فقہ و اصول کی تدوین کی ضرورت و اہمیت

مفتی ارشاد احمد ساحل

عہدِ رسالت مآب ﷺ کے سنہرے اور بابرکت دور کو دنیا نے جب الوداع کہا تو اسلام بحرو بر کی وسعتوں کو اپنی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ جیشِ اسامہ کی روانگی نے عراق و ایران کی سرحدیں مملکتِ اسلام میں ضم کرنے کی طرح ڈالی اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک متعدد ممالک اسلام کی آغوشِ رحمت میں آگئے۔ توسیع کا یہ سلسلہ دراز رہا اور عہدِ عباسیہ میں مسلم سلطنتیں ہر قابلِ رشک نعمت سے سرفراز ہوچکی تھیں۔

تہذیب و ثقافت کا انضمام اور ملک و قوم کے تبادلے اپنے ساتھ بہت سے وسائل بھی لاتے ہیں اور مسائل بھی۔ مسائل و وسائل کے ہجوم بہت سی طرفہ سامانیوں کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔ زبان پرسان چڑھتی ہے، نت نئے الفاظ درآمد ہوتے ہیں، نئی تہذیبیں جنم لیتی ہیں، افکارِ نو کا ہجوم ہوتا ہے، نئے نویلے آداب و فنون سے آگاہی ہوتی ہے۔ نیا سماج، نئے لوگ، نیا ماحول، نیا انداز، سب کچھ نیا نیا سا، اس اچھوتے ماحول میں اسلام اور اہلِ اسلام کو جذب (adjust) ہونے کے لیے فکرو عمل کے طور طریقوں میں خاص تراش خراش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہی ضرورت نئی اصطلاحات، نئے فنون، نئے علوم و آداب کی ایجاد و تدوین کی اصل محرک ہوتی ہے۔

یہاں پر ایک سوال سطحِ ذہن پر ابھرتا ہے کہ کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے فقہ و اصول کی تدوین اور ان کے قواعد کے انضباط کی ضرورت کیا ہے۔۔۔؟ قرآن حکیم میں ہر خشک و تر کا بیان ہے، سارے اصول و ضوابط موجود ہیں۔ قرآنی اصول کی جامع تشریحات احادیث مبارکہ میں مکمل طور سے ملتی ہیں۔ اللہ اور رسول ﷺ نے ہر ہر قدم پر امتِ مسلمہ کو رہنما اصول دیے ہیں تو پھر ایک نئے فن کی تدوین اور اس کے ہاتھوں میں امتِ مسلمہ کی زمام دینے کی ضرورت کیا ہے۔۔۔؟ حبل اللہ کے ہوتے ہوئے، کسی عبقری کی نیاز مندی کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں ڈالاجائے۔۔۔؟ کتاب و سنت کے سرچشمۂ شیریں کے ہوتے ہوئے کسی اور سمت رخ کرنےکا جواز کہاں پیدا ہوتا ہے۔۔۔؟ یہ سوالات ہماری ایمانی حس کے تقاضے ہوسکتے ہیں۔ ان کا واضح اور مفصل جواب کثیر صفحات اور وسیع اوقات چاہتا ہے۔ لیکن ذیل کی چند سطروں میں اس کی واجبی وضاحت ضرورپیش کی جائے گی۔

یہ جہان فطرتاً تغیر پذیر اور مائل بہ ارتقا ہے۔ کائنات کا یہ ارتقائی سفر اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اس کی قبائے وجود مکمل طور سے تار تار نہ ہوجائے۔ کل یوم ھو فی شان (ربِ کائنات ہر دن ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے) کی جلوہ گری کائنات کے ذرے ذرے میں سمائی ہوئی ہے۔ جو سماں کل تھا، وہ آج نہیں، جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا۔ معاشرے کے دہرے دہرے وجود میں یہ تبدیلیاں اور ترقیاں بہت واضح انداز سے محسوس کی جاسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ مظاہرِ فطرت جو ایک سے دکھتے چلے آرہے ہیں، ان کی جلوہ گری بھی ایک سی نہیں ہوتی۔ سورج بظاہر اسی مشرق سے نکلتا ہے اور اسی مغرب میں ڈوبتا ہے لیکن اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس کی جائے طلوع ہر دن بدلتی رہتی ہے اور مقامِ غروب بھی ہر دن تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ سردو گرم موسم، لمبی اور چھوٹی راتیں، مہ و نجوم اور بادلوں کی آنکھ مچولیاں، چاند اور سورج کی داغداریاں (گہن)، رتوں کی بھیگتی سوکھتی پلکیں، حکومتوں کے بدلتے زاویے، ثقافتوں کے تبادلے، سمٹتی پھیلتی سرحدیں، قانونِ قدرت کا مزاج سمجھاتی ہیں، حرکت و عمل پر آمادہ رکھتی ہیں، زمانے کی سیدھی رفتار کا ساتھ دینے پر مہمیز کرتی ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ انجماد و تعطل کا زندگی سے بھرپور اس شاداب ہنستی بولتی کائنات سے دور کا واسطہ نہیں۔

