جب عالمِ مغرب میں صنعتی نقلاب (industrial revolution) آیا تو اس کے بعد سے معیشت Labour intensive economy کہلانے لگی۔ اس کے اجزاء میں سرمایہ (capital)، زمین(land)، محنت (labour) اور قدرتی وسائل شامل ہیں۔ گویا اس اکنامک ماڈل میں جس ملک کو جس قدر وسائل میسر ہوتے ہیں وہ اتنا ہی معاشی طور پر زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ اس معاشی ماڈل نے ایک طویل عرصہ پوری دنیا پر راج کیا۔ بعد ازاں اسی ماڈل کے اندر سیاست، ٹیکنالوجی اور مشین داخل ہوگئی جس کی وجہ سے پروڈکشن میں اضافہ ہونے لگا۔ کچھ دہائیاں قبل دنیا نے ایک اور کروٹ لی اور صنعتی انقلاب کے بعد ایک بڑی تبدیلی معاشی میدان پر رونما ہوئی اور ایک نیا اکنامک ماڈل knowledge based Economy منظر عام پر آیا۔ اس اکانومی کے دو اہم پہلو ہیں:
1۔ knowledge (علم)
2۔ Economy (معیشت)
نالج سے مراد خبر، علم اور Skills (ہنر) ہیں۔ وہ تمام نئے علوم و فنون جن میں سائنسز، ٹیکنالوجی اور ان کو استعمال کرنے کا ہنر شامل ہے، یہ سارے عوامل مل کر لفظ نالج تشکیل دیتے ہیں۔ نالج بیسڈ اکانومی سے مراد یہ ہے کہ وہ اکانومی جو اب صرف سرمایہ، محنت، قدرتی وسائل، زمین اور سرمایہ کاری پر منحصر نہ ہو بلکہ علم، ہائیر ایجوکیشن، ٹیکنالوجی، سائنس، سافٹ ویئر، آئی ٹی اور non tangible resources پر انحصار کرے۔ مزید یہ کہ اس تمام ایجوکیشن، Skills اور ٹیکنالوجی کو یوں استعمال کیا جائے کہ اس سے معاشی وسائل اور دولت پیدا ہو تو اس کو نالج بیسڈ اکانومی کہا جائے گا۔
نالج بیسڈ اکانومی کی ضرورت کیوں؟
کئی دہائیوں سے ماہرین معیشت اور حکومتیں اس بات پر مصر ہیں کہ دنیا کا مستقبل نالج بیسڈ اکانومی ہے۔ اس ماڈل کی طرف رجحان کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً: قدرتی وسائل میں سے کئی ممالک کو تیل میسر آیا اور انھوں نے اس کے ذریعے اپنے ملک و قوم کو ترقی دی۔ پہلے وہ محض صحرا تھے مگر معدنی دولت تیل کے ذریعے انھوں نے اپنے ممالک کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اسی طرح مختلف ممالک کو سونا اور دیگر معدنیات کی صورت میں جو کچھ بھی قدرتی وسائل میسر آئے انہوں نے ان کو استعمال میں لاکر ترقی کی مگر اب صورت حال یہ ہے کہ یہ وسائل اب دنیا سے ختم ہونے جارہے ہیں۔ معدنی تیل کے بارے میں پیشین گوئیاں ہیں کہ کسی ملک کے پاس دس سال، کسی کے پاس بیس سال اور کسی کے پاس چالیس پچاس کا تیل باقی رہ گیا ہے۔ اسی طرح دیگر قدرتی وسائل کا بھی یہی حال ہے۔ اس صورتِ حال میں دنیا میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی اور کہا گیا کہ ہم نے اب قدرتی وسائل پر انحصار نہیں کرنا بلکہ نالج بیسڈ اکانومی کی طرف جانا ہےجہاں تسلسل کے ساتھ ہمیشہ ترقی (growth) ممکن ہوسکے اور یہ ترقی اس انداز میں ہو کہ وہ کبھی ختم نہ ہوسکے۔ آج اس اکنامک ماڈل کی طرف تمام ممالک نے اپنی توجہ مبذول کرلی ہے۔
نالج بیسڈ اکانومی کے اجزاء اور ان کا کردار
اس اکنامک ماڈل کے اندر ہائیر ایجوکیشن، سائنسز، ٹیکنیکل ایجوکیشن، چھوٹی، درمیانی اور بڑی صنعت، ربوٹک مشینری، سوفٹ ویئر، آئی ٹی، انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس (AI) کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ آج لوگ نالج بیسڈ اکانومی سے استفادہ کررہے ہیں اور مختلف مسائل کا حل اس اکنامک ماڈل کے ذریعے نکالا جارہا ہے۔ مثلاً جب کوئی نئی App بنتی ہے تو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں، اس سروس کو مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے اور اس طرح یہ پروڈکٹ ان کے لیے آمدنی پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اس اکنامک ماڈل کے لیے بہت بڑی افرادی قوت (manpower) کی ضرورت نہیں ہے کہ سیکڑوں افراد پر مشتمل set up قائم کیا جائے بلکہ اس کے لیے فقط چند ذہین افراد (smart brains) کی ٹیم کی ضرورت ہے۔ یعنی چند IT ایکسپرٹ، سوفٹ ویئر انجینئرز، آرٹیفیشل اینٹیلی جینس کے ماہرین پروڈکٹس تیار کرتے ہیں جو سالہا سال لوگوں کی مدد کرتی رہیں گی اور اکانومی کی ترقی میں مدد فراہم کرتی رہیں گی اور اس طرح دولت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد زندگی کے معمولات پر نظر دوڑاتے چلے جائیں تو ہمیں ایسی ہزاروں چیزیں ملیں گی جو آئی ٹی، سوفٹ ویئر، سمارٹ ایپلیکیشنز، سمارٹ پروسیجرز اور فنکشنز ہیں، یہ سب نالج بیسڈ اکانومی ہیں۔
نالج بیسڈ اکانومی کے قیام میں کارفرما عوامل
بنیادی سوال یہ ہے کہ نالج بیسڈ اکانومی کی دوڑ میں کون سے ملک آگے نکلے ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے۔۔۔؟اگر دنیا کا مستقبل نالج بیسڈ اکانومی ہے تو ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟نالج بیسڈ اکانومی کے قیام کے کئی اہم عوامل ہیں جو کسی بھی ملک میں اسے پروان چڑھاتے ہیں۔ چند اہم عوامل درج ذیل ہیں:
1۔ اس اکنامک ماڈل کے لیے ایک اہم عامل ہائیر ایجوکیشن ہے۔ کسی بھی ملک کے اندر ہائیر ایجوکیشن کا معیار یہ تعین کرتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل نالج بیسڈ اکانومی میں کیا ہے۔
2۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ کیا وہ ملک اشیاء کو بنانے کے روایتی طریقوں اور خدمات (ٹریڈیشنل مینو فیکچرنگ اینڈ سروسز)کے ماڈل پر کام کررہا ہے یا سوفٹ ویئر، مشینری، ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر انڈسٹریل مشینریز بناتا ہے۔ نیز ریبوٹک سائنسز کے اندر اس کا مقام کیا ہے اور وہ اپنے کتنے ماہرین ان ٹیکنالوجیز سے متعلق پیدا کررہا ہے؟
3۔ اس اکنامک ماڈل کے قیام کے لیے تیسری اہم چیز یہ ہے کہ دیکھا جائے گا کہ وہ ملک خدمات (Services) میں آگے ہے یا مینوفیکچرنگ میں آگے ہے؟
4۔ چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ اس ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب کیا ہے اور اس ملک کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل افراد (graduate) کا معیار کیا ہے؟ ان کی سکلز، ٹیکنالوجی ایجوکیشن اور صلاحیتوں کا درجہ کیا ہے؟ اس لیے کہ اسی کی قابلیت سے معلوم ہوگا کہ کیا یہ ملک نالج بیسڈ اکانومی کے قابل ہے یا نہیں؟
5۔ پانچویں چیز یہ کہ اس ملک کی گورنمنٹ پالیسیز کیا ہیں؟ کیا یہ پالیسیز ملک کے اندر نالج بیسڈ اکانومی کے لیے ممدو معاون ہیں یا نہیں؟
6۔ چھٹی اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کی سافٹ ویئر پروڈکشن، کمپیوٹر اور آئی ٹی سے متعلقہ برآمدات (exports) کا معیار اور مقدار کیا ہے؟
ان مذکورہ اہم عوامل اور نکات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی ملک کی اکانومی نالج بیسڈ ہوسکتی ہے یا نہیں؟
کیا پاکستان نالج بیسڈ اکانومی کی طرف گامزن ہے؟
آیئے! مذکورہ عوامل کے لحاظ سے حقائق کی روشنی میں پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہم نالج بیسڈ اکانومی کی طرف گامزن ہیں یا ابھی اس تک پہنچنے میں بہت سفر باقی ہے؟
