اداریہ: اسلام کی نشاۃ ثانیہ علم سے ممکن ہے

چیف ایڈیٹر: ماہنامہ منہاج القرآن

پاکستان کو آزاد ہوئے 77برس مکمل ہوچکے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں 77 سال کا عرصہ طویل عرصہ شمار نہیں ہوتا تاہم پاکستان کی قومی، معاشرتی، اقتصادی، جمہوری زندگی کے حوالے سے 7 دہائیوں میں بڑے اتار چڑھاؤ اور مدوجزر آئے۔ پاکستان نے اس عرصہ کے دوران بہت کچھ کھویا بھی اور پایا بھی۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ میری رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا اور کبھی امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دینا یعنی جُہدمسلسل کو اپنا شعار بنائے رکھنا اور مجھ سے میری نعمتیں طلب کرتے رہنا۔ ہم اس صدی کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہ اقوام فتنہ و فساد، قتل و غارت گری، چھینا جھپٹی، کاہلی، سستی، ناامیدی میں غرق نظر آتی ہیں پھر انہی اقوام نے علم اور محنت کو جب اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو یہی اقوام دنیا کی امام بن گئیں اور دنیا کو تہذیب و ترقی کا درس دینے لگیں۔ جب یہ اقوام غربت وجہالت اور ناامیدی کے اندھیروں کا شکار تھیں تو تب اُمتِ مسلمہ علم و ہنر کے سفر پر گامزن تھی اور دنیا کو جینے کا ڈھنگ سکھارہی تھی۔ سائنسی علوم پر دسترس کی وجہ سے ہر آئے روز انسانیت کو ایجادات کے تحفے دے رہی تھی اور آسانیاں بانٹ رہی تھی۔

تحریک آزادی اور جدوجہدِ آزادی کی بہت ساری جہتیں ہیں، ان میں ایک مسلمانوں کو علم کی روشنی سے دور رکھنا تھا۔ برصغیرمیں آباد دیگر اقوام کو حصولِ علم کے لئے جو آسانیاں اور سہولتیں میسر تھیں وہ مسلمانوں کو میسر نہیں تھیں۔ مسلمانوں کو غلام بنائے رکھنے کے لئے انہیں علم اور مراکزِ علم سے دور کر دیا گیا تھااور تحریک آزادی کے دوران مسلمان اس امید کے ساتھ بانی پاکستان کی سرپرستی میں حصولِ آزادی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگارہے تھے کہ الگ اور آزاد خطۂ وطن کے اندر ہم جہاں آزادانہ مذہبی اقدار و اطور اپنا سکیں گے، وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے دنیا کی ایک بہترین قوم بن کر بھی ابھریں گے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی اس حقیقت سے باخبر تھے کہ علم ہی ترقی کا راستہ اور کامیابی کی کنجی ہے۔ آپ ہمیشہ نوجوانوں کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ آپ نے زمانۂ طالب علمی کے دوران علم پر توجہ مرکوز رکھنی ہے اور کسی کا آلہ کار نہیں بننا۔ علم آزادی ہے اور جہالت غلامی ہے۔ بانی پاکستان نوجوانوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ آپ سیاسی مسائل میں ضرور دلچسپی لیں لیکن اس سے مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ آپ اس دلچسپی کی خاطر تعلیم کو چھوڑ دیں۔ سیاست کو علم اور مطالعہ پر ہر گز ترجیح نہ دیں۔ نئے میدان، نئے راستے اور نئی منزلوں کے مسافر بنیں۔

افسوس بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اس فکر کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ 77 سال کے بعد بھی شرح خواندگی 60 فیصد سے کم ہے۔ اگرچہ دعویٰ 62 یا 64 فیصد کا کیاجاتا ہے مگر عملاً ہماری تعلیمی حالت ناقابل بیان ہے۔ اگر آزادی کے بعد ہر سال شرح خواندگی میں ایک فیصد بھی اضافہ ہوتا تو آج شر خواندگی 77 فیصد ہوتی۔ اب تک جتنے بھی سربراہانِ مملکت اقتدار پر براجمان ہوئے سب نے تعلیم کی ترقی کا نعرہ لگایا، تعلیمی پالیسیاں دیں مگر معیارِ تعلیم اور شرح خواندگی میں اضافہ خواب ہی رہا۔

ہم وہ اُمت ہیں جس کے پیغمبرِ حق نے ہر مرد و خواتین پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حصولِ علم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اُمت کو متعدد جوامع الکلم عطا فرمائے ہیں:

  • حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ’’ علم حاصل کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے علم سیکھنا خوفِ الٰہی پیدا کرتا ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے اور اس کا مذاکرہ تسبیح ہے اور اس کی جستجو میں لگے رہنا جہاد ہے۔ بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر خرچ کرنا اللہ کی قربت کا باعث ہے۔ حلال و حرام کا فہم حاصل کرنے کے لئے علم نشانِ راہ ہے‘‘۔
  • حضرت انس ابن مالک  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ سخیوں کا سخی کون ہے؟ اللہ تعالیٰ سب سخیوں کا سخی ہے اور میں اولادِ آدم میں سب سے بڑا سخی ہوں، میرے بعد لوگوں میں سب سے بڑا سخی وہ شخص ہو گا جس نے علم حاصل کیا، پھر اُس علم کو دوسروں تک پہنچایا۔ قیامت کے دن اُس ایک شخص کو پوری اُمت کے برابر کھڑا کیا جائے گا‘‘۔
  • حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  روایت فرماتے ہیں بے شک ایک عالم دین پوری عمر دن کو روزہ رکھنے، رات کو قیام کرنے اور میدانوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے شخص سے زیادہ اجر کا مستحق ہے‘‘۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب علم اور مصادرِ علم میں احادیث رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں علم کی فضیلت و اہمیت پر ایک فکر انگیز باب قائم کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں علم دنیوی ترقی و کامیابی کا زینہ تو ہے ہی مگر بطور مسلمان حصولِ علم، خشیتِ الٰہی کا سبب ہے۔ یہ عبادت و تسبیح ہے،  اس کی جستجو جہاد ہے، اس کا فروغ صدقہ ہے، یہ قربت الٰہی کا ذریعہ ہے، حلال و حرام میں تمیز سکھاتا ہے، علم نفلی عبادات میں سرفہرست ہے، علم میں اضافے کی دعا اور جستجو کرنا سنت انبیاء ہے، حصولِ علم کے لئے سفر کرنا پیغمبرانِ خدا کی سُنت ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ نابغۂ روزگار ہیں کہ جنہوں نے علم کے فضائل فقط تحریر و تقریر تک بیان نہیں فرمائے بلکہ انہوں نے اُمت کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بے مثال تعلیمی ادارے بھی قائم کئے جن میں منہاج یونیورسٹی لاہور، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، ویمن کالج برائے خواتین، نظام المدارس پاکستان، آغوش گرائمر سکول، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، تحفیظ القرآن انسٹی ٹیوٹ اور الاعظمیہ نمایاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں مدینۃ الزہرہ، مانچسٹر کالج سمیت دنیا بھر میں قائم اسلامک سنٹرز علم کے نور کو عام کررہے ہیں۔ یہاں سے ہزار ہا طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مثبت اور فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ منہاج القرآن وہ واحد تحریک ہے جس کے اندر بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی، ایم فل سکالرز موجود ہیں اور فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اپنا علمی، تحقیقی فریضہ انجام دے رہا ہے۔ تاہم کسی ایک تحریک اور ایک شخصیت کے تعلیمی و تحقیقی کردار سے وہ جامع مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے جن کا تعین تحریک پاکستان کے دوران بانیٔ پاکستان کی سرپرستی میں کیاگیا تھا۔ حکومت کوئی بھی ہو، اُسے پہلی ترجیح فروغِ علم بنانا ہو گی اور تعلیم سے محبت فقط بیانات تک نہیں ہونی چاہیے بلکہ بجٹ کے اندر بھی اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں تعلیم پر سب سے کم رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ جب تک ہم تعلیم کو عملاً اپنی اولین ترجیح نہیں بنائیں گے، ہمارے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ تعلیم کے فروغ کی پالیسی سیاست سے بالاتر ہونی چاہیے۔

یوم آزادی کے اس پرسعید موقع پر ہمیں اس عہد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ان سے سبق حاصل کریں گے،  اپنی اصلاح کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور زیادہ سے زیادہ وسائل تعلیم و تحقیق پر خرچ کریں گے، چاہے ہمیں بھوکا ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ اللہ رب العزت نے پاکستان کو بے بہا قدرتی نعمتوں،  معدنی خزانوں، بہترین سمندروں، پہاڑوں، سرسبز میدانوں، جنگلات، باغات اور انواع و اقسام کے میوہ جات سے مزین و مرصع زمین کا شاداب ٹکڑا عطا کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کروڑوں عوام اورپرعزم نوجوانوں کی افرادی قوت سے نوازا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرت کی ان نعمتوں کو کماحقہ بروئے کار لایا جائے۔