اسلام کا یہ مسلّمہ اصول ہے کہ قرآن حکیم کو صرف متن قرآن اور لفظوں کی پرکھ سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس کے لیے احادیث مبارکہ کی پرنور رہنمائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر جو قرآن کو سمجھنا چاہے، گمراہی اس کا مقدر ہے

جو فطرت کا یہ مزاج نہیں سمجھے گا، اس کی گھومتی بدلتی تیز رفتار کا ساتھ نہیں دے گا، وہ پسِ منظر میں چلا جائے گا اور زمانہ اس سے دامن جھٹک کر بہت برق رفتاری سے آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ چاہے وہ شخص ہو یا تحریک، مذہب ہو یا تمدن، علم ہو یا اندازِ عمل۔ اسلام جب دینِ فطرت ہے تو وہ فطرت کی ان رواں دواں تبدیلیوں اور تغیر آشنا مزاج سے دامن کش کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟ اسلام تو قیامت تک اس دنیا کا ہمدم و ہم ساز سدا بہار رہنمامذہب ہے، اس لیے اس کا انجماد و تعطل سے بھلا کیا ربط ہوسکتا ہے۔۔۔؟ ہاں! اس کی اپنی ٹھوس، غیر متزلزل اور مستحکم بنیادیں ہیں، اس کا اپنا دلکش و پاکیزہ دائرہ کار ہے۔ وہ دنیا کے دامن میں نہیں سمٹتا بلکہ دنیا کو اپنی مقدس آغوش میں سمیٹتا ہے۔

اس تغیر مآب کائنات کے پس منظر میں اب دنیاوی اصول و قوانین کی حدیں، ماہیتیں اور کیفیتیں ملاحظہ کیجئے۔ کسی ملک کا قانون ہو، ہر نصف صدی کے بعد اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی دفعات نکالنی پڑتی ہیں۔ بہت سی شقیں داخل کرنی ہوتی ہیں اور کسی میں جزوی ترمیم (Amendment) جگہ پاتی ہے، حالات اور کیفیات کے منظر نامے جوں جوں تبدیل ہوتے ہیں، اصول و قوانین کے کینوس بھی رخ بدلتے رہتے ہیں۔ قوانین کی یہ تو سیعاتی کیفیت ایسی روشن ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

اب اسلام کے قانونی رخ کو دیکھتے ہیں تو اس پر الیوم اکملت لکم دینکم کی صورت میں یہ مہر ثبت ملتی ہےکہ اس کے جتنے اصول و ضوابط تھے مکمل ہوچکے، دین تکمیل کے مرحلے سے گزر چکا، کتاب و سنت کا لازوال سرچشمہ امتِ مسلمہ اور سعید دنیا کی پیاس بجھاتا رہے گا۔ ہر خشک و تر کتاب و سنت کی وسعتوں میں سماچکے۔ اب اس ضابطۂ خالقِ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکے گی۔ پھر قدرت کے ان اصولوں کا کیا ہوگا، جنہیں تبدیلیاں ہی راس آتی ہیں، یہ تغیر پذیرکائنات اسلام کے غیر متبدل اور اٹل مزاج کا ساتھ کیسے دے سکے گی۔۔۔؟ آئے دن طوفانوں کی مانند جو مسائل امنڈتے رہتے ہیں، ان کا کیا ہوگا۔۔۔؟ اسلام عرب سے نکل کر، بحرو بر کی وسعتوں میں پھیلے گا تو یہ بھانت بھانت کے سماج، بولیاں، روایتیں، رسمیں اور تہذیبیں اسلام سے کس طرح مانوس ہوں گی۔۔۔؟ کیا اسلام کائنات کی ان تمام رنگا رنگیوں کو دفن کردے گا یا انہیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلے گا۔۔۔؟ نئے سماج، نئے وقت اور نئے حالات کی تبدیلیوں کو اسلام کی میزان پر کیوں کر تولا جاسکے گا۔۔۔؟ اگر مزاج اور ماحول کی ان تبدیلیوں کو نظر انداز کردیا جائے تو دنیا اس کی تقدس مآب آغوش میں کیسے سماسکے گی۔۔۔؟ اس طرح کے نہ جانے کتنے سوالات ہیں جو دماغ کی زیریں سطح پر ابھرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اسلام ابدی اور لافانی مذہب ہے، اسے ہر زمانے کی قیادت کرنی ہے۔