1۔ اس سلسلے میں اگر ہائیر ایجوکیشن کی بات کی جائے تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہائیر ایجوکیشن تو دور کی بات شرح خواندگی (literacy rate)ہی بہت کم ہے۔ اکانومی نالج بیسڈ تو تب ہوگی جب نالج ہوگا اور اس نالج کا معیار بہتر ہوگا، تب جاکر اکانومی نالج بیسڈ ہوگی۔ پاکستان کی شرح خواندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پچھلے پانچ سال سے ہماری شرح خواندگی 60 فیصد ہے۔ اس کے برعکس بنگلا دیش سمیت ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک میں شرح خواندگی کہیں 74 فیصد ہے، کہیں 96 فیصد ہے اور کہیں 99 فیصد ہے۔ ہماری 60 فیصد شرح خواندگی میں وہ افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے میٹرک تک پڑھا ہوا ہے۔ ہم اسے بھی تعلیم یافتہ تصور کرتے ہیں۔ نالج، سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، Rebotec مشینری اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو سمجھنا میٹرک لیول تک کی تعلیم کے حاملین کے لیے بہت دور کی بات ہے۔
ہائیر ایجوکیشن میں اگر ہم اپنا موازنہ ہمسایہ ممالک سے کریں تو 25 کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں آج تقریباً 188 یونیورسٹیز ہیں جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں 1500 سے زائد یونیورسٹیز ہیں۔ 30 کروڑ کی آبادی والے ملک امریکہ میں 5300 یونیورسٹیز ہیں اور چائنہ میں 2500 یونیورسٹیز ہیں۔ اسی طرح کئی اور ممالک میں یونیورسٹیز کی تعداد ہم سے بہت زیادہ ہے۔ نیز یہ ابھی یونیورسٹیز کی تعداد کی بات ہے، ان کے معیار کی بات نہیں کررہے، جہاں سے نالج بیسڈ اکانومی کے لیے افرادی قوت نے تیار ہونا ہے۔
2۔ پاکستان کے سوفٹ ویئر سیکٹر کا جائزہ لیں تومعلوم ہوگاکہ ہمارا وہاں وجود ہی نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ جب ہم نالج بیسڈ اکانومی کی بات کرتے ہیں تو 60 فیصد سوفٹ ویئر اور It سیکٹر کی بات ہوتی ہے کہ وہ ملک کتنے سوفٹ ویئر، ایپلی کیشنز اور سوفٹ ویئر انجینئرز پیدا کررہا ہے؟ ان کا معیار کیا ہے اور اس حوالے سے حکومتی لیول پر سرپرستی کی سطح کیا ہے؟2005ء میں آج سے 19 سال قبل پاکستان کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ تقریباً 200 ملین یو ایس ڈالر تھی اور آج پاکستان کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ تقریباً 650 ملین یو ایس ڈالر ہے۔ 19 سال کے طویل عرصے میں پاکستان کی سافٹ ویئر ایکپسورٹ صرف 450 ملین ڈالر تک پہنچی ہے۔ اس حوالے سے اگر انڈیا کا جائزہ لیں تو 2005ء میں انڈیا کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ 17 بلین ڈالرز تھی جو 19 سال میں ترقی کرکے تقریباً 160 بلین یو ایس ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔
گویا پاکستان کی معیشت پر جتنا قرض ہے، انڈیا ایک سال میں اتنا سافٹ ویئر برآمد (export) کرتا ہے۔ ہمیں اس حوالے سے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ اگر کام عملی نہ ہو تو صرف دعوے اور نعروں پر کام چلایا جاتا ہے۔ اگر ترقی ہو تو اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ ہمارے ہاں جس چیز کو ترقی (growth) کا نام دیا جاتا ہے، یہ ترقی نہیں ہے بلکہ قوم کا وقت اور اکانومی کو برباد کیا جارہا ہے۔ اگر پاکستانی نوجوانوں کی طرف سے سوفٹ ویئر پروڈکشن اور آئی ٹی کے حوالے سے کوئی کارنامہ سامنے آتا ہے تو اس کا کریڈٹ صرف اور صرف پاکستان کی عوام کو جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں یہ صلاحیت دی ہے کہ انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود یہ کارنامے کرکے دکھادیئے۔ انھیں ملکی سسٹم نے کسی کامیابی کے قابل نہیں بنایا۔ اس سسٹم نے قوم کے نوجوانوں میں یہ اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت (God gifted) ہے کیونکہ اگر حکومت کے دیئے گئے سسٹم نے یہ اہلیت پیدا کی ہوتی تو پاکستان IT اور سوفٹ ویئر پروڈکشن کے حوالے سے دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا۔
