کربلا کے مسافر اہلِ بیت اطہار علیہم السلام دنیا سے ایسے گذرے ہیں کہ روشن قندیلوں کی مانند آج بھی شاہراهِ حیات پر چمک دمک رہے ہیں۔ ہر ذی نفس ان کے نقوشِ پا سے اپنی زندگی کی راہیں متعین کررہا ہے اور اپنی منزلوں کا سراغ لگا رہا ہے۔ اس لیے کہ یہ انسانوں میں بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہستیاں ہیں اور باکمال اور بے مثال ذاتیں ہیں۔ ان کے سرخیل پیکرِ صبر و رضا، سید اہلِ وفا، شہیدِ جوروجفا، نور دیدہ مرتضیٰ و مصطفی، شہزادہ بتول، جگر گوشہ رسول سیدنا امام حسین علیہ السلام کی ذات بابرکات ہے۔
وہ حسین علیہ السلام جن کی شجاعت زمانے میں مشہور ہے۔۔۔ جن کی تلاوتِ قرآن نیزۂ عدو پر بھی ہے۔۔۔ جو امام الانبیاء علیہ السلام کی جان اور دین کے پھولوں کی مہکار ہیں۔۔۔ جو قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے عالی کردار ہیں۔۔۔ جو رسول اللہ ﷺ کی محبت کا انتخاب ہیں۔۔۔جن کا حامی کردارِ حسینیت کا حامل قرار پایا اور جن کا مخالف کردارِ یزیدیت کی پہچان بنا۔۔۔ جن سے مؤدت جنت کی ضمانت اور عداوت دوزخ کی مقدوریت ہے۔۔۔ کربلا میں جن کے سجدے نے دین کو بچایا، ایسے نمازی کا نام حسین علیہ السلام ہے۔۔۔ خالق کی ہر رضا پر راضی رہنے کا نام حسین علیہ السلام ہے۔
آج اگر کسی کو دین سمجھنا ہے، دین کے تقاضوں کو معلوم کرنا ہے اور دین کی حقیقتوں کا ادراک کرنا ہے تو وہ اپنے کردار کی تشکیل میں اس ذات کی طرف راغب ہوجائے جو دین است حسین اور دین پناہ است حسین کے منصبِ کبریٰ پر فائز ہوچکی ہے۔
حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو باری تعالیٰ نے جانِ محمد ﷺ بنایا ہے۔ یہ جانِ محمد ﷺ ہی دینِ محمدی کی علامت بن کر کربلا کے میدان میں کل خانوادے کو دین کی سربلندی اور اقدارِ دین کی خاطر قربان کردیتی ہے۔ نہ اس راستے میں اس نے اپنا سر جھکایا اور نہ ہی اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دیا۔ امام عالی مقام علیہ السلام کی اس جرأت اور شجاعت کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہوئے خواجہ اجمیر پکار اٹھتے ہیں:
شاہ است حسین پادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالٰہ است حسین
شہادت ایک نعمت ہے اور شہداء نعمتِ شہادت کی بناء پر اللہ کے انعام یافتہ بندوں میں شمار ہوتے ہیں، جس کا ذکر قرآن مجید یوں کرتا ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ.
