود میں محمدی ﷺ اور اپنی بقاء میں حسینی علیہ السلام ہے
انا من حسین کا ایک اور معنی بھی فضلِ الہٰی اور حضور ﷺ کے نعلین پاک کے صدقے مجھے سمجھ میں آیا کہ میں نے جب امام حسین علیہ السلام کی زندگی اور سیرت پر نگاہ ڈالی اور آپ کی خدمتِ دین کا مطالعہ کیا تو حسین علیہ السلام کا مصطفی ﷺ سے ہونے کا یہ معنی ظاہر ہوا کہ فاطمہ علیہا السلام کی گود سے لے کر کربلا کے دن تک حسین علیہ السلام ؛ مصطفی ﷺ سے تھا اور کربلا سے لے کر قیامت تک مصطفی ﷺ ؛ حسین علیہ السلام سے ہیں۔ فاطمہ علیہا السلام کی گود سے لے کر کربلا کے دن تک حسین علیہ السلام مجھ سے تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ میرا پالا ہوا تھا، میرا پرورش یافتہ تھا، میرا تربیت یافتہ تھا، میں اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر چساتا تھا۔۔۔ اپنا فیض اسے منتقل کرتا تھا۔۔۔ میں حسین علیہ السلام کو اپنے سینے پر لٹاتا تھا تو سینہ مصطفی ﷺ کا فیض حسین علیہ السلام کے سینے میں منتقل کرتا تھا۔۔۔ میں حسین علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر چلا کرتا تھا، اس طرح میں حسین علیہ السلام کو کربلا کے دن کے لیے تیار کرتا تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حسین علیہ السلام کے ہاتھوں کو آقا علیہ السلام نے پکڑا ہوا تھا اور فرماتے تھے حسین علیہ السلام میرے سینے پر بیٹھ۔ حسین علیہ السلام ؛ مصطفی ﷺ کے سینے پر بیٹھتے تھے۔ پھر حضور علیہ السلام نے زبان نکالی اور حسین علیہ السلام کو فرمایا کہ منہ کھول! میرے مصطفی ﷺ نے اپنی زبان مبارک حسین علیہ السلام کے منہ میں ڈالی، حسین علیہ السلام چوسنے لگ گئے۔ یہ کیا تھا، یہ کربلا کا ایک پس منظر تھا کہ حسین علیہ السلام جب پیاس کا وقت آئے گا، اس وقت پانی تونہیں ملے گا مگر میری زبان کا چشمہ کام آئے گا۔۔۔ جب گھوڑے تیری لاش مبارک پر دوڑائے جائیں گے، اس وقت میرے سینے پر لیٹنا یاد رکھ لینا۔۔۔ جب تیرا سر نیزے پر سوار کیا جائے گا تو میرے کندھوں کی سواری یاد رکھ لینا۔۔۔ میں ہر آنے والے وقت کا بدلہ دیئے جارہا ہوں۔
فاطمہ علیہا السلام کی گود سے کربلا کے دن تک حسین علیہ السلام مجھ سے تھا پھر حسین علیہ السلام نے جو کچھ کربلا میںکردیا، اس کی وجہ سے کربلا کے دن سے قیامت تک میں حسین علیہ السلام سے ہوں۔ یعنی میرا دین حسین علیہ السلام سے ہے۔
میں اگر اس پورے مضمون کا ایک عنوان بنادوں اور حدیث کی شرح کا خلاصہ بیان کروں تو یہ ہوگا کہ ’’اسلام اپنے وجود میں محمدی ﷺ ہے اور اپنی بقا میں حسینی ہے۔‘‘ حسین علیہ السلام کا وجود مصطفی ﷺ سے ہے اور اسلام کی بقا حسین علیہ السلام سے ہے۔لہذا جو اسلام کی راہ پر چلنا چاہتا ہے، خداکی قسم! وہ حسین علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلے۔۔۔ جو سیرت مصطفی ﷺ پر چلنا چاہتا ہے وہ کردار حسین علیہ السلام پر چلے۔۔۔ اسلام کی پیروی؛ حسین علیہ السلام کے قدموں سے حاصل کرو۔۔۔ دینِ اسلام کی بقا حسین علیہ السلام سے ہے۔ اسی وجہ سے خواجہ اجمیر نے فرمایا:
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
یعنی دین اسلام اور لا الہٰ کی بنیاد حسین علیہ السلام ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ کا حسین علیہ السلام کی محبت کو اپنی محبت قرار دینا اور اِن سے غیر معمولی محبت کرنا اسی وجہ سے تھا کہ امام حسین علیہ السلام سے اسلام کو بقا ملنی تھی۔
ماہِ محرم الحرام میں واقعہ کربلا ہمیں ایک طرف اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام سے ہونے والے ظلم و ستم کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف اس مقدس خانوادۂ کی قربانیوں، استقامت اور جرأت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ مہینہ اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام اور حسنین کریمین علیہما السلام کی محبت کی شمعیں اپنے دلوں میں روشن کریں اور اس سے نور حاصل کرکے اپنے ایمان کو ہمیشہ منور و تاباں رکھیں۔