3۔ ٹیکنالوجی انڈسٹری کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان نے طویل عرصہ صرف روایتی صنعت (traditional industries) کو قائم کرنے اور اس کو فروغ دینے میں گزارا ہے۔ یہاں تک کہ ان صنعتوں میں تیار ہونے والے مال کے لیے جو مشینری استعمال ہوتی ہے، وہ بھی پاکستان میں نہیں بنتی۔ اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ ملک کی اکانومی کس سمت جارہی ہے، اس کے لیے یہ بہت اہم علامت ہے۔ ٹیکسٹائل میں پاکستان کا بڑا نام رہا ہے مگر ٹیکسٹائل مشینری جاپان، جرمنی، کوریا اور چائنہ سے آتی ہے۔ ترقی تو تب ہوگی کہ وہ مشینری بھی یہاں بنے، تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماراملک صحیح سمت پر چل پڑا ہے۔ فوڈز پروڈکٹس کا بھی یہی ہے کہ فوڈز کی پروڈکشن تو ہورہی ہے لیکن اس کی مشینری یہاں پر نہیں بنتی۔ گویا پاکستان میں خدمات (services) ہیں مگر مینوفیکچرنگ انڈسٹری نہیں ہے۔
ہائیر ایجوکیشن اور ہمارے گریجوایٹس کی افسوسناک صورتحال
پورے ملک میں موجود ٹیکنالوجی سے متعلق ادارے جو ٹیکنیکل ایجوکیشن دے رہے ہیں، اگر ان کا جائزہ لیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ معیاری فضلاء (graduate) پیدا ہی نہیں کررہے بلکہ صرف تعداد کی ریس میں لگے ہیں کہ ہم نے اتنے بیچلرز، اتنے ماسٹرز اور اتنے Ph.Ds پیدا کیے ہیں۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہم ایسے گریجوایٹ پیدا کررہے ہیں جو انٹرنیشنل compitition کے قابل ہی نہیں ہیں۔ ایسے ماحول میں سے جب کوئی ابھر کر سامنے آتا ہے تو اس نے جاری سسٹم کے برعکس اپنی صلاحیت منوائی ہے۔ جب تک سسٹم معاون نہ ہو تو ملک میں سے چیدہ چیدہ اہل لوگ نکلتے ہیں لیکن جب سسٹم معاون ہوجائے تو وہی ملک ہزاروں لاکھوں اہل پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔
پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کے حوالے سے پاکستان کی انڈسٹریز سے ایک سروے کیا گیا کہ ملک کی ہایئر ایجوکیشن ملک کی انڈسٹریز کے لیے جو گریجوایٹس پیدا کررہی ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں۔۔۔؟ ان کے اندر کیا کمی دیکھتے ہیں۔۔۔؟ اس سروے کے دوران انہوں نے ایک پوری فہرست جاری کی ہے کہ ہائر ایجوکیشن سے پیدا ہونے والی افرادی قوت جب مختلف انڈسٹریز میں اپنی خدمات پیش کرتی ہے تو درج ذیل حوالوں سے ان کی نااہلی سامنے آتی ہے:
1۔ 80 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ یہ گریجوایٹس زبانی ابلاغی (verbal communication) صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یعنی یہ مدلل اور پختہ بات کرنے اور بات کو کرنے کے سلیقہ و قرینہ کو نہیں جانتے۔
2۔ 71 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ نئے گریجوایٹس کا رویہ (attitude) پروفیشنل نہیں ہے۔
3۔ 64 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں ٹیم ورکنگ کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
4۔ 59 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں تنقیدی سوچ (Critical thinking) موجود نہیں ۔ یعنی ان کی ایجوکیشن نے ان کے اندر کسی معاملہ کو Critical انداز سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کی۔