الغرض اسلام کے شاداب اور مستحکم اصول اور یہ نگار خانۂ کائنات دونوں قیامت تک سدا بہار رہیں گے۔ پھر ان دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی صورت کیا ہے۔۔۔؟ اس خلیج کو پاٹے، اس گیپ کو ختم کرنے اور ان دونوں مختلف جہتوں کو مانوس کرنے کی صرف ایک راہ ہے، جسے اجتہاد کہتے ہیں اور اسی نشانِ منزل کی توجہ کے لیے فقہ و اصول کی تدوین عمل میں آئی۔ بات ذرا مبہم سی رہ گئی۔ کتاب و سنت کے ارشادات سے اعتبار دیتے ہوئے اسی کی مختصر وضاحت پیش ہوتی ہے:

کتاب اللہ میں یقیناً ساری چیزوں کا بیان ہے لیکن اس کے اصول جامع، مختصر اور گہرے ہیں، جن تک پہنچنے کے لیے ہم آپ تو کجا حضراتِ صحابہ بھی رسول محتشم ﷺ کی بیان فرمودہ تشریح کے محتاج تھے۔ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ کی تعلیم اڑھائی سال میں حضور ﷺ سے مکمل فرمائی۔ تکمیل کے بعد خوشی میں احباب کی شاندار ضیافت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خود فصیح عرب تھے، انہیں قرآنی متن کو سمجھنے کے لیے کسی کے تعاون کی ضرورت ہی کیا تھی، پھر آپ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ سے اڑھائی سال اڑھائی پارے کی تعلیم میں کیا سیکھتے رہے۔۔۔ کیا صرف لفظوں کے معانی۔۔۔؟ نہیں بلکہ وہ اسرارِ قرآنی اور رموزِ ربانی جو نورِ الہٰی سے روشن دلوں کو عطا ہوتے ہیں۔ ان ہی اسرار کے گہرے قرآنی سمندر کی نشاندہی یہ حدیث پاک فرماتی ہے کہ اگر سارے سمندر روشنائی اور سارے درخت قلم بنادیئے جائیں اور ان سے قرآن حکیم کے اسرارو عجائب قلم بند ہوں پھر بھی وہ ختم نہ ہوں گے۔

اگر قرآن حکیم کا معاملہ صرف متن کے ظاہری رخ تک محدود ہوتا تو پھر اس کے عجائبات لامحدود کیسے ہوسکتے تھے۔ قرآن حکیم اسرار و معانی کا ناپیدا کنار سمندر ہے، جس کی شناوری ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ایک مخصوص معیار کا علم، نورِ الہٰی سے روشن سینہ، مشکوٰۃ نبوت کی جاں بخش ضیاؤں سے مستنیری اور بالخصوص توفیق الہٰی سے سرفرازی ضروری ہے، تبھی وہ قرآن میں چھپے کائنات اور ماورائے کائنات کے اسرار دریافت کرسکتا ہے۔ یہ معیار فقہائے صحابہ کو حاصل تھا، جو ارشاداتِ نبوت کے قیمتی خزانوں کے امین ہیں۔ اسی لیے اسلام کا یہ مسلم اصول ہے کہ قرآن حکیم کو صرف متن قرآن اور لفظوں کی پرکھ سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس کے لیے احادیث مبارکہ کی پرنور رہنمائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر جو قرآن کو سمجھنا چاہے، گمراہی اس کا مقدر ہے۔

اب احادیث مبارکہ کی معنوی گہرائی کی سمت توجہ کی جائے تو ہمیں یہ ارشاد رسالت جگمگاتا نظر آتا ہے:او تیت بجوامع الکلم۔