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔‘‘ (البقرہ، 2: 207)
شہداء کا طبقہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں کا طبقہ ہے۔ اس نعمت کے حامل اپنی حیاتِ فانی کو حیاتِ باقی بنادیتے ہیں اور حیات ِعارضی کو حیاتِ دائمی کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ اس لیے وہ مر کر بھی نہیں مرتے بلکہ اپنی حیات کا احساس ہر پل کراتے رہتے ہیں۔ اپنی حیات کے شعور کو انسانی ذہنوں میں زندہ و تابندہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کی رحمتوں کا نزول ان کی حیات کو مزید جِلا بخشتا چلا جاتا ہے۔ شہداء کی ارواح اور مزارات پر صلوات الہٰ کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ اور یہی رحمتیں ان کے اجساد پر [وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ. (البقرة، 2: 154)] کا حکم جاری کرتی ہیں۔
شہداء کربلا آج بھی اس حکمِ قرآنی کے مطابق زندہ و جاوید ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر بھی باقی ہے اور لوگوں میں جاری و ساری بھی ہے۔ شہداء کربلا کی شہادتوں کا ذکر تو سارا سال جاری رہتا ہے مگر جوں ہی محرم الحرام کا مہینہ آتا ہے تو یہ ذکر اپنے جوبن و کمال کو پہنچ جاتا ہے۔
10 محرم کو کربلا کا میدان حسینی لشکر کے 32 گھوڑ سواروں اور 40 پیادہ جانثاروں کی قربانی اور شہادتِ عظمیٰ کی تاریخ رقم کرنے کے لیے بیتاب تھا اور ان میں سے ہر کوئی اپنی جان کا سودا اپنے مولا کے حضور کرچکا تھا اور اس آیت کا مصداق اتم بنے ہوئے نظر آرہا تھا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ.
(البقرة، 2: 207)
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی مرضی چاہنے میں اپنی جان بیچ دیتے ہیں۔
جبکہ اہل بیت اطہار اور شہداء کربلا کے مقابل آنے والوں، کربلا کے تپتے ہوئے میدان میں 72 اہل بیت کے نفوس قدسیہ پر بے دریغ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں، امام عالیمقام علیہ السلام کے سرمبارک کو تن سے جدا کرکے نیزہ پر بلند کرنے والوں، تمام رجالِ اہلِ بیت کی شہادت کے بعد اُن کے خیموں کو آگ لگانے والوں، عفت مآب مستوراتِ اہل بیت کی تقدیس کی بے حرمتی کرنے والوں اور انھیں قیدیوں کے روپ میں اپنے درباروں میں پھیرانے والوں کے لیے یہی قرآنی حکم کافی ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه، لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.
(الاحزاب، 33: 57)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اہلِ بیت سے تعلق فرامینِ مصطفی ﷺ کی روشنی میں
رسول اللہ ﷺ کا تمام انسانوں اور جملہ مسلمانوں پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اللہ کے حضور جھکایا اور ان کے اشرف الخلق ہونے کے اعزاز کو قائم رکھتے ہوئے انہیں مظاہرِ کائنات میں سے بے شمار چیزوں کو خدا بنانے، ان کی پرستش کرنے اور ان کے سامنے سربسجود ہونے سے بچایا ہے۔ آج اگر ہم اپنی باطن کی کائنات میں وحدت اور یکسوئی کی نعمت سے مالا مال ہیں تو سب کچھ رسول اللہ ﷺ کی عطا کردہ اور فراہم کردہ ہدایت کا نتیجہ ہے۔ سارے انسان اور تمام مسلمان مل کر بھی رسول اللہ ﷺ کے اس احسان کا بدلہ اور صلہ نہیں چکا سکتے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس کارِ نبوت اور امرِ رسالت پر امت سے کوئی صلہ اور کوئی اجر نہیں مانگا ہے اور سب انبیاء علیہم السلام کا بھی یہی طریق اور یہی روش رہی ہے اور وہ انسانوں کو ہدایت فراہم کرکے اپنے اجر اور صلہ کے باب میں یہی کہتے رہے ہیں:
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
(الشعراء، 26: 145)
اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کچھ معاوضہ طلب نہیں کرتا، میرا اجر تو صرف سارے جہانوں کے پروردگار کے ذمہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی امت سے یہی فرمایا: ان اجری الاعلی رب العالمین مگر اس کے ساتھ امت سے صرف اور صرف ایک ہی چیز اپنے امرِ رسالت اور کارِ نبوت پر طلب کی ہے جس کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
(الشوریٰ، 42: 23)
میں اس تبلیغ رسالت پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ہوں مگر اپنی قرابت سے محبت چاہتا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس امت سے اپنی قرابت اور اپنی اہلِ بیت کی محبت مانگی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنی شانِ قاسمیت کے تحت امت کو سب کچھ عطاکردیا ہے مگر امت سے فقط مؤدت و محبتِ اہلِ بیت طلب کی ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللّٰهِ فِیهِ الْهَدْیُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوا بِهِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰهِ وَرَغَّبَ فِیْهِ. ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَیْتِی اُذَکِّرُکُمُ اللّٰهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی اُذَکِّرُکُمُ اللّٰهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی اُذَکِّرُکُمُ اللّٰهَ فِی أَهْلِ بَیْتِی.