5۔ 57 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں تحریری صلاحیت نہیں ہیں۔
6۔ 59 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں خود اعتمادی (Self confidence) کی کمی پائی جاتی ہے۔
7۔ 57 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں Resilience یعنی ابھرنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
8۔ 47 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ دباؤ برداشت (stress tolerate) کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
9۔ 46 فیصد نے کہا ان میں نئے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
10۔ 45 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں Time management نہیں ہے۔
11۔ 45 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں خود آگہی (Self awareness) نہیں ہے۔
12۔ 45 فیصد انڈسٹریز نے کہا کہ ان میں منصوبہ سازی اور تنظیم (planning and organization ) نہیں ہے۔
13۔ 43 فیصد نے کہا کہ Integrity یعنی امانت و صداقت کے مسائل بھی ان میں موجود نہیں۔
عملی اقدامات کی ضرورت
یہ اس نالج کی صورتحال ہے جس پر ہماری اکانومی کا دارومدار ہے۔ لہذا ہم سب کو بشمول گورنمنٹ بہت زیادہ غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ایسا کوئی اہتمام کررہے ہیں کہ ہم پاکستان کو بہتر افرادی قوت دے سکیں جو نالج پر اپنی اکانومی کی بنیاد قائم کرسکے اور ایک ایسا وقت آئے کہ سافٹ ویئر، ہارڈویئر اور مشینری بھی یہاں بنے۔ ہماری حالت تو یہ ہے اگر ہم گاڑی بھی بناتے ہیں تو پارٹس باہر سے لاتے ہیں اور صرف جوڑنے کا کام کردیتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ہاں ایک مکمل سپلائی چین موجود ہو۔ اس سلسلہ میں درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
1۔ پاکستان میں صلاحیت و قابلیت کی کمی نہیں ہے بلکہ صرف قابل بندوں کو مواقع دینے کی ضرورت ہے اور یہ مواقع گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹرز نے دینے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے وسائل دیے ہیں۔
2۔ نالج بیسڈ اکانومی مکمل طور پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹس پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستان میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹس شعبہ کی حالت انتہائی خراب ہے۔ گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر سب اس خرابی میں برابر کے شریک ہیں، اکیلا کوئی بھی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس صورت حال سے نکلنا تبھی ممکن ہوگا اگر گورنمنٹ اس معاملہ کو سنجیدہ لے۔ دنیاکی ترقی کی سمت کو دیکھے کہ اس وقت دنیا کی اکانومی کی سمت کیا ہے اور ہم نے کس طرف جانا ہے؟
3۔ نالج بیسڈ اکانومی کے لیے حکومتی سطح پر پانچ یا دس سالہ پالیسی اور منصوبہ بنایا جائے اور پھر اس کے اوپر سختی سے تسلسل کے ساتھ ایک ہی سمت کام کیا جائے تو پھر نتائج سامنے آئیں گے۔ اگر ہر آنے والی حکومت پالیسیاں بدلتی رہے گی تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
4۔ پرائیویٹ سیکٹر کو تسلیم کرنے اور انہیں دادِ تحسین دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ اگر گورنمنٹ کی طرف ایجوکیشن فنڈز بھی آتے ہیں تو انھیں بھی گورنمنٹ اداروں کے ساتھ مختص کردیا جاتا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں وسائل پیدا کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کیسے گورنمنٹ کا ہاتھ بٹا پائے گا۔
5۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی ہوم گراؤنڈ انڈسٹری کو تحفظ دیں، ان کی مددکریں اور انھیں ٹیکس میں رعایت دیں۔
6۔ وہ انڈسٹریز جن کا تعلق نالج بیسڈ اکانومی کے ساتھ ہے، اس کو مزید سپورٹ کریں۔
7۔ بینکس کے ذریعے نوجوانوں کو intrest فری لون آسان اقساط پر مہیا کریں تاکہ قابل افراد کو وسائل میسر آسکیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر انداز میں ملک و قوم کی خدمت میں صرف کرسکیں۔ پاکستان کے بنکس اپنے دروازے نوجوانوں کو قرض دینے کے لیے کھولیں۔ شوگر ملز اور سیاستدانوں کو قرضے دینے کے نتائج قوم دیکھ چکی ہے، اب ان نوجوانوں کو قرض دینا شروع کریں تاکہ یہ ملک و قوم کی خدمت کرکے دکھائیں۔ ہمارا مستقبل یہ نوجوان ہیں، ان کی صلاحیت ہے، ان کی تعلیم ہے، ان کا سکلز سیٹ ہے، ان پر investکریں۔
8۔ اپنے ملک کے ہیروز کو تسلیم کرنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا سیکھیں۔ جو قوم اپنے ہیروز کو تسلیم نہیں کرتی، وہ اقوام پھر ہیروز پیدا کرنا بند کردیتی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں باصلاحیت نوجوان اس ملک میں موجود ہیں جن کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب گورنمنٹ اور پرائیویٹ سیکٹر یکساں طور پر اس میں دلچسپی لیں گے۔ اگر ملک میں باصلاحیت افراد پیدا ہوہی گئے ہیں تو پھر انھیں برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ یہاں جو اہل پیدا ہوتا ہے، پھر وہ پاکستان سے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی صلاحیت کی قدر نہیں کی جاتی۔ ہم جب ان کی قدر یہاں کرنا سیکھیں گے، ان کی ضرورتوں کو اس ملک میں پوری کریں گے تو پھر یہ لوگ یہاں موجود رہیں گے اور جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کی ہے، وہ ملک کی ترقی کے استعمال میں آئے گی۔ اگر ہم اسے یہاں برقرار نہیں رکھ پائیں گے تو یہی لوگ کسی اور ملک کی خدمت میں مصروف نظر آئیں گے۔ ایسا ماحول قائم کرنا اس ملک کے بڑوں کا کام ہے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ یہ brain drain ہوجائے یا یہ retain کرلیا جائے اور یہ اس اور ملک کی خدمت میں مصروف ہوجائے۔ یہ فیصلہ آج کرنا ہے اور اس ملک کے بڑوں نے کرنا ہے۔
9۔ کوالٹی گریجوایٹس پیدا کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔
10۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن، مینو فیکچرنگ سیکٹر اور Hitech انڈسٹری کی مینو فیکچرنگ کی طرف توجہ دی جائے تو پھر ملک کو ایک صحیح سمت ملے گی۔
نوجوان بامقصد زندگی گزاریں
نوجوانوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ productivity یعنی کسی چیز کو بنانا کسی بھی قوم کا فخر ہوا کرتا ہے اور ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے کہ جب اس قوم کا رہنے والا باشندہ Productive ہو یعنی کچھ نہ کچھ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ Productivity سائیکالوجی کے مطابق اس وقت تک نہیں بڑھتی جب تک زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو۔ بغیر مقصدیت Productivity اپنے کمال کو حاصل نہیں کرتی۔ مسلمان ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بہت اعلیٰ مقصد رکھا ہے۔ دوسری اقوام کے لیے تو شاید مقصد کو تلاش کرنا مشکل ہو لیکن مسلمان کے لیے اس مقصد کو تلاش کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے مقصد بتایا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً.