مجھے مختصر اور جامع کلمات کا معجزہ عطا کیا گیا۔

ایسے فنون و آداب، اطوار و عادات کو برتنا جو نئے ہوں لیکن دین سے متعلق ہوں، اس کے مقاصد کی تکمیل میں مفید ہوں اور ان سے اسلام کے کسی متعین اصول کی نفی نہ ہوتی ہو، فرمانِ رسول اور مزاجِ شریعت کے مطابق ہے۔

معجزہ وہی چیز ہوتی ہے جو مافوق الفطرت ہو، جو دوسروں کا مقدور نہ ہو اور جسے حضور ﷺ نے بطورِ امتیاز پیش فرمایا ہو۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ حضور کے ارشادات معانی و مفاہیم کی گہری تہیں رکھتے ہیں جو بیک نگاہ منکشف نہیں ہوسکتیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا مبارک بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے علم کے دو برتن حاصل کیے ہیں۔ ایک کو بیان کرتا ہوں، اگر دوسرا بیان کروں تو میرا یہ گلا کاٹ دیا جائے۔ (بخاری شریف، 1: 23)ارشاداتِ نبوت کی تفہیم کے لیے ان نفوسِ قدسیہ کی تشریحات مطلوب ہیں جن کی پرنورنگاہیں جمالِ نبوت کے دیدار سے جگمگ جگمگ کرتی ہیں۔۔۔ جن کے دل انوارِ نبوت سے روشن روشن ہیں۔۔۔ جن کی سماعتیں الفاظ ِ نبوت کی لذت چشیدہ ہیں۔۔۔ جنہوں نے براہ راست مہبط وحی سے وحی ناطق اور غیر ناطق کو سنا، سمجھا اور دل میں بسایا ہے۔۔۔ جو بارگاہِ رسالت کے مزاج شناس تھے۔ اگر حضرات صحابہ کی رہنمائی کے بغیر کوئی احادیث کے سرچشمے سے فیض اٹھانا چاہے تو ٹھوکریں اس کا مقدر ہیں۔ کیونکہ اہلِ محفل ہی میرِ محفل سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔ یونہی افکارِ صحابہ کے ذخائر ان کے حاضر باش حضراتِ تابعین کے توسط سے سمجھیں۔

کوئی بھی قانون ایسا جامع نہیں ہوسکتا کہ وہ ایک دوسرے کے سارے حالات و معاملات، وسائل و مسائل کا حکم واضح کرسکے، چہ جائیکہ وہ سارے زمانوں کے حالات اور معاملات کا احاطہ کرسکے۔ قانون ہمیشہ ایک کسوٹی ہوتا ہے، حالات اور معاملات کو اس پر پیش کرکے پرکھا جاتا ہے، اس پیشکش اور اس کے نفاذ کے لیے کار پرداز ان قانون کو فکر و تدبر اور سلیقہ مندی سے کام لینا پڑتا ہے۔ قانون کی سطح عموماً سپاٹ ہوتی ہے لیکن وہی قانون دیرپا اور رائج ہوپاتا ہے، جس کے اندر لچک (Flexibility) ہوتی ہے اور زمانے کے مزاج کو ایک حد تک ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے نفاذکی کوشش کی جاتی ہے۔ بے لوچ اور کرخت، یک رخا مزاج رکھنے والا قانون یا تو خود ٹوٹ جاتا ہے یا پھر اسے توڑ دیا جاتا ہے۔

اسلام ابدی اور لازوال مذہب ہے اور قیامت تک کے درد مندوں کا چارہ ساز، اس لیے اس کے سارے اصول فطرت سے ہم آہنگ اور اس کے مزاج کا خاصا خیال رکھتے ہیں۔ ان میں نرم خوئی، لچک داری اور ہر حال اور ماحول میں ضم ہونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے

اسلام ابدی اور لازوال مذہب ہے اور قیامت تک کے درد مندوں کا چارہ ساز، اس لیے اس کے سارے اصول فطرت سے ہم آہنگ اور اس کے مزاج کا خاصا خیال رکھتے ہیں۔ ان میں نرم خوئی، لچک داری اور ہر حال اور ماحول میں ضم (Adjust) ہونے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔ ان میں بے تکا پن اور کرختگی نہیں ہے لیکن اسے ہر حال، ماحول اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے نافذ کرنے کے لیے اعلیٰ اسلامی شعور کی ضرورت ہے، جو ان جامع اصولوں سے نئے نئے مسائل کے احکامات برآمد کرسکے۔ اسی شعور کی قوت کو ملکۂ اجتہاد کہتے ہیں۔ قرآن و سنت میں دین اسلام کی تکمیل کا یہی مطلب ہے کہ اسلام کے سارے بنیادی احکام اور لازمی اصول مکمل ہوچکے۔

الحلال ما احل الله والحرام ما حرم الله وما سکت عنه فھو معفو عنه.