(مسلم بن حجاج القشیری، کتاب فضائل الصحابة، 3: 1873، الرقم 2408)
’’میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلی عظیم چیز اللہ کی کتاب ہے۔ اس عظیم چیز میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اور (دوسری عظیم چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔
امت کو آج اہلِ بیت کے ساتھ تعلق کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کے ان کلمات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اذکرکم اللہ فی اہل بیتی اور قرآنی حکم اور حقیقت الاالمودۃ فی القربی کو ذہن نشین کرنا چاہیے۔
اسی حدیث کی وضاحت رسول اللہ ﷺ کے ان کلمات سے بھی ہوتی ہے:
فانظروا کیف تخلفونی فیهما.
(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب مناقب اهل بیت النبی، 5: 662)
پس تم ضرور دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔
اہلِ بیت سے تعلق ہدایت کی علامت اور ہدایت کی ضمانت ہے اور ان سے قطع تعلقی، دین سے قطع تعلقی اور رسول اللہ ﷺ سے قطع تعلقی ہے۔ اس لیے اگر امت آج ہدایتِ الہٰیہ پر استقامت چاہتی ہے تو اس کا راستہ کتاب اللہ اور عترتِ رسول سے مضبوط تعلق اور مستحکم ربط میں ہے۔ گویا اہلِ بیت سے تعلق معمولی تعلق نہیں ہے۔ ان سے تعلق ایمان کا تعلق ہے، جس کا ان کے ساتھ تعلق ہے، اس کے دل میں ایمان کی بہار ہے۔
عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں اس وقت آپ کے پاس ہی تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: آپ کو کس نے ناراض کیا؟ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا (بنو ہاشم) اور باقی قریشیوں کا کیا معاملہ ہے؟ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں، اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی غصے میں آ گئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
والذی نفسی بیده لایدخل قلب رجل الإیمان حتی یحبکم لله ولرسوله. (رواه الترمذی)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت کرے۔‘‘
اہلِ بیت سے محبت علامتِ ایمان ہے اور ان سے بغض علامتِ نفاق ہے۔۔۔ ان سے محبت جنت کی ضمانت ہے اور ان سے عداوت اللہ کے عتاب کی نشانی ہے۔
امامِ حسین علیہ السلام اقامتِ اسلام کا استعارہ
واقعہ کربلا سے قبل حسین علیہ السلام ایک ذات اور ایک شخصیت کا نام تھا۔ آج اسلام میں حسین علیہ السلام ایک کردار بن چکا ہے اور دینِ اسلام کی اقامت اور احیاء کا ایک استعارہ بن چکا ہے۔ حسین علیہ السلام ایک کردار اور دین کی سربلندی اور سرفرازی کا نشان کیسے بنے؟ اس حوالے سے یہ فرمان باری تعالیٰ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہیـ:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ.
(البقرة، 2: 207)
اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲکی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے۔
اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کا سودا کرنے والوں کا مقصد صرف اور صرف مولا کی رضا و خوشنودی ہوتی ہے۔ رب اپنی رضا اور خوشنودی کے لیے خود اپنے بندوں سے بعض کو چن لیتا ہے اور ان کو آزمائش و ابتلا سے گزار کر مقامِ رفیع پر متمکن کرتا ہے۔ اس طرح کی ابتلاء و آزمائش مقربین و صالحین کے لیے ہوتی ہے، اس حقیقت کو قرآن یوں بیان فرماتا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْآ اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ.