(البقرہ، 2: 30)
’’میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بہت بڑا مقصد دیا ہے کہ اگر بن سکتے ہو تو اتنا بلند ہوجاؤ کہ میری نیابت اور خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے والے بن جاؤ۔ خلیفہ نائب یا وائس ایجنٹ کون ہوتا ہے؟ اس کی و ضاحت آقاe کی اس حدیث مبارک سے ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت سے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر پر نگران ہے اور اپنی رعیت کے متعلق جوابدہ ہوگا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر نگران ہےاور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، خادم اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے باپ کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (صحیح بخاری کتاب العتق، 2: 901، رقم: 2416)
اس حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ’’راعی‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ راعی چرواہے کو کہتے ہیں۔ گویا آقاe فرمارہے ہیں کہ خلیفہ، نگہبان اور ٹرسٹی چرواہے کی مانند ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا چرواہا صرف بکریوں کو سنبھال کر رکھتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان کا کامل نگران ہوتا ہے، وہ ان کی دیکھ بھال پر بھی توجہ دیتا ہے، ریوڑ کو بڑھانے پر بھی توجہ دیتا ہے، اگر ان میں سے کوئی جانور بیمار ہوجائے تو اس کی صحتیابی پر بھی توجہ دیتا ہے، ان کی خوراک پر بھی توجہ دیتا ہے، سردی گرمی یعنی موسم کے لحاظ سے بھی انھیں بچاتا ہے، درندوں اور چوروں سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یعنی صرف موجود اثاثے کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اس کو بڑھاتا بھی ہے۔
اللہ رب العزت نے خلافت کے منصب کے ذریعے درحقیقت ہر انسان کو اس دنیا میں چرواہے کی مانند بنایا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات پر نگران بنایا ہے کہ جو کچھ اس نے تمہیں سونپا ہے، اسے صرف سنبھال کر نہ رکھو بلکہ اسے ترقی دو۔ اگر تمہیں ملک دیا ہے تو اسے ترقی دو۔۔۔ اگر تمہیں یہ کائنات سونپی ہے تو اسے ترقی دو۔۔۔ اسے ماحولیاتی آلودگی کےساتھ برباد نہ کرو بلکہ اس کی حفاظت کرو اور نکھارو۔۔۔ الغرض جب دیئے گئے اثاثہ کی حفاظت بھی کرو گے، اس کو مزید بھی بڑھاؤ گے تب خلیفہ کہلوانے کے مستحق بنو گے۔
یاد رکھیں کہ صرف سنبھال کر رکھ لینا خلیفہ اور نائب کا کام نہیں ہوتا۔ کسی کمپنی کے بھی ٹرسٹی کی ذمہ داریوں میں فقط اثاثہ جات کو سنبھالے رکھنا نہیں ہے بلکہ اسے بڑھانا بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ٹرسٹی کا درجہ دیا ہے، اس لیے اس دنیا کو ہم نے سنبھالنا بھی ہے اور اسے ترقی بھی دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ذمہ داری اور مقصد دیا ہے کہ خلیفہ ہونے کے ناطے ہمیں اپنا تمام تر کام ایمانداری اور عزت کے ساتھ کرنا ہے۔ اپنی integrity کو بھی متاثر ہونے سے بچانا ہے۔ حلال کمانا ہے اور حرام سے بچنا ہے۔ کبھی اپنے ضمیر پر سودا نہیں کرنا۔ کبھی کسی کو نقصان پہنچانے کی طرف نہیں جانا۔ کبھی اپنی صلاحیتوں، ایجادات اور کامیابیوں کو کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہیں چڑھنے دینا۔ اگر ایسا کرلیا تب حق ادا ہوگا اور وہ مقصد پورا ہوگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ گورنمنٹ نوکری ہو یا پرائیویٹ، ہمیشہ کرپشن سے دور رہیں۔ کرپشن آسان راستہ ہے لیکن کبھی بڑی منزلیں آسان راستوں پر چلنے والوں کو نہیں ملا کرتیں۔ بڑی منزل ہمیشہ اسی کو ملتی ہے جو راہِ عزیمت کا مسافر ہو اور جو اپنے لیے مشکل راستے کا انتخاب کرے۔