حلال وہ چیز ہے جسے اللہ نے حلال ٹھہرایا اور حرام وہ چیز ہے جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا اور جس کے بارےمیں کوئی حکم وارد نہیں ہے، وہ مباح ہے۔

ان بنیادی اصولوں میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی لیکن ماحولیات کے بدلاؤ سے جو حالات رونما ہوتے ہیں، ان کی اسلامی اصولوں کی روشنی میں تفہیم ضرور ہوسکتی ہے۔ فقہ و اصول یہی کارنامہ انجام دیتے ہیں اور ملکۂ اجتہاد یہی فرض ادا کرتا ہے۔ فقہا الگ سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتے۔ وہ نورِ خدا سے منور دل رکھتے ہیں، علم لدنی کے شرف سے سرفراز ہوتے ہیں اور اسلامی اصول و مصادر کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ وہ نت نئے حالات کو کتاب و سنت کے معیار پر پیش کرکے ان کی زیریں سطحوں سے اس کا شرعی حکم برآمد کرلیتے ہیں، جہاں تک عام نگاہوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ جیسے دنیاوی ایجادات کرنے والے افراد کائناتِ فطرت کا گہرا مشاہدہ کرکے عام نگاہوں سے چھپے راز دریافت کرلیتے ہیں، پھر انہیں عوام کے لیے مفید بناکر دنیا کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور ساری دنیا اس سے بے تکلف فائدہ اٹھاتی ہے لیکن ایسے موجدین، خالق نہیں ہوتے بلکہ منتظم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی ایجادات بھی قدرت کا کرشمہ ہی کہی جائیں گی اور اللہ کی ملکیتیں ہی شمار ہوں گی۔ البتہ ایسے موجدین مادی دنیا کے قائد اور محسن ضرور سمجھے جائیں گے۔

یونہی ائمہ مجتہدین شریعت کا گہرا شعور رکھنے کی وجہ سے نت نئے معاملات کی تفہیم کا فریضہ اسلام کی سطح سے انجام دیتے ہیں۔ شریعت کے مصادر کی روشنی میں انھوں نے ایسے اصول ایجاد کیے ہیں، جن کی روشنی میں حالات و معاملات کا اسلامی فہم آسان ہوجاتا ہے اور پوری دنیا ان کے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں اسلامی قوانین پر سہولت کے ساتھ عمل پیرا ہوجاتی ہے۔ اہل دنیا کو خود احکام اخذ کرنے اور استنباط کرنے کی زحمتیں گوارا نہیں کرنی پڑتیں اور نہ وہ اس کے اہل ہیں۔ یہ ائمہ مجتہدین اس ترتیب و استنباط کے سبب شارع نہیں ہوجاتے بلکہ شریعت کے خادم ہی رہتے ہیں۔ البتہ اعلیٰ سطح کی اسلامی خصوصیات کے سبب وہ امت کے لیے آسانی کا سبب بنتے ہیں، اس لیے امت مسلمہ میں انہیں ایک خصوصی امتیاز نصیب ہوتا ہے اور اس کی بدولت وہ اسلامی قائد، رہنما، امام اور قابلِ اقتدا شخصیت شمار ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ امتیازات چاہے وہ جس رخ کے ہوں، بہر طور قابلِ تقلید و احترام ہوتے ہیں اور ایسے افراد قبولِ عام سے بہر طور سرفراز ہوتے ہیں۔ اس لیے ائمہ مجتہدین کی تقلید کو دین سے جدا کسی فکر کی پیروی سمجھنا عقل و فہم کا دیوالیہ پن ہے۔ حضرات ائمہ جیسے افراد تو امت مسلمہ کا انتخاب ہوتے ہیں اور قرآن حکیم کے ارشاد کی روشنی میں امت کے رہنما۔ ارشاد ربانی ہے:

فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ.