(البقرة، 2: 155، 156)
’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ کا ایک ایک لفظ شہداء کربلا کے پاک نفوس پر منطبق ہوتا ہے انھوں نے سب سے پہلے اپنی جانوں کو اللہ کی رضا کا پیکر بنایا اور پھر رضائے الہٰی کی تلاش و جستجو میں ہر آزمائش اور ہر ابتلا ء سے گزر گئے۔۔۔ دشمن کا خوف ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بنا۔۔۔ یزیدی فوج کی کثرت ان کے پائے استقلال کو مضمحل نہ کرسکی۔۔۔ بھوک و پیاس کی شدت ان کے جذبۂ شہادت کی راہ میں مزاحم نہ ہوسکی۔۔۔ اور بچوں، نوجوانوں اور سارے خانوادے کی شہادت بھی امام عالی مقام علیہ السلام کو باطل کے سامنے سرنگوں نہ کرسکی اور وہ میدان کربلا میں جانوں کا نذرانہ قوتِ صبر کے ساتھ پیش کرتے رہے۔
قرآن مجید ان شہداء کو جنھوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرواور اولاد کا سودا اللہ کی رضا کی خاطر کیا اور سب کچھ اسی کے نام پر قربان کیا، اُن کے لیے یہ مژدہ جانفزا سناتا ہے کہ:
اُولٰٓئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ قف وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ.
(البقرة، 2: 157)
’’یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
کربلا کے شہداء نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حیات دی ہے اگر اس وقت شہداء کربلا اسلام کی خاطر قربانی نہ دیتے تو آج اسلام کی تعلیمات کی خالصیت اور انفرادیت نظر نہ آتی۔ واقعہ کربلا نے اسلام کو حیاتِ نو دی ہے۔ ہر دور میں جب بھی اسلام کی اقدار پر حملہ ہوگا، اسلام کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے گا اور اسلام کی روشن روایات کو مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو شہداء کربلا کا کردار اسلام کو سنبھالنے آجائے گا اور اسلام کو حیاتِ نو بخشے گا۔
قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
واقعۂ کربلا اور اسلام میں دو کرداروں کا ظہور
واقعہ کربلا تاریخ اسلام اور تاریخ انسانیت میں حق اور باطل کی علامت بن چکا ہے۔ آج حق کے اظہار کا نام حسینیت ہے۔۔۔ عدل و انصاف کے قیام کا اعلان حسینیت ہے۔۔۔ اسلام کی سربلندی کا نام حسینیت ہے۔۔۔ اسلام کی ارفع اقدار کی بحالی کا نام حسینیت ہے۔۔۔ اسلام کے احیاء اور اقامت دین کا نام حسینیت ہے۔۔۔ اپنے حکم کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے مطابق اور موافق کرنے کا نام حسینیت ہے۔۔۔ اللہ کے حکم کے سامنے جھکنے کا نام حسینیت ہے۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا نام حسینیت ہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام سے منافقت کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ اسلام کے ساتھ دھوکہ و دجل کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ اسلام کے شعار کا مذاق اڑانے کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ اسلام کے تصورِ امانت میں خیانت کرنے کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ اسلام کے مقدس نام کو پامال کرنے کا نام یزیدیت ہے۔۔۔ عیش و عشرت، فسق و فجور، ظلم و ستم، دجل و فریب، ظلم و ناانصافی، بیت المال اور قومی خزانے کو لوٹنے اور عملاً اسلام کی تعلیمات کے انکار کا نام یزیدیت ہے۔ اس لیے یزیدیت کا ہر روز، روزِ زوال ہے اور حسینیت کا ہر روز روزِ عروج ہے۔ یزیدیت فنا کا نام ہے جبکہ حسینیت بقا کا نام ہے۔
واقعہ کربلا اور شہداء کربلا نے اسلام کو حیاتِ نو اور حیاتِ جاوداں دی ہے۔شہداء کربلا کا پاک خون آج بھی اسلام کی تعلیمات کی حفاظت کررہا ہے۔آج بھی اسلام کو اپنی حفاظت اور اپنی بقاء کے لیے جب بھی ضرورت پڑتی ہے تو شہداء کربلا کا خون حسینی روح بن کر مسلمانوں میں دوڑنے لگتا ہے۔