موجودہ دور میں کرپشن کرلینا بہت آسان ہے لیکن کرپشن سے بچے رہنا یہ سب سے مشکل کام ہے۔ ہم نے اس مشکل راستے کو چننا ہے لہذا اپنے ضمیرکو کبھی گدلا نہ ہونے دیں بلکہ اسے پاکیزہ رکھیں۔ حرام کے چار ٹکڑوں سے ایک دن کھانا زیادہ پک جائے گا لیکن اس سے ضمیر کی جو موت واقع ہوگی، اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ صرف کتابی بات نہیں ہے بلکہ مسلمان جب اپنے سنہری دور میں جیتے تھے تو لوگوں کی اکثریت ایسے ہوا کرتی تھی کہ وہ لوگ ضمیروں کا سودا نہیں کرتے تھے۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین تھے۔ آپ کے گھر ایک دفعہ رات کے وقت ایک وفد آگیا، اس وقت آپ نے چراغ روشن کر رکھا تھا۔ اس وفد کے ساتھ جب تک سرکاری باتیں ہوتی رہیں، چراغ جلتا رہا لیکن جب سرکاری باتیں ختم ہوگئیں اور ذاتی باتیں شروع ہوگئیں تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اس چراغ کو بجھادیا اور اندھیرے میں باتیں کرتے رہے۔ اس وفد کے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا کیا؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ چراغ اور اس میں جلنے الا تیل سرکاری ہے جو ریاست کے پیسوں سے لیا گیا ہے۔ جب تک تمہاری اور میری بات ریاست سے متعلق ہوتی رہی تو میرے لیے اس چراغ کا استعمال جائز تھا اور جب ہماری گفتگو کاموضوع تبدیل ہوگیا اور ذاتی باتیں شروع ہوگئیں تو میرے لیے حرام ہے کہ میں ریاست کا تیل اور چراغ استعمال کروں، اس لیے بجھادیا۔
جب امت مسلمہ اور پاکستان میں ایسے ضمیر والے لوگ پیدا ہوجائیں گے، تب حقیقی معنی میں یہ ملک اور قوم بن جائے گی۔
اللہ رب العزت نے مسلمان کے ساتھ ایک خاص معاملہ فرمایا ہے کہ اس کے اندر اخلاقیات کو دیکھنے کا ایک پیمانہ رکھا ہے۔ اس کو ہر بات پر کسی عالمِ دین کے پاس جاکر فتویٰ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پیمانہ کسی میٹر کی طرح سب کچھ اسے بتادیتا ہے کہ یہ تم کیا کررہے ہو؟ ایسا کوئی انسان نہیں ہے کہ جسے یہ پتہ نہ چلے کہ وہ صحیح کررہا ہے یا غلط؟ ہم نے صرف اس میٹر کی آواز سننی ہے جس سے ہم غلط اور صحیح میں فرق کرپائیں۔
آج کے نوجوان نسل کو ہیرو بننا ہوگا اور اپنے اندر موجود اس اخلاقیات جاننے والے میٹر کی آواز کو سنتے رہنا ہوگا تاکہ غلط اور صحیح میں فرق کا پتہ چل سکے اور حلال و حرام میں تمیز کرسکیں۔ اس راہ کے انتخاب میں بھلے زندگی مشکل ہوجائے لیکن اگر ہم کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے تو اس صورت وہ میٹر ہماری رہنمائی کرے گا اور تمام منازل آسان ہوجائیں گی۔ ہر انسان اپنے آپ کو اتنا اہل کرلے کہ وہ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کا حقدار بن جائے۔ یہ بہت بڑا مقصد ہے، اگر کوئی اسے حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ شخص علم دین میں مہارت رکھتا ہو۔ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے کل کائنات میں جو شعبہ جات بھی رکھے ہیں، ان میں سے ہر شعبہ تبھی پروان چڑھے گا جب اس شعبے کے ماہرین ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ کی خلافت کی ذمہ داری اس اخلاقیات کو جاننے والے میٹر کے ذریعے کسی بھی شعبے میں کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ہر نوجوان نہ صرف اپنی زندگی کا ہیرو بن جائے گا بلکہ پوری قوم اور امت مسلمہ کا ہیرو بن جائے گا، بشرطیکہ مشکل راستے پر قائم رہے اور غلط کام سے رک جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و مددگار ہو، نوجوان نسل کی صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے اور انھیں ملک و قوم اور امتِ مسلمہ کا فخر اور حقیقی سرمایہ بنائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