(التوبۃ، 9: 122)

’’تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔‘‘

احادیث مبارکہ میں ایسی خوبیوں والے افراد کو بہت سراہا گیا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین.

(مشکوۃ، کتاب العلم)

’’جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ اور فقاہت عطا کردیتا ہے۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہے:

نعم الرجل الفقیہ فی الدین ان احتیج الیه نفع وان استغنی عنه اغنی نفسه.

کتنا اچھا ہے وہ شخص جو دین کا فقیہ ہو، اگر کوئی اس کے پاس دینی حاجت لے کر حاضر ہو تو وہ اس کی مدد کرے اور اگر اس سے دنیا بے نیازی کا معاملہ رکھے تو وہ بھی اپنے آپ کو بے نیاز بنالے۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

فقیه واحد اشد علی الشیطان من الف عابد.

(رواہ ابن عباس، مشکوٰۃ، کتاب العلم)

ایک فقیہ شیطان کی جان پر ہزار عابد سے زیادہ گرانبار ہے۔

یہ امتیازات اللہ اور رسول ﷺ کی بارگاہ سے ایک فقیہ اور مجتہد کو عطا ہوئے ہیں، اس لیے ان کی ذواتِ قدسیہ یقیناً قابلِ احترام اور لائقِ تقلید ہیں۔

اصول دین کی تفہیم کے لیے نئے نئے اچھے اچھے طریقے ایجاد کرنا، جن سے مقاصد دین پورے ہوتے ہوں، مطلوبِ شریعت بھی ہے۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا واجر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اجورهم شئی.

(مشکوۃ، کتاب العلم، ص: 25)

جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کرے، اس ایجاد کا ثواب ملے گا اور اس کے بعد جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے، ان سب کا مجموعی ثواب اس موجدکے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا اور لطف یہ ہے کہ ان پر عمل پیرا لوگوں کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔

فقہ و اجتہاد وقت کی ضرورت ہے اور اسلام کی تفہیم کا شاندار ذریعہ، جسے بارگاہ نبوت کی بھرپور تائید حاصل ہے اور اسی کے ذریعہ اسلام کے مستحکم اصول ہر زمانے کے تقاضوں کی تسکین کا سامان بنتے ہیں۔ یہی نرمی اسلامی قوانین کو قبولِ دوام اور ہر ماحول میں انضمام کا سہرا عطا کرتی ہے

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ایسے فنون و آداب، اطوار و عادات کو برتنا جو نئے ہوں لیکن دین سے متعلق ہوں، اس کے مقاصد کی تکمیل میں مفید ہوں اور ان سے اسلام کے کسی متعین اصول کی نفی نہ ہوتی ہو، فرمانِ رسول اور مزاجِ شریعت کے مطابق ہے۔ یہی وہ بنیادی ہدایت ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں کو حالاتِ زمانہ کے اعتبار سےadjust کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور زمانے کے تغیرات کو بہت سہولت، نرمی، لچک اور سلیقے سے برتتی ہے۔ قرآن حکیم کی جمع و ترتیب، علوم قرآن اور فنون حدیث کی تدوین یہ سب کچھ بعد کی چیزیں ہیں اور مخلصین اسلام کی پاکیزہ ذہنوں کی ایجاد۔ حضرات ائمہ مجتہدین اس حدیث کے بہترین مصداق ہیں، وہ امتِ مسلمہ کے سامنے ایسے بہتر طریقے پیش کرگئے جن کی برکتوں سے ہزار سال کے بعد بھی دنیا مستفید ہورہی ہے۔ اگر وہ اور ان کے یہ عظیم الشان کارنامے نہ ہوتے تو آج امت مسلمہ کس مشقت سے دوچار ہوتی، ہم آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے، لیکن ائمہ مجتہدین کی یہ ایجادِ فنون کتاب و سنت کے سرچشمے سے ہی مستفاد ہے۔ جس طرح قرآن حکیم کی جمع و ترتیب، احادیث مبارکہ کی تدوین عہد رسالت کے بعد کی چیزیں ہیں لیکن ان کا سرا عہد رسالت میں موجود تھا۔ کیونکہ خود حضور ﷺ قرآن حکیم کو چمڑوں پر، کھجور کی چھالوں پر لکھواتے، باضابطہ کاتبین وحی متعین تھے جو حضور ﷺ کی بیان فرمودہ ترتیب کے مطابق آیات و سور کو لکھتے جاتے۔ کتابت حدیث کا بھی قرآن جیسا نہ سہی لیکن اہتمام ضرور تھا، اس لیے بعد میں جمع قرآن اور تدوین حدیث کاکارنامہ منشائے نبوت کے مطابق تھا اور خود ان کے پس پردہ الہٰی مشیت اور ایزدی تائید کارفرما تھی۔ ٹھیک اسی طرح فقہ و اصول اور اجتہاد و تقلید کا نقطہ آغاز بھی عہد رسالت کی ہی دین ہے اور اس کی جڑیں کتاب و سنت کے سمندروں سے پانی لیتی ہیں۔