حسینیت اور یزیدیت میں سے ایک کردارِ حق ہے اور ایک کردارِ باطل ہے۔۔۔ ایک کردار اسلام کو زندہ کرنے والا ہے اور ایک کردار اسلام کی اقدار کو مٹانے والا ہے۔۔۔ ایک کردار اسلام کی عظمت کا ہے اور ایک کردار اسلام کی بدنامی کا ہے۔۔۔ ایک کردار اسلام کے فروغ کا ہے اور ایک کردار اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کا ہے۔۔۔ ایک کردار اسلام کو زندہ کرنے کا ہے اور ایک کردار اسلام کے ساتھ منافقت کا ہے۔ آج اسلام کی تعلیمات، اقدار، حقیقی تصورات، اصل اعتقادات، نظریات اور تعلیمات کا احیاء صرف اور صرف کردارِ حسین سے روشنی لینے سے ہی ممکن ہے۔
حاصلِ کلام
10 محرم الحرام کا دن ہر سال امتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد کو غمگین اور افسردہ کردیتا ہے کہ کربلا کے میدان میں یزیدی فوج نے جو کچھ کیا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کا واضح انکار تھا اور اسلام کی تعلیمات کا کھلا استہزا اور مذاق تھا۔ کربلا کی زمین پر یزیدی فوج نے ہر ظلم کو اہلِ بیت کے خلاف روا رکھا۔ کربلا میں خون بہانے کے بعد بھی ابن زیاد اور یزیدی فوج کی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی۔ اہل بیت کی تقدس ماب خواتین کو کوفہ و دمشق کے بازاروں میں کئی دنوں تک پھرایا گیا۔ خانوادہ نبوت کے سروں کو نیزوں پر لہرایا گیا۔ ابن زیاد اور یزید سرِ حسین اور چہرہ حسین علیہ السلام کی بے حرمتی اور گستاخی کرتے رہے۔ حتی کہ سیدنا زین العابدین علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ یہ سارا کچھ اس خانوادے کے ساتھ کیا جارہا ہے جن پر یہ امت روزانہ نماز میں درود و سلام بھیجتی ہے۔ جن کی طہارت و تطہیر کی گواہی قرآن نے دی ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.
(الاحزاب، 33: 33)
بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول ﷺ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
اہلِ بیت اطہار نے اپنا خون دے کر دین کو بچالیا، اپنے خون سے دین کی اقدار کی حفاظت کی اور شجرِ دین کی اپنے خون سے آبیاری کی ہے۔ واقعہ کربلا حق اور باطل کی علامت اور امام عالیمقام علیہ السلام حق کی علامت بنے۔۔۔ صداقت کی نشانی حسین علیہ السلام ہیں۔۔۔ امانتِ دین کی علامت حسین علیہ السلام ہیں۔۔۔ دین کی زندہ قدروں کا نام حسین علیہ السلام ہے۔۔۔ دین کا محافظ حسین علیہ السلام ہے۔۔۔ رہتی دنیا تک ظلم و ستم کے خلاف آوازِ حق کا نام حسین علیہ السلام ہے۔۔۔ فرعونی و نمرودی اور یزیدی قوتوں کے خلاف صدا حسین علیہ السلام ہیں۔۔۔ ہر یزیدِ وقت کے خلاف جذبۂ ایمانی کا نام حسین علیہ السلام ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں حضور ﷺ کے کندھوں کی سواری کی لاج رکھ لی۔ اس حق اور فرض کی ادائیگی کے بعد امام حسین علیہ السلام کا وجود سراپا دین بن گیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کا کردار بنائے لا الہ بن گیا ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا کردار آج صرف ایک مسلمان کے لیے ہی راہنما نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ہر انسان کردارِ حسینی سے ظلم و ستم اور جور و استبداد کے خلاف صدائے حق کو بلند کرنے کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ایک روشنی پارہا ہے۔ کردارِ حسین علیہ السلام کسی فرقے کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ حق، سچ اور اسلام کی نمائندگی کرتا ہے اور ایک کردارِ مسلم کا تعین کرتا ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر شخص پکارے گا ہمارے ہیں حسین