اسلامی اصولوں کو ہر حال، ماحول اور زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے نافذ کرنے کے لیے اعلیٰ اسلامی شعور کی ضرورت ہے، جو ان جامع اصولوں سے نئے نئے مسائل کے احکامات برآمد کرسکے۔ اسی شعور کی قوت کو ملکۂ اجتہاد کہتے ہیں۔

یہ حدیث اہل علم کے درمیان کافی شہرت رکھتی ہے کہ 10ھ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو ارشاد فرمایا: معاذ! تم امت مسلمہ کے مسائل کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ عرض کی: یارسول اللہ! کتاب اللہ کی روشنی میں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر وہ حکم صراحتاً اس میں نہ ملے تو؟ عرض کیا: آپ ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں۔ فرمایا: اگر میری حدیث میں بھی تمہیں وہ حکم دستیاب نہ ہو تو؟ عرض کیا: یارسول اللہ! اجتہد برائی ولا آلو

میں بے تکلف کتاب و سنت کی روشنی میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔

رسول محتشم ﷺ کا چہرہ اس جواب سے کھل اٹھا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے مبارک سینے پر دست کرم پھیرتے ہوئے فرمایا:

الحمد اللہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ.

(مشکوٰۃ، کتاب الامارۃ)

اللہ تعالیٰ کا بے پناہ شکر و احسان کہ اس نے اپنے رسول کے ترجمان کو ایسی اچھی فکر کی توفیق دی، جس سے اس کا رسول ﷺ راضی ہے۔

اس حدیث کا روشن مفہوم یہی ہے کہ فقہ و اجتہاد وقت کی ضرورت ہے اور اسلام کی تفہیم کا شاندار ذریعہ، جسے بارگاہ نبوت کی بھرپور تائید حاصل ہے اور اسی کے ذریعہ اسلام کے مستحکم اصول ہر زمانے کے تقاضوں کی تسکین کا سامان بنتے ہیں۔ یہی نرمی اسلامی قوانین کو قبولِ دوام اور ہر ماحول میں انضمام کا سہرا عطا کرتی ہے۔

عہد رسالت کے بعد عہد صحابہ کی روش بھی فقہ و اصول کی بنیادیں مستحکم کرتی نظر آتی ہے۔ سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں صحابی رسول حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (گورنر) کو ایک طویل فرمان بھیجا، جس میں یہ ہدایت بھی تھی:

الفهم الفهم فی مایختلج فی صدرک مما لم یبلغک فی القرآن والسنۃ. اعرف الامثال والاشباه ثم قس الامور عند ذلک فاعمد الی احبھا الی الله واشبھھا بالحق فی ماتری.

اچھی طرح سمجھ کر فیصلہ کرویا بالخصوص اس مسئلہ میں جو تمھارے دل میں تردد کا سبب بن رہا ہو۔ قرآن و سنت سے وہ بات تمھیں معلوم نہ ہوئی ہو، ایسے موقع پر ملتے جلتے ایک دوسرے سے مشابہ مسائل کو پہچانو پھر اس وقت مسائل میں قیاس سے کام لو اور جو جواب تمھیں اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور حق سے زیادہ قریب نظر آئے، اسے اختیار کرو۔

ان بیانات سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ حضرات ائمہ نے فقہ و اصول کی تدوین کرکے اپنے لیے اور ساری امت کے لیے کیسی سعادت کا سامان کیا ہے اور امت مسلمہ کی کیسی دستگیری فرمائی ہے۔

(جاری ہے)